"اسماعیلیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 176: سطر 176:


== آغا خان سوم ==
== آغا خان سوم ==
سلطان محمد شاہ ۲۰ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جو تاریخ میں سر آغا خان کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں حکومت ایران نے انہیں ایرانی قومیت عطا کی اور " والا حضرت ہمایوں“ کا اعزار بخشا۔۱۹۵۱ء میں حکومت شام نے انہیں " شان بنوامیہ " عطا کیا۔ ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشیا نے" گل سرخ و گل سفید" سے نوازا۔ سر آغا خان فرقہ اسما عیلیہ کے پہلے امام تھے جو اپنے مریدوں میں ہیرے، جواہرات ، سونے، اور پلاٹینم میں تو لے گئے ۔ ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ ء میں ان کی قیمت ایک کروڑ ۶۵ لاکھ روپے کے  قریب تھی ۔ پہلی شادی ۲۸ برس میں چچازاد بہن سے ہوئی۔ دوسری شادی تھرسیا میلیانو اور تیسری آندرے جوزفین لیونی کاغوں سے ہوئی۔ ان کا اسلامی نام ام حبیبہ تھا اور عام طور پر "ماتا سلامت" کے لقب سے مشہور تھیں۔ سر آغا خان 11 جولائی ۱۹۵۷ ، کو سوئٹزر لینڈ میں درسوا کے مقام پر فوت ہوئے۔ اسوان ( مصر ) میں دفن ہوئے۔ سلطان محمد شاہ اسما عیلیه آغا خانی فرقے کے ۴۸ ویں امام ہوئے ہیں۔
سلطان محمد شاہ ۲۰ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جو تاریخ میں سر آغا خان کے لقب سے مشہور ہوئے۔وہ اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں حکومت ایران نے انہیں ایرانی قومیت عطا کی اور " والا حضرت ہمایوں“ کا اعزار بخشا۔۱۹۵۱ء میں حکومت شام نے انہیں " شان بنوامیہ " عطا کیا۔ ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشیا نے" گل سرخ و گل سفید" سے نوازا۔ سر آغا خان فرقہ اسما عیلیہ کے پہلے امام تھے جو اپنے مریدوں میں ہیرے، جواہرات ، سونے، اور پلاٹینم میں تو لے گئے ۔ ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ ء میں ان کی قیمت ایک کروڑ ۶۵ لاکھ روپے کے  قریب تھی ۔ پہلی شادی ۲۸ برس میں چچازاد بہن سے ہوئی۔ دوسری شادی تھرسیا میلیانو اور تیسری آندرے جوزفین لیونی کاغوں سے ہوئی۔ ان کا اسلامی نام ام حبیبہ تھا اور عام طور پر "ماتا سلامت" کے لقب سے مشہور تھیں۔ سر آغا خان 11 جولائی ۱۹۵۷ ، کو سوئٹزر لینڈ میں درسوا کے مقام پر فوت ہوئے۔ اسوان ( مصر ) میں دفن ہوئے۔


== آغا خان چهارم ==
== آغا خان چهارم ==
شہزاده کریم آغا خان ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں حاضر امام چنے گئے امامت پر فائز ہونے کی پہلی رسم ( ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء ) کو جینوا میں ادا ہوئی (۲۶ اکتوبر ) کو نیروبی میں ( ۲۳ جنوری ) کو کراچی میں (۲۱ مارچ ) کو بمبئی میں ان کی گدی نشینی کی رسوم ادا کی گئی۔
شہزاده کریم آغا خان ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں حاضر امام چنے گئے۔ امامت پر فائز ہونے کی پہلی رسم ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو جینوا میں ادا ہوئی۔۲۶ اکتوبر کو نیروبی میں ، ۲۳ جنوری کو کراچی میں اور۲۱ مارچ کو بمبئی میں ان کی گدی نشینی کی رسوم ادا کی گئی۔
نزاری خوجے اور شمسی ہندو ان کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں اور مختلف ناموں حاضر امام، خداوند ، شاه پیر، گور پیر ) وغیرہ سے اپنی دُعاؤں میں مخاطب کرتے ہیں پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں (۴۹) حاضر امام ہیں پرنس کریم آغا خان کے تین بچے ہیں شہزادہ رحیم، شہزادی ذہرہ اور شہزادہ حسن ہیں اب موجودہ آغا خان کے پیروکار امامی اسماعیلی اور عرف عام میں آغا خانی کہلاتے ہیں ہندو پاک میں دس لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ گلگت چترال میں اسما عیلیہ فرقے کی کافی آبادی موجود ہے چوغان کے نواح میں اور افغانستان ، ترکستان کوہ پامیر کی وادیوں میں اب بھی موجود ہیں ۔ اسماعیلیہ بوہروں اور خوجوں سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں <ref>اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۴۸</ref>۔
(1) پہلے فرقے نے امام موسی کاظم کو امام مانا جو امام جعفر کے بیٹے تھے۔
۲) دوسرے فرقے نے جان لیا کہ حضرت اسماعیل ضرور فوت ہو گئے ہیں امام


