اسلامی تہوار

اسلامی تہوار میلے ، ٹھیلے، جشن، تہوار، عیدیں، ریتیں، رسوم، بزرگان دین کے عرس اور مذہبی مقعدی یا ثقافتی تقریبات کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت جذباتی وقلبی ولولہ خیزی اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کی مظہر ہوتی ہے۔

اسلامی تعلیمات

اسلامی تعلیمات قدیم اسلامی لٹریچر میں محفوظ ہیں چونکہ عرب کے لوگ عربی زبان جاننے کی وجہ سے اسلامی لٹریچر کا براہ راست مطالعہ کر سکتے ہیں اس لئے اب بھی وہاں کے تہواروں اور تقریبات میں اسلامی سادگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے عوام کی اکثریت عربی زبان سے نابلد ہے۔ اس لیئے وہ خود تو اسلامی عربی لٹریچر کا مطالعہ نہیں کر سکتے اس لئے ہمارے ہاں علماء جو اس بارے میں لوگوں کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرتے لوگ مان لیتے ہیں۔ اس لیئے ہماری عوام نے اسلامی تہواروں اور تقریبات میں بہت سی زائد باتوں کو شامل کر لیا ہے۔

تہوار کی تاریخی پس منظر

تہوار زمانہ قدیم سے انسانی معاشرے کا ایک اہم جزو رہے ہیں مختلف قومیں اپنی تاریخ کے اہم واقعات کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے تہوار مناتی رہتی ہیں۔ تہوار ہمیشہ مذہبی جوش و جذبے سے منائے جاتے ہیں ان تہواروں کی وجہ سے قوموں میں یک جہتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسلام میں بعض تہواروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ انہیں منا ئیں۔ مثلاً نزول قرآن کا واقعہ اسلامی تاریخ کا سب سے درخشاں واقعہ ہے اسلامی تہوار کے اس جشن کو عید الفطر کی صورت میں منانے کے بارے میں تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسے نبی کہو کہ یہ اللہ تعالی کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز ( قرآن ) اس نے بھیجی اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے یہ اس سے بہتر ہے جسے وہ سمیٹ رہے ہیں [1]۔

اسلامی تہوار کے اقسام

1۔ اسلامی تہوار دو قسم کے ہیں ایک کا تعلق اسلامی تاریخ سے ہے جیسے عید الفطر اور عید الاضحیٰ وغیرہ۔ مسلمان مذہبی تہواروں کو جوش و خروش سے مناتے ہیں ان دو تہواروں کی نوعیت بین الاقوامی ہے جسے تمام دنیا کے مسلمان مل کر مناتے ہیں۔ 2۔ دوسری قسم مقامی تہواروں کی ہے اور یہ اولیاء اللہ کے عرس وغیرہ ہیں جیسے لاہور میں داتا گنج بخش کا عُرس ہر سال منایا جاتا ہے۔ اولیاء کرام اور صوفیہ غطام کے ساتھ یہ معاملہ بہت پرانا ہے کہ لوگ باگ اُن کی شاعری ، ہدایات ، اقوال ، اور نصیحتوں پر ذرا سا کان نہیں دھرتے بلکہ انہیں ولی اللہ، درویش اور بزرگان دین کی حیثیت سے ہی مان کر ان کے مزاروں پر منت مراد دعا اور نذرونیاز کرنا ہی اپنے اندھے اعتقادات کو جز ولا ینفک بنائے ہوئے ہیں۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی سال کی ابتدا یکم محرم سے ہوتی ہے یہ دن ساری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کو اہم واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔

