انصار اللہ
انصاراللہ تحریک یمن کے زیدی شیعوں سے ماخوذ ایک تحریک ہے، جو بدر الدین حوثی، اس کے فکری رہنما حسین بدر الدین حوثی کے افکار سے متاثر ہے۔ حسین حوثی سے منسوب ہونے کی وجہ سے اسے یمن کے حوثی بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ تحریک شباب مؤمن تنظیم الشباب المومن تنظیم کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں چلتی تھی۔ عبدالمالک حوثی کی قیادت میں اس تحریک کو یمنی عوام کی عام مقبولیت حاصل ہوگئی اور یہ یمن میں ایک جامع اور بڑی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ انصاراللہ تحریک اس ملک کی سب سے زیادہ بااثر سیاسی دھاروں میں سے ایک ہے۔ اس تحریک کا مرکزی دفتر صعدہ میں ہے۔ وہ یمن کی حکومت کو مغرب پر منحصر حکومت سمجھتے تھے اور 2003 سے یمن کی حکومت کی مخالفت شروع کردی تھی۔ 2003 سے یمنی فوج نے اس گروہ کو دبانے اور تباہ کرنے کے لیے صعدہ پر متعدد بار حملے کیے ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر کے پھیلنے کے بعد، انصار اللہ تحریک نے، عوامی رضا کار فورسز کے ساتھ، 2014 میں متعدد فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس ملک کے بعض علاقوں اور فوجی مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ یمن کے صدر کے مستعفی ہونے اور 2015 میں ملکی پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد تحریک انصار اللہ نے عبوری حکومت کی ذمہ داری سنبھالی جس کے بعد سعودی عرب نے دعویٰ کیا کہ انصار اللہ کی سیاسی حکمرانی ناجائز ہے، سعودی عرب کے لیے اس کا خطرہ ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ منصور ہادی کی اقتدار میں واپسی یمن نے حملہ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا اور ملک کے بہت سے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔
انصار اللہ | |
---|---|
پارٹی کا نام | انصار اللہ یمن |
بانی پارٹی | حسین بدر الدین حوثی |
پارٹی رہنما | سید عبد الملک حوثی |
مقاصد و مبانی | امامت کی بنیاد پر اسلامی حکومت کا تشکیل |
انصار اللہ؛ یمن
ستمبر 1962 میں عبداللہ سلال کی قیادت میں یمن میں زیدی اماموں کا 1000 ہزار سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے اور "جمہوری" حکومت کا قیام ہوتا ہے۔ 1967 میں "قحطان الشعبی" کی قیادت میں جنوبی یمن مستقل حکومت کا اعلان کردیا جاتا ہے اور یوں جنوب اور شمال یمن میں جدائی ہوجاتی ہے۔ جنوب یمن "عوامی ڈیموکریٹک یمن" اور شمال میں "جمہوری عربی یمن" کا اعلان کردیتے ہیں۔ اکتوبر 1978 میں جمہوری عربی یمن، فوجی جنرل علی عبداللہ صالح کو 5 سال کیلئے اپنا صدر بنادیتے ہیں۔ 1983 میں اس مدّت کو 5 سال کیلئے اور بڑھا دیا جاتا ہے۔ صالح اور جنوب یمن کے حاکم ایک معاہدے کے تحت دوبارہ متحد ہونے کا اعلان کرتے ہیں کہ جس میں صنعاء کو دار الحکومت قرار دیا جاتا ہے اور یوں 1990 میں دونوں حصے دوبارہ ایک ہوجاتے ہیں۔ متحد یمن کا "جمہوری یمن" نام رکھا جاتا ہے جس کا صدر علی عبداللہ صالح کو بنایا جاتا ہے۔ صالح کی امریکا سے خاص قربت تھی جس کی وجہ سے یمن کی حکومت نے ان غربی ممالک سے دفاعی معاہدے بھی کئے۔
ایک اہم بات جو زیدی شیعوں کے دوبارہ کھڑے ہونے کا باعث بنی وہ سعودی عرب کی طرف سے وہابییت کی ترویج تھا کہ جس کی وجہ سے یمنی شیعہ شدید دبائو میں زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے ساتھ عبداللہ صالح سعودی عرب کے سامنے مکمل غلام بنا ہوا تھا جس کو غیرت مند یمنی بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
