شب برات
شب برات ابتداء اسلام سے عبادت کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور براءت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی (اس رات کو شبِ برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بنوں کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے۔ نیمۂ شعبان کی شب کو لیلۃ المبارکہ اور لیلۃ الرحمۃ بھی کہا گیا ہے جو اس شب کے خاص مقام و مرتبے کی حکایت کرتا ہے۔ شب نیمہ شعبان درحقیقت ہمارے لئے اپنے وجود، اپنے قلب اور اپنی روح کو اللہ کی طرف راغب کرنے کا ایک خوبصورت موقع ہے۔ قرآن مجید اور معصومین کے کلام کی روشنی میں دنیا اور آخرت کا آپس میں مقایسے کا بہترین وقت ہے۔ سفر کرنے کی رات ہے، سیر کرنے کا موقع ہے۔
شب برات کی فضیلت اور عظمت
دین اسلام کا اپنا الگ کیلینڈر ہے جسکی بنیاد ہجرت کے قمری سال پر رکھی گئی ہے۔ اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان کہلاتا ہے، یہ مہینہ بڑے تقدس اور عظمت کا حامل ہے۔ اس مہینے کی 15ویں شب جسے عوام میں شبِ برات یا برائت کے نام سے پہچانا جاتا ہے، نہایت عظمت و برکت کی حامل شب ہے، جو سال کی اہم ترین شبوں یعنی شبہائے قدر کے بعد سب سے زیادہ باعظمت شب قرار دی گئی ہے۔ یہ شب بندوں کی اپنے کردگار سے راز و نیاز اور دعا و مناجات کی شب ہے، اس شب بندوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ نیمۂ شعبان کی اہمیت و منزلت کے پیش نظر اس شب میں شب بیداری پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ اس شب کے لئے احادیث شریفہ میں خاص اعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
شبِ برات اسلامی سال کی ایک مبارک اور فضیلت والی رات
شبِ برات اسلامی سال کی ایک مبارک اور فضیلت والی رات مانی جاتی ہے، جو شعبان کی 15ویں شب کو آتی ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور برکتوں سے معمور سمجھا جاتا ہے۔ بعض علماء کے مطابق شبِ برات وہ عظیم رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت کے ساتھ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مغفرت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
اس رات کو توبہ، استغفار، اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین موقع سمجھا جاتا ہے۔ اور مانا جاتا ہے کہ جو بھی خلوصِ دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، اللہ اسے معاف فرما دیتا ہے، کیونکہ وہ ”غفار“ ہے، یعنی بار بار معاف کرنے والا۔ اس رات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شب میں آسمانِ دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے، سوائے ان کے جو کینہ پرور، والدین کے نافرمان، یا کسی کے حقوق تلف کرنے والے ہوں۔ اسی لیے شبِ برات کو عبادت، توبہ، استغفار، اور دعا کے لیے خاص طور پر اہم سمجھا جاتا ہے۔
اس رات میں مسلمان نوافل ادا کرتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، درود و سلام پڑھتے ہیں اور اللہ سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ قبرستان بھی جاتے ہیں تاکہ اپنے مرحومین کے لیے دعا کریں۔ اس سلسلے میں آج ٹی وی کے پروگرام ”آج پاکستان“ میں سدرہ اقبال نے بھرپور گفتگو کی اورپروگرام کے مہمانانِ گرامی سے سوالات کئے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی رات استغفار کی رات ہے، عبادتوں کی رات ہے، ہمیں نہیں پتہ ہمیں کتنی بار عطا ہوگی جتنا ہوسکتا ہے اس رات میں اللہ رب العزت کا قرب اور رحمتیں سمیٹ لیں۔ انہوں نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اورآنلائن موجود مفتی نوررحمانی سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا۔ مفتی نور رحمانی نے انڈیا کے سفر کا ذکر کیا اور خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ کے اجمیر شریف مزار پر حاضری پر شکر ادا کیا، اس کے ساتھ ہی انہون نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہہ اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو کی۔
علامہ حسین مسعودی نے درود و سلام کے ساتھ قران کی آیات کا حوالہ دے کر اس رات کو براَت یعنی نجات اور گناہوں سے دوری، حفاظت، لغزشوں کوتاہیوں سے محفوظ رہنے کے لئے اعمال کی دعاؤں کی رات اور اس کی برکتوں پر بات کی۔ مسز ارم ضیاء نے اس رات کو اللہ کی خاص رحمتوں کے نزول نزول کی رات اور خواتین ک کردار اور عبادات کے حوالے سے بات کی۔
سدرہ اقبال نے پورے سال کا رزق ، زندگی اور موت کے اس سال کے فیصلے اور میٹھا اور آتشبازی، پٹاخے پھوڑنے جیسے عمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ برصغیر سے ہمارے رویے بن گئے ہیں، اور کہا کہ ہمارے آقا رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوسری قوموں سے شباہت اختیار نا کریں۔ علامہ حسین مسعودی نے کہا بچوں کا پھلجڑی جلانا خوش ہونا الگ بات ہے اور بم اور پٹاخے پھوڑنا غلط عمل ہے، لوگوں کو اذیت اور تکلیف دینا نہایت غلط عمل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں تہوار کا کانسیپٹ بیہودگی نہیں بلکہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے، عبادت کے لیے، اعمال درست کرنے اور اپنے بارے میں سوچنے کیلئے ہے کہ اپنی ذات کو کس طرح رب کے آگے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے پیش کرنا ہے۔ انہوں نے ان تمام باتوں پر زور دیا اور امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے ذکر کیا۔ اسی طرح ارم ضیاء نے پٹاخوں کو کفار کا عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اس رات عبادت کرتے تھے تو لوگ ان کی عبادت میں خلل ڈالنے کے لئے ایسا کرتے تھے، یہ ہم مسلمانوں کا عمل یا شیوہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ مفتی نور رحمانی نے بھی پٹاخوں کو اسلام کے منافی عمل قرار دیتے ہوئے صلاۃ القضائے عمری کی بہت تاکید کی اور کہا کہ اس رات میں پڑھنا چاہیے[1]۔
شب برات اہل سنت کے نزدیک
اللہ رب العزت نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے۔ یوم جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوںپر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برأت کو دیگر راتوں پر فضیلت دی ہے۔ اَحادیث مبارکہ سے شعبان المعظم کی 15 ویں رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں، لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔ اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں:
- لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات۔
- لیلۃ البراء ۃ: دوزخ سے آزادی ملنے کی رات۔
- لیلۃ الصَّک: دستاویز والی رات۔
- لیلۃ الرحمۃ: اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات [2]۔
شبِ برأت کے پانچ خصائص