محرم

اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ ہے ( یکم محرم اسلامی نیا سال ہے ) لیکن محرم ماتم کے دنوں کا نام سمجھا جاتا ہے۔ جو شیعہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے دونوں بیٹوں امام حسن ، امام حسین کی شہادت کی یاد میں دس (۱۰) دن صرف کرتے ہیں ہندو پاک میں مختلف مقامات میں مختلف طریقوں سے ان رسوم کو مناتے ہیں۔ محرم کے مہینہ کا جب چاند دکھائی دیتا ہے تو شیعہ لوگ امام باڑہ یا امام بارگاہ یا عاشورہ خانہ ( جس کے لفظی معنی دس دن عبادت والے گھر کے ہیں ) ۔ ان دس دنوں میں شیعہ لوگ اپنی عبادت امام بارگاہ میں کرتے ہیں عاشورہ خانہ کا دستور صرف ہندو پاک میں ہے۔ ان دنوں میں شیعہ لوگ سارا دن پانی دودھ یا شربت کی سبیلیں لگاتے ہیں جس سے لوگ پانی پیتے ہیں پھر شیعہ لوگ تعزیے اور تابوت نکالتے ہیں۔ انہیں بانسوں سے بنا کر رکھتے ہیں اور کافی سجایا جاتا ہے یہ تعزیے اُس روضہ کی نقل ہیں جو عراق کے مقام کربلا میں امام حسین (شہید) پر بنا ہے یعنی ( گنبد ) جھنڈوں کے اوپر ایک پنچہ لگایا ہوتا ہے۔ اُس پر پورا ہاتھ بنا ہوتا ہے اُس میں پانچ انگلیاں اور ہاتھ ہوتا ہے اس کو پنچ تن بھی کہتے ہیں [2]۔

(۱) حضور پاک (۲) حضرت فاطمه (۳) حضرت علی (۴) امام حسن (۵) امام حسین کے نام لکھے ہوتے ہیں۔

مرثیہ

وہ نظم جس میں مردے کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں وہ نظم جس میں شہدائے کربلا کے مصائب اور شہادت کا ذکر ہو ۔ مرثیہ پڑھنا یا مرثیہ خوانی کرنا: (محاورہ) ماتم کرنا ، رونا پیٹنا، مردے کے اوصاف بیان کر کے رونا ۔ محرموں میں ہر شب کو امام بارگاہ میں شیعہ مرثیہ خوانی کرتے ہیں مرثیہ پڑھنے والوں کو مرثیہ خواں کہتے ہیں اور جو کلام پیش کر رہا ہوتا ہے اُس کو ذاکر کہتے ہیں پھر ذاکر ان تمام واقعات کو ایسے پیش کرتے ہیں جس سے لوگوں کے دل جوش سے بھر جاتے ہیں پھر اُٹھ کر غم کی حالت میں چلا چلا کر یا حسین یا حسین کہتے ہیں اور اپنی چھاتیاں پیٹتے ہیں اور نویں ، دسویں محرم کو زنجیر زنی اور چھریوں وغیرہ سے بھی اپنے جسم کو زخمی کرتے ہیں اور دہکتے کوئلوں پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے ماتم کرتے ہیں اور یزید پر لعنت بھیجتے ہیں جس کے باعث امام حسین شہید ہوئے تھے۔

سات محرم

سات (۷) محرم کو امام حسن کے بیٹے قاسم کی شادی اور شہادت کی یادگاری میں اس واقعہ کو یاد کر کے جلوس کے لوگ دُولھا دُولھا کہہ کر چلاتے رہتے ہیں۔ اس دن عاشورہ خانہ یا امام باڑہ سے جلوس نکلتا ہے نویں اور دسویں محرم کی درمیانی رات ہے شیعہ شب عاشورہ کہتے ہیں سب تعزیوں اور علم کا جلوس نکالتے ہیں اس رات اکثر مرد اور عورتیں کالی پوشاک پہنتے ہیں۔ پھر دسویں محرم کے روز تعزیوں کو کسی میدان یا قبرستان میں لے جا کر اس کی سجاوٹ اور آرائش کی چیزیں اُتار کر وہاں قبرستان میں دفن کر دیتے ہیں یا پانی میں بہا دیتے ہیں یا پانی میں ڈبو دیتے ہیں اسے میدان کر بلا سمجھا جاتا ہے۔

بارہ (۱۲) محرم کی تاریخ کو تمام رات شیعہ بیٹھ کر قرآن و مرثیے پڑھتے ہیں اور امام حسین کی تعریف کرتے ہیں۔ محرم کی (۱۳) تیرھویں تاریخ کو کھانا پکوا کر اُس پر فاتحہ پڑھ کرفت جوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ سنی لوگ بھی محرم کا احترام کرتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں ختم وغیرہ دلاتے ہیں۔

