"محمد اقبال لاہوری" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 83: سطر 83:


انہوں نے اپنے الٰہ آباد کے خطبے میں اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: ’’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم ہو جائے گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر اسلام کا ہماری ریاست کے امور سے، سیاست سے، معاشرت سے اور معیشت سے تعلق باقی نہیں رہے گا تو پھر اسلام کی بطور نظام حیات اہمیت موجود نہیں رہے گی۔ اسلام پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے ایک اعلیٰ و ارفع نظام ہے، لیکن اگر مسلمان ہی اپنی اجتماعی زندگی کا رشتہ اسلام سے توڑ ڈالیں گے<ref>[https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2017/523923 اسلام اور علامہ محمد اقبالؒ محمد آصف بھلی]- شائع شدہ از: 10 فروری 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
انہوں نے اپنے الٰہ آباد کے خطبے میں اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: ’’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم ہو جائے گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر اسلام کا ہماری ریاست کے امور سے، سیاست سے، معاشرت سے اور معیشت سے تعلق باقی نہیں رہے گا تو پھر اسلام کی بطور نظام حیات اہمیت موجود نہیں رہے گی۔ اسلام پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے ایک اعلیٰ و ارفع نظام ہے، لیکن اگر مسلمان ہی اپنی اجتماعی زندگی کا رشتہ اسلام سے توڑ ڈالیں گے<ref>[https://dailypakistan.com.pk/10-Feb-2017/523923 اسلام اور علامہ محمد اقبالؒ محمد آصف بھلی]- شائع شدہ از: 10 فروری 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
اقبال بھی اسی قسم میں سے تھے جس نے مبلغ کا کام کیا۔


{{شعر}}{{ب|مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے |تلاطم ہاے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی}}{{پایان شعر}}
== مسلمان کا مقام اقبال کی نظر میں ==
اقبال اسلام کے سچے پرستار تھے۔ مسلمانوں کے ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔ چنانچہ ان کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور مسلمان کے متعلق ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی عظمت یاد دلانا اور اس کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو مختلف اصولوں اور پیرایوں میں آپ نے خطاب کیا ہے‘ اُن کی بانگ درا نے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔ نالہ نیم شئ نے مردہ قلوب کو جھنجھوڑا اور زندگی کی روح پھونکی۔ ضرب کلیم نے دلوں کے جامد بتوں کو توڑ ڈالا۔
 
علامہ اقبال مسلمانوں کی درماندہ حالت پر غور کرتے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود اپنے آپ کو اپنی سیرت وکردار کو لٹا دیا ہے۔ غلامی اور محکومی کی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔ اپنے کردار کی خوبیوں سے اس قدر دور ہوئے کہ خود اپنی کتاب سے بے بہرہ ہو گئے اور اسے ناقص سمجھنے لگے اس لیے کہ یہ ان کو غلامی کے طریقے نہیں سکھاتی۔
 
علامہ اقبالؒ کا دل درد انسانیت سے معمور تھا‘ مسلمانوں کی پس ماندہ حالت سے اقبالؒ کا دل تڑپ اُٹھتا تھا۔ چنانچہ کئی بار بارگاہ ایزدی میں اپنی قوم کی حالت پیش کی کبھی دعائیں مانگیں اور کبھی شکایت بھی کی اور پھر شکریہ بھی ادا کیا:
 
میں بندۂ ناداں ہوں‘ مگر شکر ہے تیرا
 
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند
 
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
 
لاہور سے تا خاک بخاریٰ وسمرقند
 
تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں
 
مرغانِ سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
 
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
 
جس دیس کے بندے‘ ہیں غلامی پہ رضا مند
 
اس کائنات کی تمام مخلوقات پر انسان کو بزرگی بخشی گئی ہے۔ انسان کے کردار اور اس کے وجود میں لانے والی قوت خود اس کے جذبات اور تخیل ہوتے ہیں۔ جذبات کو اعلیٰ تخیلات اور بلند افکار کے تابع کرنے کا نام دراصل تربیت ہے کیونکہ جب افکار اور تخیل پختہ ہو جاتے ہیں تو اعمال کی صورت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جب عمل بار بار کیا جاتا ہے تو عادت بن جاتی ہے۔ عادتوں ہی سے انسان کا کردار یا سیرت بنتے ہیں۔ چنانچہ اقبال مرحوم نے ہمیشہ عمل پر زور دیا اور مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہی بتایا کہ وہ اعمال سے گریز کرنے لگے ہیں۔ جب کوئی قوم عمل سے جی چراتی ہے تو اس کی قسمت کا ستارہ ہمیشہ ڈوب جایا کرتا ہے۔
یہی نکتہ اقبالؒ نے مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعہ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوششیں کی ہیں۔
 
ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
 
تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی
 
ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی
 
بر آں صفت تیغ وپیکر نظر اس کی