سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی

ویکی‌وحدت سے
سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی
پورا نامسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی
دوسرے نامشرف الدین
ذاتی معلومات
یوم پیدائش19
پیدائش کی جگہپاکستان
مذہباسلام شیعہ، شیعہ

سید علی شرف الدین موسوی کی شخصیت پاکستان کے علما (بشمول شیعہ و سنی) میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ آپ اس دور کے ایک عظیم مصلح اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔ آپ قرآن اور اسلام ناب محمدی کی دعوت دینے والے اسکالرز میں سے ہیں۔ مرحوم مولانا اسحاق فیصل آبادی جو اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے، آپ کے ان سے بھی دوستانہ روابط تھے۔ آج بھی علامہ سید علی شرف الدین موسوی پاکستان میں فرقہ بندی کی بجائے صرف اسلام کی طرف دعوت دینے والے گنے چنے اسلامی اسکالرز و علما میں سے ہیں۔

سوانح عمری

سید علی شرف الدین بن سید محمد بن سید حسن موسوی کی جائے پیدائش بلتستان کے ایک گاؤں چھورکاہ محلہ علی آباد ضلع شیگر کی ہے، جو مشہور پہاڑی چوٹی کے ٹو کے گردونواح کی ایک وادی ہے۔ ان کی سنہ پیدائش 1360ھ (1942ء) ہے۔ آپ بلتستان کے ایک شیعہ سادات کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ موسوی سید ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ موسوی لکھتے ہیں۔ آپ نے ا قرآن مجید و عربی زبان اور ابتدائی تعلیم اپنے علاقے بلتستان، شمالی پاکستان، سے حاصل کی۔تقریبا 13 سال آبائی گاؤں میں مقیم رہے،ساتھ ہی چوتھی جماعت تک اسکول کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ اسلامی تعلیم کے حصول کے لیے لاہور جانے کا فیصلہ کیا [1]۔

تعلیم

جامع المنتظر میں تعلیم

1956 عیسوی میں آپ نے بلتستان سے لاہور کا سفر کیا اور وہاں جامعہ المنتظر میں داخلہ لیا وہاں پر عربی زبان نیز دیگر دینی علوم کی مزید تعلیم حاصل کی [2]۔

عراق کا سفر اور تعلیم

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی حصول علم کے لیے 1958 عیسوی کو نجف اشرف عراق پہنچے وہاں حوزہ علمیہ نجف میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے وہاں جن علماء سے استفادہ کیا ان میں ذیشان حیدر جوادی سے فلسفہ و ادب، آیت اللہ شیخ صدرا البادکوبی سے نیز آیت اللہ سید مسلم حلی سے کفایہ پڑھا۔آیت اللہ شیخ محسن آصفی کے پاس آپ نے منطق اور فلسفیہ پڑھا اور شیخ راستی کے پاس مکاتب پڑھا۔آیت اللہ شیخ تسخیری سے اقتصادنا و فلسفتنا کے دروس لیے اور آیت اللہ شیخ صادقی تہرانی سے تفسیر قرآن کے دروس لیے ،اور یہیں سے قرآن فہمی اور قرآنی دعوت کا شوق پیدا ہوا۔آیت اللہ سید کوکبی کے پاس رسائل کے درس میں شرکت کی۔آپ نے آیت اللہ سید خوئی اور آیت اللہ سید باقر صدر کے بحث خارج میں شرکت کی نیز باقر الصدر سے فقہ و اصول اور تدقیق میں استفادہ کیا۔آیت اللہ باقر الصدر سے کافی متاثر ہوئے اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے لیے بعد میں آپ نے کام کیا،نیز باقر الصدر کی تفسیر موضوعی کا اردو ترجمہ کیا [3]۔

اساتذہ

علی شرف الدین نے حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں جن علماء و مجتہدین سے دینی تعلیم حاصل کیں ان کے نام یہ ہیں:

  • سید ذیشان حیدر جوادی
  • آیت اللہ باقر الصدر
  • آیت اللہ خوئی
  • آیت اللہ مشکینی
  • آیت اللہ صدرا البادکوبی
  • آیت اللہ سید مسلم الحلی
  • آیت اللہ محسن آصفی
  • آیت اللہ راستی
  • آیت اللہ کوکبی
  • آیت اللہ صادقی تھرانی
  • آیت اللہ محمد علی تسخیری
  • آیت اللہ کاظم حائری
  • آیت اللہ خمینی
  • آیت اللہ آصف محسنی
  • آیت اللہ شیخ عباس قوچانی
  • آیت اللہ حسین حلی
  • آیت اللہ محسن الحکیم [4]۔

پاکستان واپسی اور دینی خدمات

1971 عیسوی میں علی شرف الدین اپنے وطن واپس لوٹے اور بلتستان میں مذھب اثناعشری کی تبلیغ اور دینی علوم کی تدریس میں مشغول ہوگئے۔اور آپ نے وہاں جمعہ پڑھانے کا اہتمام بھی کیا اور آپ کی کاوش سے جامع محمدی قائم کی گئی نیز ایک مدرسہ بنام مدرسہ امام علی کی بنیاد رکھی تاکہ علوم قرآن اور عقائد اسلامی کی تعلیم دی جا سکے۔آپ وہاں 1979 تک موجود رہے [5]۔

ایران کا سفر اور تعلیم

پھر 1979 عیسوی میں آپ نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کا عزم کیا اور اسی لیے قم گئے۔وہاں حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوگئے اور آیت اللہ شیخ کاظم حائری کے درس اصول اور آیت اللہ شیخ مشکینی کے بحث خارج کے دروس میں شریک ہوئے [6]۔

دارالثقافہ الاسلامیہ کراچی کی تاسیس

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی تقریباً 14 سال کے بعد جب نجف اشرف سے پاکستان آئے، آغا صاحب نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ ہے،اس اداراے کی بنیاد 1405 ہجری میں رکھی گئ،اور 1420 ہجری میں یہ ادارہ بند ہوگیا، یہ ادارے اپنے قیام سے اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لیے کسی قسم کے خمس کا سہاری لیا گیا [7]۔

شیعیت کی تبلیغ

پاکستان آنے کے بعد ادارہ دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان کے تحت انہوں نے مذہب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔ انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔ انہوں نے پاکستان میں امام مھدی علیہ السلام سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب اور "دعائے ندبہ" کو بھی عام کیا۔ اس کے علاوہ عربی و فارسی کے شیعہ مسلک سے متعلق کتب شیعت کا آغاز کب اور کیسے، تیجانی سماوی کی کتابوں ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا، فلسفہ امامت، مذہب اہل بیت، شب ہاے پشاور، اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں اوراس کے علاوہسینکڑوں کتب کے اردو ترجمہ کا بھی اہتمام کیا [8]۔

حوالہ جات

  1. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1424ق، ص45
  2. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص33
  3. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص35
  4. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص36
  5. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص36
  6. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1424ق، ص46
  7. شرف الدین موسوی، دار الثقافہ سے عروۂ الوثقی تک، 1435ق، ص60
  8. شرف الدین موسوی، امام امت قرآن میں، 1420ق، ص98