آخری چہار شنبہ

مسلمانوں کا ایک تہوار جو ہر سال ماہ صفر کے آخری بدھ کے روز منایا جاتا ہے۔ چہار شنبہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بدھ کے ہیں اس تہوار کی کوئی تاریخی سند نہیں اور نہ ہی یہ تہوار عرب میں کبھی منایا گیا یہ ہند و پاک کے مسلمان مناتے ہیں آخری چہار شنبہ منانے کی رسم زیادہ تر مغلیہ دور میں نشو و نما پائی اس کا آغاز صفر کی تیرہ تاریخ سے ہوتا ہے جس میں گھنگھنیاں ( گندم ) ابال کر بانٹی جاتی تھیں ۔ آخری چہار شنبہ سنی بریلوی لوگ پورے مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں اس کو ہندوستان میں آخری بدھ بھی کہتے ہیں روایت ہے کہ حضور نے بیماری سے صحت یاب ہو کر غسل فرمایا تھا اس لئے اس دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ علی الصبح باغات میں سیر کے لئے جاتے ہیں۔ وہیں پہ صبح کا ناشتہ وغیرہ بھی کرتے ہیں اکثر بیمار لوگ بھی باغوں میں جاتے ہیں تا کہ صحت یاب ہو جائیں یہ چہارشنبہ محرموں کے بعد تقریبا ۷ یا ۱۸ دن کے بعد آتا ہے چہار شنبہ والے دن لوگ کیلے یا آم کے پتے یا کاغذ کسی عامل کے پاس لے جاتے ہیں۔ عامل اس پر قرآن کی سات مختصر آیتوں کو لکھ دیتا ہے جس میں لفظ سلام آیا ہے لکھوانے والا اس تحریر کوخشک ہونے سے پہلے پانی میں دھو کر پی لیتا ہے۔ تعویذ کو دھوکر پلانا ہر مریض کے لئے موجب شفا اور ذریعہ برکت سمجھا جاتا ہے۔ سنیوں میں یہ خوشی کا دن ہے لیکن شیعوں کے نزدیک یہ دن خوشیوں کا نہیں ہے نہ ہی اس دن کو اہل حدیث مانتے ہیں۔

عید میلادالنبی یا بارہ وفات ( ربیع الاول)

بارہ سے مر اور بیع الاول کی بارہویں تاریخ اور وفات سے مراد حضور کی وفات ہے۔ (ربیع بہار کو کہتے ہیں) چہار شنبہ کے تقریباً ۱۴ دن کے بعد عید میلا انہی آئے گی اس دن حضور پیدا ہوئے تھے اور اسی دن حضور نے وفات پائی تھی۔ یہ تہوار زیادہ تر پاک و ہند میں منایا جاتا ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک میں اس کا رواج نہیں ہے اسلامی سال کے تیسرے مہینہ ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ کو یہ تہوار آتا ہے اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ حضور اسی تاریخ کو پیدا ہوئے تھے لیکن شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ 17 ربیع الاول کو حضور کی ولات ہوئی ہے۔ اور اس تاریخ کو وفات پائی یوں یہ تہوار حضور کی وفات کی یادگاری میں منایا جاتا ہے ۱۳ تاریخ کو گھروں اور مسجدوں میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے پھر ختم کا کھانا کھایا جاتا ہے۔ کچھ اسلامی فرقے ۱۳ وقات نہیں مناتے کیونکہ قرآن یا حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے اب اس دن کو جشن عید میلادالنبی کہتے ہیں۔ عید میلادالنبی مسلمانوں کا تیسرا بڑا تہوار ہے حضرت محمد ﷺ اللہ اس دن دنیا میں تشریف لائے اس لیئے مسلمان اس دن کو بڑے ذوق و شوق بلکہ دھوم دھام سے مناتے ہیں روایات کی رو سے حضور کا یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف رہا ہے اور مختلف فرقے مختلف تاریخوں کو یہ دن مناتے ہیں۔ مصر کے مشہور ماہر فلکیات ڈاکٹر محمود فلکی پاشا نے منٹوں اور سیکنڈوں تک کا حساب لگا کر وہ ربیع الاول کو یوم پیدائش کا دن قرار دیا اور دنیا کے تقریباً تمام علماء نے اس علمی تحقیق کو صیح تسلیم کیا۔ پاکستان میں علامہ شبلی کی مشہور کتاب سیرت الینی کے صفحہ ۱۳ پر یہی تاریخ دی گئی ہے۔ مولانا ابوالکلام کی کتاب رسول رحمت صفحہ ۳۰ میں مولانا سلیمان منصور پوری نے رحمت للعالمین میں اسی تاریخ کو صحیح قرار دیا ہے۔ کئی مورخین کے درمیان اختلاف ہے وہ عید میلادالنبی ۱۲ ربیع ول کو مناتے ہیں عید میلادالنبی کے موقع پر درود وسلام کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں [3]۔

