ابو عبیدہ
ابوعبیدہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم عروج پر پہنچی ہے، اس کے اندرونی انتشار اور سازشوں نے ہی اسے زوال پذیر کیا ہے۔ یہ اصول آج بھی اتنا ہی سچ ہے جتنا صدیوں پہلے تھا۔ آج جب ہم ابوعبیدہ کی پُراسرار شہادت اور صہیونی دشمن کی بڑھتی ہوئی خفیہ کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت ایک بار پھر ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے [1]۔
ابوعبیدہ، مزاحمت کا راز اور غداری کی آہٹ
ابوعبیدہ ایک محض نام نہیں بلکہ ایک اساطیری کردار تھا، وہ ایک سایہ تھے، ایک راز تھے، جن کی اصل پہچان ان کے قریبی ساتھیوں سے بھی پوشیدہ تھی۔ یہ وہ فولادی عزم رکھنے والے مجاہد تھے، جن کی جنگی حکمت عملیوں نے اسرائیلی فوج کی نام نہاد طاقت کا بھرم توڑ دیا۔ ابوعبیدہ کی کارروائیوں کا طریقہ کار غیر معمولی تھا۔ وہ دشمن کی گشت، اس کے کمزور نکات اور حرکات و سکنات کو انتہائی باریک بینی سے پرکھتے اور پھر اچانک اس پر ایسی کاری ضرب لگاتے، جس سے وہ سنبھل نہ پاتا، یہ انداز انہیں جنگی میدان میں ایک منفرد حیثیت دیتا تھا۔
یہ وہی نام تھا کہ جسے سن کر صہیونیوں کو نیند میں بھی خوف آتا تھا، لیکن آج کے دور میں کھیل کے اصول بدل گئے ہیں۔ اسرائیل نے اپنے روایتی جنگی طریقوں کی جگہ خفیہ کارروائیوں اور جدید جاسوسی کو ترجیح دی ہے۔ مصنوعی ذہانت، بہترین ٹیکنالوجی اور عرب دنیا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وہ مزاحمتی تنظیموں کی جڑوں تک پہنچ رہے ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نے حزب اللہ کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، جس کی مثال ماضی میں کم ملتی ہے۔ اس نے بغیر کسی بڑی جنگ کے سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ جیسی عظیم شخصیات کو شہید کرکے مزاحمتی محاذ کو شدید دھچکا پہنچایا۔
یہ بلاشبہ دشمن کی حکمت عملی کی ایک خوفناک کامیابی ہے۔ کیا یہ سب اتنا آسان تھا؟ مزاحمتی تحریکیں بھی وقت کے ساتھ اپنی حکمت عملی کو اپ گریڈ کرتی رہتی ہیں۔ پھر وہ کون سی اندرونی کمزوری ہے جو ان کی تمام تر محنت اور قربانیوں کو پل بھر میں بے اثر کر دیتی ہے؟ میرے ذہن میں ایک لفظ گونجتا ہے "غداری"۔ اس غداری کی جڑیں اکثر دولت اور پُرتعیش زندگی کے خواب میں پیوست ہوتی ہیں۔ ہمارے اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں، چاہے وہ نواسہ رسولؐ امام حسن علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دینا ہو یا کربلا میں وقت کے مفتیوں کے فتوے، یہ سب دنیا کی خواہشات کی گونج تھی۔
ابوعبیدہ کی شہادت ہمیں بھی اسی طرح کے تکلیف دہ سوالات کے سامنے کھڑا کرتی ہے۔ اسرائیل کو مزاحمتی تنظیموں کی اشرافیہ کے بارے میں خفیہ معلومات کون فراہم کر رہا ہے؟ کیا حماس کے اندر کوئی غدار موجود ہے؟ قطر کا کیا کردار ہے، جہاں حماس کے ہیڈ کوارٹرز ہیں؟ دبئی اور سعودی عرب کس حد تک اس کھیل میں شریک ہیں؟ محمود عباس کی نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کا کردار کیا ہے، جو اپنے ہی لوگوں کو پیچھے سے چھرا گھونپ رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس بہادر کی شہادت کے بعد ہر باشعور مسلمان کے ذہن میں اٹھنے چاہئیں۔ جب تک ہم ان سوالوں کے جواب تلاش نہیں کر لیتے، ہمیں مزید ابوعبیدہ جیسی شخصیات کو کھونا پڑے گا۔ میں یہ سوالات اپنے قارئین کیلئے چھوڑے جا رہا ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ صرف حقیقی خود احتسابی ہی ہمیں اس زوال سے نکال سکتی ہے۔ آخر میں بس یہی عرض کروں گا کہ "پیسہ اور دنیاوی آسائشیں صرف ایک لمحہ کی ہیں، جبکہ شہادت اور قربانی کی حیات ابدی ہے۔"[2]۔
- ↑ تحریر: ایچ ایس اے مغنیہ
- ↑ ابوعبیدہ، مزاحمت کا راز اور غداری کی آہٹ- شائع شدہ از: 8 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 ستمبر 2025ء