جعفر کے بیٹے محمد امام ہیں اور امامت اُن کی ہے۔
نزاری خوجے اور شمسی ہندو ان کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں اور مختلف ناموں حاضر امام، خداوند ، شاه پیر، گور پیر  وغیرہ سے اپنی دُعاؤں میں مخاطب کرتے ہیں۔ پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں (۴۹) حاضر امام ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کے تین بچے  شہزادہ رحیم، شہزادی زہرہ اور شہزادہ حسن ہیں۔اب موجودہ آغا خان کے پیروکار امامی اسماعیلی اور عرف عام میں آغا خانی کہلاتے ہیں۔ ہندو پاک میں ان کی تعداد  دس لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ گلگت چترال میں اسما عیلیہ فرقے کی کافی آبادی موجود ہے۔ چوغان کے نواح میں اور افغانستان ، ترکستان، کوہ پامیر کی وادیوں میں اب بھی موجود ہیں ۔ اسماعیلیہ بوہروں اور خوجوں سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں <ref>اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۴۸</ref>۔
== اسماعیلی خوجے ==
یہ فرقہ امامی اسماعیلی بھی کہلاتا ہے اور بمبئی و مدراس وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص کر کاٹھیاواڑ کے جزیرہ نما میں زیادہ رہتے ہیں ۔انہوں نے اپنی تجارتی نو آبادیاں افریقہ کے مشرقی کنارے پر قائم کی ہیں ۔ بمبئی میں بہت کم تعداد میں سنی خوجوں کی جماعت ہے۔ باقی تمام اسماعیلی خوجے آغا خانی ہیں اور سر ہائی نس آغا خان کو اپنا حاضر امام اور اپنا روحانی پیشوائے مذہب تسلیم کرتے ہیں۔


(۳) تیسرا فرقہ حضرت اسماعیل کی حیات کا کہ وہ زندہ ہے پچھلے دونوں فرقے اسماعیلیہ کہلاتے ہیں اور پہلا فرقہ امامیہ میں شمار ہوتا ہے۔ اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ اسماعیل کی اولاد میں قیامت تک امامت بنی رہے گی ۔ اسماعیلیہ بھی امام کی موت کے بعد امام کا دُنیا میں لوٹ آنے کے قائل ہیں ۔ اسماعیلیہ کا لقب محمد بھی ہے اور اس لقب کی وجہ معیت ( مردہ ) میں سرخ لباس پہننا اختیار کیا تھا۔
== اسماعیلی خوجے ==
اسماعیلی خوجے: یہ فرقہ امامی اسماعیلی بھی کہلاتا ہے اور بمبئی و مدراس وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص کر کاٹھیاواڑ کے جزیرہ نما میں زیادہ رہتے ہیں اور انہوں نے اپنی تجارتی نو آبادیاں افریقہ کے مشرقی کنارے پر قائم کی ہیں ۔ بمبئی میں بہت کم تعداد میں سنی خوجوں کی جماعت ہے باقی تمام اسماعیلی خوبے آغا خانی ہیں اور سر ہائی نس آغا خان کو اپنا حاضر امام اور اپنا روحانی پیشوائے مذہب تسلیم کرتے ہیں۔
مگر فروری ۱۹۰۰ ء سے آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ۔
مگر فروری ۱۹۰۰ ء سے آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ۔
ا ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں۔
دوسرے خوجے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ۔


اثنا عشری خوجوں نے اپنی ایک بڑی مسجد امام باڑہ اور مدرسہ و غیرہ تعمیر کیے ہیں ان میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ہندوستان میں اسماعیلی فرقہ کے لیے صدرالدین تقریبا چار سو برس پہلے ہندوستان آئے اور انہوں نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خوجوں کو اسماعیلی بنانے کے لیئے بے صعدہ الدین ہی آئے تھے ۔ اور یہ مضمون سلطان محمد شاہ آغا خان کے بیان سے ماخود
1۔ ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں۔
 