شبِ برأت کو اﷲ تعالیٰ نے درج ذیل پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا: اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اس رات میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو (100) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔}
رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: {یقینا اﷲ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے}۔‘‘ گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: {بے شک اس رات اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے}۔
اس رات اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائی اور وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی سوائے اس شخض کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔[3]۔
شبِ برأت کی شرعی حیثیت
اُمتِ مسلمہ کے جمیع مکاتبِ فکر کے فقہاء و علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو مسئلہ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت ہوجائے تو اس پر عمل واجب ہوتا ہے یا وہ سنت اور مستحب کے درجے میں ہوتا ہے۔ وہ احادیثِ مبارکہ جو شبِ برأت کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں بہت سے صحابہ کرام l سے مروی ہیں ان میں ابو بکر صدیق، علی المرتضیٰ، عائشہ ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، عوف بن مالک، ابو موسیٰ اشعری، ابو امامہ الباہلی اور عثمان بن ابی العاص l کے نام شامل ہیں۔
سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے معمولات میں سے تھا۔ لیکن بعض لوگ اس رات عبادت، ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل محافل منعقد کرنے کو بدعت ضلالۃ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے جو سراسر اَحادیثِ نبوی کی تعلیمات کے خلاف ہے، اس لئے کہ اس رات کی فضیلت پر اُمت تواتر سے عمل کرتی چلی آرہی ہے۔
شب برأت کی حجیت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ شروع سے ہی صحابہ کرام l، تابعین، اَتباع تابعین اور تمام اَئمہ حدیث بشمول ائمہ صحاح ستہ اکثر نے شبِ برأت کا تذکرہ کیا اور اپنی کتب حدیث میں ’بَابُ مَا جَائَ فِي لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ‘ یعنی شعبان کی پندرہویں رات کے عنوان سے مستقل ابواب بھی قائم کیے۔
شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنے مختلف دروسِ قرآن و حدیث اور کتابوں میں شبِ برأت کی اہمیت و فضیلت پر وارد احادیث کی حجیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ بات واضح رہے کہ جب ائمہ حدیث اپنی کتاب میـں کسی عنوان سے کوئی مستقل باب قائم کرتے ہیں اور وہ باب قائم کر کے اس کے تحت کئی احادیث لاتے ہیں تو اس سے مراد محض اپنی کتاب حدیث کا ایک باب قائم کرنا نہیں ہوتابلکہ اس سے مقصود ان کا ایمان اور عقیدہ ہوتا ہے۔ ان کی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اَحمد بن حنبل، ابن خزیمہ، ابن حبان، ابن ابی شیبہ، بزار، طبرانی، بیہقی، ابن ابی عاصم، ہیثمی الغرض تمام اَئمہ حدیث کا یہی عقیدہ تھا اور اسی پر اُن کا عمل بھی تھا۔ اور اس رات وہ خود بھی اختصاص و اہتمام کے ساتھ جاگ کر عبادت کرتے، روزہ رکھتے، قبرستان جاتے اور جمیع اُمت مسلمہ کے لیے بخشش و مغفرت کی دعائیں کرتے[4]۔
اہل تشیع کے نزدیک
شیعی روائی کتب کے مطابق اس شب کی عظمت میں چار چاند اس لئے بھی لگ گئے ہیں کہ اس میں حضرت رسول خاتم، رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آخری معصوم فرزند اور جانشین، حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت بھی واقع ہوئی، وہی جو شیعوں کے نزدیک عالمِ بشریت کے منجی کے بطور پہچانے جاتے ہیں جن کی آمد کا ساری دنیا کو انتظار ہے۔
