عالمی سیاست پر انقلاب اسلامی ایران کے اثرات
عالمی سیاست پر انقلاب اسلامی ایران کے اثرات بیسویں عیسوی صدی کے آخر میں اسلامی انقلاب ایران کا وقوع پذیر ہونا، بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، جس کی مختلف زاویوں سے دقت کے ساتھ مطالعہ کی ضرورت تو پہلے سے ہی تھی۔ بعض مکانی اور زمانی خصوصیات اور خطے میں اسکے بڑھتے ہوے اثرات کی وجہ سے اسکی اہمیت اب اور بھی بڑھ گئی ہے، ایران اس وقت عالمی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
مقدمہ
ایران کا اسلامی انقلاب ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب دنیا بھر میں دین کا سماجی اور سیاسی چہرا عالمی منظر سے ناپید ہوتا جارہا تھا اور اسلامی حکومت کا تصور ایک قصہ پارینہ ہوچکا تھا-اگرچہ آج جبکہ انقلاب کو برٍپا ہوۓ 45 برس ہوچکے ہیں اور سامراجی طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف خطے کی سب سے مضبوط فوجی اور سیاسی لحاظ سے بانفوذ قدرت بن چکا ہے، جس کو معروف برطانوی تجزیہ نگار رابرٹ فکس اسطرح تحلیل کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں" ایران کے ہاتھوں عراق اور شام میں داعش کی شکست کے بعد مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی عملا ناکام ہوچکی ہے" مغربی استعماری طاقتوں سے مرعوب کچھ اہل قلم کیلیے اب بھی اسلامی سیاسی نظریہ کانفاذ غیر ممکن نظر آتے ہے۔ انقلاب ایران ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب شاہ کی حکومت کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پھر پور حمایت حاصل تھی۔ ایران اور اسکے ہمسایہ ممالک انرجی کے مرکز تھے، یہ علاقہ عالمی اقتصاد کے لئے ریڑہ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ سے نکل کر انقلابی قیادت کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ جن کی اولین ترجیحات استکباری نظام اور استعماری سیاست کا خاتمہ اور اسلامی قوانین کا نفاذ تھا، یہ وہ مقاصد تھے جن کیلیے اسلامی تنظیمیں اور خطے کے مسلمان اپنے اپنے طور پر گذشتہ ایک صدی سے کوشش کررہے تھے ۔ اس لیے انقلاب نے اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے دل میں اپنے ممالک میں بھی اسلامی حکومت کے قیام کی آرزو اور اسکے لیے کوششں کرنے والوں میں امید کی تازہ روح پھونک دی۔ البتہ دوسری طرف سے ایران خطے کی استبدادی اور شہنشاہی حکومتوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے جو ایک طبیعی عکس العمل تھا کیوں کہ عرب حکمران بخوبی آگاہ تھے کے یہ انقلاب ایران تک محدود نہی رہے گا،عنقریب انکی عوام بھی آزادی اور اسلامی حکومت کا مطالبہ کرینگے ۔ دوسری طرف سے ایک ایسی آزاد اسلامی حکومت کا قیام، جس کا نعرہ نہ شرقی و نہ غربی تھا ،مغربی دنیا سے بھی اس کے تعلقات پر اثر پڑا کیونکہ اس انقلاب سے یورپی خاص کر امریکی معاشی اور سیاسی منصوبوں کو شدید دھچکا لگا اور ان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے۔ اس لیے انقلاب کے فورا بعد صدام حسین نے ایران عراق سے امن معاہدہ کی یک سر خلاف ورزی کرتے ہوے ،امریکہ ،یورٍپ اور خطے کی بعض حکومتوں کی مالی،تسلیحاتی اور فوجی مدد کے ساتھ ایران پر حملہ کیا گیا، اور یورپی حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ کیمیکل ہتیاروں سے بے گناہ شہریوں پر حملے کر کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ اور ان ہی انسانی حقوق اور جمہوریت کے دعوے دار طاقتوں نے اپنی نا حق ویٹو پاور کو استعمال کرکے ہوۓ صدام جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف پیش ہونے والی کسی بھی مزمتی قرارداد کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ انقلاب کے عالمی اثرات کو ایران کی جیوپولیٹک اور جیو اسٹراٹیجک حیثیت نے اور زیادہ شدت بخشی۔ یہ انقلاب لیبریزم اور سوشلزم کے مقابلے میں، تیسری دنیا کے مستعضف اور پسے ہوے عوام لیے ایک رول ماڈل اورآرمان میں بدل ہو گیا۔ جس کے نتیجہ میں عالمی سیاست میں اسلامی انقلاب ایک تیسری نئی قوت اور نظریہ کی صورت میں ابھر کے سامنے آیا ۔
انقلاب کی تعریف
لفظ انقلاب پہلی نظر میں ایک ملک کی سیاسی حکومت میں بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ انقلاب ایک دیرینہ عادت میں اچانک تبدیلی کا نام ہے۔ حکومت قانون وضع کرتی ہے، اسے نافذ کرتی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو سزادیتی ہے۔ اچانک ایک حکومت سے یہ سب اختیارات سلب ہو جائیں اور اس نظام سے تعلق رکھنے والے دور و نزدیک کے تمام افراد سیاسی اور سماجی اختیارات سلب ہوجائیں اور ایک حکومت جو تمام سیاسی اقتدار، سماجی اور ثقافتی مراکز کو کنٹرول کر کے معاشرے کے اتار چڑھاؤ کو جو اپنے قابو میں رکھتی تھی، اچانک سرنگون ہوجاۓ اور اسکی جگہ پر ایک نئی حکومت بر سر اقتدار آجاۓ [1]۔
شورش اور مارشل لا
بغاوت، شورش اور ناراضگی کے بحران کے نتیجہ میں سیاسی نظام کے ایڈمنسڑیشن میں تبدیلی آتی ہیں، لیکن اس کی بنیادوں کو اکھاڑ کر ان کو بالکل تبدیل کرنے کا سبب نہیں بنتے۔ بغاوت میں صرف خود تبدیلی کی اہمیت ہے نہ اس کی جگہ پر جانشین نظام کی۔ جو معاشرہ حکمران طبقہ سے مکمل طور پر ناامید نہ ہوا ہو، وہ امید رکھتا ہے کہ بعض اصلاحات کے ذریعہ معاشرہ پر حکمراں طبقہ کے حالات میں کسی طرح تبدیلی ایجاد کرکے کم سے کم نقصان پر اپنے مطالبات کو معمول کے مطابق نظام کے اندر ہی پورا کرے۔ اس تحریک اور تبدیلی کو اصلاحات کہتے ہیں۔ لفظ "انقلاب" کی تعریف میں پاۓ جانے والے تمام اختلافات کے باوجود، ایک نکتہ جو یقینی طور پر ہر ایک کے نزدیک مطلوب ہے وہ یہ کہ انقلاب کا معنی:" ایک معاشرہ کے اندر مختلف جہتوں سے تحول یعنی تحمیلی اقتدار و اعتقاد، سیاسی اداروں، اجتماعی ڈھانچوں، قیادت کے آئین و اصول اور سرگرمیوں میں فوری اور بنیادی تبدیلی لانے کی ایک تحریک ہے جو تشدد کے ساتھ ہو۔"
صدور انقلاب کے بارے میں امام خمینی (س ح) کا فرمان
امام خمینی(رہ) ایک ایسے عظیم انقلاب کے موجد و بانی تھے جس نے شہنشاہوں کے2500سالہ اقتدار کا یکسر خاتمہ کیا ۔[2]۔ انہوں نے اپنی بے لوث و پرخلوص قیادت کے بل بوتے پر امریکہ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے ایک خالص اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا (اور دنیا بہر میں اسکے فروغ کیلیے آخری دم تک اپنی کوششیں جاری رکھی)[3]۔ دیکھتے ہی دیکھتے سرزمین ایران کے پاکیزہ دل نوجوان، اور خواتین جن کے سینوں میں اسلامی جوش وخروش اور انقلابی لہر موجزن تھی ‘ عیش وآرام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے [4]۔ انہوں نے شاہی نظام کے مقابلے میں، امام خمینی(رہ) کے فرمان پر لبیک کہتے ہوے،سلطنتی نظام کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا نعرہ بلند کیا۔ الغرض پرخلوص اور دیانتدارانہ قیادت کے زیر اثرپسی ہویی قوم کواسلامی انقلاب کے طلوع کی خوش خبری سننے کو ملی ۔ امام خمینی (ر ح) کا مقصد صرف ایرانی قوم کی بیداری نہیں تھا بلکہ آپ دنیا کے سوۓ ہوۓ اقوام کو اپنے حقوق کے دفاع اور ظالم ،استعماری اور انکی حمایت سے قائم ہونے والی استبدادی حکومتوں کے خلاف قیام کیلیے بیدار کرنا تھا اس لیے آپ نے فرمایا:" اس انقلاب کوصادر (اس انقلابی فکر کو دوسری قوموں تک پہچانے) کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تمام سپر طاقتیں اور دیگر حکومتیں ہمیں نابود کرنا چاہتی ہیں، اگر ہم ایک بند ماحول میں رہیں تو اس کا نتیجہ نا کامی اور شکست ہوگا۔"[5]۔ امام کے اس پیام میں ایک مضبوط پبلک ڈیپلومیسی کی طرف راہنمای تھی جو امام کی عالمی سوچ کی غماصی کرتی ہے۔ الحمد للہ امام کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور مختصر مدت میں اس کا اثر پوری دنیا پر پڑھا اور اسکے اثرات دنیا پر نمایان ہوے۔ جن کو ہم اختصار کے ساتھ ذیل میں بیان کررہے ہیں۔
انقلاب اسلامی ایران کا عمومی اثر
1۔حکومتوں پر اسلامی انقلاب کا اثر
ایران میں حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی(ر ح) کی زیر قیادت اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد دنیا بھر کے دانشمندوں، سیاست دانوں اور اہل فکرحضرات کے ذہنوں میں ایک مشترک سوال تھا جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پوری مہذب دنیا کی فضا، عالمی نشریاتی اداروں،، ریڈیو، ٹی وی، تعلیمی اداروں اور ثقافتی مراکز میں اس سوال کو اٹھایا جارہا تھا کہ نو مولود شیعہ و اسلامی انقلاب جس کے قائد حضرت امام خمینی (ر ح) ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ [6]۔ پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا ؟ جس شاہی دور میں ان کو پوری آزادی حاصل تھی عیاشی اور آرام کرنے کے مکمل مواقع تھے۔ شراب کھلے عام پی سکتے تھے۔ کلبوں میں ننگے ناچ سکتے تھے وسائل کی فراوانی، موٹر کار، بنگلہ، کرنسی عام تھی۔ ان تمام تر آسائشوں کو چھوڑ کر ایرانی شیعہ مسلمانوں نے اللہ اکبر فقط قرآن و اسلام کی خاطر مصیبتوں اذیتوں اور قربانیوں کا راستہ کیوں اختیار کیا ؟ اس کا جواب خود امام خمینی نے دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:" پیامبران الہی اگر مبعوث بہ رسالت ہوۓ ہے تو اسکا مقصد معاشروں کی اصلاح تھی اور ان ظالم طاقتوں کے بنیادوں کو ہلانا تھا، جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں [7]۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ۔ اور یقیناً ہم نے ہر ایک امت میں کوئی نہ کوئی رسول (یہ پیغام دے کر) ضرور بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو پس ان (امتوں) میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مستقر اور ثابت ہوگئی [8]۔ اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں دین اسلام بحیثیت طاقت کے طور پر کیسےابھرا ؟ جب امام خمینی (ر ح) کی قیادت میںاسلامی انقلاب برپا ہوا تو اقوام متحدہ کے اکثر رکن ممالک یہاں تک اسلامی حکومتوں نے بھی اس انقلاب کا استقبال نہیں کیا۔ بلکہ اکثر ممالک حیران اور پریشان اور سرگران تھےکیونکہ ایک ایسے واقعہ اور حادثہ کا رونما ہونا ان کے لئے بالکل قابل پیش بینی نہ تھا [9]۔ دوسری طرف دنیا کے ساری حکومتیں مستقبل میں اپنے معاشرہ پر اس انقلاب کے اثرات سے خوفزدہ اور خائف تھی۔ ساری حکومتیں اپنے بقاء کے لئے سوچ رہی تھی۔ اور کسی بھی ممکنہ عوامی تحریک سے خوفزدہ تھے۔ بلا ایسے انقلاب کا استقبال اور خیر مقدم نہ کرنا عادی سی بات تھی۔ خاص طور پر ایسی حکومتیں جن کے سیاسی نظام سیکولر تھے جس کی ملکی اساس دین اور سیاست کی جدایی پر مبنی تھی ۔ اس لیے اسلامی انقلاب خطرناک ہونا ایک مسلم بات تھی کیونکہ موجودہ حالات کو ختم کر کے ایک نیا سسٹم اور نیا افکار کو پیش کیا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک اور امریکہ اس انقلاب کےمقابلے میں سخت ترین دشمن بن کر سامنے آے اور اس نومولود انقلاب کے خاتمے کیلیے اپنی تمام وسایل کو بروکار لاے اس دشمنی اور کینہ کی دو بنیادی وجہ تھی [10] 1۔کیونکہ شہنشاہی حکومت اور اسکا نظام کلی طور پر یورپ اور آمریکہ سے وابستہ تھا۔ لیکن انقلاب کے آنے کے بعد ان کے تمام مفادات خطرے میں پڑھ گئے۔ 2۔ اصولی طور پر دینی اور مذہبی اعتقادات اور اصول پر مبنی انقلابات لیبرل اور سیکولر نظام کو چیلینج کرتے ہوۓ ان کی آئیڈیالوجی اور مستقبل کو نابود کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان حکومتوں کی ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک ہونے کو بھی نظر آنداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے الفاظ میں جو ممالک ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے نزدیک اور اس ملک کے ہمساۓ تھے، وہاں انقلاب کے اثرات کو محسوس کیا جا رہا تھا اور عوام میں اس انقلاب کی مقبولیت اور نفوذ کا زیادہ خطرہ تھا لہذا ان ممالک نے انقلاب کے ممکنہ اثرات کو روکنے کیلیے سخت اقدامات کیے ۔ اسلامی حکومتوں کا رویہ بھی انقلاب کے ساتھ منفی تھا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، بلکہ مختلف حیلے و بہانوں سے انقلاب کو ناکام کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا [11]۔
اقوام عالم پر انقلاب اسلامی کا اثر
چونکہ انقلاب اسلامی ایک عوامی انقلاب تھا اس لیے اقوام عالم کو اپنی طرف متوجہ کیا اور عوام نے اسکو مستضعفین کیلیے نیک شگون سمجھا۔ البتہ انقلاب کی مقبولیت اور حمایت کہیں زیادہ اور کہیں کم تھی جسکی مختلف مذبہی اور سیاسی وجوہات تھی۔ ایرانی عوام کے انقلابی مقاصد میں جتنی یک جہتی تھی، اسی اعتبار سے اسے دیگر اقوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ چونکہ ان اقوام کےارباب اقتدار اپنی عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ ان میں سے اکثر حکمران طبقاتی اقتدار کو پسند کرتے تھے اور ایک خاص ٹولہ کی اقتدارتھی، وسایل اور حکومت پر قابض تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انکی حکومتیں ایرانی شہنشاہیت کے ساتھ زیادہ شباہت رکھتی تھی۔ دنیا کے مظلوموں اور اکثر عوام نے اس انقلاب کے ساتھ ہمدردی اور ہمدلی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف کیونکہ اسلامی انقلاب میں ثقافتی اور مذہبی پہلو زیادہ نمایاں تھا اور دینی احکامات کو اس ملک میں نفاذ کرنے کیلے یہ انقلاب برپا ہوا تھا، اسلیے وہ قومیں جو ثقافتی اور مذہبی حوالہ سے ایران کے ساتھ زیادہ نزدیک تھی، اس انقلاب سے زیادہ مثاتر ہوئی۔ اسی بناء پر مسلمان قوم خصوصیت کے ساتھ شیعوں نے سب سے زیادہ انقلاب اسلامی کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور در واقع وہ اپنا انقلاب سمجھتے تھے۔ انقلاب کا اثر ان معاشروں پر بہت کم پڑھا جن کے ایران کے ساتھ روابط اچھے نہ تھے۔جسکی وجہ سے انقلاب اسلامی کے حوالے سےان تک صحیح خبریں نہیں پہنچتی تھی، یا یورپی ممالک، امریکہ اور وہ ممالک جو یورپ اور امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوۓ تھے، ان ممالک نے میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ اس انقلاب اور نظام کے خلاف کھل کر غلط اور منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔(امرائی،1383: 276)
بین الاقوامی نظام پر انقلاب اسلامی کا اثر
جس وقت اسلامی انقلاب قائم ہوا، اس وقت عالمی معاشی اور سیاسی نظام مغربی سرمایہ داری اور لیبرال ڈیموکریسی کی بنیاد پر چل رہا تھا جو تقریبا چار صدیوں سے ایک کامیاب سسٹم کی حیثیت سے عالمی سوسائٹی پرراج تھا۔ دنیا میں فکری، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تمام جدید نظریات، مغرب میں بھی مطرح ہوۓ ۔ اور بغیر کسی مخالفت کے انکو قبول بھی کیا گیا ۔ درحالیکہ اسلامی انقلاب نے ان تمام شعبہ حیات میں مغربی نظریات کو چیلنیج کیا اور اسکے مقابلے میں ایک جدید نظام متعارف کرایا [12]۔ لہذا بہ طور نتیجہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کی وجہ سے مغربی افکار اور نظریات پر عالمی سطح پر گہرا اثر پڑا جسکی اثرات عالمی سیاست پر نمایاں ہونے لگے، جن کو ہم ذیل میں بیان کریں گے۔
الف) ایک جامع مکتب اور دین کی حیثیت سے عالمی سطح پر دین اسلام کا احیاء۔
اسلامی انقلاب کا سب سے نمایاں پہلو، اسلامی افکار اور اقدارکا احیاء تھا کیونکہ انقلاب کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اقوام عالم، خصوصیت کے ساتھ اسلامی دنیا کو، دین اسلامی کی مبانی، افکار اور نظریات سے آگاہ کرنا تھا۔ اسلامی انقلاب نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ ادیان مخصوصا دین اسلام 14 سو سال گزرنے کے باوجود اور مغرب کی ہوش ربا ترقیوں کے باوجود، نہ فقط اسکی اہمیت میں کمی آئی ہے بلکہ آج بھی مادیات میں ڈوبے ہوۓ انسانیت اور اس کائنات میں عالم بشریت اور مظلوموں کی نجات کا واحد راستہ دین اسلام کے فرامین پر عمل پیرا ہونے میں مضمرہے۔ اور دنیاوی لذات میں ڈوبے ہوۓ انسان کو صرف دین اسلام نجات دلا سکتا ہے۔ انقلاب نے روحی طور پر مردہ بشریت کیلیے ایک معنوی طاقت اور دینی اعتقادات کا دوازہ کہولا۔ جس کے ذریعہ اقوام عالم خصوصیت کے ساتھ نوجوان نسل جو دنیا پرستی اور مادی پرستی کے دلدل میں پھسے ہوۓ تھے، اسلام نے اپنی اغوش لیا، ، اسلامی انقلاب کے بعد قرآن اور اسکی آیات ایک نیا معنی اور مفہوم پیدا کرنے لگی [13]۔
ب) دو بلاگ نظام کا خاتمہ
اسلامی انقلاب نے دنیا کے دو بلاگ غربی نظام کو اپنے وجود میں آتے ہی نہ صرف چیلنج کیا بلکہ اس کے بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا نتیجہ کے طور پر دو سپر پاور طاقتیں جو ایک دوسرے کو نیچلے دکھانے کے درپےتھی، اپنے درمیان موجود اختلافات کو چھوڑ کر اس نئے انقلاب کے خلاف نبرد آزما ہوگئی، یہاں تک دو بلاگ نظام کے خاتمہ کے بعد بھی انقلاب نےمغرب کے ایک بلاگ نظام کیلیے عالمگیر اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریات کو چیلنچ کیا اور ایک ایسے نظام کو بروۓ کار لانے کی کوشش، جو مغربی معیاروں اور افکار سے مختلف تھا۔
