مندرجات کا رخ کریں

مجلس خبرگان قانون اساسی

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 11:31، 2 دسمبر 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («'''مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی''' مجلسِ بررسیِ نهاییِ قانونِ اساسیِ جمهوریِ اسلامیٔ ایران — جسے اختصاراً "مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی" کہا جاتا ہے — نئی قائم شدہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی پہلی مجلس تھی جس پر اس نظام کے قانونِ اساسی (آئین) ک...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی مجلسِ بررسیِ نهاییِ قانونِ اساسیِ جمهوریِ اسلامیٔ ایران — جسے اختصاراً "مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی" کہا جاتا ہے — نئی قائم شدہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی پہلی مجلس تھی جس پر اس نظام کے قانونِ اساسی (آئین) کی تدوین اور تصویب کی ذمہ داری عائد تھی۔

تاریخی پس منظر

قانونِ اساسی کی تدوین اپنی موجودہ شکل میں یورپ کی اٹھارویں صدی کی تبدیلیوں سے مربوط ہے۔ انقلابِ کبیرِ فرانس کے بعد 1791ء میں پہلا قانونِ اساسی مرتب کیا گیا، جس میں بعد ازاں متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ یہی قانون دنیا کے دیگر ممالک میں مختلف آئینوں کی تدوین کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ آئین سازی کا سب سے اہم مقصد اُن بادشاہوں اور سلاطین کی طاقت کو محدود کرنا تھا جو معاشرے کے نظم و نسق میں کسی ضابطے یا قانون کے پابند نہ تھے۔ اگرچہ بعض ممالک میں اس سے قبل بھی حکمران طبقہ چند غیر مدوّن ضابطوں کا پابند تھا۔

لیکن تحریری آئین کے فوائد کے باعث مختلف ریاستوں نے سماجی تعلقات کے نظم اور صاحبانِ اقتدار کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے آئین سازی اختیار کی۔ ممالک کی آزادی، انقلاب یا فوجی بغاوت جیسے واقعات بھی آئین کی تدوین یا اس میں تبدیلی کے اہم عوامل شمار ہوتے ہیں۔

ایران اُن اولین ایشیائی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے انقلابِ مشروطہ (1906ء/1285ھ ش) کے بعد آئین مرتب کیا۔ اُس وقت حتیٰ کہ یورپ کے بعض ممالک بھی آئین سے محروم تھے۔ انقلابِ مشروطہ اور مجلسِ شورای ملی کے قیام کے بعد 1285ھ ش میں پہلا آئین تیار ہوا، جو چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نے بلجیم اور فرانس کے آئین سے استفادہ کرتے ہوئے پانچ ابواب اور 51 اصولوں پر مرتب کیا تھا۔ اس میں بنیادی اور عادی مواد ایک ساتھ شامل تھا۔ تاہم اس کی بعض کمزوریوں کے باعث علما اور عوامی نمائندوں پر مشتمل ایک خصوصی ہئیئت مقرر کی گئی تاکہ آئین کی تکمیل کی جائے۔

اس کے نتیجے میں متمم قانونِ اساسی دس ابواب اور 107 اصولوں پر مشتمل تیار ہوا جو مشروطہ خواہانِ مغرب گرا کی مخالفت کے باوجود 1286ھ ش میں مجلس سے منظور ہوا۔ متمم آئین کا سب سے اہم محلِّ اختلاف اس کا اصلِ دوم تھا، جس کے مطابق:"مجتهدین اور فقہا پر مشتمل ایک ہئیئت مجلس کی مصوبات کا جائزہ لے گی تاکہ قوانینِ اسلامی کے مخالف امور کو قانون بننے سے روکا جا سکے، اور یہ اصل ظہورِ حضرت حجت (عج) تک غیر قابلِ تغیّر ہوگا۔"

تاریخِ مشروطہ میں یہ ہئیئت کبھی تشکیل نہ پائی اور مشروطہ سلطنت میں قانون گذاری اور اجرا کا عمل علما کی کسی نگرانی کے بغیر جاری رہا۔ بالآخر رضاخان پہلوی کی جانب سے آئین میں مداخلت کے نتیجے میں ایک استبدادی سلطنت ملک پر مسلط ہوگئی۔ 1304ھ ش میں، آئین کی تدوین کے بیس برس بعد، مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی تاکہ قاجاری سلطنت کے خاتمے اور پہلوی سلطنت کے قیام کا اعلان کیا جائے۔

مجلسِ مؤسسان نے ایک مادہٴ واحدہ منظور کیا جس کے مطابق متمم آئین کی اصول 36، 37 اور 38 منسوخ کر کے ان کی جگہ نئے اصول نافذ کیے گئے۔ اصل 36 کے مطابق: "ایران کی مشروطہ سلطنت ملت کی جانب سے مجلسِ مؤسسان کے ذریعے اعلیحضرت شاہنشاہ رضا شاہ پہلوی کو تفویض کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ ان کی نسلِ ذکور میں پشت در پشت جاری رہے گا۔"

یوں خاندانِ قاجار کو عملاً اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس دور میں آئینِ مشروطہ متعدد تبدیلیوں کا شکار ہوا۔ 1328ھ ش میں دوبارہ مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی اور شاہ کو مجلسِ شورای ملی اور مجلسِ سنا کو تحلیل کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ آئین میں تبدیلی کا طریقہ کار بھی مقرر کیا گیا، جس کے مطابق مجلسِ مؤسسان کی مصوبات کو شاہ کی توثیق کے بعد قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔

بعد ازاں 1346ھ ش میں ایک مرتبہ پھر مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی تاکہ اصول 38 میں ترمیم کی جائے۔ اس ترمیم کے تحت ولیعہد کی والدہ کو "نائب السلطنت" کا خطاب دیا گیا، الاّ یہ کہ شاہ کسی اور شخص کو نائب السلطنت مقرر کریں۔ مزید برآں اصول 41 اور 42 میں بھی تبدیلی کی گئی اور شاہ کی غیر حاضری یا سفر کی حالت میں "شورای سلطنتی" کی تشکیل کو قانونی حیثیت دی گئی۔