زینب بنت علی
زینب بنت علی | |
---|---|
نام | زینب |
تاریخ ولادت | ۶۲۸ ہجری قمری 5 جمادی الاول |
جائے ولادت | مدینہ |
شهادت | 62 قمری 15 رجب |
القاب |
|
والد ماجد | امام علی علیہ السلام |
والدہ ماجدہ | حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا |
ہمسر | عبد اللہ ابن جعفر |
اولاد |
|
عمر | 56 |
مدفن | دمشق شام |
زینب بنت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی اور امیر المومنین علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی صاحبزادی ہیں۔ آپ ایک عقلمند خاتون ہیں جنہوں نے عاشورہ کے پیغام کی حفاظت اور پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کی۔ حضرت زینب علیہا السلام عالم اسلام کی ان منفرد اور بااثر شخصیات میں سے ایک ہیں جو صلح حدیبیہ کے بعد پانچویں یا چھٹے ہجری میں جمادی الاول کی 5 تاریخ کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے دو سال بعد مدنیہ منورہ میں بنی ہاشم کے محلے میں پیدا ہوئیں۔ واقعہ کربلا اور اس کے بعد اسیری کا دوران ان کا خاص کردار ہے۔ عاشورہ کے واقعہ میں اس خاتون کے صبر و استقامت نے اپنے عزیز و اقارب کے کی شہادت پر صبر اور استقامت کی وجہ سے آپ صبر اور استقامت کا پیکر بن گئی۔ کوفہ اور شام کی اسیری کے دوران ان کے خطبوں نے اموی حکومت کا ظالمانہ اور شرمناک چہرہ عیاں کر دیا۔
سوانح عمری
آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے معتبر ترین روایت کے مطابق آپ کی ولادت ٥ جمادی الاول سن ٦ ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔ حضرت زینب علیہا السلام کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرنے اور ان سے علم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب آپ سات سال کی تھیں تو ان کے نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی انتقال فرما گئیں۔ زینب سلام اللہ علیہا کی شادی عبداللہ بن جعفر طیار علیہ السلام سے ہوئی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے عون اور محمد کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہو گئے۔ دیگر تین عبد اللہ ، عباس، ام کلثوم ہیں۔
آپ کیلئے نام کا انتخاب
جب حضرت زینب س پیدا ہوئیں تو پیغمبر اکرم (ص) مدینہ میں نہیں تھے۔ لہذا حضرت فاطمہ (ع) نے امام علی (ع) کو کہا کہ آپ اس بچی کیلئے کوئی نام انتخاب کریں ۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول خدا (ص) کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ جب پیغمبر اکرم (ص) سفر سے واپس آئے تو حضرت علی (ع) نے انہیں یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس بچی کا نام آپ انتخاب کریں ۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کا نام خدا انتخاب کرے گا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ "خدا نے اس بچی کا نام زینب رکھا ہے"۔
آپ کا بچپن اور تربیت
انسان کی زندگی کا اہم ترین زمانہ اس کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی شخصیت کا قابل توجہ حصہ اس دور میں معرض وجود میں آتا ہے۔ اس سے بھی اہم وہ افراد ہوتے ہیں جو اس کی تربیت میں موثر واقع ہوتے ہیں۔
حضرت زینب س کی خوش قسمتی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی خاتون سیدہ نسائ العالمین حضرت فاطمہ س ہیں اورآپ امام علی ع جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کیلئے "اسوہ حسنہ" ہیں ، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں ۔ لہذا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا ص، امام علی ع اور فاطمہ زھرا س جیسی بے مثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔
حضرت زینب س کی شادی
حضرت زینب(ع) کی شادی ٧١ ہجری میں اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند تھے اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جنکے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔
واقعۂ کربلا میں
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کربلا میں موجود تھیں۔ واقعہ کربلا کے بعد زینب سلام اللہ علیہا کا کردار بہت اہم ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ کو دمشق لے جائی گئیں جہاں یزید کے دربار میں دیا گیا ان کا خطبہ بہت مشہور ہے۔ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا۔
یزید کے مظالم کو بیان کر کے جو یزید نے کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول(ع) پر روا رکھے تھے؛ زینب (ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہوگيا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کے ابتدا تھی۔
واقعہ کربلا کے بعد
کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ لہذا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے ایک مقدس اور اعلی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی۔ لیکن اگر حضرت زینب (س) اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام زحمتیں ضائع ہو جاتیں۔
لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم آج شہدای کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب حضرت زینب س کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے انہیں "شریک? الحسین ع" کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین ع اور انکے ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کے رستے میں جہاد کیا تو حضرت زینب س نے اپنے کلام کے ذریعے اس جہاد کو اپنی آخری منزل تک پہنچایا۔
کربلا میں سرور شہیدان امام حسین ع اور انکے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سوچ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اسکے مخالفین کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو گیا ہے۔ لیکن حضرت زینب (س) کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہو گیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اسکی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے۔
القاب
تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں:
ثانیِ زہرا،
- عالمہ غیر معلمہ
- نائبۃ الزھراء
- عقیلہ بنی ہاشم
- نائبۃ الحسین
- صدیقہ صغری
- محدثہ
- زاہدہ
- فاضلہ
- شریکۃ الحسین
- راضیہ بالقدر والقضاء
آپ کی کرامت
زینب (سلام اللہ علیہا) جس طرح بھائی سے محبت اور خدا کی عبادت کے حوالے سے معروف ہیں اسی طرح آپ کی کرامتوں کے واقعات بھی آپ کے کریمہ ہونے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ جود و سخاوت، مدد، کرامت، عطا، اہلبیت (علیھم السلام) کے گھرانہ کا خاصہ ہے اور یہ خصوصیت اس گھرانہ کے معصومین سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس گھرانے کے غیر معصوم افراد بھی ایسے کمال کے مرتبہ پر فائز تھے جو اپنے کو عصمت کے دائرہ سے نزدیک پہونچا چکے تھے جن میں سر فہرست جناب زینب(سلام اللہ علیھا) اور جناب عباس(علیہ السلام) ہیں۔
حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) کی کرامت کے واقعات کتابوں میں موجود ہیں، ہم یہاں پر صرف ایک واقعہ کو ذکر کررہے ہیں۔ مرحوم محمد رحیم اسماعیل بیک، اہلبیت(علیہم السلام) سے محبت اور امام حسین(علیہ السلام) سے توسل کے لئے معروف تھے اور اس حوالے سے انھیں بہت سی ظاہری اور معنوی برکتیں حاصل ہوئیں۔
منقول ہے کہ چھ سال کی عمر میں وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہوئے اور ۳ سال تک اس بیماری میں گرفتار رہے اور پھر دونوں آنکھوں سے نابینا ہوگئے۔ ماہ محرم میں انکے ماموں مرحوم حاج محمد تقی اسماعیل بیک کے گھر میں مجلس عزا تھی، گرمی کا موسم تھا اور مجلس میں شربت تقسیم ہو رہا تھا، انھوں نے اپنے ماموں سے کہا کہ انھیں بھی شربت تقسیم کرنے کی اجازت دیں۔ ان کے ماموں نے فرمایا کہ تمھارے تو آنکھ نہیں ہے، تو انھوں نے کہا کہ اس کام کے لئے کسی کو میرا مددگار بنا دیں، درخواست قبول کی اور پھر انہی کے ساتھ مل کر عزاداروں کے بیچ شربت تقسیم کیا۔
مرحوم معین الشریعہ اصطھباناتی مجلس پڑھ رہے تھے، انھوں نے جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کے مصائب بیان کئے جس سے محمد رحیم بہت متأثر ہوئے، بہت روئے اور نڈھال ہوگئے، اسی حالت میں ایک باعظمت خاتون کو دیکھا( انکو الہام ہوا کہ وہ جناب زینب ہیں)، اس نورانی خاتون نے اپنے دست مبارک کو انکی آنکھ پر پھیر کر فرمایا: ’’اب تم ٹھیک ہوگئے ہو اور اب آنکھ کے درد میں مبتلا نہیں ہوگے‘‘ ناگاہ آنکھ کھولی تو مجلس میں موجود افراد کو دیکھا اور خوش ہوکر اپنے ماموں کی طرف دوڑے، مجلس میں موجود تمام افراد کا دل منقلب ہوگیا اور سب انکے ارد گرد اکٹھا ہوگئے پھر انکے ماموں نے انھیں دوسرے کمرہ میں بھیج دیا۔ زینب (سلام اللہ علیہا) سے توسل کی برکتوں میں سے ہے جو انھیں شفا ملی اور بینائی حاصل ہوئی [1]۔
آپ کے خطبات
جناب زینب (س) کے خطبات میں ان کے والد امام علی (ع) کی فصاحت اور بلاغت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لہذا جس طرح امیرالمومنین علی (ع) کے کلام کو بزرگ علماء نے قیمتی موتیوں کی طرح جمع کیا ہے اسی طرح حضرت زینب س کے خطبات کو بھی بڑے بڑے محققین اور تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ ان میں مرحوم محمد باقر مجلسی کی کتاب "بحارالانوار"، مرحوم ابومنصور احمد ابن علی طبرسی کی کتاب "احتجاج"، شیخ مفید رہ کی کتاب "امالی" اور احمد ابن ابی طاہر کی کتاب "بلاغات النسائ " شامل ہیں۔
- ↑ شہید دستغیب، داستان ھای شگفت، ص ۵۲۔