ج) عالمی اختلافات کا رخ بدلنا
عام طور پر عالمی سطح پر حکومتوں کے درمیان پاۓ جانے والے اختلافات صلح و مقتدر حکومتوں کی ثالثی کے ذریعہ حل کیے جاتے تھے ۔ اسلامی انقلاب نے نا صرف صلح کے ان طریقوں پر اثر چھوڑا بلکہ عالمی مسائل میں اصلی ایکٹرز کے اثر ورسوخ کو کم کرکے ایک نیا بلاک بنایا جس کا مقصد عالمی سامراجی قوتوں کے مفادات تحفظ نھی بلکہ ارباب اقتدار اور مفاد پرست ٹولے کے مقابلےمیں دنیا کے مظلوم عوام کا دفاع کرنا تھا۔ دوسری طرف اب تک قومی ، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والی جنگوں کو نئی جہت دی، اور دنیا کو دو استکبار اور مستضعفین گروہ میں تقسیم کرکے عالمی سطح پر ایک نئی سیاست کا باب کھولا ۔
د) بین الاقوامی سطح پر نۓ اسلامی بلاگ کا قیام
اسلامی انقلاب کی ایک نمایاں کامیابی، پہلی مرتبہ جدید ماڈرن دنیا میں اسلامی معیاروں اور اقداروں پر مبتنی، اسلامی سیاسی نظریہ کو کامیابی کے ساتھ پیش کرنا تھا - ماہرین سیاسیات، بین الاقوامی مبصرین اور تجزیہ نگاروں، سب ہی نے اپنے طور پر اس جدید نظریہ کو تجزیہ کیا اور اسکے بارے میں اپنے علمی تبصرے پیش کیے۔ عملی میدان میں بھی اسلامی انقلاب نے تمام مغربی اسٹراٹیجیز کو چلینچ کیا اور یورپ کے لئے سب سے بڑی نگران کن بات یہ تھی کہ انقلاب کا آغاز اس سر زمین سے ہواجو اسکے کاملا زیر اثر تھی [14]۔
ھ) اسلام کا با عنوان بین الاقوامی نظام کے طور پر تعارف
اسلامی انقلاب کی کامیابی مسلمان قوم کی بیداری کا سبب بنا اور اس نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک مشترک جدوجہد کا عالمی پلیٹ فارم مہیا کیا۔
ح) بین الاقوامی طاقت کی معیاروں کو بین الاقوامی سطح پر تبدیل کردینا
مختلف ممالک کو طاقت کے بل بوتے پر مختلف بلاگ میں تقسیم کیا ہوا تھا اور اس کا معیار دفاعی، سیاسی، جغرافیائی، مالی اور اقتصادی لحاظ سے زيادہ طاقتور ہونا تھا یعنی جو ملک ان سیکٹرز میں آگے ہونگے ان کو عالمی سطح پر زیادہ طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسلامی انقلاب قائم ہوا تو اس نے عالمی سطح پر ایک قومی موومنٹ اور جنبش تیار کیا جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور ان کا اسلحہ خدا پر ایمان اور ظلم کے چکی میں پسی ہوئی دنیا کے مظلوموں کی حمایت تھا۔ اور ان کے دشمن دنیا کے تمام ماڈرن اسلحوں سے لیس،اور سپر پاورز حکومتوں کی پشت پناہی حاصل تھی [15]۔ ریگن کی حکومت کی نگاہ میں ایران عمومی طور پر بین الاقوامی دہشت گردی اور عالمگیر انقلاب کے مترادف تھا۔ موجودہ ایران اپنے ابتدائی دہائی کو انقلاب کے بنیادوں کو مضبوط کرنا دوسرا انقلاب کو بر آمد کرنے کے، دو ہدف اور مقصد سے آغاز کیا۔ ایک جدید اسلامی جمہوریہ کا آئین تیار ہوا جس کے تحت ایک پارلمانی منتخب حکومت جو شریعت اسلامی کے ما تحت چلے گی۔ آیت اللہ خمینی (رح) ولایت کے مقام پر فائز ہوا اور عام عہدہ داروں، جیسے مہدی بازرگان اور ابو الحسن بنی صدر نے مختصر مدت کے لۓ کچھ مسئولیت اور ذمہ داریوں کو سنبھالا۔ 1981ء کو علماء نے مؤثر اور ہنگامی اقدامات کے ذریعہ حکومت پر کنٹرول کیا۔ اور داخلی مخالفین کو کچلتے سے اہم مراکز کو اپنے قبضہ میں لیا۔ نتیجہ کے طور پر ایران کے معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر تبدیلی آئی ۔ ایک گروپ جو علماء اور انقلاب کے فرزندوں پر مشتمل تھا، حکومت اور اجرائی امور کو اپنے کنٹرول میں لیا۔
