حسن طہراتی مقدم
حسن طہرانی مقدم، سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی ایران کے کمانڈر کے مشیر برائے امورِ میزائل اور تنظیمِ خودکفائیِ سپاہ کے سربراہ تھے۔ سپاہ کی توپخانے کی تشکیل، اس کی توسیع، اور جنگِ تحمیلی کے دوران اور بعد از جنگ میزائل صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرنے کی وجہ سے آپ کو "ایران کے میزائلوں کے پدر" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ سپاہ پاسداران میں آپ کی اہم ذمہ داریوں میں منطقۂ تین سپاہ شمال کے انٹیلیجنس کے مسئول، خمپاروں کی آتش کے پشتبان، مؤسسِ توپخانہ، کمانڈرِ موشکیِ زمین بہ زمین، کمانڈرِ موشکیِ نیرویِ ہوائی، جانشینِ نیرویِ ہوائی، مشیرِ فرماندۂ کل سپاہ در امور موشکی اور رئیسِ سازمانِ خودکفائیِ سپاہ شامل ہیں۔ جوانوں پر اعتماد، خوش اخلاقی، سخت محنت کے باوجود ہمیشہ تبسم، والدہ، اہلیہ اور اولاد کا خاص احترام، اہلِ خانہ کی مادی و معنوی حمایت، خودباوری، عزتِ نفس، انتھک کوشش، ولایت کے سامنے مطلق اطاعت، شاندار مدیریت، اور کم وسائل سے زیادہ سے زیادہ نتیجہ حاصل کرنا آپ کی نمایاں اخلاقی خصوصیات تھیں۔
زندگینامہ
سردار حسن طہرانی مقدم 6 آبان 1338 ش (1959ء) کو تہران کے محلہ سرچشمہ میں پیدا ہوئے۔ والد محمود طہرانی مقدم پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ والد کے کام کے باعث خاندان محلۂ شکوفہ اور بعد میں محلۂ بہارستان منتقل ہوا۔
تعلیم
ابتدائی اور ہنرستان کی تعلیم شکوفہ اور بہارستان میں مکمل کی۔ متوسطہ کے بعد "صنایع – برش قطعات صنعتی" میں ہنرستانی تعلیم حاصل کی۔ 1356 ش میں مدرسۂ عالی تکنیکیوم نفیسی (دانشگاهِ خواجہ نصیرالدین طوسیِ فعلی) میں فوقدیپلم صنایع میں داخلہ لیا، بعد ازاں لیسانسِ مهندسی صنایع مکمل کیا۔
ثقافتی سرگرمیاں
حسن بچپن ہی سے مکمل طور پر مسجدی ماحول کے فرد تھے۔ 1348 ش میں اپنے بھائیوں کے ہمراہ مسجد حضرت زینب کبریؑ (سرچشمہ) میں داخل ہوئے اور آیتالله سید علی لواسانی کی سرپرستی میں فعال ہوئے۔ وہ اس مسجد کے گروہِ سرود کے رکن رہے—یہی گروہ بعد میں 12 بہمن 1357 ش کو امام خمینی کے استقبال میں معروف سرود "خمینی ای امام" پیش کرنے والے اصلی گروہ میں تبدیل ہوا۔
مبارزتی سرگرمیاں
انقلابی تحریک کے دوران آپ اور آپ کے بھائیوں نے عوامِ مسلمان ایران کے ساتھ مل کر ظلم کے خلاف جدوجہد کی۔ حسن طہرانی مقدم نوجوانی میں پائپ کے تائیسهراهی سے دستی نارنجک تیار کر کے انقلابیوں کو دیتے تھے۔ 22 بہمن کی رات فوجی گاڑی پر دستی نارنجک پھینک کر اسے ضبط کرنے اور اس کے سرهنگ کو اسیر بنانے کا واقعہ اُن کی جدوجہد کی مثال ہے۔
سپاہ میں رکنیت
21 سال کی عمر میں، تیر 1359 ش میں سپاہ پاسداران میں شامل ہوئے۔ پہلی ذمہ داری: "مسئول اطلاعات منطقهٔ سه سپاه شمال"۔
بالکل۔ ذیل میں پورے متن کا **فصیح، دقیق اور کاملاً علمی خلاصہ** اردو میں پیش کیا جا رہا ہے:
میزائل بنانے میں ان کا کردار
انقلابِ اسلامی کے آغاز میں سپاہ پاسداران کے پاس بھاری اسلحہ، توپخانه اور موشکی توانائی موجود نہیں تھی، اور وہ بنیادی طور پر چند چریکی گردانوں پر مشتمل تھا۔ کردستان میں ضدانقلاب کی توپخانه سے مزاحمت، اور عراق کی یلغار نے سپاہ کے لیے منظم آتش پشتیبانی اور توپخانه کی ضرورت کو شدید طور پر نمایاں کیا۔
