مندرجات کا رخ کریں

موجودہ حالات میں تقریبِ مذاہب کی اہمیت شناسی کانفرنس

ویکی‌وحدت سے
موجودہ حالات میں تقریبِ مذاہب کی اهمیت شناسی کانفرنس
واقعہ کی معلومات
واقعہ کا نامموجودہ حالات میں تقریبِ مذاہب کی اهمیت شناسی کانفرنس
واقعہ کی تاریخ2025ء
واقعہ کا دن13 دسمبر بروز هفته
واقعہ کا مقام
  • قم ، ایران، تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز
عواملعالمی مرکز برای تقریب مذاهب اسلامی ، امامت بین الاقوامی مرکز

“موجودہ حالات میں تقریبِ مذاہب کی اهمیت شناسی کانفرنس” کے عنوان سے ایک تقریب ، ہفتۂ تحقیق کے موقع پر تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز کی کاوشوں سے منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حمید شہریاری (سیکریٹری جنرل، عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی)، آیت اللہ محسن اراکی (رکن، مجمعِ تشخیصِ مصلحتِ نظام)، آیت اللہ سعید واعظی (رکن، جامعۂ مدرسینِ حوزۂ علمیہ قم)، حجۃ الاسلام والمسلمین احمد مبلغی (رکن، مجلسِ خبرگانِ رہبری) اور نیز حجۃ الاسلام والمسلمین اکبر راشدی‌نیا (تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز کے سربراه) نے خطابات کیے۔ یہ تقریب ہفتہ، ۲۲ آذر ماہ، بمطابق ۲۲ جمادی الثانی، تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ یہ علمی نشست موجودہ حالات میں تقریبِ مذاہب کی حیثیت و اہمیت کی توضیح اور اسلامی وحدت کے استحکام کے لیے علمی و عملی راہکار پیش کرنے کے مقصد سے، عالمِ اسلام کے مفکرین، اساتذہ اور علما کی شرکت کے ساتھ منعقد کیا گیا۔

سیکریٹری جنرل کی تقریر

ایرانی قوم عالمِ اسلام کے لیے رول ماڈل

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حمید شہریاری، سیکریٹری جنرل عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی نے کہا: ایرانی قوم اپنی تمام اقوام اور مذاہب کے ساتھ متحد ہو کر کھڑی ہے اور عالمِ اسلام کے لیے ایک نمونہ بن چکی ہے۔ انہوں نے خطے میں حالیہ تبدیلیوں اور قومی یکجہتی کے تجربے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بارہ روزہ مسلط کردہ جنگ نے یہ ثابت کر دیا کہ ایرانی قوم ، جو تمام اقوام اور مذاہب پر مشتمل ہے، دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور متحد ہو کر کھڑی رہی۔ یہ نظامِ جمہوریۂ اسلامی کے لیے ایک عظیم اعزاز ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کی جانب سے مذہبی اور فرقہ وارانہ دراڑیں پیدا کرنے کی وسیع کوششوں کے باوجود، اقوام اور مذاہب کے درمیان وحدت اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: فکری بلوغت اور معرفتی شجاعت جس کا اظہار ایران اور عالمِ اسلام میں شیعہ اور اہلِ سنت نے کیا ہے، عالمِ اسلام کے لیے ایک پُرکشش نمونہ ہے؛ ایسا نمونہ جو یہ دکھاتا ہے کہ باہم مل کر پُرامن بقائے باہمی اختیار کی جا سکتی ہے، حقیقت کے بارے میں مکالمہ کیا جا سکتا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں ثابت قدمی اور مقاومت بھی کی جا سکتی ہے۔

تقریب کے راستے میں نئے اقدامات

عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے اس نشست میں پیش کیے گئے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس نشست کے موضوعات کو چار مقررین نے آگے بڑھایا، اور بنیادی توجہ تقریبِ مذاہب کے مفہوم، امکان اور معنی، عالمِ اسلام کے موجودہ حالات، اور تقریب کے مکالمے کو مضبوط بنانے اور آگے بڑھانے کے طریقۂ کار پر مرکوز رہی۔ نیز یہ بھی واضح کیا گیا کہ حقیقت پر مشتمل مکالمے کی تقویت کس طرح تقریب کے راستے میں نئے اقدامات اٹھانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر شہریاری نے مزید عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی کے حالیہ اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ملک کے مختلف نسلی صوبوں میں اور اسی طرح بعض اسلامی ممالک میں علاقائی کانفرنسوں کا انعقاد، حالیہ برسوں میں مجمع کے اہم اقدامات میں شمار ہوتا ہے۔ الحمدللہ عالمِ اسلام میں تقریب کا نظریہ فروغ پا چکا ہے، یہاں تک کہ وہ رجحانات جو چند سال پہلے تک تکفیری مکالمے کو تقویت دینے کے درپے تھے، آج خود «بناءُ الجسور بین المذاہبِ الاسلامیۃ» جیسے عنوانات کے تحت وحدت کی کانفرنسیں منعقد کر رہے ہیں۔ انہوں نے اختتام پر اس عمل کو جمہوریۂ اسلامی کے فکری اور تمدنی منصوبے کی کامیابی کی علامت قرار دیتے ہوئے واضح کیا: مصر، سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک میں اس طرزِ فکر کا پھیلاؤ ایک بڑی کامیابی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تقریب کے مکالمے سرحدوں کو عبور کر چکا ہے اور عالمِ اسلام میں ایک سنجیدہ مطالبہ بن چکا ہے۔[1]