شب برات

ماہ شعبان کی مخصوص راتوں میں سے ایک پندرھویں شعبان کی رات جو عرف عام میں شب برات کے نام سے مشہور ہے اس رات کے کئی نام ہیں:

(1) لیلتہ البراد یعنی دوزخ سے بری ہونے کی رات ۔

(۲) لیلتہ الصک یعنی دستاویز والی رات۔

(۳) لیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات۔

اہل سنت والجماعت کے مطابق شب برات سے انکار کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے سورج کی موجودگی میں اس کا انکار کرنا۔

برات کے معنی معافی یا نجات والی رات یا کفایت کی رات کے ہیں۔ شب برات کو بجٹ کی رات بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس رات کو ہر امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اللہ اپنی حقوق میں رزق تقسیم فرماتے ہیں۔ شعبان اعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے اس مقدس مہینے کو حضور نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اس مقدس مہینے میں حضور بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے ۔ حضور نے ہدایت کی ہے کہ اس رات کو جاگیں اور خاص دعاؤں کا اہتمام کریں دوسرے دن روزہ رکھیں کیونکہ اس رات اللہ ہر انسان کے پیدا ہونے والے بچوں اور مرنے والے لوگوں کو کتاب میں درج کرتا ہے۔ عقیدہ یہ ے کہ پندرھویں شعبان مں اللہ عز وجل ساتویں آسمان سے تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتے ہیں کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اس کی بخش کا پروانہ عطا فرما دوں۔ ہے کوئی روزی طلب کرنے والا اسے روزی دوں ، ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ اسے عافیت دوں، کوئی ایسا ہے کوئی ایسا اور یہ اس وقت تک اللہ فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہو جائے ۔

حضور نے فرمایا جو شخص دوزخ سے نجات چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اس رات میں اللہ تعالی کی خوب عبادت کرے کیونکہ اللہ اس عظیم رات اپنی رحمت خاص کے ۳۰۰ سو دروازے کھول دیتا ہے اس رات میں انسان اللہ سے جو بھی دعا مانگتا ہے وہ پوری کی جاتی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات اپنے بندوں کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اور شب برات برکت والی رات کے طور پر مشہور ہو گئی اور اس نے اسلامی تہوار کی شکل اختیار کر لی شب برات شعبان کی پندرھویں (۱۵) رات کو منائی جاتی ہے ۔ ہندو پاک میں لوگ رات کو چراغاں اور آتش بازی کر کے اس تہوار کا ضروری حصہ سمجھتے ہیں خیال یہ ہے کہ اس طرح آتش بازی کرنے سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ شب برات کو بعض اسلامی علماء اسلامی تہوار نہیں مانتے اور روشن خیال علماء رات کو چراغاں اور آتش بازی نہیں کرتے کیونکہ آتش بازی اور چراغاں کا اس تہوارے کوئی تعلق نہیں ۔ احادیث کی معتبر کتابوں مثلاً بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں اس رات کو اللہ تعالیٰ سے جو درخواست بھی کی جائے گی وہ ضرور قبول ہوگی۔ اس لیئے مسلمان ساری رات عبادت میں گزارتے ہیں اور اللہ تعالی کے حضور گڑ گڑا کر دعا میں مانگتے ہیں اور اپنے سابقہ گناہ معاف کر دینے کی اللہ سے درخواست کرتے ہیں ویسے تو یہ عقیدہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی سے جب بندہ اپنے گناہوں پر افسوس کرتا ہے، معافی مانگتا ہے، توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے گناہ معاف کرنے کی اور سب لوگوں کے نام جو اس سال خاندان میں پیدا ہوتے ہیں کہتے ہیں اور جس خاندان کے لوگ فوت ہوئے ہوتے ہیں۔ اُن کے نام لسٹ میں سے خارج کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے عقائد کے بموجب اس رات کو کم عمر کاحساب اور تقسیم رزق کا کام ہوتا ہے۔ شیعه ۱۵ شعبان کوامام مهدی، امام حسن عسکری کے فرزند (محمد امام مہدی) کی ولادت کا دن مناتے ہیں جو ابھی زندہ ہیں اور غائب ہیں)