مختلف ممالک میں شب بیداری
اس شب ایران، پاکستان، ہندوستان، افغانستان، عراق، لبنان، شام اور دنیا کے دیگر ممالک کی بہت سی مساجد اور امام بارگاہوں میں خصوصی شب بیداری کا اہتمام کیا جاتا ہے اور فرزندان اسلام ساری رات عبادت اور خدا سے راز و نیاز میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذکر الٰہی کی خصوصی محافل، قرائت قرآن، حمد و نعت اور درود و سلام کی روح پرور محفلیں بھی سجتی ہیں جہاں علمائے کرام، مشائخ عظام اور مذہبی دانشور شبِ نیمۂ شعبان کی فضیلت اور امت مسلمہ کے لئے اس کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اس کے علاوہ مساجد، امام بارگاہوں، مقدس مقامات، شاہراہوں اور گلی کوچوں کو خوبصورتی کے ساتھ سجایا جاتا ہے، چراغانی کی جاتی ہے اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ عراق میں آج کی شب مرکزی اجتماع مقدس شہر سامرا میں ہوتا ہے کہ جہاں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے والدین کی قبور اطہر ہیں اور وہیں پر وہ مقام بھی ہے جہاں سے اہل تشیع کی روائی کتب کے مطابق آپ کی غیبت کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر دسیوں لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی زائرین سامرا شہر پہنچتے ہیں۔ اسکے علاوہ آج کی شب، زیارتِ امام حسین کی فضیلت کے پیش نظر کربلا شہر میں بھی لاکھوں زائرین جمع ہوتے ہیں۔
ایران میں بھی مسجد جمکران دسیوں لاکھ زائرین کی میزبانی کرتی ہے، وہی مسجد جو امام مہدی علیہ السلام سے خاص نسبت رکھتی ہے اور لوگ وہاں اپنے رب سے راز و نیاز، دعا و مناجات کے ساتھ ساتھ امام سے اظہار عقیدت و بیعت کے لئے پہنچتے ہیں۔ یہ مسجد ایران کے معروف شہر قم کے جوار میں واقع ہے۔
نیمۂ شعبان کی شب کو لیلۃ المبارکہ اور لیلۃ الرحمۃ بھی کہا گیا ہے۔ یہ شب دراصل شیطان اور اسکے باطل راستے سے اظہار برائت اور اپنے کردگار سے لو لگا کر اسکے فرمانبردار بندے کے بطور جینے کا عزم کرنے کی شب ہے۔ وہی شب ہے جب بندہ اللہ سے مغفرت طلب کرکے گناہوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے، حق کا ساتھ دینے اور ایک عالمگیر حکومتِ حق کے قیام کے مقصد سے اسلامی و قرآنی اقدار کو دنیا میں عام کرنے کا عزم و عہد کرتا ہے[5]۔
شب برات کی اہمیت
آج کی رات شب نیمہ شعبان یا شب برات کے نام سے مشہور ہے، شیعہ و اہلسنت ہر دو آج کی رات کی اہمیت کے قائل ہیں۔ یہ ایک ایسی رات ہے کہ جس کی گھڑیوں اور ساعات میں اللہ نے یہ عظمت رکھی ہے کہ جو شخص اس میں عبادت کرے اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے، خداوند اسے بخش دیتا ہے اور جہنم کی آگ بھی اس پر حرام قرار دے دیتا ہے۔ شب قدر کے بعد اس رات کو سب سے افضل رات قرار دیا گیا ہے۔ اس رات اللہ کی رحمت، بخشش، توبہ اور نعمتوں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ اس رات کی اہمیت کے بارے میں اہلسنت اور شیعہ مصادر میں کئی روایات ذکر ہوئی ہیں، جن میں اس رات عبادت کرنے کی اہمیت بتائی گئی ہے۔
شب برات کے اعمال
اس رات غسل کرنا ایک مستحب عمل کے طور پر بتایا گیا ہے، جس سے گناہ کم ہو جاتے ہیں۔ انسان اس شب کو اللہ کی عبادت میں صرف کرے، نماز، دعا و استغفار کرتے ہوئے شب بیداری کرے، امام زین العابدین (ع) کا فرمان ہے کہ جو شخص اس رات بیدار رہے تو اس کے دل کو اس دن موت نہیں آئے گی، جس دن لوگوں کے قلوب مردہ ہوجائیں گے۔