آیت اللہ اراکی کی تقریر

تقریب کا مسئلہ: امتِ اسلامی کی حفاظت کا مسئلہ

آیت اللہ محسن اراکی، رکنِ اعلیٰ کونسلِ حوزہ ہائے علمیہ، نے اس کانفرنس میں عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی کے منتظمین کی اس کانفرنس اور علمی نشستوں کے انعقاد پر قدردانی اور تشکر کا اظہار کرتے ہوئے، اسلامی معاشرے میں وحدت اور تقریب کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا: تقریب کا مسئلہ درحقیقت امتِ اسلامی کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے گرد دو پہلو پائے جاتے ہیں: ایک انفرادی پہلو ہے، یعنی معاشرے کے ہر فرد پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے جسے اسے ادا کرنا چاہیے؛ لیکن فرد کا عمل، اجتماعی عمل اور معاشرے کی تشکیل کے لیے تمہید اور مقدمہ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انبیائے کرامؑ کا بنیادی مقصد—آغازِ خلقت سے آج تک—ایک مسلم معاشرے کی تشکیل رہا ہے؛ یعنی ایسا معاشرہ جو حکمِ الٰہی کو قبول کرے اور جس میں دین، یعنی خدا کا حکم، نافذ اور جاری ہو۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا﴾ (سورۂ شوریٰ: 13) اللہ تعالیٰ اس آیت میں واضح طور پر بیان فرماتا ہے کہ دین تمام الٰہی انبیاء کے درمیان ایک مشترک حقیقت رہا ہے اور ان کی اصل ذمہ داری دین کو قائم کرنا اور اس میں تفرقہ سے بچنا ہے۔ لہٰذا حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سے لے کر رسولِ اکرم ﷺ تک سب نے ایک ہی بنیادی اصل پر زور دیا، اور وہ یہ کہ معاشرے میں دین کو قائم کیا جائے۔ دین کے قیام سے مراد ایسے نظام کا قیام ہے جس میں حکمِ خدا محور ہو اور معاشرہ اسی بنیاد پر چلایا جائے۔ اس نقطۂ نظر کے بغیر، دین محض انفرادی عبادات اور شخصی مناسک تک محدود ہو جاتا ہے اور اپنے اصل مقصد سے دور ہو جاتا ہے۔

اسلام کے مسئلے پر اُمّتی نگاہ

اگر ہم اسلام کے مسئلے کو اُمّتی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو مسلمانوں کے درمیان زیادہ اختلاف باقی نہیں رہتا۔ ہم سب اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام کو حاکم ہونا چاہیے، ہم سب توحید پر ایمان رکھتے ہیں، اور ہم سب قرآن اور سنتِ نبویؐ کو اپنے دین کا منبع مانتے ہیں۔ اسلام کے سماجی نظام سے متعلق امور میں اختلافات نہایت محدود ہیں، اور یہ اختلافات اس نوعیت کے نہیں کہ ہم ایک ساتھ زندگی نہ گزار سکیں یا ایک مشترکہ معاشرہ تشکیل نہ دے سکیں۔ جمہوریۂ اسلامی ایران کا آئین اس انداز سے مرتب کیا گیا ہے کہ وہ تمام اسلامی مذاہب کے مبانی کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام کی بنیاد پر ایک مشترکہ حقوقی اور سماجی نظام کی تشکیل ممکن ہے۔ حتیٰ کہ فقہی مسائل اور انفرادی فرائض میں بھی اس طرح عمل کیا جا سکتا ہے کہ ہمزیستی اور وحدت کی فضا برقرار رہے، کیونکہ مجتہدین کے درمیان اختلافِ رائے ایک فطری امر ہے اور تمام اسلامی مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ مجتہدین کے درمیان اختلافِ نظر کسی ایک مذہب تک محدود نہیں؛ جس طرح فقہائے شیعہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں، اسی طرح فقہائے اہلِ سنت کے درمیان بھی فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات ہرگز اس معنی میں نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے یا ایک ساتھ عبادت نہیں کر سکتے۔ ہم ایک امت ہیں، اور فقہی اختلافِ رائے امتِ واحدہ کے تحقق میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ متعدد مواقع پر ایسا ہوا ہے کہ میں نے نمازِ جماعت میں اہلِ سنت کے ایک گروہ کی امامت کی ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فقہی مبانی کی پاسداری کے ساتھ عملی وحدت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اصل اہمیت اسلام کو اُمّتی نگاہ سے دیکھنے کی ہے۔ اگر ہمارا زاویۂ نگاہ اُمّتی ہو تو بہت سے اختلافات اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور امتِ اسلامی کے بنیادی مسائل نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اسلام کو ایک واحد حقیقت کے طور پر دیکھنا چاہیے؛ ایسا اسلام جس کا مقصد ایک الٰہی معاشرے کی تشکیل اور حکمِ خدا کے سامنے مکمل تسلیم ہونا ہے۔

