طوفان الاقصیٰ

طوفان الاقصی -2.jpg

طوفان الاقصیٰ(آپریشن طوفان الاقصیٰ) 7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازع ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس آپریشن کو کامیاب آپریشن قرار دیا۔ اسی طرح حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی نے اس کے آپریشن کے بعد مسلمانان پر اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ

آپریشن طوفان الاقصیٰ7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازع ہے۔ جنگ کا آغاز صبح سویرے اسرائیل کے خلاف راکٹوں اور گاڑیوں کے ذریعے اسرائیلی سرزمین میں داخلے کے ساتھ کیا گیا تھا، جس میں ارد گرد کے اسرائیلی شہری علاقے اور اسرائیلی فوجی اڈوں پر کئی حملے کیے گئے تھے۔ بعض مبصرین نے ان واقعات کو تیسری فلسطینی انتفاضہ کا آغاز قرار دیا ہے۔ 1973 کی جنگ یوم کپور کے بعد پہلی بار اسرائیل نے باضابطہ طور پر جنگ کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے اپنے جوابی عمل کو آپریشن آہنی تلوار کا نام دیا ہے ۔

فلسطینیوں کا حملہ، غزہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بڑی خرابی کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مہینوں کی جھڑپوں کے بعد شروع ہوئی ہے ، جن میں جنین اور مسجد اقصی بھی شامل ہے، جس میں تقریباً 250 فلسطینی اور 32 اسرائیلی مارے گئے؛حماس نے ان واقعات کو حملے کا جواز بنایا ہے۔ محمد ضیف، حماس کی عسکری شاخ، عزالدین القسام بریگیڈز کے کماندار، نے فلسطینیوں اور عرب اسرائیلیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "قابضین کو نکال باہر کریں اور گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دیں "۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد مغربی کنارے میں ایک ہنگامی اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس نے جنگ کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل میں یش عتید کے يائير لپید نے فلسطینی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کی وکالت کی ہے۔ غزہ کی پٹی سے کم از کم 3,000 راکٹ فائر کیے گئے۔ جب حماس کے مجاہد سرحدی رکاوٹوں کو توڑ کر اسرائیل میں داخل ہوئے، جس سے کم از کم 700 اسرائیلی ہلاک ہوئے.

اور اسرائیل کی حکومت کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حملوں کے آغاز کے بعد ایک قومی خطاب میں کہا کہ اسرائیل ’جنگ میں ہے‘۔اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب کیبوتس کے ساتھ ساتھ سدیروت شہر کو بھی اپنی عملداری میں کرلیا۔ اسرائیل نے سٹریٹجک عمارتوں اور گھروں پر بمباری کرکے حملے کے خلاف جوابی کارروائی کی۔ غزہ میں حماس کی زیر قیادت فلسطینی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل نے کم از کم 400 فلسطینیوں کو دوبدو لڑائی اور فضائی حملوں میں شہید کیا ہے، جن میں عام شہری، 78 بچے اور 41 خواتین شامل ہیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی میڈیا دونوں ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو، جن میں بچے بھی شامل ہیں، فلسطینی مجاہدین نے جنگی قیدی بنا لیا ہے؛ ان میں سے کئی یرغمالیوں کو مبینہ طور پر غزہ کی پٹی لے جایا گیا ہے۔ حماس کے حملے کے آغاز کے بعد ایک ہسپتال اور ایمبولینس سمیت شہری اہداف پر اسرائیلی بمباری ہوئی جس میں تقریباً 200 افراد مارے گئے [1]۔

فلسطینی حملہ

حوالہ جات