اس رات کا ایک اور بہترین عمل امام حسین (ع) کی زیارت ہے، جو شخص چاہتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی ارواح اس سے مصافحہ کرے تو وہ اس رات امام حسین (ع) کی زیارت ترک نہ کرے۔ اگر کسی کے لئے کربلا جانا ممکن نہ ہو تو کم از کم امام (ع) کو یاد کرتے ہوئے امام کو یوں خطاب کرے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ رَحْمَۃُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُہُ، ایسا کرنے والے شخص کو بھی امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب مل جائے گا۔ اس کے علاوہ انسان آج کی رات سے اپنے آپ کو ماہ رمضان کی راتوں کے لئے تیار کرنا شروع کر دے، اللہ کے ساتھ راز ونیاز کرے، اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی مانگے۔ گناہ، نافرمانی اور معصیت کی زندگی سے نکل کر اطاعت و بندگی خدا میں آنے کا عہد کرے۔
کمالات حاصل کرنے کا واحد راستہ اللہ کی بندگی و اطاعت
انسان کو ہر وقت متوجہ رہنا چاہیئے کہ اللہ اس کا مالک، خالق اور رب ہے اور یہ اس اللہ کا عبد محض ہے۔ اسی عقیدہ کو محکم اور پختہ کرنے اور اپنے آپ کو اپنی صحیح جگہ پر رکھنے کی بہترین تمرین کا ایک موقع، شب برات و نیمہ شعبان ہے۔ اس رات میں اللہ کے سامنے اپنی حاجات کو پیش کرنا ہے، اپنی مشکلات اللہ کے سامنے بیان کرنی ہیں، اپنے آپ کو باور کرانا ہے کہ سب اسباب کو ایجاد کرنے والا اللہ ہے۔
ان کے اندر اثر بخشنے والا اللہ ہے۔ اللہ ہی سپر طاقت ہے، اللہ ہی قادر مطلق ہے، اللہ ہی محیی و ممیت ہے۔ امریکہ و برطانیہ و سارے کا سارا غرب ہو یا شرق اس اللہ کی قدرت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جب کوئی شخص اس حقیقت کو پا لیتا ہے تو وہ پھر اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ ہم نے اپنی شخصی زندگی کو بھی اللہ کے حکم کے مطابق ڈھالنا ہے اور اپنی اجتماعی، سیاسی اور سماجی زندگی کو بھی اللہ کی اطاعت میں لیکر آنا ہے۔
ہم نے نیمہ شعبان کی رات کو اپنے آپ کو یہ منوانا ہے کہ ہمارا معاشرہ، ہماری معیشت، ہمارا ملک اللہ کے قوانین کے تابع ہونا چاہیئے نہ کہ امریکہ اور غرب کے اشاروں پر، اس ملک کے اندر وحی اور اس عقل کی جو وحی کے سایہ میں ہو کی حکمرانی ہونی چاہیئے، نہ کہ وحی کی پرواہ کئے بغیر بشری اور انسانی خواہشات پر مبنی ان قوانین کی کہ جن کو غرب سیکولرازم کے تحت دنیا پر لاگو کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کب؟
جب امام حسین (ع) کا زائر اور امام حسین (ع) کا ماننے والا وہی کردار اپنائے گاو جس کی طرف امام حسین اور باقی معصومین (ع) نے متوجہ کیا ہے۔ امام حسین (ع) کی نگاہ میں صرف اللہ کی وحدانیت، دین کی پاسداری، دین و شریعت کی حکومت کا نفاذ اور ہر باطل قوت کا انکار تھا۔ آج کی رات ہم نے اللہ سے، اللہ کے نمائندہ برحق امام زمانہ سے یہ عہد کرنا ہے کہ میری زندگی، میرے دن رات ایسے گزریں جیسے اللہ نے میرے لئے احکامات صادر فرمائے ہیں اور معصومین (ع) نے ان کی تشریح کی ہے۔
کمال کے سفر کو طے کرنیکا بہترین موقع