حکومتِ الٰہی

حضرت موسیٰؑ ایک بلند ہمت نبی تھے جنہوں نے ایک توحیدی معاشرہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کا واقعہ اُن اہم ترین مثالوں میں سے ہے جنہیں قرآنِ کریم نے امت اور وحدت کے مسئلے کو سمجھانے کے لیے بیان کیا ہے۔ فرعون کے خاتمے اور بنی اسرائیل کے اس کی غلامی سے نجات پانے کے بعد حضرت موسیٰؑ کو ایسے حالات میسر آئے جن میں حکمِ الٰہی کے قیام کی تمہید فراہم ہو چکی تھی۔ حضرت موسیٰؑ ایک الٰہی معاشرے کے تحقق کی امید کے ساتھ شریعت حاصل کرنے کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے۔ ان کا گمان تھا کہ اب جب دشمن ختم ہو چکا ہے اور معاشرہ آمادہ ہے، تو بنی اسرائیل کی الٰہی حکومت قیامت تک قائم رہ سکتی ہے۔ یہ نگاہ ایک قسم کی الٰہی بلند پروازی تھی؛ یعنی زمین پر حکمِ خدا کے مکمل نفاذ کی آرزو۔ حضرت موسیٰؑ نے خداوندِ متعال سے درخواست کی کہ اس معاشرے کو ایک کامیاب اور الٰہی معاشرہ بنا کر ثابت و مستحکم کر دے؛ ایسا معاشرہ جو دنیا اور آخرت دونوں میں رحمتِ الٰہی کا مستحق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں رحمت کے مسئلے کو بیان کیا اور رحمتِ عام اور رحمتِ مکتوب (لکھی ہوئی رحمت) کے درمیان فرق واضح فرمایا۔ رحمتِ عامِ الٰہی سب کو شامل ہے، لیکن رحمتِ مکتوب وہ خاص رحمت ہے جو اگر کسی قوم پر نازل ہو جائے تو اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس رحمتِ مکتوب کے لیے خاص شرائط ہیں۔ اس کے بعد خداوند متعال اُن اقوام کی خصوصیات بیان کرتا ہے جو اس خاص رحمت کے مستحق بنتی ہیں، اور آخرکار ان خصوصیات کو رسولِ خدا ﷺ کی پیروی سے جوڑ دیتا ہے۔ قرآنِ کریم صراحت کرتا ہے کہ یہ وہی اُمّی رسول ہیں جن کا ذکر اور جن کی نشانیاں تورات اور انجیل میں موجود ہیں، اور جن کی بعثت کا مقصد نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دینا اور انسانوں کے گلے میں پڑی ہوئی زنجیروں کو کھولنا ہے۔ ان آیات کی روشنی میں، وہ آخری الٰہی حکومت جو تاریخ کے اختتام تک باقی رہنے والی ہے، امتِ رسولِ اکرم ﷺ میں تحقق پاتی ہے، نہ کہ پچھلی امتوں میں۔ یہی وہ وعدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زبور اور دیگر آسمانی کتابوں میں بیان فرمایا ہے کہ زمین کے وارث صالح بندے ہوں گے۔ جب حضرت موسیٰؑ شریعت کے حصول کے لیے میقات پر تشریف لے گئے تو ان کی غیر موجودگی میں بنی اسرائیل لغزش کا شکار ہو گئے اور بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہو گئے، حالانکہ برسوں کی جدوجہد کے ذریعے انہیں شرک اور ظلم سے نجات دلائی گئی تھی۔ یہ واقعہ بنی اسرائیل کے لیے ایک بڑا امتحان تھا اور اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ بحران کے حالات میں امت کی حفاظت تدبیر، اتحاد اور صبر کی متقاضی ہوتی ہے۔

علمائے تقریب کا حیاتی اور تاریخی کردار

بہت سے علما، جن میں آیت اللہ بروجردی، امام خمینی، امام خامنہ‌ای، آیت اللہ سیستانی اور دیگر مراجع شامل ہیں، ہمیشہ تقریبِ مذاہب کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں۔ ان بزرگوں نے یہ واضح کیا ہے کہ تقریبِ مذاہب کوئی محض نعرہ نہیں، بلکہ امتِ اسلامی کی وحدت اور یکجہتی کے تحفظ کے لیے ایک حقیقی اور ناگزیر ذمہ داری ہے۔ اہلِ سنت کے بہت سے علما، اگرچہ بظاہر بعض اوقات کچھ انتہاپسند فکری تحریکوں کے قریب نظر آتے ہیں، درحقیقت امت کی وحدت کے تحفظ اور تقریب کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ روابط اور تعاملات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ مذاہب کے درمیان تعاون اور تقریب کی زمینہ موجود ہے، بس شرط یہ ہے کہ فقہی اور تاریخی اختلافات کو بڑے اختلافی عوامل کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائے۔ بعض ذرائع ابلاغ میں ایسے اقدامات دیکھنے میں آتے ہیں جو تقریبِ مذاہب کے مقصد کے منافی ہیں اور عملاً امتِ اسلامی کے درمیان تفرقہ پیدا کرتے ہیں۔ اکابر علما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسے میڈیا اقدامات سے اجتناب کیا جائے اور ہمیشہ امتِ اسلامی کی وحدت اور معقول منطق کو تقویت دی جائے۔

