"مسودہ:محور مزاحمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7: سطر 7:


ایران، شام اور عراق کی حکومتیں، لبنان کی حزب اللہ، فلسطین میں اسلامی جہاد اور [[حماس]] کے ساتھ ساتھ [[یمن]] کے [[انصار اللہ]] گروپ کو مزاحمت کا محور سمجھا جات ہے۔ سید حسن نصر اللہ کے نزدیک، سید علی خامنہ ای مزاحمتی محور کا رہبر اور اسلامی جمہوریہ ایران، مزاحمتی محور کا قلب اور بنیاد ہے۔
ایران، شام اور عراق کی حکومتیں، لبنان کی حزب اللہ، فلسطین میں اسلامی جہاد اور [[حماس]] کے ساتھ ساتھ [[یمن]] کے [[انصار اللہ]] گروپ کو مزاحمت کا محور سمجھا جات ہے۔ سید حسن نصر اللہ کے نزدیک، سید علی خامنہ ای مزاحمتی محور کا رہبر اور اسلامی جمہوریہ ایران، مزاحمتی محور کا قلب اور بنیاد ہے۔
== مزاحمتی محور اصلاح میں ==
مزاحمت کے محور کا ترکیب 1380ء (29 جنوری 2002ء) کو  امریکہ کے صدر جارج بش کے بعد پہلی بار استعمال کیا گیا، جس نے ایران، عراق اور شمالی کوریا کے ممالک کو برائی کا محور قرار دیا، اور اس وقت امریکہ کے نائب وزیر خارجہ جان بولٹن نے اس فہرست میں لیبیا اور کیوبا کو شامل کیا تھا، جس کے جواب میں لیبیا کے جریدے الزحف الاخضر نے ان ممالک کو برائی کا محور نہیں بلکہ مزاحمت کا محور نام رکھا، جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے خلاف ہیں۔
اس کے بعد فلسطینی وزیر داخلہ سعید سعیم نے العالم ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں مشترکہ سیاسی اہداف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے محور مقاومت کا لفظ استعمال کیا اور اس بات پر تاکید کی کہ سوریہ، ایران، حزب اللہ لبنان، حماس اور فلسطین نے مل کر محور مقاومت تشکیل دی ہے تاکہ  اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رہ سکیں۔
نیز، ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے اگست 2009ء میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں ایران، شام، لبنان کی حزب اللہ، عراق کی نئی حکومت اور حماس کو شامل کرنے پر غور کیا۔ ان کے مطابق چونکہ یہ سلسلہ شام سے گزرتا ہے، اس لیے مذکورہ ملک نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے سیکریٹری سعید جلیلی کی ملاقات کے دوران اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں سنہری کردار ادا کیا تھا۔ مزاحمت کے محور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے۔