کونڈے

اس دن کو شیعہ اور سنی ( بریلوی ) دونوں فرقوں کے لوگ اسے مناتے ہیں یعنی حضرت امام جعفر صادق کی وفات کا دن یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ختم دلاتے ہیں اچھے اچھے کھانے پکاتے ہیں لیکن اس میں شرط یہ ہوتی ہے کہ گھرے کھانا باہر نہیں جائے گا اور نہ کسی و پتہ چلنا چاہئے کہ گھر میں کیا پکا ہوا ہے اور کونڈے میں لوگ ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں اور اگر کوئی مہمان اچانک بھی گھر میں آجائے تو پھر وہ کھانا کھا کر جاتا ہے اور جو کھانا بچ جاتا ہے اُسے زمین میں دیا دیتے ہیں کونڈے معراج شریف سے پہلے ۲۷ رجب کو ہوتے ہیں۔ معراج النبی: معراج شریف کا واقعہ اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس پر بہت سی کتب لکھی ہوئی ہیں عالم علماء کا اس کے بارے میں یہ اختلاف رہا ہے کہ کیا یہ واقعہ روحانی سفر تھا یا جسمانی سفر تھا۔ یہ اختلاف بعد کے زمانوں میں پیدا نہیں ہوا بلکہ خود صحابہ کرام کے درمیان بھی اس بارے میں اختلاف رہا ہے صحیح روایات کے مطابق یہ واقعہ ماہ رجب کی چھبیویں (۲۶)، ستائیسویں (۲۷) کی درمیانی رات جس میں پیغمبر اسلام کو معراج ہوئی یہ مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے واقعہ وقوع پذیر ہوا عربی زبان میں لفظ معراج کے معنی سیڑھی کے ہیں۔ قدرت رکھتا ہے۔ شب برات کی رات کا یہ بھی نظر یہ ہے کہ آسمان پر سے فرشتے آتے ہیں۔


(1) وہ علماء جو جسمانی معراج کے قائل ہیں ان کے مطابق حضور ایک خاص سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر تشریف لے گئے ۔

(۲) دوسرے علماء اس واقعہ کو روحانی نوعیت کا کہتے ہیں کہ صرف حضور کی زون آسمانوں پر تشریف لے گئی۔ ایک روایت کے مطابق حضور گھر میں تشریف فرما تھے کہ اس گھر کی چھت پھٹ گئی اور اس میں سے جبرائیل اُترا اور جبرائیل فرشتہ نے حضور کے سینے کو کھولا اور اُسے آب زمزم کے پانی سے صاف کیا اس کے بعد وہ سونے کا تھال لائے جو دانائی اور ایمان سے بھر پور تھا۔ ان سے آپ کے سینے کو بھر دیا اس کے بعد آپ کو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا [4]۔

دوسری احادیث میں یہ بیان ہے کہ حضور سات آسمانوں میں گئے کئی ایک نبیوں سے ملے۔ پہلے آسمان پر آپ کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اور تیسرے آسمان میں حضرت یوسف علیہ السلام سے ، چوتھے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام سے، پانچویں آسمان میں حضرت ہارون علیہ السلام چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی۔ تمام انبیاء سے ملاقات کے بعد آپ عرش معلی تک پہنچ گئے اس مقام پر پہنچنے کے بعد آپ کی اللہ تعالٰی سے ملاقات ہوئی پھر آپ کو سدرۃ کی طرف لے جایا گیا جو جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے۔ صحابہ کرام معراج شریف کو ایک روحانی تجربہ قرار دیتے ہیں اور معراج النبی کے واقع کو رویا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ انبیاء کے روحانی تجربے حقیقت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اس لیئے ان کے نزدیک معراج النبی کے واقع کو دیا بھی کیا جاسکتا ہے۔ معراج النبی کا واقعہ روحانی بھی تھا وہ دوسری وجہ سے اسے جسمانی بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے ۔ براق اس چوپائے کا نام ہے جس پر حضور سوار ہو کر شب معراج میں آسمان پر تشریف لے گئے تھے ( مشکوہ شریف) میں براق کا قد خچر اور گھوڑے کے درمیان ہے۔ اس کا رنگ سفید ہے مجمع السجاد میں لکھا ہے کہ اس کے دو پر بھی تھے [5]۔