عالمِ اسلام کے دشمن شیعہ اور سنی میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ اگر فلسطین یا عالمِ اسلام کا کوئی اور خطہ دشمن کے تسلط میں آ جائے تو اس کے اثرات تمام مسلمانوں پر مرتب ہوں گے۔ اہلِ سنت کے معاشرے پر پڑنے والی ہر ضرب بالآخر شیعہ معاشرے کو بھی متاثر کرے گی، اور اس کے برعکس بھی یہی صورت ہے۔ لہٰذا امتِ اسلامی ایک واحد وجود ہے جس کی تقدیر مشترک ہے۔

خطرات کا ازاله اور اسلامی معاشرے کے بکھراؤ کی روک تھام

انقلاب کے بعد پیش آنے والے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک، تکفیری عناصر کے ذریعے اسلامی معاشرے کو لاحق خطرے کا دفع ہونا اور اس کے بکھرنے سے بچاؤ ہے۔ اس تناظر میں عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی نے امتِ اسلامی کو انتشار اور فروپاشی سے محفوظ رکھنے میں ایک حیاتی اور تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان اداروں نے کانفرسوں کے انعقاد، علمی تحقیق اور مسلسل سرگرمیوں کے ذریعے دشمنوں کے تفرقہ انگیز منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے، اور یہ راستہ جاری رہنا چاہیے۔ تقریبِ مذاہب سے مراد شناختوں کا مٹانا نہیں، بلکہ مشترکہ اسلامی اہداف کے حصول کے لیے شناختوں کی باہمی تقویت اور ہم افزائی ہے۔ وحدت کا تحفظ اور اُمّتی زاویۂ نگاہ اپنانا ہی امتِ اسلامی کی عزت، خودمختاری اور مستقبل کی حفاظت کا واحد راستہ ہے۔[2]

آیت اللہ واعظی کی تقریر

تقریب کا مسئلہ ایک ناقابلِ انکار ضرورت

آیت اللہ سعید واعظی، رکنِ جامعۂ مدرسینِ حوزۂ علمیہ قم، نے تقریبِ مذاہب کے مسئلے کو ایک ناقابلِ انکار ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وحدت اور تقریب کو بنیادی اور مسلم امور میں شمار کیا جا سکتا ہے، تاہم اس کے باوجود یہ مسئلہ عالمِ اسلام میں اب بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف وقتاً فوقتاً غیر ملکی طاقتیں اور بین الاقوامی غارت گر عناصر، اپنے علمی اور غیر علمی مراکز میں مسئلۂ تقریب کو چیلنج بناتے رہتے ہیں؛ اس لیے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیے اور اس فکر کی تبلیغ و ترویج کے لیے دفاع اور کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تحقیقاتی مرکز میں قابلِ قدر اور بڑے کام انجام دیے گئے ہیں، جن میں ایک اہم کام “فقہِ تقریب” ہے۔ ان کے بقول، حقیقت یہ ہے کہ بہت سے افراد کے نزدیک—حتیٰ کہ شیعہ حوزوں کے اندر بھی—تقریب کا مسئلہ اس طرح واضح نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے، بلکہ اس میں اب بھی کئی ابہامات پائے جاتے ہیں۔

حوزهٔ تقریب میں فقہی اور تخصصی کام

امتِ اسلامی میں وحدت اور تقریب کے مسئلے پر فقہی اور تخصصی کام انجام دینا ضروری ہے۔ یہ ایک نہایت گہری اور مہارت طلب فقہی کوشش کا متقاضی ہے، اور ان شاء اللہ امید کی جاتی ہے کہ یہ کام آگے بڑھایا جائے گا۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ متعلقہ روایات جمع کی جائیں، پھر مثبت اور منفی دونوں احادیث کو درجہ بندی، جمع آوری اور فیش بندی کی جائے۔ اس کے بعد ہر روایت کو حوزہ کے روایتی فقہی طریقے—یعنی فقۂ جواهری—کے مطابق سند کے اعتبار سے جانچا جائے، اور تمام برداشتیں، مخالفتیں اور موافقتیں فقہی انداز میں تجمیع کی جائیں۔ ہر مسئلے میں یہی طریقہ اختیار کیا جائے: مختلف احادیث کو درست طور پر جانچنا اور فقۂ جواهری کے انداز میں ایک سنجیدہ فقہی کام انجام دینا۔ محض ضد تقریب احادیث کو جمع کرنا اور صرف صدور کے اعتبار سے جائزہ لینا یا اسے عام فقہ الحدیث کے اصطلاحی انداز میں دیکھنا کافی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریب اور وحدت کا مسئلہ اب تک مذاہب اسلامی کے درمیان مناسب انداز میں واضح نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کے لیے ایک گہری، تخصصی اور علمی فقہی کوشش کی اشد ضرورت ہے۔

