دروزیہ
| دروزیہ | |
|---|---|
| نام | دروزیہ |
| عام نام | دروز |
| بانی |
|
| نظریہ | توحید پر یقین، خفیہ تعلیمات، تناسخ ارواح |
دروزیہ دروز (Druze) مشرقی وسطی میں قائم ایک منفرد عقائد و نظریات کا حامل مذہبی فرقہ ہے جو کہ 10 ویں صدی میں وجود میں آیا۔ اس فرقے کے بعض عقائد اسلام، بعض ہندومت جبکہ اکثریت اسماعیلی شیعہ فرقہ سے اخذ ہوئے ہیں۔ یہ فرقہ ایک چھوٹا مگر منفرد مذہبی اور نسلی گروہ ہے جو بنیادی طور پر لبنان، شام، اسرائیل اور اردن میں آباد ہے۔ ان کا مذہب اسلام کی اسماعیلی شاخ سے نکلا ہے، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک علیحدہ مذہب اور ثقافت کی صورت اختیار کر گیا۔
وجہ تسمیہ
ان کا نام کلمہ ”دروزی“ ، اس گروہ کے موسس کے نام سے لیا گیا ہے ، اس مذہب کا موسس حمزة بن علی دروزی تھا جو فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ کو خدا کی روح سمجھتا تھا ، اس وقت یہ لوگ لبنان اور شام میں مقیم ہیں اور ان کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں [1]۔
جغرافیائی حدود
سوریا: تقریبا 10 لاکھ
لبنان: تقریبا 250000
اسرائیل اور مقبوضہ جولان: تقریبا 145000
وینزویلا: تقریبا 60000
امریکہ: تقریبا 50000
کنییڈا، اردن، آسٹریلیا و جرمنی: تقریبا 75000 دروز شام کی آبادی کا 3٪ لبنان کی آبادی کا 5۔5٪ جبکہ اسرائیل کی آبادی کا 1۔6٪ حصہ ہیں۔
تاریخ
دروز نامی فرقہ 10 ویں صدی میں فاطمی سلطنت کے دار الحکومت قاہرہ(مصر) میں وجود آیا۔ الحاکم بامر اللہ فاطمی سلطنت کا 16 واں خلیفہ تھا۔ اس کے کچھ مصاجبین اور اس کے قریبی حلقہ کے کئی لوگوں نے اپنے گمان میں الحالم بامر اللہ کو انسان کے بجائے خدا کا اوتار سمجھنا شروع کردیا جبکہ اس اعتقاد کو باقاعدہ مذہب کا درجہ "حمزہ بن علی احمد" نے دیا جو کہ الحاکم کا قریبی مصاحب تھا۔
دروز مذہب کی خصوصیات
1. توحید پر یقین: دروز خود کو "اہل التوحید" یعنی "واحد خدا کے ماننے والے" کہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ایک انتہائی روحانی اور باطنی طرز کا ہے۔ 2. خفیہ تعلیمات: دروز مذہب کے کئی عقائد اور متون عام لوگوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں، صرف خاص تربیت یافتہ افراد (’عقال‘ کہلاتے ہیں) ہی ان تک رسائی رکھتے ہیں۔ 3. تناسخ ارواح (Reincarnation) پر یقین رکھتے ہیں، یعنی روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی ہے۔ 4. شریعت کی ظاہری پابندی نہیں: دروز عام طور پر اسلامی شریعت جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ کے پابند نہیں ہوتے، لیکن اخلاقیات اور باطنی طہارت کو اہمیت دیتے ہیں۔
دروز کے پیروکار
دروز کا آغاز 11ویں صدی میں مصر کے فاطمی خلفیہ الحاکم بامراللہ کے دور میں ہوا۔ ان کے پیروکاروں نے ان کی الوہیت کا عقیدہ اختیار کیا، جس کی بنیاد پر یہ اسلام سے علیحدہ ہو گئے۔ ان کے اہم مبلغین میں حمزہ بن علی اور درزی شامل تھے، جن کے نام پر ہی انہیں "دروز" کہا جانے لگا (اگرچہ وہ خود درزی کو گمراہ سمجھتے ہیں)۔ دروز کمیونٹی اپنی شناخت، ثقافت اور وفاداری کے لیے معروف ہے، اور اسرائیل میں یہ واحد عرب اقلیتی گروہ ہے جس کے افراد باقاعدہ طور پر اسرائیلی فوج میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔
- ↑ دائرة المعارف اسلام، مادہ دروز، بہ نقل ڈاکٹر مشکور ص 233