مندرجات کا رخ کریں

حوزہ علمیہ قم

ویکی‌وحدت سے

حوزہ علمیہ قم عالم تشیع کا معتبر و اہم ترین مرکز علمی ہے جو ایران کے شہر قم میں واقع ہے۔ سنہ 1340 ہجری قمری 1921ء میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے قبل میرزا محمد فیض قمی سنہ 1333 ہجری قمری میں قم واپس آئے اور 1336 سے 1340 تک مدرسہ دارالشفاء اور مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انہوں نے ان مدارس میں طلبہ کو بسایا۔ شیخ محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی، کی وساطت سے حاج شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛ چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔

تاریخی پس منظر

سنہ 1340 ہجری قمری (1921 عیسوی) میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے 8 سال قبل، ایران میں شیخ اسداللہ ممقانی جیسے اکابرین نے شیعہ مرجعیت کی عراق سے ایران منتقلی اور قم یا مشہد میں ایک مستحکم اور مربوطہ حوزہ علمیہ کی تاسیس، کی تجویز پیش کی تھی۔ سلسلۂ قاجار کے اواخر میں ـ حائری کی قم آمد اور حوزہ علمیہ قم کی سطح بلند کرنے کے لیے ان کے اقدامات سے قبل ـ قم میں مقیم بعض علما نے ـ جو علمی لحاظ سے اعلی مراتب و مدارج پر فائز تھے ـ اس سلسلے میں کوششیں کی تھیں لیکن مطلوبہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔

میرزا احمد فیض قمی

قم میں حوزہ علمیہ کی تاسیس کے لیے کوشاں علما میں سے ایک اہم شخصیت میرزا محمد فیض قمی ہیں جو سنہ 1333 ہجری قمری میں سامرا سے قم واپس آئے اور سنہ 1336 ہجری قمری سے مدرسہ دارالشفاء اور مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انہوں نے طلبہ کو ان دو مدارس میں بسایا اور ان کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔

یہ اقدام اس قدر عظیم سمجھا گیا کہ عید غدیر سنہ 1336 ہجری قمری کے دن حرم حضرت معصومہ کے صحن عتیق میں چراغان اور پر شکوہ جشن کا اہتمام کیا گیا [1]۔ اس اہم اقدام کے باوجود اور اس زمانے میں شہر قم میں شیخ ابو القاسم قمی اور میرزا جواد آقا ملکی تبریزی سمیت اعلی پائے کے علما کی موجودگی کے باوجود، م میں عبد الکریم حائری کے دائمی سکونت تک حوزہ علمیہ قم منظم اور مربوط اور مفید و قوی حوزہ اس شہر میں بپا نہ ہو سکا [2]۔

محمد تقی بافقی

قم کے معاصر حوزہ علمیہ کی تشکیل میں شیخ محمد تقی بافقی کی کوششوں کو بھی نظروں سے دور نہیں رکھنا چاہیے۔ شریف رازی کے مطابق، بافقی نے سنہ 1337 ہجری قمری میں قم ہجرت کرکے شیخ ابو القاسم کبیر قمی، شیخ مہدی فیلسوف اور میرزا محمد ارباب جیسے بڑے علما کو ایک منظم و مربوط حوزہ علمیہ کی تاسیس کی رغبت دلائی لیکن ان کی رائے یہ تھی کہ قمی عوام کے جذبات و احساسات کے پیش نظر، حوزہ علمیہ کی تاسیس ایک ایسے با اثر عالم دین کی موجودگی سے مشروط ہے جس کا تعلق قم سے نہ ہو [3]۔

آخر کار محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی، کی وساطت سے حاج شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛ چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔

رضا شاہ پہلوی دور میں حوزہ علمیہ قم کی بقا کے لیے تین مراجع تقلید کی خاموش جدوجہد

آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کی رحلت کے بعد، جب ایران سیاسی و اقتصادی بحران، جنگِ عظیم دوم، قحط اور بیرونی اشغال جیسے خطرناک حالات سے دوچار تھا، اُس وقت تین عظیم مراجع کرام آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید محمدتقی خوانساری اور آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر – نے باہم مل کر نوپا حوزہ علمیہ قم کو تباہی سے بچایا اور اسے بعد میں آیت اللہ العظمی بروجردی کے سپرد کیا۔

