3,963
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 18: | سطر 18: | ||
== تحریک خلافت اور مولانا اشرف علی تھانوی == | == تحریک خلافت اور مولانا اشرف علی تھانوی == | ||
مسلمانان برصغیر نے اپنی تاریخ میں کبھی بین المللی رشتۂ اخوت کی عالمگیر حقیقت کو اتنی اہمیت دی ہو جتنی تحریک خلافت کے دوران دی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ہندوستانی سیاست میں شدید طوفان آیا جس میں بیرونی سیاست کی موجیں بھی مل گئیں۔ خلافت کے مسئلے نے ہر ہندوستانی مسلمان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ تحریک خلافت کے دوران میں تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے جو طریق کار اختیار کیے گئے اور اس تحریک پر گاندھی کے چھا جانے کے سبب مولانا اشرف علی تھانوی نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی مانند تحریک سے علیحدگی اختیار کی۔ مولانا تھانوی کو تحریک کے اغراض و مقاصد سے قطعا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ نے خلافت کو اجتماعی مسئلہ بتلایا جس سے اختلاف ممکن نہیں۔ مولانا تھانوی کو تحریک خلافت، ملت اسلامیہ کے تحفظ مقامات مقدسہ کے تحفظ اور امداد سے کوئی اختلاف نہ تھا۔ اختلاف صرف طریق کار سے تھا چنانچہ اسی بنا پر آپ نے تحریک خلافت میں شرکت نہیں کی <ref>پروفیسر احمد سعید، مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی، ص22-25</ref>۔ | مسلمانان برصغیر نے اپنی تاریخ میں کبھی بین المللی رشتۂ اخوت کی عالمگیر حقیقت کو اتنی اہمیت دی ہو جتنی تحریک خلافت کے دوران دی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ہندوستانی سیاست میں شدید طوفان آیا جس میں بیرونی سیاست کی موجیں بھی مل گئیں۔ خلافت کے مسئلے نے ہر ہندوستانی مسلمان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ تحریک خلافت کے دوران میں تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے جو طریق کار اختیار کیے گئے اور اس تحریک پر گاندھی کے چھا جانے کے سبب مولانا اشرف علی تھانوی نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی مانند تحریک سے علیحدگی اختیار کی۔ مولانا تھانوی کو تحریک کے اغراض و مقاصد سے قطعا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ نے خلافت کو اجتماعی مسئلہ بتلایا جس سے اختلاف ممکن نہیں۔ مولانا تھانوی کو تحریک خلافت، ملت اسلامیہ کے تحفظ مقامات مقدسہ کے تحفظ اور امداد سے کوئی اختلاف نہ تھا۔ اختلاف صرف طریق کار سے تھا چنانچہ اسی بنا پر آپ نے تحریک خلافت میں شرکت نہیں کی <ref>پروفیسر احمد سعید، مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی، ص22-25</ref>۔ | ||
== باطنی علوم == | |||
آپ کے باطنی علوم واعمال کی تکمیل و تہذیب کے لئے حاجی شاہ امداد اللہ تھانوی ثم مہاجر مکی سے شرف تعلق عطا ہوا ۔ 1299 ھجری میں جب حضرت مولانا رشید احمد حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو تھانوی نے اُن کے ہاتھ ایک عریضہ حضرت حاجی کی خدمت میں روانہ کیا جس میں استدعا کی کہ مولانا سے بیعت فرما لینے کے لئے سفارش فرمادیں۔ حاجی صاحب نے مولانا سے اس کا تذکرہ فرمایا اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا اچھا میں خود ہی اُنکو بیعت کئے لیتا ہوں اور حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی تحریر فرمایا میں نے خود آپکو بیعت کرلیاہے مطمئن رہیں <ref>مولانا محمد ناصر، حضرت تھانوی کے اصول، ص45</ref>۔ | |||
== حوالہ جات== | == حوالہ جات== |