2۔دوسرے خوجے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ۔اثنا عشری خوجوں نے اپنی ایک بڑی مسجد ،امام باڑہ اور مدرسہ و غیرہ تعمیر کیے ہیں۔ ان میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔
 
ہندوستان میں اسماعیلی فرقہ کے پیر صدرالدین تقریبا چار سو برس پہلے ہندوستان آئے اور انہوں نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خوجوں کو اسماعیلی بنانے کے لئے پیر صدر الدین ہی آئے تھے ۔ یہ مضمون سلطان محمد شاہ آغا خان کے بیان سے ماخودہے۔ (انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا کی دوسری جلد کے صفہ نمبر ۱۳۵ میں لکھا ہے )
 
خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا۔ آنا خان خاندان نزاریہ میں سے ہیں نہ کہ مستعلویہ میں سے۔ یہی وجہ ہے کہ بوہرے جو مستعلو یہ عقیدہ پر ہیں آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔
 
== اسماعیلی ( آغا خانی) ==
اس  فرقے کے چند فروعی و شرعی مسائل جو زباں  زدعام ہیں  وہ اس طرح ہیں ( واللہ عالم بالصواب ) کہ اسما عیلیہ فرقہ کا کلمہ طیبہ کچھ یوں ہے - اشهد ان لا اله إلا الله و اشهد ان محمد رسول الله واشهدان على ولى اللہ۔ نماز کی جگہ وہ تین وقت کی دُعا جماعت خانہ میں پڑھتے ہیں۔ اسماعیلی اپنی عبادت کو دُعا کا نام دیتے ہیں۔ ان کی عبادت میں اٹھارہ رکعتیں شامل ہوتی ہیں۔ اسماعیلی بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جمعہ کو عبادت کے لئے جماعت خانہ میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ بیشتر جماعت خانوں میں ایک مکھی ہوتا ہے جو عہدے میں بڑا ہوتا ہے اور چھوٹا کماد یہ جسے اس کا نائب جانا جاتا ہے جماعتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ جماعت خانوں میں مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔ مردوں کی سر براہی کا فریضہ مکھی اور کماد یہ صاحبان انجام دیتے ہیں۔ دعا میں قیام و سجدے کرتے ہیں اور اپنا رخ قبلہ (امام) کی طرف کرتے ہیں۔ ان کے جماعت خانہ  میں محراب اور ممبر نہیں ہوتے۔ ان کی ہاں اذان نہیں ہوتی۔ حج حاضر امام کا دیدار ہے۔ سلام علیکم کی جگہ یا علی مدد، مولاعلی مدد کہتے ہیں۔ اسماعیلی آمدنی کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ زکوۃ  کے طور پر  دیتے ہیں ۔ان کا بولتا قرآن حاضر امام کی صورت میں موجود ہے۔ روزہ نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ روز ہ در اصل  کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں ان کا امام اس زمین پر خدا کا مظہر ہے۔
 
== اسماعیلی عقائد ==
اسماعیلی خوجوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آغا خان فرقہ اسماعیلیہ کے حاضر امام ہیں اور ان کو حضرت علی سے روشنی ملتی ہے ۔یہ لوگ  سارے اماموں  کا سلسلہ حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔
 
1۔امامی اسماعیلی ایران میں اللہ عطائی کہلاتے ہیں۔
 
2۔ایشیائے متوسط اور چینی ترکستان میں مولائی کہلاتے ہیں۔
 
3۔شام اور مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلیہ کہلاتے ہیں۔ شام میں اُن کو دروس بھی کہتے ہیں اور افغانستان میں مولائی بھی کہلاتے ہیں۔
 