امتِ اسلامی کے وجود پر شک

آج امریکہ اور مغربی ممالک میں کچھ حلقے مختلف امور کو چیلنج کر رہے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا امتِ اسلامی واقعی موجود رہی ہے یا نہیں۔ انہوں نے بہت سے ایسے اصولوں کو بھی چیلنج کیا ہے جو آج بطورِ مسلمہ تصور کیے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں ایک سنجیدہ اقدام یہ ہے کہ اس مسئلے پر تخصصی فقہی کام کیا جائے۔ خاص فقہ، یعنی فقۂ جواهری کے طریقے پر، احادیث اور آیات کے موافق و مخالف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے، سند اور دلالت کے اعتبار سے جانچا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ کتاب و سنت، قطعیہ اور پیغمبر ﷺ و ائمہؑ نے مختلف مذاہب کے اصحاب کے ساتھ کس طرح رویہ اختیار کیا۔ یہ اقدامات ان شاء اللہ امتِ اسلامی کے وجود اور وحدت کے اصل مقصد تک پہنچنے کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہوں گے۔[3]

عالمی مجمعِ فقه اسلامی میں ایران کےنمایندےکی تقریر

اسلامی مذاہب کی تقریب کا نظریاتی نظام اور پارادائم کی تشکیل

حجت الاسلام والمسلمین احمد مبلغی، رکنِ مجلسِ خبرگانِ رہبری اور عالمی مجمعِ فقه اسلامی میں ایران کے نمائندے ، نے کانفرنس «موجودہ حالات میں تقریبِ مذاہب کی اهمیت » میں اسلامی مذاہب کی تقریب کے مسئلے پر بڑے گفتمانی پارادائم قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے وحدت کے تین سطحی پہلوؤں کی وضاحت کی اور تقریب کو محض اخلاقی یا ادارتی نقطۂ نظر سے دیکھنے کے بجائے، اس کی طرف بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس سے «مشترکہ طاقت کی پیداوار» اور «تمدن سازی» کی راہ ہموار ہو۔

انہوں نے اس نشست میں یہ بھی واضح کیا کہ تقریب کا اصل مفہوم محض ایک اخلاقی منصوبہ نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر اور عملی نظریاتی اقدام ہے جو امتِ اسلامی کی اجتماعی قوت اور تمدنی ترقی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

تقریب کے بنیادی پہلو

تقریب کے تین بنیادی پہلو ہیں: پہلا پہلو (سلبی و حفاظتی): یہ پہلو نفی تکفیر، نفی تفسیق، اور سب سے اہم، «نفی تضلیل» پر مشتمل ہے۔ اجتماعی تضلیل کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ تضلیل کا مطلب ہے کہ مسلسل غلط راہ دکھانا اور دوسروں کو گمراہ قرار دینا۔ اگر امتِ اسلامی میں یہ حکمت عملی اپنائی جائے کہ دوسروں کو بار بار گمراہ قرار دیا جائے تو اختلافات اور جھگڑے جنم لیں گے اور ایک متحد امت تشکیل نہیں پا سکے گی۔ اس لیے نہج البلاغہ کی تعلیمات کے مطابق امت کو تضلیل سے بچانا ضروری ہے۔ دوسرا پہلو (وجودی قبولیت): تقریب کے دوسرے پہلو میں مقابل فریق کے وجود اور اس کی رکنیت کو قبول کرنا شامل ہے۔ دوسروں کو «لا شیء» یا «کچھ نہیں» سمجھنے کے بجائے، ان کے وجود اور حیثیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ تیسرا پہلو (تمدنی اور تعمیری): تیسرا اور حتمی پہلو «تمدنی اور تعمیری» ہے۔ اس مرحلے میں تقریب دفاعی رویے سے آگے بڑھ کر ایک ایسا نظام بن جاتی ہے جو نرم اور سخت طاقت پیدا کرنے، اور بڑے پراجیکٹس جیسے مصنوعی ذہانت، معیشت اور مشترکہ سیکورٹی میں تعاون کے لیے کام کرتا ہے۔ انہوں نے تقریب کے مسئلے میں وسائل اور اداروں میں محدود هونے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: تقریبی ادارے صرف وسائل ہونے چاہئیں، مقصد نہیں۔ ہمیں قرآن سے ماخوذ «اختلافات کے انتظام» کے گفتمان کی ضرورت ہے۔

تقریب کا جغرافیہ

ایران، سعودی عرب، عراق اور مصر چار ایسے ممالک ہیں جو وحدت کی سفارت کاری میں مرکزی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ خطے میں مثبت تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ مصر نے ایک خاموش دور کے بعد، شیخ الازہر کی موجودگی اور ان کے منظم اور فکری انداز کی بدولت تقریب کے میدان میں مضبوط واپسی کی ہے۔ شیخ الازہر نے شیعہ کو تقریب کے ایک بنیادی رکن کے طور پر سب سے مؤثر انداز میں دفاع فراہم کیا، ایسا کام جو شاید ہم خود واضح طور پر بیان نہیں کر سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ تقریب «نزاع نہ پذیر» لیکن «مسابقت پذیر» ہے۔ قرآن کے عنوان "فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ" کے تحت تعمیری مقابلہ جائز ہے، تاکہ ہر مذہب امت کی حمایت اور فلسطین جیسے مسائل کے لیے اپنی اختراعات پیش کر سکے۔ تاہم، کوئی بھی ایسا نزاع جو ہمیں تقریب کے دائرے سے باہر لے جائے، ناقابلِ قبول ہے۔[4]

تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز کےسربراه کا خطاب

تین دہائیوں کی سرگرمیاں

حجت الاسلام والمسلمین اکبر راشدی‌نیا، تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز کے سربراه ، نے ان دانشوروں اور محققین کا شکریہ ادا کیا جو اس تحقیقاتی مرکزکی بنیاد سے اب تک اس کے ارتقاء اور فلاح کے لیے کوشش کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً عالمی مجمعِ تقریبِ مذاہبِ اسلامی کے قیام کے وقت، ایک ادارہ قائم کیا گیا جسے "مرکز تحقیقات علمی برای تأمین محتوای تقریبی و علمی" کہا جاتا ہے۔ اس مرکز نے گزشتہ تین دہائیوں میں نمایاں اور ممتاز کام انجام دیے ہیں، جن میں سے بعض علمی اور حوزوی حلقوں میں اثرگذار اور معتبر تصانیف کے طور پر تسلیم کیے گئے ہیں۔ اہم کاموں میں شامل ہیں: سلسلہ الاحادیث مشترکہ: یہ مجموعہ اہلِ سنت اور شیعہ کے درمیان مشترک احادیث کو چالیس اہم موضوعات جیسے نماز، حج، زکات، فقہی، اخلاقی، سماجی اور اعتقادی مسائل میں مرتب کرتا ہے۔ بعد میں یہ مجموعہ بیس جلدوں میں "السنة النبویه فی مصادر المذاهب الاسلامیه" کے عنوان سے شائع ہوا۔ موسوعہ اصول فقه: یہ ایک وسیع دائرهٔ المعارف ہے جو اصول فقہ پر مبنی ہے اور موازنہ کے انداز میں مرتب کیا گیا ہے، اور یہ اسلام کی تاریخ میں پہلا موازنہ پر مبنی دائرهٔ المعارف ہے۔ فقہ کے میدان میں نمایاں کاموں میں شامل ہے: کتاب "بداية المجتهد و نهاية المقتصد" از ابن رشد: یہ نصابِ تعلیم میں شامل ہے اور اہلِ سنت کے درمیان پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب کو چار مذاہب شافعی، مالکی، حنبلی اور حنفی کے موازنے کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے، اور علاوہ ازیں امامیہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ فقہاء کے نظریات ہر عبارت کے تحت شامل کیے گئے ہیں، جس سے یہ کتاب فقۂ مقارن میں ایک جامع اور مضبوط اثر پیدا کرتی ہے۔

معاشرتی ضرورت کےمطابق اهم تصانیف کی تدوین

تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز نے حالیہ دور میں بھی اسی راستے کو جاری رکھا اور ایسے موضوعات پر کام کیا جو جدید یا اور اسلامی معاشرے کی ضرورت کےمطابق تهے۔ اہم آثار میں شامل ہیں: کتاب «حجاب»اس میں اہلِ سنت اور شیعہ کے نقطۂ نظر کو دو جلدوں میں تفصیل سے بیان کیا گیا۔ «الدرة الغراء فی بیان الاحکام النسا» اور «الازدواج بغیر مسلم فی احکامه»: یہ کتابیں خاص طور پر ایسے مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں جو آج کے عالم اسلام میں چیلنج کا سبب ہیں، جیسے غیر مسلم کے ساتھ نکاح کے احکام۔ «فقه الخصوصیه» یا فقہ حریم خصوصی: موازنہ کے انداز میں مرتب، جدید سماجی ضرورت کے مطابق۔ «اهدای جنین»شیعہ اور سنی فقہاء کے نقطۂ نظر سے۔ «الفقه و ذوی الاحتیاجات الخاصه» موازنہ کے انداز میںمعذور افراد کے احکام سے متعلق۔

محبت اہلِ بیتؑ

عالم اسلام میں ایک مشترک اور اہم موضوع محبت اہلِ بیتؑ ہے۔ یہ صرف شیعیان کا مسئلہ نہیں بلکہ اہلِ سنت بھی اہلِ بیتؑ کی اہمیت اور مقام کے بارے میں عموماً شیعیان کے برابر یا بعض اوقات زیادہ حساس ہیں۔ اس موضوع پر اہلِ سنت نے درجنوں بلکہ سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ بعض متون احیا یا دوبارہ شائع کی گئی ہیں، اور بعض نئے تحقیقی کاموں کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں، جیسے: فرائد السمطین از جوینی نظم و دوره السنتین العطر الوردی: امام زمانہؑ کے موضوع پر مناقب کتاب اہل البیت از ابوتوفی (اہلِ سنت، مصر) مکانة اہل بیت عند اهل سنت: یہ کتاب اہلِ سنت کے نقطۂ نظر سے اہلِ بیتؑ کے مقام اور ان کے تعلق صحابہ کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ یہ آثار، محبت اہلِ بیتؑ کو اہلِ سنت اور شیعہ دونوں کے نظریے میں اجاگر کرتے ہوئے امتِ اسلامی میں مشترکہ فکری و علمی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

