انقلاب اسلامی ایران
| انقلاب اسلامی ایران | |
|---|---|
| واقعہ کی معلومات | |
| واقعہ کا نام | 22 بہمن 1357ش |
| واقعہ کی تاریخ | 1978ء |
| واقعہ کا دن | 22 بہمن |
| واقعہ کا مقام | |
| عوامل | عوام، مختلف سیاسی گروہ |
| اہمیت کی وجہ | آیت اللہ سید روح اللہ موسوی خمینی کی وطن واپسی |
| نتائج |
|
یومالله 12 بہمنماه سال 1357 ش، کو طاغوتی حکومت کے مقابلے میں اسلام اور اسلامی نظام کی طاقت اور عظمت کا آغاز ہے، جو 14 سال جلاوطنی کے بعد ایران میں انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی کی واپسی کے ساتھ ہوا۔ اس دن اسلامی جمہوریہ ایران کے تقویم میں فجر اور اسلامی انقلاب کی مبارک دہائی کا آغاز کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں ایران کی شاہی حکومت کی جگہ موجودہ اسلامی جمہوریہ ایران نے لے لی، کیونکہ محمد رضا پہلوی کی بادشاہت کو آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں ایک تھیوکریٹک حکومت نے تبدیل کر دیا، امام خمینی اس مبارک دن پر ، پہلوی حکومت کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار، فرنسہ کو حکومت کو امام خمینی کو ایران آنے سے روکنے، ایران داخل ہونے سے روکنے، ہوائی اڈوں کو بند کرنا اور دیگر منصوبوں کے ناکام ہونے کے بعد امام خمینی ایران میں داخل ہوگئے۔ بہشت زہرا میں ایران میں داخل ہونے کے بعد ، اپنی تقریر میں امام نے کہا:"میں اس حکومت کے منہ پے ماروں گا! میں ایک حکومت مقرر کرتا ہوں! میں اس قوم کی حمایت سے حکومت تشکیل دوں گا، نصرت الہی ، ملک میں امام خمینی کی موجودگی ، اور جائے وقوعہ پر مختلف سیاسی گروہوں اور عوامی شرکت کے نتیجے میں 22 فروری 1977 کو اسلامی انقلاب کی فتح ہوئی۔
امام خمینی کی وطن واپسی
جلاوطنی کے بعد امام خمینی (رح) کی وطن واپسی درحقیقت ایران ہی نہیں بلکہ دنیا میں ایک نئی تاریخ کا نقطۂ آغاز تھا۔ آج سے تینتالیس سال قبل یکم فروری سنہ ۱۹۷۹ کو جب ۱۵ سال کی جلاوطنی کے بعد بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنے وطن ایران واپس آئے تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ موقع وہ ہے جب ایک نئی تاریخ کا آغاز ہو رہا ہے۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایران پہنچنے کے ٹھیک دس دن بعد یعنی ۱۱ فروری کو ایران کی ڈھائی ہزار سالہ شاہی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پورے ملک میں پرچم اسلام لہرانے لگا۔ ایک ایسے انقلاب نے اپنی حرکت کا آغاز کیا جس کی بنیاد حقیقی محمدی اسلام پر تھی اور جسکی عظمت سے جہاں ایک طرف دنیا کے ستمدیدہ، دبے، کچلے اور مظلوم طبقے کو ڈھارس اور قوت قلب ملی وہیں دوسری طرف اسکی ہیبت سے دنیا کی تمام طاغوتی، شیطانی اور ستمگر طاقتوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔
عالمی سامراج کے شیطانی منصوبوں کو یکے بعد دیگرے خاک میں ملاتا ہوا ایران کا اسلامی انقلاب آج بھی اسکے بالمقابل ایک آہنی دیوار بن کر تمام تر قوت و عظمت کے ساتھ میدان کارزار میں ڈٹا ہوا ہے اور دنیا بھر میں تشنگان علم و معرفت اور بصیرت و حریت کے پیاسوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ امت اسلامیہ کے لئے ایک مایۂ ناز مکتب بنا ہوا ہے[1]۔
تاریخی پس منظر
ایران کا اسلامی انقلاب بیسویں صدی کے آخر میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اور عظیم اندرونی اور بیرونی پہلوؤں کا حامل یہ واقعہ علاقائی اور عالمی سطح پر عظیم تبدیلیوں کی بنیاد بن گیا۔ امام خمینی رح نے جو فرانس کے ایک گاؤں نوفل لوشاتو میں جلاوطنی کے دوران انقلابی تحریک کی قیادت کر رہے تھے اور جنھوں نے اپنی ایران آمد کو شاہ کی بے دخلی سے مشروط کر دیا تھا، سولہ جنوری انیس سو اناسی کو شاہ ایران کے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد، اپنی ایران واپسی کا فیصلہ کیا۔
ایران کے عوام کی تحریک میں شدت اور شاہ کے ایران سے بھاگ جانے کے بعد پہلوی حکومت کے آخری وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے امام خمینی کے ہوائی جہاز کو تباہ کرنے، جہاز کا راستہ تبدیل کرنے اور اس کے بعد امام خمینی کی گرفتاری سمیت متعدد سازشیں تیار کر رکھیں تھیں لیکن ان میں ایک بھی کامیاب نہ ہوئی اور آخر کار اس نے ملک بھر کے ہوائی اڈوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔
بختیار حکومت کی جانب سے ہوائی اڈوں کی بندش اور امام خمینی کی ایران آمد روکنے کی خبر پھیلتے ہی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے۔ تہران، اصفہان، کرمانشاہ، دزفول، ہمدان، بوشہر وغیر میں قائم تینوں مسلح افواج کی مختلف چھاؤنیوں میں مقیم افسران نے بغاوت کر دی اور پھر وہ مظاہرین کی صفوں میں شامل ہو گئے۔
ملک بھر کے مجاہد علمائے کرام جو امام خمینی کے استقبال کے لیے تہران آئے تھے، تہران یونیورسٹی میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور امام خمینی کی وطن واپسی تک ان کا دھرنا جاری رہا۔ عوام اور طلبہ بھی علما کے ساتھ اس دھرنے میں شامل ہوتے رہے۔ تہران کے بہت سے نواحی علاقوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور فائرنگ کی آوازیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
فرانس پریس نے خبر دی کہ تہران کا ایک چوراہا میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس پریس نے دارالحکومت میں مرنے والوں کی تعداد تین ہزار تک بتائی۔ روزنامہ اطلاعات نے لکھا کہ مغربی اور جنوب مغربی تہران آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ ہوائی اڈوں کی بندش کے خلاف عوام کے دھرنوں اور پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں، بختیار حکومت کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اس نے ہوائی اڈے دوبارہ کھولنے کا اعلان کر دیا۔
امام خمینی کی وطن واپسی

اکتیس جنوری انیس سو اناسی کی شام، امام خمینی رح کا طیارہ فرانس کے چارلز ڈوگلر ایئر پورٹ سے تہران کے لیے روانہ ہوا اور صبح نو بجکر تینتس منٹ پر تہران کے مہرآباد ایئر پورٹ پر اتر گیا۔ طیارے میں متعدد انقلابی سیاستدان، محافظین، امام خمینی کے اہل خانہ کے علاوہ ڈیڑھ سو کے قریب صحافی بھی سوار تھے۔ یکم فروری انیس سو اناسی کو تاریخ انسانی کا سب نہایت پرشکوہ استقبال جلوہ گر ہوا۔ لاکھوں لوگ تہران میں جمع تھے تاکہ امام خمینی کے استقبال میں شرکت کر سکیں۔
امام خمینی کا عوامی استقبال
لوگوں نے سڑکوں اور راستوں کو پھولوں اور جھنڈیوں سے سجایا تھا اور استقبال کرنے والوں کے دلوں میں خوشی اور غم دونوں کا سمندر موجیں مار رہا تھا۔ صبح نو بجکر تینتس منٹ پر، امام خمینی رح ، جن کا ہاتھ فرانسیسی اسٹیورڈ نے تھام رکھا تھا، لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ظاہر ہوئے، لوگوں کی نگاہیں نم ہوگئیں اور فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونجنے لگی۔
امام خمینی رح نے مہر آباد ایئر پورٹ پر اپنے مختصر خطاب میں شاہی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا اور فرمایا، محمد رضا شاہ کی واپسی اور بادشاہت کو باقی رکھنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور ہم عوامی حکومت قائم کریں گے۔ تقریبا پچاس لاکھ لوگوں نے اپنے محبوب قائد کا استقبال کیا اور مہرآباد ایئر پورٹ سے شہیدوں کے قبرستان بہشت زھرا تک کے پینتیس کلومیٹر کا راستہ آپ کے ساتھ ساتھ طے کیا، اس دن تہران میں عوام کا مجمع چار کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔
امام خمینی رح نے بہشت زھرا میں ایران کی شہید پرور قوم سے ہمدردی کا اظہار کیا، دینی حکومت کی تشکیل کی بات کی اور شاہی حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فرمایا، میں حکومت قائم کروں گا اور میں عوام کی حمایت سے حکومت قائم کروں گا۔ نیویارک یونیورسٹی کے اس وقت کے پروفیسر گراہم فولر انقلاب اسلامی اور امریکہ پر اس کے اثرات کے بارے میں کہتے ہیں: انقلاب ایران نے امریکی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی، سیاسی اسلام سے خوفزدہ ہیں، اور ان کی کوشش ہے کہ سیاسی اسلام طاقتور نہ ہونے پائے۔ روزنامہ یروشلم پوسٹ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے موقع پر لکھا کہ : شاہ ایران کا سقوط، نہ صرف خلیج فارس کے سیاسی جغرافیہ پر اثرانداز ہو گا بلکہ طاقت کے توازن کو بھی بدل کر رکھ دے گا[2]۔
- ↑ یوں آغاز ہوا ایک نئی تاریخ کا (اسلامی انقلاب کی تینتالیسویں سالگرہ) - اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 فروری 2025ء۔
- ↑ بانی انقلاب امام خمینی کی ایران آمد، اہم تاریخی واقعہ- شائع شدہ از: 1 فروری 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 فروری 2025ء۔