الحوثی تحریک ایک مذہبی، نظریاتی اور سیاسی تحریک ہے کہ جس کا مقصد یمن سے استکباری تسلّط اور وہابیت کے اثرات کو ختم کرنا ہے۔ اس کے پہلے سربراہ سید حسین الحوثی تھے کہ جو سید بدر الدین الحوثی کے فرزند تھے۔ سید بدر الدین الحوثی انقلاب اسلامی ایران سے بہت زیادہ متاثر تھے اور 80 کی دھائی میں تن تنہا وہابی افکار کی خلاف کھڑے ہوئے کہ جس کی وجہ سے ان کو یمن سے جلاوطن کردیا گیا اور انہوں نے ایران میں پناہ لی۔ سید بدر الدین نے پہلے "الحق" نامی تحریک کا آغاز کیا کہ جس کی یمنی علماء نے مخالفت کی اور یوں سید بدر الدین نے یمن کے جوانوں کو اپنا مخاطب قرار دینا شروع کیا اور ایک اور تحریک "شباب المومن" کے نام سے شروع کی۔ یمن کے نوجوان اور جوان تیزی سے اِس تحریک کا حصہ بننے لگے، اس تحریک کا اصلی مقصد یمن میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہی تحریک آج "انصار اللہ" کی شکل میں موجود ہے۔ سید حسین حوثی نے 1991 میں یمن میں مسلحانہ جدوجہد کا آغاز کیا تو سید بدر الدین نے اتحاد کی خاطر اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور سب کو اس تحریک کا حصہ بننے اور سید حسین الحوثی کی بیعت کرنے کی تاکید کی۔ امریکا میں 11 ستمبر کے حملے کے بعد یمن میں عبداللہ صالح کی حکومت نے دہشت گردی سے جنگ کے بہانے مختلف ممالک سے دفاعی معاہدے کئے۔ 2004 میں حکومت سید حسین الحوثی سے اتنی زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی کہ ان کے سر کی قیمت 55 ہزار ڈالر مقرر کردی تھی۔
سید حسین الحوثی نے امریکی اور اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ جس کو عوام نے بہت پسند کیا۔ اور یہ عوامی مقبولیت اس قدر بڑھتی گئی کہ صنعاء میں نماز جمعہ کے اجتماع "اللہ اکبر، مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل" کے نعروں سے گونجنے لگے۔ اسی وجہ سے امریکی پشت پناہی کے ساتھ یمنی حکومت نے اس تحریک کو سختی سے کچلنے کا اعلان کردیا اور 2004 میں سید حسین الحوثی کو شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی عبدالملک الحوثی اس تحریک کے قائد بنے جو آج تک کامیابی سے اس تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ سارے یمن پر انصار اللہ کا پرچم لہرا رہا ہوگا [1]۔
تاریخی پس منظر
1990 میں متعدد یمنی زیدی نوجوانوں نے الشباب المومن تنظیم کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری محمد یحییٰ اذان تھے، اور بعد میں حسین حوثی اس گروپ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب ہوئے۔ انہوں نے زیدی نوجوانوں کو 1986 میں واپس لایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ سرگرمیاں جن کی ابتدا میں زیدی نوجوانوں کی نظریاتی تعلیم پر توجہ دی گئی تھی۔ صلاح احمد فلیتہ نام کے زیدی علماء میں سے ایک کی طرف سے اتحاد شباب المؤمن کے نام سے ایک تنظیم کی شکل میں قائم کی گئی تھی۔ اتحاد شباب کے تعلیمی کورسز میں مذہبی کورسز کے علاوہ ایران کا اسلامی انقلاب بھی محمد بدرالدین الحوثی نے ایک کورس کے طور پر پڑھایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، حسین الحوثی کی جانب سے اس گروہ پر زیادہ توجہ دینے کے بعد، اتحاد شباب المومن کا نام 1991 میں منتدی الشباب المومن اور بعد میں 1997 میں نتظیم الشباب المومن رکھ دیا گیا۔ حسین الحوثی کے اس تنظیم کی قیادت سنبھالنے کے بعد یہ تحریک حوثی کے نام سے مشہور ہوئی اور یمن میں اسلامی بیداری اور 2014 میں یمن میں اس کی دوسری لہر کے قیام کے دوران اس کا نام انصاراللہ تحریک رکھا گیا۔