حوزہ کے مستقبل پر خطرات کے بادل

سن 1936ء میں آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد ایران شدید سیاسی بحران کا شکار تھا۔ رضا شاہ کی حکومت روحانیت کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی، جبکہ عالمی جنگ کے سبب متفقین (روس، برطانیہ، اور ہندوستانی افواج) ایران میں داخل ہو چکے تھے۔ ملک بھر میں قحط، بدامنی اور بداعتمادی کی فضا چھا چکی تھی۔

تین مرجع تقلید، ایک مشکل مشن

ایسے وقت میں، تین مراجع تقلید نے ایک مشترکہ اقدام کے تحت حوزہ علمیہ قم کی سربراہی سنبھالی۔ آیت اللہ صدر کی تدبیر، آیت اللہ خوانساری کی استقامت، اور آیت اللہ حجت کی حکمت نے حوزہ کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر قائم رکھا، باوجود اس کے کہ حکومت وقت علماء کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوششوں میں سرگرم تھی۔ آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی کے مطابق: "اگر آیت اللہ صدر کی حکمت عملی نہ ہوتی تو رضا شاہ کے دور کی مشکلات میں روحانیت کا تحفظ ممکن نہ ہوتا۔"

جنگِ عظیم دوم اور ایران کی بے بسی

1939ء میں شروع ہونے والی جنگِ عظیم دوم کے دوران ایران نے ابتدا میں غیر جانبداری کا اعلان کیا، مگر متفقین نے جرمن ماہرین کی موجودگی کو جواز بنا کر ۳ ستمبر 1941کو ایران پر حملہ کر دیا۔ حکومت ایران نے وقتی طور پر مزاحمت نہیں کی اور رضا شاہ نے ۲۵ ستمبر کو اقتدار اپنے بیٹے محمدرضا کے حوالے کر کے کنارہ کشی اختیار کی۔

جنگ کے اثرات نہایت تباہ کن تھے

فوج اور پولیس منتشر ہو چکے تھے۔ امن و امان مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ خوراک کی شدید قلت تھی اور قحط نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ عوام کی جان و مال غیر محفوظ ہو چکی تھی[4]۔

استعمار کی سازشیں

متفقین نے نہ صرف ایران کے وسائل پر قبضہ کیا بلکہ دینی اداروں کو کمزور کرنے کے لیے مراجع کے درمیان اختلافات کو ہوا دی۔ ان کوششوں کے تحت آیت اللہ صدر اور خوانساری کو مالی معاملات سے الگ کر دیا گیا، لیکن مراجع کی اجتماعی کاوشوں سے حوزہ کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچ گیا۔

مشکلات کے باوجود بقا کی جنگ

تینوں مراجع نے نہایت کٹھن حالات میں حوزہ علمیہ قم کو محفوظ رکھا، لیکن معاشی تنگی، حکومتی دباؤ اور سماجی خلفشار کے باعث وہ اس ادارے کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکے۔ نتیجتاً، بعض علمائے کرام نے یہ رائے قائم کی کہ آیت اللہ العظمیٰ سید حسین طباطبائی بروجردی کو قم بلایا جائے تاکہ حوزہ کو ایک مرکزی اور مستحکم قیادت میسر آ سکے۔ آیت اللہ بروجردی کی آمد کے ساتھ ہی حوزہ علمیہ قم نے ایک نئے دور میں قدم رکھا، جس کی بنیاد ان تین مراجع کی خاموش مگر دلیرانہ جدوجہد نے رکھی تھی۔ حوزہ علمیہ قم کی تاریخ کا یہ دور، تین بزرگ مراجع کی بے مثال جدوجہد، جنگی حالات اور سیاسی دباؤ کے باوجود دینی اداروں کی بقا کی ایک روشن مثال ہے۔

حوزہ علمیہ قم ایران کی تقویت کے اسباب

آیت اللہ حائری کے قم میں ساکن ہونے پر ان کے وہ مشہور اور عالی رتبہ شاگرد جو اراک میں تھے، منجملہ:

  • سید محمد تقی خوانساری،
  • سید احمد خوانساری،
  • سید روح اللہ خمینی،
  • سید محمد رضا موسوی گلپایگانی ا
  • شیخ محمد علی اراکی ان کے ہمراہ قم آگئے۔

