غلام علی نعیم آبادی
| غلام علی نعیم آبادی | |
|---|---|
![]() | |
| پورا نام | غلامعلی نعیم آبادی |
| دوسرے نام | علامہ غلام علی نعیم آبادی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1323 ش، 1945 ء، 1363 ق |
| یوم پیدائش | 4 اردوبهشت |
| پیدائش کی جگہ | ایران، دامغان |
| وفات | 2025 ء، 1403 ش، 1446 ق |
| وفات کی جگہ | تهران |
| اساتذہ | آیتاللهالعظمی سیدمحمدرضا گلپایگانی، آیتاللهالعظمی مرتضی حائری یزدی، آیتاللهالعظمی محقق داماد، شهید دکتر محمد مفتح |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
| اثرات | داروینیسم از دیدگاه علم و دیننماز: زیباترین الگوی پرستشتحریف در آئینهای دینیغدیر در آینه تاریخ |
| مناصب | بندر عباس کے امام جمعہ، صوبہ ہرمزگان میں سپریم لیڈر کے نمائندے، خبرگان رہبری اسمبلی کے نمائندے، دمغان کے امام جمعہ، اسلامی آزاد یونیورسٹی دمغان کے بانی |
غلامعلی نعیم آبادی نے پانچ دہائیوں سے زائد عرصے تک ایران کے مذہبی، علمی ، اور سماجی شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ رہبری خبرگان کونسل کے کئی ادوار میں نمائندہ رہے، بندر عباس کے امام جمعہ کے فرائض سرانجام دیے، اور صوبہ ہرمزگان میں ولی فقیہ کے نمائندے تھے۔ نعیم آبادی حوزہ علمیہ قم کی جانی مانی شخصیات میں سے تھے اور اسلامی انقلاب ایران سے قبل اور بعد دونوں ادوار میں ایک فعال مذہبی و سیاسی کارکن کے طور پر شمار کیے جاتے تھے۔
سوانح حیات
غلامعلی نعیمآبادی 23 اپریل 1945 کو (4 اردیبهشت 1323 شمسی) سمنان صوبے کے شہر دامغان کے ایک گاؤں نعم آباد میں ایک مذہبی اور روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، حجتالاسلام قدرتاللہ نعیمآبادی، علاقے کے ایک معروف عالم دین تھے جو لوگوں کے شرعی اور دینی معاملات میں رہنمائی کرتے تھے۔
تعلیم
نعیمآبادی نے اپنا بچپن دامغان میں گزارا۔ انہوں نے کم عمری میں ہی مکتب میں داخلہ لیا اور پڑھنے لکھنے کی بنیادی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے تہران چلے گئے اور پرائمری اور سیکنڈری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دینی علوم کی طرف اپنی دلچسپی کو آگے بڑھایا۔ 1336 شمسی (1957) میں، 13 سال کی عمر میں، وہ قم کے حوزہ علمیہ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے آیت اللہ سید محمدرضا گلپایگانی، آیت اللہ حائری، اور شہید مفتح جیسے نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا اور علمی میدان میں بلند مقام حاصل کیا۔
اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے کی سرگرمیاں
نعیم آبادی 1960ء کی دہائی کے اوائل سے پہلوی حکومت کے مخالفین میں شامل ہو گئے اور اپنی سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں کی وجہ سے ساواک کے ہاتھوں کئی بار گرفتار ہوئے۔
انقلاب کی فتح کے بعد کی ذمہ داریاں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، انہیں دامغان کا پہلا امام جمعہ مقرر کیا گیا، اور پھر وہ صوبہ ہرمزگان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور بندر عباس کے امام جمعہ منتخب ہوئے۔ انہوں نے مجلس خبرگان رہبری میں ہرمزگان کے عوام کے نمائندے کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
سماجی اور علمی خدمات
نعیم آبادی، آزاد اسلامی یونیورسٹی دامغان اور بندر عباس کے خواہران دینی مدرسہ کے بانی تھے، اور انہوں نے اسلامی علوم کے مختلف شعبوں میں درجنوں کتابیں اور مضامین لکھے جن میں مندرجہ ذیل کتب اور تحریریں شامل ہیں:
- داروینیسم از دیدگاه علم و دین
- نماز: زیباترین الگوی پرستش (ترجمهشده به عربی و چاپ در مصر)
- تحریف در آئینهای دینی
- غدیر در آینه تاریخ
- درمان با نماز
- قرآن به روایت نهجالبلاغه
- صلیب خونین
- شکر در آینه وحی
- زکات در آینه وحی
- عاشورا در عاشورا
- امر به معروف و نهی از منکر
- جوان و عقلانیت
- اعجاز قرآن
سیاسی اور سماجی موقف اور نظریات
ان کی سیاسی اور سماجی مسائل پر واضح رائے تھی، اور وہ خاص طور پر بہائی برادری کے خلاف اپنے سخت موقف کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے شرح پیدائش میں اضافے اور گھریلو پیداوار کو مضبوط بنانے کی بھی حمایت کی۔
وفات
آیت اللہ غلامعلی نعیم آبادی 19 جولائی 2025 کو تہران میں انتقال کر گئے، اور انہیں صوبہ ہرمزگان میں مذہبی اتحاد اور ثقافتی ترقی میں ایک بااثر شخصیت کے طور پر یاد کیا گیا۔[1]
تعزیتی پیغامات
حضرات آیات عظام جوادی آملی اور نوری ہمدانی اور حوزہ علمیہ کی دیگر شخصیات نے الگ الگ پیغامات میں مجلس خبرگان رہبری میں تہران کے عوام کے نمائندے آیت اللہ غلامعلی نعیم آبادی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔[2]
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ غلامعلی نعیمآبادی کیست؟ بیوگرافی و آثار علمی و سیاسی(آیت اللہ غلام علی نعیم آبادی کون ہیں؟ سیرت اور علمی اور سیاسی خدمات) درج شده تاریخ: 19/جولائی/ 2025ء اخذ شده تاریخ: 24/ جولائی/2025ء
- ↑ پیام تسلیت مراجع تقلید و علمای حوزه در پی درگذشت آیتالله نعیمآبادی( آیت اللہ نعیم آبادی کے انتقال پر مراجع تقلید اور علماء کی طرف سے تعزیتی پیغام) درج شده تاریخ: 21/ جولائی/ 2025ء اخذ شده تاریخ: 24 جولائی/ 2025ء