فکری اساس
شباب المومن تنظیم زیدی کے نظریات کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ اس کے بانی بدر الدین حوثی کے نظریات سے متاثر تھے۔ اگرچہ بدر الدین الحوثی ایک زیدی عالم تھے، لیکن وہ زیدیہ شیعہ اثناعشریہ کے فکری اتحاد پر یقین رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ فکری طور پر وہابیت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور یمن کے شیعہ علاقوں میں وہابیت کے اثر کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بدر الدین حوثی اور شباب المومن تنظیم، امامیہ کے ساتھ فکری اور سیاسی ہم آہنگی کے نظریہ میں، یمنی علماء کے ایک گروہ کی مخالفت کا سامنا کر رہے تھے اور ان پر شدت پسندی اور مکتب زیدیہ سے علیحدگی کا الزام لگایا گیا تھا۔ محمد عبدالعظیم حوثی جو کہ زیدی علماء میں سے ایک تھے، انہیں اسرائیل سے زیادہ برے سمجھتے تھے اور انہیں مارقین کا لقب دیتے ہوئے حوثیوں کے ساتھ جنگ کو نماز سے بہتر سمجھتے ہیں۔ حوثی تحریک امامت کے اصول پر زور دیتی ہے اور اسلامی حکومت زیدی مذہبی اور سیاسی فکر کے بنیادی اصولوں میں سے ایک کے طور پر امام پر انحصار کرتی ہے اور امامت کو زیدی مذہب کے پانچ اصولوں میں سے ایک مانتی ہے، ایک ہی وقت میں، یہ حکومت اور نظام کے قیام پر یقین رکھتا ہے، امام کی بنیاد پر جنگ اور خونریزی جائز نہیں ہے اور یہ صرف پرامن ذرائع سے ممکن ہے۔ حکومت کے حملے کے خلاف اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
حوثیوں اور یمنی حکومت کے درمیان جھڑپ
20ویں صدی کی نوے کی دہائی میں یمن کی حکومت اور علی عبداللہ صالح نے حزب الحق کے ساتھ ساتھ الشباب المومن تنظیم کی بھی حمایت کی اور انہیں مالی وسائل فراہم کئے۔ حسین حوثی نے وہابیت اور سلفی اور وہابی جماعتوں سے نمٹنے کے لیے حکومتی سہولیات کا بھی استعمال کیا، لیکن یہ تعلقات 11 ستمبر کے واقعات اور افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کے بعد بدل گئے۔ حوثی گروپ یمن کی حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی سمجھتے تھے اور حکومت کی عوام کے تئیں بے حسی اور عام غربت پر تنقید کرتے تھے۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملے اور علی عبداللہ صالح کی حکومت کے اس کے ساتھ اتحاد اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کے بعد، حسین الحوثی نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ 2003 میں حسین الحوثی کی طرف سے ہر نماز میں تکبیر اور امریکہ، اسرائیل کے خلاف عوامی نعرے اور استکبار سے بری ہونے کی ذمہ داری کے ساتھ ان مقامات نے حوثیوں کو یمن میں ایک زبردست بغاوت پر آمادہ کیا۔ حکومت حوثیوں کے خلاف فوج سے نمٹنے کے لیے، اس تنظیم کو ختم کرنے کے لیے، اس گروپ کے کارکنوں اور اس سے وابستہ افراد کو گرفتار کرے گی، ان میں سے متعدد کو پھانسی دے شہید کیا۔
حسین الحوثی
حسین الحوثی یمن کے عظیم عالم بدر الدین الحوثی کے بیٹے ہیں۔ وہ 1960ء میں یمن کے صعدہ صوبے کے روئیس کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ 11 ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کے ساتھ اتحادی بننے والی یمن کی حکومت نے حوثی تحریک کے حامیوں کے ساتھ ایسا سخت سلوک کیا کہ ہر اس اجتماع میں جہاں امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور سرکاری جیلوں میں اذیتیں دی جائیں گی۔