شب نیمہ شعبان درحقیقت ہمارے لئے اپنے وجود، اپنے قلب اور اپنی روح کو اللہ کی طرف راغب کرنے کا ایک خوبصورت موقع ہے۔ قرآن مجید اور معصومین کے کلام کی روشنی میں دنیا اور آخرت کا آپس میں مقایسے کا بہترین وقت ہے۔ سفر کرنے کی رات ہے، سیر کرنے کا موقع ہے، ہجرت کرنے کی رات ہے لیکن کہاں سے کہاں؟ انسانی اور بشری قوانین سے الہیٰ قوانین کی طرف، انسانی اور بشری جمہوری اور لوگوں کے بنائے ہوئے حکمرانوں کی بجائے الہیٰ حکمرانوں کی طرف۔
گناہ، نافرمانی اور بری عادات سے توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف۔ یہ مرحلہ تب طے ہوسکتا ہے، جب ہم غفلت اور لا پرواہی کو ترک کریں، اپنے آپ کو ایک ذمہ دار فرد قرار دیں۔ جب احساس درد، احساس مسئولیت، احساس ذمہ داری ہمیں ہر وقت اللہ کی طرف متوجہ کرے، دل بیداری کی حالت میں رہے ، خدا کا ذکر ہمارا دائمی ورد بن جائے، جلوت و خلوت اللہ کے لئے ہو جائے، ریاکاری، نمائیشی کام اور بناوٹ ختم ہو جائے تو یہ حقیقت ہے اور قرآن مجید میں اللہ کا فرمانا ہے کہ جب حق آتا ہے تو باطل کا جانا مسلم ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ یہ ہے کہ ہماری فکر، ہمارا خیال، ہمارا ارادہ، ہماری ہمت، ہماری تقریر، ہماری تحریر تمام کی تمام صرف اللہ کے لئے ہو جائے۔ اس سب کام کا آج کی رات ہم نے عزم کرنا ہے اور اس کے لئے اللہ سے دعا اور مدد مانگنی ہے۔
امام وقت کے ماننے والے کو وقت اور امام وقت کی قدر کرنا
امام زمانہ اور امام وقت کے ماننے والے ہر ایک کو اپنے زمانہ اور وقت کی قدر کرنا چاہیئے، وقت ایک ایسی نعمت ہے، جو اللہ نے امیر غریب ہر کسی کو عطا کی ہے، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے بہت کم ہیں۔ آج ہی کی رات کو لیجئے کتنے کم افراد آجک ی رات میں شب بیداری کر رہے ہوں گے۔ اگر کسی کو توفیق ہوئی ہو اور وہ امام زمانہ کے جشن میں شرکت کے لئے گیا ہو تو کتنی زیادہ ایسی جگہیں ہیں کہ جہاں پر آج رات امام زمانہ کی محفل منعقد کرا کر، اس میں امام کے مقصد کے خلاف چیزیں بیان ہوں گی۔
امام زمانہ کے جشن میں ناچ، گانا، دھمال اور رقص وغیرہ ہوگا، یہ وہ باتیں ہیں کہ جو آج انٹرنیٹ کے دور میں نیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ امام زمانہ کے ماننے والے جنہوں نے اپنی عبادت اور تقویٰ سے، علم اور بصیرت سے صحراوں کو گلشن بنانا تھا، فضاوں پر قبضہ کرنا تھا، عناصر کائنات کو مسخر کرنا تھا، پہاڑوں کے سینہ و جگر کو پاش پاش کرتے ہوئے زمانہ کی نبضوں پر ہاتھ رکھ کر زمانہ کی قیادت کی زمام سنبھالنا تھی، اسے کن فضولیات، خرافات اور بدعات میں لگا یا جا رہا ہے۔ آج کی رات ہمیں اپنی دعاوں میں یہ دعا بھی مانگنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام زمانہ کا حقیقی اور سچا سپاہی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں سب مومنین، مسلمین کی خدمت میں امام زمانہ (عج) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک پیش کرتا ہوں[6]۔
حواله جات
- ↑ شبِ برات اسلامی سال کی ایک مبارک اور فضیلت والی رات-اخذ شدہ از: 14 فروری 2025ء۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 4/ 272)
- ↑ زمخشری، الکشاف، 4/ 272،273)
- ↑ حافظ ظہیر احمد الاسنادی، شبِ برأت کی شرعی حیثیت و فضیلت-شائع شدہ از: 1 مئی 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 فروری 2025ء۔
- ↑ شبِ برائت آن پہنچی، بندگان خدا کے لئے آج ایک سنہرا موقع- 7مارچ 2022ء- اخذ شدہ از: 13 فروری 2025ء۔
- ↑ ملک اشرف، شب نیمہ شعبان و شب برات سب مومنین و مسلمین کو مبارک- شائع شدہ از: 20اپریل 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13فروری 2025ء۔