عملیات "ثامنالائمہ" اور "فتح بستان" میں عراقی توپخانه کے غنائم سے استفادہ کرتے ہوئے، سپاہ نے پہلی بار 105، 130 اور 155 ملیمیٹر توپوں کو تعمیر، تنظیم اور عملیاتی کر کے ’’توپخانه سپاه‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلے میں "حسن طهرانی مقدم" نے محوری کردار ادا کیا۔ انہوں نے پاییز 1360ھ ش میں ‘‘طرح ساماندهی آتش پشتیبانی’’ تیار کیا، جو سپاه کی پہلی منظم توپخانہ ساختار کی شکل بنا۔
عملیات "فتحالمبین" کے بعد، طهرانی مقدم نے شہید "حسن شفیع زاده" اور دیگر متخصصین کے ساتھ مل کر سپاه کا توپخانه رسمی طور پر قائم کیا۔ اہواز میں ‘‘مرکز تحقیقات فنی توپخانه’’ کی تشکیل بھی انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا، جہاں غنیمتی روسی توپوں کی تعمیر، آموزش اور نگهداری کا نظام قائم کیا گیا۔
آبان 1362ھ ش میں، سپاه نے ‘‘فرماندهی موشکی زمینبهزمین’’ کی تشکیل کی ذمہ داری بھی طهرانی مقدم کو دی۔ سن 1363ھ ش میں، وہ اور ان کی ٹیم 13 افراد پر مشتمل وفد کے ساتھ سوریہ گئے، جہاں انہوں نے ‘‘اسکاد بی’’ اور ‘‘فراگ 7’’ راکٹوں کی آمادگی و شلیک کی پیشہور تعلیم حاصل کی—جو سپاه کی موشکی یگان کی بنیاد بنی۔
امام خمینی کی ‘‘مقابله به مثل’’ کی اجازت کے بعد، سپاه نے بصرہ پر 130 ملی متری توپوں سے فائرنگ کی، اور بعد ازاں طهرانی مقدم کی قیادت میں ایران نے پہلی بار عراق پر موشکی حملے کیے:
- 21 اسفند 1363: کرکوک
- 23 اسفند 1364: بانک 18 طبقه بغداد
- بعدی حملہ: ‘‘باشگاه افسران بغداد’’ (جس میں تقریباً 200 افسر ہلاک ہوئے)
1364ھ ش میں طهرانی مقدم ‘‘فرمانده موشکی نیروی هوایی سپاه’’ مقرر ہوئے۔ جنگ کے آخری مراحل میں لیبیا کی کارشکنی کے باوجود، انہوں نے ٹیم کے ساتھ دو ماہ میں موشکها کو عملیاتی کیا اور ایران کی موشکی بازدارندگی کو دوبارہ فعال کیا۔ اسی دوران، ‘‘سامانه راکت نازعات’’ (80–150 کلومیٹر برد) کے طراحی و ساخت کی بنیاد بھی انہی کی کوششوں سے پڑی، جس کا مقصد اسکاد کے بجائے کمهزینه اور پرتکرار آتشباری کا حصول تھا۔
بعد از جنگ، ‘‘شهاب 3’’ کے تحقیقاتی مراحل میں بھی طهرانی مقدم نے کلیدی نقش ادا کیا اور موشکی صنعت میں خودکفایی کا نظری بیان کیا کہ دفاعی ضرورت کا سامان خود ملک کو تیار کرنا چاہیے۔ طهرانی مقدم کی ذمہ داریوں میں سپاه شمال کی اطلاعات، پشتیبانی آتش خمپارهای، تأسیس توپخانه سپاه، فرماندهی موشکی زمین به زمین، فرماندهی نیروی هوایی سپاه، سازمان خودکفایی، اور مشاور فرمانده کل سپاه شامل ہیں۔ 21 آبان 1390ھ ش کو پادگان امیرالمؤمنین (ع) ملارد میں زاغہ مهمات کے انفجار میں وہ شہید ہوئے۔ قائد انقلاب نے ان کی خدمات کو ‘‘همت، تلاش اور توانایی انسانی ایمان’’ کا مظہر قرار دے کر تحسین کی۔
اخلاقی لحاظ سے، وہ جوانوں پر اعتماد، خوشاخلاقی، سادگی، ولایتپذیری، سختکوشی، اور کم امکانات سے زیادہ کارایی کے لیے مشہور تھے۔ وصیتنامے میں انہوں نے یادِ اہلبیت اور مصیبتخوانیٔ امام حسین (ع) کی وصیت کی۔ شہادت سے قبل ان کے دستخط سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ‘‘موشکهای فوقسریع’’ اور ‘‘موشک حامل ماهواره’’ کے پروژه پر کام کر رہے تھے۔