ليلته القدر

عربی میں لیلتہ القدر کے معنی قدر اور اندازے کی رات ہے لیلتہ کے معنی رات اور قدر کے معنی اندازہ لگانے، مقرر کرنے اور عزت و قدر کے ہیں اس رات کو لیلتہ القدر اس لیئے بھی کہتے ہیں کہ سال بھر میں جو کچھ ہونے والا ہوتا ہے۔ اس کا پورا خاکہ اسی رات کو تیار ہو جاتا ہے بندوں کی روزی مقرر ہوتی ہے، زندگی اور موت اور انسانوں کے کاموں کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے۔ عقیدہ یہ ہے کہ فرشتے بندہ کے لیئے اس رات دُعا کرتے ہیں۔ فرشتے اللہ کے احکام لے کر نازل ہوتے ہیں یہ رات صبح صادق کے وقت ختم ہوتی ہے۔

قرآن مجید اور ليلته القدر

شریعت اسلامی میں لیلتہ القدر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے قرآن مجید کا نزول اسی رات کو شروع ہوا تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ بے شک ہم نے اسے ( قرآن ) کولیلتہ القدر کی رات میں اتارا یہ رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ لیلتہ القدر کو ساری دنیا کے مسلمان بڑی اہمیت اور ایک پاکیزہ اسلامی تقریب کے طور پر مناتے ہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ قرآن روزوں کے آخری عشرے میں نازل ہوا ہے لیکن اس کی صیح تاریخ میں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ رمضان کے ستائیویں روزہ کی تاریخ ہے۔ چنانچہ اس رات لیلتہ القدر بڑی شابان شان طریقے سے مناتے ہیں ۔ مسلمان لیلتہ القدررات کی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر سمجھتے ہیں اور بہت سے مسلمان ساری رات عبادت کرتے رہتے ہیں۔

عید الفطر

عید الفطر بھی دوسرے تہواروں کی طرح ایک خاص تہوار ہے اسلام میں عید الفطر کا تہوار رمضان ( روزوں) کے ختم ہونے پر مناتے ہیں اور اس تہوار کی خصوصیت یہ بھی ہے۔ کہ رمضان میں قرآن پاک کا نزول ہوا تھا اس لئے اس تہوار کو

(۱) جشن نزول قرآن بھی کہا جاتا ہے۔

(۲) اس کو فطرانہ عید بھی کہتے ہیں۔

(۳) اس عید کو چھوٹی عید بھی کہتے ہیں۔ یہ عید شوال کی پہلی تاریخ کو آتی ہے اسے عید الفطر یعنی روزہ توڑنے کی عید کہا جاتا ہے۔

عید الاضحیٰ

مختلف اسلامی ممالک میں عید الاضحی مختلف طریقوں سے منائی جاتی ہے پاکستان کے سوا دوسرے تمام اسلامی ممالک میں عید الفطر کو عید الاضحی سے زیادہ درجہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عیدالاضحی کو بڑی عید کہا جاتا ہے اور عید الفطر کوچھوٹی عید ۔ لیکن اگر حضور کے عمل کو سامنے رکھا جائے تو پھر عید الفطر ہی بڑی عید قرار پائی ہے۔ عید الاضحی یہ قربانی سنت ابراہیمی ہے جبکہ نماز فرض ہے حضور نے عید الفطر کو زیادہ اہمیت اس لئے دی تھی کیونکہ اس عید کومنانے کا حکم قرآن میں [6]۔ میں کیا ہے۔ عید الاضحی کا قرآن مجید میں مسلمانوں کو اس کے منانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ عید الاضحی کومنانے کا ثبوت صرف احادیث نبوی سے ملتا ہے اس لیئے عید الاضحی کے موقع پر قربانی کو نت ابراہیمی کہا جاتا ہے اگر اس کا حکم قرآن میں ہوتا تو پھر اس کی شرعی حیثیت فرض کی ہوتی ۔ عیدالاضحی کے دن سب سے پہلے تو نماز عید ادا کی جاتی ہے پھر لوگوں کو خطہ دیا جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ قربانی حج کا رکن ہے حالانکہ قربانی حج کا رکن نہیں اور حج قربانی کے بغیر بھی ہوتا ہے۔ زندگی میں صرف ایک بار حج فرض ہے اور حضور نے بھی ایک ہی حج ادا کیا۔ اسی طرح قربانی بھی ساری عمر میں ایک ہی دفعہ کرنی ہوتی ہے جو اس سلسلے میں حدیث بیان ہوئی ہے وہ ضیعف ہے۔ ترجمہ: ابورملہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے عرفات کے میدان میں فرمایا کہ یہ گھر والوں پر ہر سال میں صرف ایک دفعہ قربانی دیتی ہے۔

