3,751
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 76: | سطر 76: | ||
== حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے رابطہ == | == حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے رابطہ == | ||
باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مولا و آقا حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے خاص لگاو تھا۔ ظاہر ہے امام معصوم سے رابطہ یقین، ایمان و عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنی زندگی معصومین علیہم السلام کی سیرت و احادیث کی روشنی میں بسر کرے۔ اس کے سیرت و کردار سے معصومین علیہم السلام کے سیرت و کردار کی خوشبو آئے۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاص، زہد و تقویٰ اس منزل پر تھا کہ آپ کو دیکھ کر لوگوں کو اہلبیت علیہم السلام کی یاد آتی تھی۔ آپ انتہائی درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے کہ ایک بار ناظم صاحب کے امام باڑے میں وعظ فرما رہے تھے کہ کسی سامع نے متاثر ہو کر کہا “کیا عالمانہ بیان ہے۔” کوئی اور ہوتا تو خوش ہو جاتا لیکن یہ سنتے ہی آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا: عالم صرف اہلبیت علیہم السلام ہیں۔ | باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مولا و آقا [[امام مہدی علیہ السلام|حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف]] سے خاص لگاو تھا۔ ظاہر ہے امام معصوم سے رابطہ یقین، ایمان و عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنی زندگی معصومین علیہم السلام کی سیرت و احادیث کی روشنی میں بسر کرے۔ اس کے سیرت و کردار سے معصومین علیہم السلام کے سیرت و کردار کی خوشبو آئے۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاص، زہد و تقویٰ اس منزل پر تھا کہ آپ کو دیکھ کر لوگوں کو اہلبیت علیہم السلام کی یاد آتی تھی۔ آپ انتہائی درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے کہ ایک بار ناظم صاحب کے امام باڑے میں وعظ فرما رہے تھے کہ کسی سامع نے متاثر ہو کر کہا “کیا عالمانہ بیان ہے۔” کوئی اور ہوتا تو خوش ہو جاتا لیکن یہ سنتے ہی آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا: عالم صرف [[اہل بیت|اہلبیت علیہم السلام]] ہیں۔ | ||
ظاہر ہے ایک فقیہ اعظم کا بیان اقوال معصومین علیہم السلام کا ائینہ دار ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ علماء، متعلمین اور غثاء (یعنی جو ہر ہوا پر حرکت کرے اور ہر آواز کے پیچھے چل پڑے) ہم (آل محمد علیہم السلام) علماء ہیں، ہمارے شیعہ متعلم ہیں اور باقی لوگ غثاء ہیں۔اسی طرح منقول ہے کہ ایک بار اہل سنت کے کچھ علماء سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے شریعت کدہ پر حاضر ہوئے، سلام و احوال پرسی کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ آپ شیعوں کے یہاں جو امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا جاتا ہے کافی مضحکہ خیز ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دریا میں عریضہ ڈالا جائے اور وہ ان تک پہنچ جائے۔ مچھلیاں کھا لیتی ہوں گی یا پانی میں گل جاتا ہوگا۔ آپ نے حکم دیا کہ شیشہ کے برتن میں پانی لایا جائے۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے ان لوگوں کے سامنے عریضہ لکھا اور شیشہ میں موجود پانی کے سپرد کر دیا اور مہمانوں سے محو گفتگو ہو گئے تھوڑی دیر بعد مہمانوں سے کہا کہ ابھی آپ کے سامنے ہی میں نے عریضہ لکھ کر اپنے مولا کی خدمت میں بھیجا۔ یہ برتن اور پانی آپ کے سامنے ہے بتائیے میرا عریضہ کہاں ہے؟ اب جو سب نے غور سے پانی میں دیکھا تو عریضہ کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اعتراض کرنے والے شرمندہ ہوئے۔ اس واقعہ میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے اگر آپ چاہتے تو عریضہ کے سلسلہ میں زبانی عقلی اور نقلی دلیلیں دے سکتے تھے لیکن آپ نے عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کے بعد مشاہدہ کرنے والوں کے دل میں انکار تو بڑی بات شک بھی نہ پیدا ہو۔ لیکن یہ عملی نمونہ وہی پیش کر سکتا تھا اور پیش کر سکتا ہے جو نہ صرف زبان بلکہ اپنے عمل سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے نزدیک ہو اور مستقل اپنے امام سے رابطے میں ہو۔ | ظاہر ہے ایک فقیہ اعظم کا بیان اقوال معصومین علیہم السلام کا ائینہ دار ہوتا ہے۔ [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] نے فرمایا: لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ علماء، متعلمین اور غثاء (یعنی جو ہر ہوا پر حرکت کرے اور ہر آواز کے پیچھے چل پڑے) ہم (آل محمد علیہم السلام) علماء ہیں، ہمارے شیعہ متعلم ہیں اور باقی لوگ غثاء ہیں۔اسی طرح منقول ہے کہ ایک بار اہل سنت کے کچھ علماء سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے شریعت کدہ پر حاضر ہوئے، سلام و احوال پرسی کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ آپ شیعوں کے یہاں جو امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا جاتا ہے کافی مضحکہ خیز ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دریا میں عریضہ ڈالا جائے اور وہ ان تک پہنچ جائے۔ مچھلیاں کھا لیتی ہوں گی یا پانی میں گل جاتا ہوگا۔ آپ نے حکم دیا کہ شیشہ کے برتن میں پانی لایا جائے۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے ان لوگوں کے سامنے عریضہ لکھا اور شیشہ میں موجود پانی کے سپرد کر دیا اور مہمانوں سے محو گفتگو ہو گئے تھوڑی دیر بعد مہمانوں سے کہا کہ ابھی آپ کے سامنے ہی میں نے عریضہ لکھ کر اپنے مولا کی خدمت میں بھیجا۔ یہ برتن اور پانی آپ کے سامنے ہے بتائیے میرا عریضہ کہاں ہے؟ اب جو سب نے غور سے پانی میں دیکھا تو عریضہ کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اعتراض کرنے والے شرمندہ ہوئے۔ اس واقعہ میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے اگر آپ چاہتے تو عریضہ کے سلسلہ میں زبانی عقلی اور نقلی دلیلیں دے سکتے تھے لیکن آپ نے عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کے بعد مشاہدہ کرنے والوں کے دل میں انکار تو بڑی بات شک بھی نہ پیدا ہو۔ لیکن یہ عملی نمونہ وہی پیش کر سکتا تھا اور پیش کر سکتا ہے جو نہ صرف زبان بلکہ اپنے عمل سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے نزدیک ہو اور مستقل اپنے امام سے رابطے میں ہو۔ | ||
منقول ہے کہ کثرت مطالعہ کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا سینہ زخمی ہو گیا تھا اور مستقل درد رہتا تھا لیکن یہ درد آپ کو مطالعہ سے نہ روک سکا۔ آخر ایک دن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کرم ہوا اور درد کافور ہو گیا۔ | منقول ہے کہ کثرت مطالعہ کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا سینہ زخمی ہو گیا تھا اور مستقل درد رہتا تھا لیکن یہ درد آپ کو مطالعہ سے نہ روک سکا۔ آخر ایک دن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کرم ہوا اور درد کافور ہو گیا۔ | ||
== تالیفات == | == تالیفات == | ||
درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور مدرسہ سلطان المدارس کے جیسے دیگر انتظامی امور میں مصروفیات کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کو تصنیف و تالیف کے لئے وقت نکال پانا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی ہر تالیف اپنی مثال آپ ہے جنمیں سے چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں: | درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور مدرسہ سلطان المدارس کے جیسے دیگر انتظامی امور میں مصروفیات کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کو تصنیف و تالیف کے لئے وقت نکال پانا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی ہر تالیف اپنی مثال آپ ہے جنمیں سے چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں: |