پیشگامان وحدت

ماضی میں تقریب کےمیدان میں موثر علمائے کرام کی شخصیتوں پر مشتمل ایک مجموعہ آثار«پیشگامان وحدت»کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ اس میں حضرت آیت‌الله تسخیری کے چھ سو سے زائد مضامین و تحریریں شامل تھیں، جو انقلاب سے پہلے اور بعد کے دوران، ملک اور بیرونِ ملک میں منتشر تھیں۔ ان تحریروں کو جمع، تدوین، تنظیم اور تصحیح کر کے بارہ جلدوں پر مشتمل ایک موسوعہ کے طور پر شائع کیا گیا۔ مزید برآں، ایک اثر بیرونِ ملک کے لیے عربی زبان میں «رائد الفکر الاسلامی و فارس التقریب»اور فارسی زبان میں «آیت‌الله تسخیری زبان گویای اسلام و تشیع»کے عنوان سے شائع کیا گیا۔

تقریب کی فکر

تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز نے تقریب کے فکری زاویے سے مواد کی تیاری پر بھی کام کیا۔ اس سلسلے میں ایک کتاب «وحدت در منظومه فکری مقام معظم رهبری» کےنام سے شائع کی گئی، جس میں امام خامنہ‌ای کے نظریہ وحدت کی وضاحت کی گئی: وحدت کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے، تقریب کے لیے کون سے طریقے تجویز کیے گئے، درپیش چیلنجز کون سے ہیں اور ان کے حل کے ممکنہ راستے کیا ہیں۔ اس کے علاوہ ایک کتاب «دیدگاه‌ها و رویکردهای وحدت و تقریب مذاهب اسلامی» شائع کی گئی، جس میں سیاسی، سماجی، کلامی اور فقہی پہلوؤں کے تناظر میں تقریب کے مختلف زاویے قدیم دور سے موجودہ زمانہ تک بیان کیے گئے۔ مزید برآں، «بررسی تاریخی امت واحده از منظر متفکران مسلمان» نامی کتاب میں وحدت پر قدیم و جدید مسلمان مفکرین کی تحریروں کا جائزہ لیا گیا۔ وحدت کا مسئلہ کوئی نیا موضوع نہیں؛ تقریباً چوتھی اور پانچویں صدی ہجری سے مسلمانوں کی وحدت اور امتِ واحدہ کے حصول پر بہت سے مصنفین نے قلم اٹھایا۔ ایک اور اثر «المسلمون و اشکالیه الوحده»ہے، جو مراکش کے ایک متفکر محمد الکتانی کے بارہ لیکچرز پر مبنی ہے۔ اس میں انہوں نے عالم اسلام میں وحدت کے مسائل اور چیلنجز کا مفصل جائزہ پیش کیا ہے۔

فلسطین اور مقاومت

عالم اسلام میں ایک مشترکہ موضوع فلسطین اور مقاومت ہے۔ مقام معظم رهبری نے فلسطین کو عالم اسلام کا اولین مسئلہ قرار دیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اگر عالم اسلام کو وحدت کی جانب لانا ہے تو مسلمانوں کے اتحاد کا بنیادی معیار مسئلہ فلسطین ہے۔ اس سلسلے میں ایک کتاب «فلسطین فی وجدان علما الاسلام» شائع کی گئی، جس میں تقریباً پچھتر سال قبل سے آج تک فلسطین اور صہیونیت کے موضوع پر دی گئی تمام فتاویٰ کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ رشید رضا کی فتویٰ سے شروع ہوا، جس میں مسلمانوں کی زمینیں یہودیوں کو فروخت کرنے کو حرام قرار دیا گیا، جیسے کہ مسجد الاقصیٰ کو یہودیوں کو بیچ دینا۔ اس کے بعد شیعہ بزرگان جیسے حضرت آیت‌الله خوئی، حضرت آیت‌الله حکیم اور دیگر نے فلسطین کے مسئلے پر اپنے فتاویٰ دیے، اور اہلِ سنت کے علما و بزرگان کے فتویٰ بھی مکمل طور پر جمع کیے گئے۔

طوفان الاقصی

فکری مباحث میں، تطبیع (Normalisation یا صلح و تعاون کے اخلاقی و فکری مسائل) کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے، اور اس موضوع پر کتابیں شائع ہوئیں جیسے «طوفان الأقصی والتطبیع»۔ طوفان الاقصی کے بعد، امتِ مسلمہ میں کئی شبهات پیدا ہوئیں، جنہیں جمع کر کے ایک اثر «پاسخ به شبهات پیرامون طوفان الاقصی» میں جواب دیا گیا۔ مزید برآں، طوفان الاقصی کے بعد عالمی علماء نے بھی قیام کیا اور فتویٰ صادر کیا، جسے کتاب «مناسبت علما الاسلام لعملیه طوفان لاقصی»میں مرتب اور شائع کیا گیا۔ یہ تمام آثار فلسطین کے مسئلے پر عالم اسلام کے مشترکہ موقف اور فکری و عملی رہنمائی کو اجاگر کرتے ہیں۔ اسلامی نئی تهذیب اور مذهبی تحریکوں کی شناخت عالم اسلام میں ایک اہم موضوع اسلامی تمدن ہے۔ امام خامنہ‌ای نے وحدت اور تقریب کو اسلامی تمدن کے حصول کے مقدمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس پس منظر میں، تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز نے اسلامی تمدن کے شعبے میں بھی کام کیا اور اس سلسلے میں آثار مرتب کیے۔ ایک نئی کاوش جریان‌شناسی مذہبی کے عنوان سے شروع کی گئی، جس کا مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام اور مختلف ممالک کے مذہبی جماعتوں کو پہچانا جائے، تاکہ مؤثر تعامل ممکن ہو۔ جریان‌شناسی کے دو اقسام ہیں: 1. ممالک پر مبنی: جیسے پاکستان، افغانستان، آذربائیجان، ترکی، شام، عراق، تونس اور دیگر ممالک جو ہمارے تعلقات میں ہیں۔ 2. مخصوص گروہوں اور جماعتوں پر مبنی: جیسے اسماعیلیہ کی شاخ بُہرہ، ترکی میں نقشبندیہ صوفی سلسلہ، داعش اور ان کے فقہی نظریات، نو معتزلی دھارے وغیرہ۔