قربانی سنت ہے فرض نہیں عرب ممالک میں اسلامی تعلیمات کسی نہ کسی طرح اصل حالت میں موجود ہے وجہ یہ ہے کہ وہاں کی زبان عربی ہے جو اسلام کی زبان ہے اور اسلام کا قدیم اسلامی لٹریچر اور اسلامی تاریخ اسی زبان میں ہے وہاں پر عید الاضحی ہمارے ملک کی نسبت مختلف طریقے سے منائی جاتی ہے وہ فقہ میں رائے اور قیاس کے قائل نہیں۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا یہ عمل قدیم اسلامی لٹریچر کی تمام کتابوں میں موجود ہے اور اس کی روشنی میں عرب ممالک کے علماء کے نزدیک قربانی کی وہ اہمیت نہیں جو ہمارے ملک میں ہے۔ عرب ممالک میں اگر چہ گھر گھر قربانی نہیں ہوتی مراکش کے بادشاہ شاہ حسن جو وہاں پر امیر المومنین کا درجہ رکھتے ہیں عیدالانی کی ( قربانی ) کو سارے ملک میں پابندی لگا دی ہے کہ عید قربان پر جانوروں کی قربانی نہیں ہوگی۔ ان کی طرح عید الاضحی کی قربانی بھی حضرت ابراہیم کی اس قربانی کی یادگار ہے جو کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی دے کر قائم کر دی ہے۔

قرآن میں حضرت ابراہیم کی قربانی کا مفصل ذکر ہے قرآن میں ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں جو اولاد دی وہ حضرت اسماعیل تھے ایک دن حضرت ابراہیم کو خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنی اکلوتی اولاد کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں چنانچہ دونوں نے خدا کی مرضی کے آگے سر جھکا دیا۔ پھر حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو قربان کرنے کے ارادے سے کروٹ لٹا دیا۔ کروٹ اس لئے لٹایا کہ باپ کی نگاہ بیٹے پر نہ پڑے جب حضرت ابراہیم اپنے بیٹے پر چھری چلاتے تو چھری رک جاتی تھی چنانچہ جب ثبوت مل گیا تو اللہ نے حضرت جبرائیل کے ذریعہ ان کو اس سے روک دیا اور اشارہ نہبی کے تحت ایک دنبہ کی قربانی کی۔

قربانی کن پر واجب ہے

جن لوگوں پر صدقہ فطر واجب ہے ان پر قربانی بھی واجب ہے۔ قربانی کا وقت تین دن ذوالحجہ کی دس گیارہ اور بارہ کی شام تک وقت ہے اس مدت میں رات یا دن میں جب چاہے قربانی کر دے اجازت ہے مگر بہتر دن ہے۔

کن جانوروں کی قربانی جائز ہے

بکرا، بکری، بھیٹر، دنبہ، گائے، بیل ، بھینس، بھینسا ، اونٹ ، اونٹنی ۔ ان چھ جانوروں کے نرومادہ دونوں کی قربان جائز ہے اس کے علاوہ کسی جانور کی قربانی جائز نہیں [7]۔

جانور کی عمر

اونٹ کی عمر پانچ برس یا اس سے زیادہ البتہ دنبہ اور بھیڑ ایک برس سے کم ہو سکتے ہیں، زیادہ بہتر ہے کہ ان کے دانت نکل آئے ہوں ۔ اگر قربانی کے جانور کے پیٹ میں بچہ نکل آئے تو قربانی درست ہے اس بچہ کو بھی ذبح کر دینا چاہئے اگر پہلے سے معلوم ہو کہ اس جانور کے پیٹ میں بچہ ہے تب بھی قربانی جائز ہے۔

قربانی کا طریقہ

قربانی کا طریفہ یہ قربانی کے جانور کو اس طرح لٹائے کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو۔

حوالہ جات

  1. سورہ یونس، آیت ، ۵۸
  2. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ، لاہور
  3. سید قاسم محمود اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ، الفصل اردو بازار لاہور
  4. صحیح بخاری کتاب الصلاة باب كيف فرضت الصلاة جلد اول ص ۲۱۵
  5. پروفیسر رفیع اللہ شہاب، اسلامی تہوار، ، دوست ایسوی ایس پرنٹرز پبلشرز لاہور
  6. سورۃ یونس کی آیت ۵۹
  7. مولانا مجیب اللہ ندوی، اسلامی فقه جلد اول پروگریسو کس ، بلی اردو بازار لاہور