بیت المقدس

ویکی‌وحدت سے

بیت المقدس یہ شہر عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں متبرک ہے۔ اور شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے۔ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض فلسطین کے فلاح آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ اہل اسلام کا قبلہ اول اور حرم کعبہ اور حرم نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کا‏ئنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کےبعد بھی سترہ ماہ تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ سفر معراج میں یہی شہر ان کی پہلی منزل تھا۔ اسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسی علیہ السلام کی مہد اور لحد ہے۔

وجہ تسمیہ

شہر بیت المقدس کا پرانا نام ایلیا ہے جس کے معنی ہے خدا کا شہر۔ مشہور شاعر عرب فرزدق اس سلسلے میں رقمطراز ہے خانۂ خدا جو ایک مکہ ہے جہاں ہم لوگ مقیم ہیں اور دوسرا وہ محل ہے جو ایلیا کی بلندیوں پر واقع ہے(بیت المقدس) ایلیاء نام ہے فرزند آدم اہ جو حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ مقدس: لغوی اعتبار سے مقدس کے معنی میں ہیں پاک و پاکیزہ اس طرح بیت المقدس کا مطلب ہوا پاک و پاکیزہ گھر یعنی وہ گھر جہاں گناہ اور ناپاکی کا ہرگز نہیں بلکہ وہاں پہنچ کر تو انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ مقدس کے دوسرے معنی مبارک ہوتے ہیں یعنی مبارک گھر [1]۔

بیت المقدس کی فضیلیتیں

بیت المقدس کی بے شمار فصیلتیں ہیں خداوند عالم نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبروں او اسی سرزمین کا وعدہ کیا جیساکہ مندرجہ ذیل آیات سے بخوبی واضح ہے: وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ [2]۔ یعنی ہم نے انہیں اور لوط پیغمبر کو اسی سر زمین میں نجات دی اسی سرزمین کو عالمین کے لیے بابرکت قرار دیا ہے۔

محل وقوع

یہ شہر دنیا کی تاریخ میں اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عجیب ترین ہے اور ڈھلوان پہاڑی پر واقع ہے انہی میں سے ایک ﻣﯿﮟ ﺳﮯ پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصی اور قبۂ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کےنام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی تھی[3]۔

تاریخ

دنیا کے جن شہروں کی عزت و تکریم ہے ان میں سے ایک شہر یوروشلم ( بیت المقدس ) ہے جو مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں باعث عزت و احترام ہے ۔ یروشلم بمعنی خدائی حکومت ۔ اس کا نام القدس بھی ہے ۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا مزار، تخت دا‎ؤد اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تبلیغی کاوشوں کے نشان ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ حضرات انبیاء کرام اور مصلحین کی یادگاروں کے آثار موجود ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کو بھلائی اور نیکی کے راستے دکھائے [4] قدیم تاریخ میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی راہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر یہاں سے معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئۓ۔ اس شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض فلسطین کے فلاح بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکسان متبرک ہے [5]۔

تعمیر

حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس ( مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دارز کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام (961ق۔م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی ۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔

ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس

ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزيز علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئۓ تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔ بخت نصر کے بعد 539ء ق م میں شہنشاہ فارس کورش کبیر نے بابل فتح کرکے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کرلیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں کو مسمار کردیے۔

بیت المقدس میں گرجے کی تعمیر

137 ﻕ ﻡ میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کردیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول

مسلم تاریخ: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایا معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۂ الصخرہ بنایا گیا۔

بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ

1099 ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیون کے قبضے سے چھڑایا۔

یہودیوں کا قبضہ

ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﺒﻀﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺟﻨﮓ ﻋﻈﯿﻢ ﺩﺳﻤﺒﺮ 1917 ﺀ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﻡ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ۔ ﯾﮩﻮﺩ ﻭ ﻧﺼﺎﺭﯼٰ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﻧﻮﻣﺒﺮ 1947 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﯽ ﺟﻨﺮﻝ ﺍﺳﻤﺒﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﻧﺪﻟﯽ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ 14 ﻣﺌﯽ 1948 ﺀ ﮐﻮ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻋﺮﺏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﮐﮯ 78 ﻓﯿﺼﺪ ﺭﻗﺒﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ، ﺗﺎﮨﻢ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ‏( ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ‏) ﺍﻭﺭ ﻏﺮﺏ ﺍﺭﺩﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﺍﺭﺩﻥ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﮯ۔ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻋﺮﺏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺟﻨﮓ ‏( ﺟﻮﻥ 1967 ﺀ ‏) ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻘﯿﮧ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﺴﻠﻂ ﺟﻤﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﯾﻮﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮨﻨﻮﺯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ 70 ﺀ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮧ ﺑﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺯﺍﺋﺮﯾﻦ ﺁ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯﺍﺳﮯ ” ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﺮﯾﮧ ” ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔

ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ

ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﻣﻘﺪﺱ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﻣﻘﺎﻣﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﺍﻻﻗﺼﯽٰ ﯾﺎ ﺍﻟﺤﺮﻡ ﺍﻟﻘﺪﺳﯽ ﺍﻟﺸﺮﯾﻒ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ 5 ﮨﺰﺍﺭ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ 2000 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻻﻗﺼﯽٰ ﺍﻧﺘﻔﺎﺿﮧ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ –

معراج ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ

ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﻔﺮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﺎﺕ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﻓﺮﺿﯿﺖ 16 ﺳﮯ 17 ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺥ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﺤﻮﯾﻞ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔

ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ

ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺻﺨﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﻕ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻤﺮﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﻼﺋﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻭﻟﯿﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﮐﯽ۔ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺮﺍﺋﯽ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺭﺩ ﻭ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺌﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﺒﺪ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ، ﻧﯿﺰ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺑﻄﻮﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺝ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﮭﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﺟﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔

ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻣﺼﻠﯽ ﯾﻌﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮔﻠﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻗﺼﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﻤﺎﺯﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ۔ “

ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ

ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ 21 ﺍﮔﺴﺖ 1969 ﺀ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﻮﯼ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮈﯾﻨﺲ ﻣﺎﺋﯿﮑﻞ ﺭﻭﺣﺎﻥ ﻧﮯ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮐﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﺎﺩﯼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺁﮒ ﮐﯽ ﻟﭙﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﯿﻦ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺎ ﺑﮍﺍ ﺣﺼﮧ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻣﻨﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺬﺭ ﺁﺗﺶ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﺼﺐ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ۔ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 16 ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻟﮍﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﺐ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔

ﺍﺱ ﺍﻟﻤﻨﺎﮎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺍﺏ ﻏﻔﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﻣﻮﺗﻤﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻣﯽ ‏( ﺍﻭ ﺁﺋﯽ ﺳﯽ ‏) ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﺗﺎﮨﻢ 1973 ﺀ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺟﻼﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ 56 ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﻏﯿﺮ ﻓﻌﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔

ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺩﮦ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﺬﺭﯾﻌﮧ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﮯ ﮐﮧ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﯾﮩﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺗﮭﺎ –

حوالہ جات

  1. بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں، سازمان تبلیغات اسلامی، 1404ھ، ص4
  2. انبیاء، 71
  3. محمد حسین مشاہد رضوی، بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کی تاریخ
  4. محمد اویسی رضوی، بیت المقدس، قطب مدینہ پبلی شرز، 2004ء، ص6
  5. ممتاز لیاقت، تاریخ بیت المقدس، سنگ میل پبلی کیشنزز لاہور، 1972ء، ص21