تقریبی سوچ

تقریبی مطالعات تحقیقاتی مرکز دو نشریات بھی جاری کرتی ہے جو تقریبی نظریات اور آراء کو شائع کرتی ہیں: ایک فارسی زبان میں، ایران کے اندر دوسری عربی زبان میں، عالم اسلام کے لیے زیر طبع ابھی کئی پروجیکٹس زیرِ تکمیل ہیں، جیسے: آثار حضرت آیت‌الله واعظ زاده خراسانی جریان‌شناسی مذہبی ممالک، بشمول بحرین، اندونیشیا اور مصر مسلمانوں میں اختلافات کے تاریخی نتائج پر تحقیق کتاب «قرآن مورخان» کا تنقیدی جائزہ، جو ممکنہ طور پر عالم اسلام کے لیے ایک چیلنج ہو سکتا ہے

افتخارات و جوائز

کئی کتابیں اور آثار شائع ہونے کے بعد معتبر ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں، جیسے: موسوعہ آیت‌الله تسخیری اور «فرائد السمطین» کو کتاب سال جمهوری اسلامی کا اعزاز ملا کتاب «بُہرہ» کو کتاب سال حوزه کا ایوارڈ کتاب «حجاب»نے شیخ طوسی فیسٹول میں انعام حاصل کیا کتاب«الاربعینیه الحسینیه» دسویں دورِ عالمی اربعین ایوارڈ میں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی یہ تمام اقدامات اسلامی تمدن، وحدت اور تقریب کے نظریاتی و عملی فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

علمی نشست اور گول میز کانفرنس

تحقیقاتی مرکز نے تقریب کے نظریہ کو واضح کرنے، مذاہب اسلامی کا تعارف کروانے، اسلامی متون میں مشترک نکات اجاگر کرنے اور تقریب کے بارے میں اٹھنے والے شبهات کے جوابات دینے کے لیے سلسلہ وار نشستیں منعقد کیں۔ ان نشستوں میں ہم نے حوزوی اور علمی شخصیات کو مدعو کیا، چاہے ان کے درمیان مذہبی اختلافات ہوں، اور بڑے اہلِ سنت و شیعہ علمائے کرام نے بھی شرکت کی۔ اس طرح کے کرسی‌های علمی تقریب کے فکری فروغ اور عملی ہم آہنگی میں مؤثر ثابت ہوئے۔

ویکی وحدت

دیگر کوششیں آن لائن اور فضای مجازی میں کی گئی ہیں، کیونکہ آج کی دنیا میں معلومات کا بڑا حصہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل ہو رہا ہے۔ تقریب اور وحدت کے موضوع پر آن لائن مواد کی کمی محسوس کرتے ہوئے، ایک آنلائن دائرة المعارف «ویکی وحدت» قائم کیا گیا۔ اس میں تقریب کے علمائے کرام، فعال مذہبی جماعتیں ، گروہ، مراکز اور متعلقہ ادارے شامل کیے گئے۔ یہ دانشنامہ چار زبانوں میں دستیاب ہے: فارسی، عربی، انگریزی اور اردو۔ اب تک اس میں 11,495 مضامین تحریر اور اپ لوڈ کیے جا چکے ہیں۔

نظریہ تقریب

وحدت اور تقریب کے موضوع پر صدیوں سے نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ «نظریہ تقریب»زندہ اور مؤثر رہے، تو اسے ہر زمانے کی شرائط کے مطابق نقد، جائزہ اور مناسب سازی کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے لیے یہ علمی تقریب منعقد کی گئی، تاکہ یہ سلسلہ وار نشستوں، نظریہ پردازی، بحث و مباحثہ، چیلنجز اور عملی حل کے لیے ایک بستر فراہم کرے۔ ان شاء اللہ، عالمی اسلام کے دانشوروں کو مدعو کر کے یہ موقع فراہم کیا جائے گا کہ گفت و شنید اور تبادلۂ خیال کے ذریعے تقریب کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے اور اس کے فروغ کے لیے عملی اقدامات مرتب ہوں۔[5]

تصویری جہلکیاں

متعلقه تلاشیں

حواله جات