Jump to content

"مسودہ:محور مزاحمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 15: سطر 15:


اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے۔
== محور مقاومت کا پھیلاٶ ==
اسرائیل کے خلاف مقاومتی محور کے داٸرے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کئی ایسے نئے گروہ وجود میں آچکے ہیں، جنہوں نے غاصب حکومت کے خلاف نئے محاذ کھول دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں بحرین کے ایک جہادی گروہ ”سرایا الاشتر“ کا نام بین الاقوامی ذراٸع ابلاغ میں گونج رہا ہے۔ ”سرایا الاشتر“ نے گذشتہ ہفتے کو اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس نے مقبوضہ فلسطین کے شہر ”ام الرشراش“ میں ایک اہم صیہونی مرکز پر ڈرون حملہ کیا ہے۔
اس گروہ نے اس سے قبل گذشتہ منگل کو بھی اپنی پہلی کاررواٸی میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع شہر ایلات میں ذراٸع نقل و حمل سے متعلق ایک کمپنی Tracknet کو اپنے ڈرون حملے سے نشانہ بنایا تھا، جس نے علاقاٸی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔
'سرایا الاشتر' مزاحمتی گروپ کیا ہے اور اسے کب تشکیل دیا گیا؟ اس گروہ کا قیام 2011ء میں بحرین میں ہونے والے عوامی احتجاج کو دبانے کے بعد 2012ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔
یہ گروہ بحرین میں آل خلیفہ حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اور مسلح کاررواٸیاں کرتا ہے۔ بحرین کی حکومت کے قریبی ذراٸع اور مغربی میڈیا کے دعووں کے مطابق آل خلیفہ کی حکومت کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد نے حکومتی جبر سے بچنے کے لیے ایران میں سکونت اختیار کی اور پھر یہ مزاحمتی گروپ تشکیل دیا۔
اس محور مزاحمت کے مخالف میڈیا کے بقول اس گروہ کی قیادت احمد یوسف سرحان (جسے ابو منتظر کے نام سے جانا جاتا ہے) اور جاسم احمد عبداللہ (جو ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے) کر رہے ہیں۔ یہ دو بحرینی شہری ہیں، جو فرار ہو کر کئی سالوں سے ایران میں مقیم ہیں، ان کے حوالے سے مغربی اور بحرینی میڈیا نے ابھی تک قابل اعتماد دستاویزات شاٸع نہیں کی ہیں۔ سرایا الاشتر کو 2014ء میں متحدہ عرب امارات، کینیڈا، مصر، سعودی عرب اور کویت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جبکہ امریکہ نے 2018ء میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا۔
مبصرین کے مطابق سرایا الاشتر کی جانب سے کی گئی حالیہ کاررواٸیاں ان کے دوستوں اور دشمنوں کے لیے مختلف نوعیت کے پیغامات لیے ہوئے ہیں، جن کا مختلف زاویوں سے جاٸزہ لیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ محور مزاحمت بتدریج غاصب صیہونی حکومت پر دباٶ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ یقیناً آنے والے عرصے میں دنیا علاقے میں براٸی کے محور کے خلاف محور مقاومت کی دیگر صلاحیتوں کے فعال ہونے کا مشاہدہ کرے گی<ref>[http://ur.imam-khomeini.ir/ur/n52273/%D9%85%D8%AD%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D9%BE%DA%BE%DB%8C%D9%84%D8%A7%D9%B6 محور مقاومت کا پھیلاٶ]-شائع شدہ از: 5جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 اکتوبر 2024ء۔</ref>۔