حوزہ علمیہ قم کی تشکیل اور حائری کی حسنِ شہرت اور ان کی اعلی انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر قم کی طرف متوجہ اور منتقل ہوئے جن میں سید ابوالحسن رفیعی قزوینی بھی شامل تھے جو سنہ 1341 سے 1349 ہجری قمری تک قم میں رہے اور یہاں درس و تدریس کا اہتمام کیا [5]۔

علماء اصفہان میں سے شیخ محمد رضا مسجد شاہی جو سنہ 1344 سے 1346 ہجری قمری تک قم میں مقیم ہوئے نیز میرزا محمدعلی شاہ آبادی جو سنہ 1347 ہجری قمری میں قم آئے اور سنہ 1354 ہجری قمری تک یہیں مقیم رہے۔ حائری کے زمانے میں، قم میں کثیر مہاجر اور مجاور (مقامی) اساتذہ اور مدرسین کی موجودگی سے اس دور میں قم کی علمی نشاط کا اندازہ ہوتا ہے۔

سیاسی اور معاشرتی عوامل

دیگر سیاسی اور معاشرتی عوامل و اسباب نے بھی تاسیس کے آغاز پر حوزہ علمیہ قم کی رونق بڑھا دی۔ اس سلسلے میں سلسلۂ قاجار کے بادشاہ احمد شاہ قاجار کے دورہ قم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک بار 21 ربیع الاول 1342 ہجری قمری (آٹھ عقرب 1302 ہجری شمسی) کو حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کے سلسلے میں مبارک باد عرض کرنے قم آئے۔[12] اور دوسری بار علمائے نجف کی قم آمد پر [6]۔

نجف سے مشہور اور نامی گرامی علما سید ابو الحسن اصفہانی اور محمد حسن نائینی کی قم آمد اور عبدالکریم حائری کی طرف سے ان کا پر شکوہ استقبال اور اپنا مقام تدریس ان کے سپرکرنا، بھی اس مرحلے میں حوزہ علمیہ قم کی مزید تقویت کا سبب ہوا۔ حوزہ علمیہ قم کی تقویت کا ایک سبب یہ تھا کہ علمائے اصفہان ـ رضاخانی دور میں نوجوانوں کی جبری بھرتی پر احتجاج واعتراض کرنے کی غرض سے حاج آقا نور اللہ اصفہانی (متوفی 1346 ہجری) کی قیادت میں، ہجرت کرکے قم آئے۔ ان کے آنے سے حوزہ قم سیاسی امور میں بھی متحرک ہوا [7]۔

آیت اللہ عبد الکریم حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے ـ جبکہ حوزہ علمیہ علمی برآوری کے عروج سے گذر رہا تھا ـ اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی یہاں تک کہ حوزہ قم کے طلبہ کی تعداد پہلوی اول کی سخت گیریوں اور شدت آمیز رویوں سے قبل سنہ 1934 عیسوی میں 700 تک[18] اور دوسرے قول کے مطابق 900 تک پہنچی تھی [8]۔

قم میں قیام کے دوران عبدالکریم حائری کا درس خارج اہم ترین تھا یہاں تک کہ حوزہ علمیہ کے دوسرے اساتذہ بھی اس میں شرکت کرتے تھے۔ وہ ابتدا میں مدرسہ فیضیہ میں تدریس کرتے تھے اور کچھ عرصہ بعد انھوں نے مقام تدریس کو بدل کر تکیۂ عشق علی میں منتقل کیا۔ انہوں نے تعلیمی منصوبہ بندی اور طلبہ کی معاشی بہبود کے لیے بھی متعدد سنجیدہ اقدامات کیے۔ انھوں نے حوزہ کی تعلیمی روشوں کو تبدیل کرنے کے لیے بھی کوشش کی، علم فقہ میں تخصصی بنانے اور طلبہ کی معلومات کو وسیع تر کرنے کی کوشش کی [9]۔


عبدالکریم حائری نے ان امور میں طلبہ اور مدارس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور درس و بحث کے لیے ان کی ترغیب کے لیے، انعامات مقرر کیے۔ انھوں نے حوزہ کی تعلیمی گنجائش کو وسعت دینے کے لیے مدرسہ فیضیہ اور مدرسہ دارالشفاء جیسے اہم اور مرکزی مدارس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔

کشف حجاب

اس کے باوجود انھوں نے کشف حجاب (بے پردگی کی ترویج) و اتحاد لباس (ہم شکل لباس کی ترویج) کی رضا خانی کوششوں کے مقابلے میں ـ حکومت اور سیاست کے سلسلے میں محتاطانہ طرز عمل اپنائے رکھنے کے باوجود ـ زیادہ سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ مداخلت کی۔ انہوں نے مورخہ 3 جولائی 1935 عیسوی کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے واضح کیا کہ بے پردگی کی ترویج شرع مقدس اور مذہب جعفری کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے کشف حجاب اور عزاداری پر پابندی جیسے مسائل اس قدر حائری کے لیے بھاری اور ناقابل برداشت تھے کہ کہا گیا ہے کہ وہ ان واقعات کے بعد بیمار ہوئے اور پہلے کی طرح نشاط و طراوت نہیں رکھتے تھے۔

حوزہ قم، بعد از آیت اللہ حائری

حائری کی وفات سے لے کر آیت اللہ بروجردی کی ہجرت قم تک، حوزہ کے تین بڑے اساتذہ سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، سید محمد تقی خوانساری اور سید صدر الدین صدر نے حوزہ کے انتظامات کا عہدہ سنبھالا۔

قابل ذکر ہے کہ عبد الکریم حائری کی وفات کے بعد، ـ پہلوی نظام حکومت کی طرف سے حوزہ کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے پیدا کردہ نہایت دشوار صورت حال ، بالخصوص حوزہ علمیہ مشہد میں رونما ہونے والے واقعات کے پیش نظر ـ خطرہ تھا کہ حوزہ علمیہ قم کو بھی بند کر دیا جائے؛ چنانچہ ان تین اکابرین نے فیصلہ کیا کہ باہمی تعاون سے حوزہ علمیہ قم کو اس خطرے سے محفوظ رکھیں۔

سیاسی اور سماجی اقدامات

بروجردی کے دیگر سیاسی اور سماجی اقدامات میں درج ذیل اقدامات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے: انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ سرکاری اسکولوں کے نصاب میں دینی تعلیمات (دینیات) کو بحیثیت ایک درسی مضمون شام کیا جائے اور حکومت نے ان کی یہ تجویز منظور کرلی انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ ریل گاڑیوں کو نماز کے وقت اسٹیشن میں روکا جائے تاکہ مسافرین نماز ادا کریں، سرکاری مراکز اور اداروں میں بہائیت کی ریشہ دوانیوں اور اثر و رسوخ کا مقابلہ، فلسطینی عوام کی حمایت اور اس سلسلے میں سنہ 1948 عیسوی اعلامیہ جاری کرنا (غاصب صہیونی ریاست کی تاسیس کا اعلان اسی سال ہوا تھا)

بین الاقوامی اقدامات

بین الاقوامی سطح پر سید محمد تقی طالقانی آل احمد کو سنہ 1952 عیسوی میں اور ان کی وفات کے بعد سید احمد لواسانی اور ان کے بعد شیخ عبدالحسین فقیہی رشتی کو شیعیان مدینہ کی سرپرستی کے لیے روانہ کیا، سید زین العابدین کاشانی کو کویت، سید محمد حسن ناشرالاسلام شوشتری کو زنگبار، شریعت زادہ اصفہانی کو پاکستان، مہدی حائری یزدی کو امریکا اور صدر بلاغی کو یورپ میں اپنے سیّار (Ambulatory) نمائندے کی حیثیت سے مقرر کیا

آیت اللہ بروجردی کے دیگر بین الاقوامی اقدامات میں سے یہ تھا کہ انھوں نے مصر میں دارالتقریب کی تاسیس کے لیے شیخ محمد تقی قمی کی حمایت و تائید حاصل کی۔ محمد تقی قمی کی کوششوں کے نتیجے میں ہی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ محمود شلتوت نے سنہ 1958 عیسوی میں مذہب جعفری کو اہل سنت کے چار مذاہب کے ساتھ تسلیم کیا۔[68]۔[69]

حوزہ قم اور حکومت کا تناز‏عہ

آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم اور حکومت کے درمیان اختلاف اور تنازعے کا نقطۂ آغاز یہ تھا کہ پہلوی دوئم نے علمائے قم کو پیغام تعزیت بھیجنے کی بجائے نجف میں آیت اللہ سید محسن حکیم کو تعزیتی پیغام دیا اور اس کے اس اقدام سے ایران کے علما نے اس امر کے مترادف قرار دیا کہ وہ شیعہ مرجعیت کو ایران سے سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔

پہلوی حکومت کے اگلے اقدامات نے حوزہ علمیہ قم کی سیاسی منزلت کو نمایاں تر کر دیا اور امام خمینی اور ان کے ساتھیوں، حامیوں اور دوسرے علماہ کے برملا موقف کے اظہار کی وجہ سے امام خمینی کی مرجعیت کو مستحکم تر کر دیا۔ امام خمینی عالی رتبہ استاد تھے جن کا درس خارج معتبر تھا اور فلسفہ، اصول اور فقہ میں بڑی تعداد میں شاگردوں کی پرورش کرچکے تھے۔ ان کے سیاسی اقدامات نے حوزہ قم پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔

سیاسی اور سماجی اقدامات

بروجردی کے دیگر سیاسی اور سماجی اقدامات میں درج ذیل اقدامات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:

  • انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ سرکاری اسکولوں کے نصاب میں دینی تعلیمات (دینیات) کو بحیثیت ایک درسی مضمون شام کیا جائے اور حکومت نے ان کی یہ تجویز منظور کرلی [10]۔
  • انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ ریل گاڑیوں کو نماز کے وقت اسٹیشن میں روکا جائے تاکہ مسافرین نماز ادا کریں، [11]۔
  • سرکاری مراکز اور اداروں میں بہائیت کی ریشہ دوانیوں اور اثر و رسوخ کا مقابلہ،
  • فلسطینی عوام کی حمایت اور اس سلسلے میں سنہ 1948 عیسوی اعلامیہ جاری کرنا (غاصب صہیونی ریاست کی تاسیس کا اعلان اسی سال ہوا تھا)[12]۔

بین الاقوامی اقدامات

بین الاقوامی سطح پر سید محمد تقی طالقانی آل احمد کو سنہ 1952 عیسوی میں اور ان کی وفات کے بعد سید احمد لواسانی اور ان کے بعد شیخ عبدالحسین فقیہی رشتی کو شیعیان مدینہ کی سرپرستی کے لیے روانہ کیا، سید زین العابدین کاشانی کو کویت، سید محمد حسن ناشرالاسلام شوشتری کو زنگبار، شریعت زادہ اصفہانی کو پاکستان، مہدی حائری یزدی کو امریکا اور صدر بلاغی کو یورپ میں اپنے سیّار (Ambulatory) نمائندے کی حیثیت سے مقرر کیا <refجسینیان، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران، ص386</ref>،

آیت اللہ بروجردی کے دیگر بین الاقوامی اقدامات میں سے یہ تھا کہ انھوں نے مصر میں دارالتقریب کی تاسیس کے لیے شیخ محمد تقی قمی کی حمایت و تائید حاصل کی۔ محمد تقی قمی کی کوششوں کے نتیجے میں ہی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ محمود شلتوت نے سنہ 1958 عیسوی میں مذہب جعفری کو اہل سنت کے چار مذاہب کے ساتھ تسلیم کیا [13]۔

حوالہ جات

  1. رسول جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذہبی ـ سیاسی ایران، ص35
  2. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص138۔
  3. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص1415، 2122
  4. پہلوی دور میں حوزہ علمیہ قم کی بقا کے لیے تین مراجع تقلید کی خاموش جدوجہد- شائع شدہ از: 30 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء
  5. رفیعی قزوینی، مجموعہ رسائل و مقالات فلسفی حکیم متألّہ علامہ سید ابو الحسن رفیعی قزوینی، مقدمہ رضا نژاد، صبیست ویک۔
  6. مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، ج2، ص432۔
  7. نجفی، اندیشہ سیاسی و تاریخ نہضت حاج آقا نوراللّه اصفہانی، ص237ـ 300۔
  8. سید محسن امین امین،ج8، ص42۔
  9. سید کباری، آیةاللّه مؤسّس مرحوم آقای حاج شیخ عبد الکریم حائری، ص384۔
  10. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص189
  11. امینی، مرجعیت در عرصه اجتماع و سیاست، ص452، سند شماره 29
  12. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص190-191، 469
  13. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص179ـ 180۔