محمد اقبال لاہوری

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 23:08، 28 دسمبر 2024ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (« '''محمد اقبال لاہوری''' ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877 ء21 اپریل 1938 ء ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر ، مصنف ، قانون دان ، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے ۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ ش...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

محمد اقبال لاہوری ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877 ء21 اپریل 1938 ء ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر ، مصنف ، قانون دان ، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے ۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے ۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا ۔ ” دار یکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام ” کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی ۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کار نامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے ، جو انہوں نے 1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے ۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

سوانح عمری

اقبال کے والد شیخ نور محمد کشمیر کے پروپر ہمنوں کی نسل سے تھے ۔ غازی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جد نے اسلام قبول کیا ۔ اقبال کے آباء و اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آۓ اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوۓ ۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضرور ہوا جس نے فقط دل سے راور کھی ۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے ۔ بزرگوں نے کشمیر مچھوڑا تو سیالکوٹ میں ہے ۔

تعلیم

سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ ملا۔ اسکاچ مشن اسکول میں انٹر میڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہو چکی تھیں لہذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، وہیں رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا با قاعد وآغا ہوتا ہے۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی ، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔

لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی ۔ اس وقت پورا بر صغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا۔ خصوصاً اردوزبان پر ان کی مجزانہ گرفت کا مہر کسی کو اعتراف تھا ۔ اقبال کو یہی گرفت درکار تھی ۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی ۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا ۔ داغ جگت استاد تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی روپ تھے۔

ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا ۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا ۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مگر اقبال اس مختصر سی بنا گردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے ۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا ۔

شاعری

  • کُلیّاتِ اِقبال نثر
  • علم الاقتصاد – 1903ء

فارسی شاعری

  • اسرار خودی – 1915ء
  • رموز بے خودی – 1917ء
  • پیام مشرق – 1923ء
  • زبور عجم – 1917ء
  • جاوید نامہ – 1932ء
  • مسافر – 1936ء
  • پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق – 1931ء

اُردو شاعری

  • مہدف مقالہ: اردو شاعری
  • بانگ درا – 1924ء[22]
  • بال جبریل – 1934ء[23]
  • ضرب کلیم – 1936ء[24]

فارسی +اُردو شاعری

== ارمغان حجاز – 1938ء[25] انگریزی تصانیف فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء – 1908ء اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو – 1930ء ==

وفات

محمد اقبال 21 اپریل 1938 ء بمطابق ۲۰ ، صفر المصفر ۱۳۵۷ ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ اقبال کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔ آپ کا مزار لاہور بادشاہی مسجد کے احاطے میں ہے[1]۔

  1. علامہ اقبال کی سوانح اور شخصیت-20 اپریل 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 دسمبر 2024ء۔