اسلامی انقلاب کا عالمی سطح پر اثرات
ایرانی انقلاب کا دوسرے مسلم ممالک پر اثرات کا جائزہ لینے کے لۓ ایک طرف خود ایران کی جد و جہد پر وابستہ ہے ، تو دوسری طرف اس ملک کے دوسرے ملک اور علاقہ کے موقعیت کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ اسی وجہ سے تجزيہ اور تبصرہ بنیادی طور پر اس ملک اور علاقہ کی موقعیت کے تحت ہونی چاہۓ، علاقائی تعلیم یافتہ (ایلکچولز) طبقہ ہئیت کی ترکیبہ، اسلامی گروہوں اور مخالف گروہوں کی ماہیت اور علاقائی عوامل کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
ایرانی انقلاب کے چار اثرات
1۔(لبنان، بحرین) کے ملکوں میں ایران کی مداخلت نمایاں اور آشکار تھی۔ 2۔ دنیا کے بڑی تعداد کے ملکوں میں اس انقلاب کے آئیڈیل اور حوصلہ آفزائیوں نے اسلامی سیاسی گروہوں کو تقویت ملی اور وہ زيادہ محرک ہوگۓ۔ (مصر، سوڈان، نائجریا، روس، پاکستان اور فلپائن) وغیرہ۔ 3۔ایران کے انقلاب نے اسلامی افکار اور آئیڈیالوجی کو بیدار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا(سوڈان، مصر، ملیشا اور انڈونیشا) 4۔عمومی سطح پر ایرانی انقلاب کے آئیڈیل اور کارکردگی کو بعض حکومتوں نے مناسب بہانہ اور دلیل قرار دیتے ہوۓ، اسلامی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی 1-قرآن کریم
2۔ معبادی، حمید – رخدادی، حسن ، قدرت ہای بزرگ و جہوری اسلامی ایران،تہران:مرکز اسناد انقلاب اسلامی،1385۔
3۔ طاہری، سید مہدی ازخوانی تاثیرات انقلاب اسلامی بر بیداری مسلمانان، سید مہدی طاہری، بازتاب انقلاب اسلامی بر نظام بین الملل،مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی(ص)،1388۔ 4۔ مجرد، محسن ، تاثیر انقلاب اسلامی بر سیاست بین الملل،تہران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1386۔ 5۔ خمینی، روح اللہ ،صحیفہ امام، تہران:وزات ارشاد اسلامی،1361۔ 6۔ فاضل، احمد خطیب دمشق،انقلاب اسلامی ایران امام خمینی سے رہبر خامنہ ای تک، ادارہ فروغ افکار امام خمینی(الحسین اکیڈمی) لاہور1998۔ 7۔ آیین انقلاب اسلامی، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، تہران: انتشارات مرکز انقلاب اسلامی 1389۔ 8۔ خرمشاد، محمد باقر و ہمکاران، بازتابھای انقلاب اسلامی، تہران: انتشارات سمت،1393۔ 9۔ منصوری، جواد، جنگ فرہنگی علیہ انقلاب اسلامی،مشہد: آستان قدس رضوی،1369۔ 10۔ حشمت زادہ، محمد باقر ،تاثیر انقلاب اسلامی بر کشورھای اسلامی،تہران: سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی،1387۔ 11۔ امرایی، حمزہ ، انقلاب اسلامی ایران ، جنبش ھای اسلامی معاصر،تہران: انتشارات مرکز انقلاب اسلامی،1383۔ 12۔ فلاح نژاد، علی ، سیاست صدور انقلاب اسلامی،تہران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی،1384۔ 13۔ اسپوزیتو،جان ال ، انقلاب ایران ر بازتاب جہانی آن، ترجمہ، محسن مدیر شانہ چی،تہران:انتشارات باز۔ 14۔۔فرانسواتوال،ژئوپلیتک شیعہ، ترجمہ، کتایون باصر،تہران:انتشارات ویستار،1384۔ 15۔ چوہدری، محمد اعظم ،بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، کراچی: قمر کتاب گھر، اردو بازار ،2004۔ 16۔منوچہر محمدی، اسلامی انقلاب کا پس منظر اور اس کے نتائج، ترجمہ، سید قلبی حسین رضوی، مجمع جہانی اہل بیت(ع)،طبع اول، 1428ھ- 2007ء۔