4۔۔ ہندوستان میں بول چال میں بدخشانی کہلاتے ہیں۔
 
=== دسواں ===
آغا خانی لوگ اپنی نذریں آغا خان کو دیتے ہیں۔ یہ اپنی آمدنی میں سے بارہ فیصد حصہ آغا خان کو دیتے ہیں اور اس نذر کو دو سونگ ( پیداوار کا دسواں حصہ یا عشر) کے نام سےجاناجاتا ہے۔ دو سونگ کو ان کے مذہب میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اُن کی مقدس کتاب گنان میں اس کی ہدایت موجود  ہے ۔ خوجوں کا فرض ہے کہ اپنے امام کو نذریں دیں۔ گنان میں اور بہت سے بیانات ہیں۔ آغا خانی اپنی نذریں اپنے حاضر امام کو اس لئے دیتے ہیں کہ اس جہان میں سرسبز ہوں ۔آغا خانی لوگ آغا خان کو خدا کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن میں حضرت علی کا نور ہے ۔جو امام زندہ اور موجود ہے اس کو حاضر امام کہتے ہیں۔ گنان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حاضر امام کی پیشکش میں کسی کو حصہ دار نہ بنایا جائے۔ ان کے ہاں دُعا میں تمام اماموں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور تمام پیروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ خوجے موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو امام مانتے ہیں اور وہ دُنیا کے کئی حصوں میں پیر بھی کہلاتے ہیں ۔ ولادت اور شادی کے مواقع پر بھی نذر دی جاتی ہے۔ نذرو نیاز کا ایک اور بھی طریقہ ہے جو سر بندی کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی آدمی اپنی جائیداد حاضر امام کو بیہ کر دے ۔خو جے ان رسومات بندگی کو بہت سختی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
 
=== اول سفرہ ===
اس  رسم میں چند چیزوں کا نیلام ہوتا ہے جس کے لئے جماعت خانے کے ممبر بولی دیتے ہیں اور پھر بڑی بڑی قیمتوں  میں  وہ چیز یں  خریدی جاتی ہیں۔ پھر اس رقم سے آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے چیزیں خریدی جاتی ہیں۔


ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا کی دوسری جلد کے صفہ نمبر ۱۳۵ میں لکھا ہے ) خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا دھانی چایو تسلیم کیا آنا خان خاندان نزاریہ میں سے ہیں نہ مستعلویہ میں سے یہی وجہ ہے کہ بوہرے جو مستعلو یہ عقیدہ پر ہیں آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔ اسماعیلی ( آغا خانی): فرقے کے بارے چند فروعی و شرعی مسائل جو زبان زدعام میں وہ اس طرح ہیں ( واللہ عالم بالصواب ) کہ اسما عیلیہ فرقہ کا کلمہ طیبہ کچھ یوں ہے - اشهد ان لا اله إلا اللهو أشهد أن محمد الرسول الله والشهدان على ولى اللہ، نماز کی جگہ وہ تین وقت کی دُعا جماعت خانہ میں پڑھتے ہیں۔ اسماعیلی اپنی عبادت کو دُعا کا نام دیتے ہیں ان کی عبادت میں اٹھارہ رکھا تیں شامل ہوتی ہیں۔ اسماعیلی بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جمعہ کو عبادت کے لئے جماعت خانہ میں اکٹھے ہوتے ہیں بیشتر جماعت خانوں میں ایک بھی ہوتا ہے جو عہدے میں ہوا ہوتا ہے اور چھوٹا کماد یہ جسے اس کا نائب جانا جاتا ہے جماعتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ جماعت خانوں میں مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ قطاروں میں بجھتے ہیں۔ مردوں کی سر براہی کا فریضہ مکھی اور کماد یہ صاحبان انجام دیتے ہیں۔ دعا میں قیام، سجدے کرتے ہیں اور اپنا رخ قبلہ (امام) کی طرف کرتے ہیں ان کے جماعت مادر میں محراب اور ممبر نہیں ان کی ہاں اذان نہیں۔ حج حاضر امام کا دیدار ے اسلام میکنی جگہ یا علی مدد مولاعلی مدد کہتے ہیں۔ اسماعیلی آمدن کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ کے ہم اپنی آمدنی زکوۃ میں دیتے ہیں ۔ ۵۰. ۱۲ فیصد جو دس وند کہلاتی ہے اس ہند کو اس میں فرقے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے جسے فرض سمجھ کر جماعت خانے میں دیتے ہیں۔ ان کا بولتا قرآن حاضر امام کی صورت میں موجود ہے روزہ نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ روز واصل میں کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے ان کے خیال میں ان کا امام اس زمین پر خدا کا مظہر ہے۔ اسماعیلی عقائد : اسماعیلی خوجوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آغا خان فرقہ اسماعیلیہ کے حاضر امام ہیں اور ان کو حضرت علی سے روشنی ملتی ہے اور سب آئمہ کا سلسلہ حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔
=== کھادا خورا ===
امامی اسماعیلی ایران میں اللہ عطامی کہلاتے ہیں۔
کھادا خورا کی رسم بھی ہے جس کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں سے آغا خان (حاضر امام) کو چندے کے طور پر ادائیگی کرنا ہے۔ دعوت جس قسم کی بھی ہو ایک حصہ آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ اُس خوراک کو جماعت خانہ میں لا کر نیلام کر دیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی وصول ہوتی ہے وہ آغا خان (حاضرامام)کو دی جاتی ہے۔ اسماعیلی جھولی کے نام سے حاضر امام کو نذرانے پیش کرتے ہیں۔
ایشیائے متوسط اور چینی ترکستان میں مولائی کہلاتے ہیں۔
شام اور مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلیہ کہلاتے ہیں شام میں اُن کو دروں بھی کہتے ہیں افغانستان میں مولائی بھی کہلاتے ہیں۔
۴۔ ہندوستان میں بول چال میں بدخشانی کہلاتے ہیں یہ تمام معتقدین آغا خان کو نذریں دیتے ہیں۔
دسواں: آغا خانی لوگ اپنی نذریں آغا خان کو دیتے ہیں یہ اپنی آمدنی میں سے بارہ فیصد حصہ آغا خان کو دیتے ہیں اور اس نذر کو دو سونگ ( پیداوار کا دسواں حصہ یا
عشر) کے نام سے اپنی آمدنی کا آٹھواں حصہ آغا خان کو ادا کرنے کے پابند ہیں دو سونگ کو ان کے مذہب میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اُن کی مقدس کتاب گنان میں اس کی ہدایت ہے یہ خوجوں کا فرض ہے کہ اپنے امام کو نذریں دیں گستان میں اور بہت سے بیانات ہیں۔ آغا خانی اپنی نذریں اپنے حاضر امام کو اس لیئے دیتے ہیں کہ اس جہان میں سرسبز ہوں آغا خانی لوگ آغا خان کو خدا کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن میں حضرت علی کا نور ہے جو امام زندہ اور موجود ہے اس کو حاضر امام کہتے ہیں۔ گنان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حاضر امام کی پیشکش میں کسی کو حصہ دار نہ بنایا جائے ان کے ہاں دُعا میں تمام اماموں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور تمام پیروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ خوبے موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو امام مانتے ہیں اور وہ دُنیا کے کئی حصوں میں پیر بھی کہلاتے ہیں ۔ ولادت اور شادی کے مواقع پر بھی نذر دی جاتی ہے نذرو نیاز کا ایک اور بھی طریقہ ہے جو سر بندی کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی آدمی اپنی جائیداد حاضر امام کو بیہ کر دے خو جے ان رسومات بندگی کو بہت تختی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اول سفرہ : کی رسم میں چند چیزوں کا نیلام ہے جس کے لئے جماعت خانے کے ممبر بولی دیتے ہیں اور پھر بڑی بڑی قیمتوں سے وہ چیز میں خریدی جاتی ہیں پھر اس رقم سے آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے چیزیں خریدی جاتی ہیں۔ کھادا خورا: کی رسم بھی ہے جس کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں سے آنا خان (حاضر امام) کو چندے کے طور پر ادائیگی کرنا ہے دعوت جس قسم کی بھی ہو ایک حصہ آنا خان ( حاضر امام ) کے لئے مخصوص ہوتا ہے اُس خوراک کو جماعت خانہ میں لا کر نیلام ایک
کر دیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی وصول ہوتی ہے و انا ان محاضرام لکھا۔


جاتی ہے اسماعیلی جھولی کے نام سے حاضر امام کو نذرانے پیش کرتے ہیں۔ دس اوتار : دس اوتار سے مراد ہے کہ خدا نے دس جسم اختیار کئے تھے اور گواہونے
== دس اوتار ==
دس اوتار سے مراد ہے کہ خدا نے دس جسم اختیار کئے تھے اور گواہونے


بھی کہا کہ میں علی اللہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ علی میں خُدا کا نور ہے اور حضرت علی دسویں اوتار ہیں ۔ حاضر امام آغا خان کا نام دُعا میں سترہ دفعہ لیا جاتا ہے اور ہر دفعہ جب اُن کا نام لیتے ہیں تو سجدہ کیا جاتا ہے۔
بھی کہا کہ میں علی اللہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ علی میں خُدا کا نور ہے اور حضرت علی دسویں اوتار ہیں ۔ حاضر امام آغا خان کا نام دُعا میں سترہ دفعہ لیا جاتا ہے اور ہر دفعہ جب اُن کا نام لیتے ہیں تو سجدہ کیا جاتا ہے۔
confirmed
821

ترامیم