اسلامی بیداری کے آغاز کے بعد کی پیشرفت
خطے کے عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر کے پھیلنے کے ساتھ ہی یمنی نوجوانوں نے بھی یمنی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بغاوت شروع کردی۔ اس بغاوت کو خود حوثیوں اور عبدالمالک حوثیوں کی حمایت حاصل تھی اور صعدہ میں احتجاج کا دائرہ پھر بڑھ گیا۔ ان تنازعات کے نتیجے میں، حوثی مارچ 2011 میں صوبہ صعدہ پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس صوبے کا انتظام سنبھال لیا۔
یمن میں اسلامی بیداری کی دوسری لہر
2011 میں یمن کی اسلامی بیداری کا نتیجہ سعودی عرب کی قیادت میں خلیج فارس تعاون کونسل یا المباردہ الخلیجہ کا منصوبہ بنا۔ اس منصوبے میں، تمام یمنی جماعتوں اور دھاروں کے درمیان قومی مکالمے منعقد کیے جانے تھے تاکہ سال 2011 سے 2013 میں نئے آئین اور حکومت کے مسودے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچ سکیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں یمن کئی علاقوں میں تقسیم ہو گیا۔ لیکن عملی طور پر یہ تقسیم چھ خطوں میں بدل گئی، جسے تحریک انصار اللہ اور بعض یمنی گروہوں نے قبول نہیں کیا۔ آئینی مسودے کے منصوبے کی ناکامی، حکومتی بدعنوانی کا تسلسل اور عوام کی ضروریات کی فراہمی میں حکومت کی ناکامی اور خلیج فارس تعاون کونسل کے منصوبے کی ناکامی یمن میں اسلامی بیداری کی دوسری لہر کی بنیاد بن گئی۔ . تحریک انصاراللہ نے بہت سے زیدی قبائل اور عمائدین کو شامل کرکے اپنے انقلاب کو وسعت دی۔
جنگ کا آغاز
2015 سے سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین کے ساتھ مل کر یمن پر ہوائی حملوں کا آغاز کیا۔ سومالیہ نے بھی اپنے ہوائی اڈے ان حملوں میں استعمال کیلئے دیئے۔ کس دلیل کے تحت یہ حملے کئے جارہے ہیں ابھی تک واضح نہیں ہوا۔ کہتے ہیں کہ منصور ہادی کی حکومت نے درخواست کی تھی کہ حوثی مجاہدین کو ختم کرنے میں مدد کی جائے کیونکہ اگر میزبان حکومت اجازت دے تو ایسا کیا جاسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ منصور ہادی کی حکومت تو ختم ہوچکی ہے تو پھر کس قانون اور درخواست کے تحت یہ حملے کئے جارہے ہیں؟!؟! منصور ہادی خود استعفی دے چکا ہے۔ درحقیقت سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت کے پاس اتنا اسلحہ آیا کہاں سے؟ کہ جو 7 سال سے مسلسل یمن کے مظلوم عوام پر مظالم ڈھائے جارہا ہے! 2015 سے 2019 تک سعودی عرب امریکا کی طرف سے اس مدّت میں فروخت کئے جانے والے 73٪ اسلحہ کا خریدار بنا۔ مشرق وسطی میں اسلحے کی فروخت میں 2010 سے 2019 تک 62٪ اضافہ ہوا ہے۔ امریکا نے صرف 2018 میں سعودی عرب کو 550 عرب اور 600 کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ یمن کے مظلوم عوام کا اصلی دشمن امریکا ہی ہے جس نے پوری دنیا میں جگہ جگہ اپنی بربریت کی نشانیاں چھوڑ رکھی ہیں۔
حقوق بشر کی تنظیم "عین الانسانیة" کے تحت 2400 دنوں میں کہ جو تقریبا ساڑھے چھ سال کا عرصہ بنتا ہے، ۱۷ هزار اور ۲۹۰ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ۲۶ هزار اور ۹۳۱ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مارے جانے والے افراد میں ۴۲۷۰ بچے اور ۲۸۵۰ خواتین بھی شامل ہیں۔
ان حملوں میں ۱۵ ایئرپورٹ، ۱۶ بندرگاہیں، ۳۱۲ بجلی گھر، ۵۵۸ ٹیلفون ایکسچینج، ۱۹۹۴ حکومتی ادارے اور ۵۷۴۹ سڑکیں اور پلوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسی طرح اب تک ۳۹۸ کارخانے، ۳۶۵ تیل کے ٹینکر، ۱۱ هزار اور ۸۴۸۳ ٹرانسپورٹ کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔
اس کے علاوہ ۴۰۵ پیٹرول پمپ، ۶۸۹ بازار، ۵۷۹ هزار اور ۹۵۴ گھروں، ۱۸۰ یونورسٹیوں، 1128 اسکولوں ۱۴۷۸، مسجدوں، ۳۹۲ ہسپتالوں کو تباہ کرچکا ہے [2]۔
تحریک انصاراللہ؛ انقلاب کے پھیلاؤ سے لے کر سعودی عرب کی جارحیت کے خلاف دفاع تک
تحریک انصار اللہ نے شروع میں صعدہ پر کنٹرول حاصل کیا، صعدہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہ یمن کے دارالحکومت صنعا کی طرف بڑھنے لگے اور اس راستے پر سب سے پہلے انہوں نے دماج شہر پر قبضہ کیا جو یمن اور جزیرہ نما میں سلفیتوں اور وہابیوں کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔ اور یمن اور جزیرہ نما میں حوثی جنوری 2014 میں اس شہر میں داخل ہوئے۔ اور پھر اپنی انقلابی کارروائیوں کو جاری رکھتے ہوئے جولائی 2014 میں عمران صوبے پر قبضہ کر کے اس صوبے کے مرکز میں داخل ہو گئے۔ حوثی، عمران کے بعد صنعاء میں داخل ہوئے ااور (21 ستمبر 2014) کو یمنی حکومت کے ساتھ تنازعات کے بعد وہ یمنی دارالحکومت (صنعا) کے بیشتر اہم حصوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے جس میں صنعا کا کنٹرول بھی شامل ہے۔ صنعاء میں سرکاری مراکز اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت۔یمن کے اس وقت کے وزیر اعظم محمد سالم باسندوہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کرتے ہوئے، وہ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ایک معاہدے پر پہنچ گئے۔ انقلابیوں کو پرسکون کرنے کے لیے یمن کے صدر نے حوثیوں کے دو رہنماؤں کو اپنا مشیر منتخب کیا۔ صدر کے اس اقدام سے انقلابیوں کو تسلی نہیں ہوئی، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ صنعاء کی فتح سے مطمئن نہیں ہیں اور اپنے تمام مطالبات کی منظوری تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ملک کے تمام سیاسی طبقوں کی موجودگی۔ انصار اللہ تحریک کے عدم اطمینان اور اس تحریک کے ساتھ منسلک دھاروں کی وجہ سے منصور ہادی کی حکومت کے دوسرے وزیر اعظم خالد بحاح نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کارروائی کے بعد منصور ہادی نے بھی 21 جنوری 2015 کو اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا اور اسے ایوان نمائندگان میں پیش کیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ صدر کے استعفے کا ایوان نمائندگان میں ہونے والے اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔ صدر کے استعفے کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کے نہ ہونے سے یمن کو سیاسی خلا کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ یمن کی قومی کانفرنس کے انعقاد سے تحریک انصار اللہ نے سیاسی گروپوں کو سیاسی بحران کے حل کے لیے تین دن کا وقت دیا۔ تین دن کی مہلت اور یمن کے بحران کو حل کرنے میں سیاسی گروہوں کی ناکامی کے ایک دن بعد، انصار اللہ نے ایک بیان میں منصور ہادی کو برطرف کر دیا اور پھر 551 افراد پر مشتمل عبوری قومی اسمبلی نے غیر نمائندہ اسمبلی کی جگہ لے لی۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ عبوری دور میں یمن کی صدارت کا انتظام چھ رکنی کونسل کرے گی۔ اس کارروائی کے بعد منصور ہادی فرار ہو کر عدن چلے گئے اور اپنا استعفیٰ واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے عدن میں ایک عارضی حکومت قائم کی۔ اس کارروائی کے ساتھ ہی، 26 مارچ 2015 کو سعودی عرب کی قیادت میں علاقائی ممالک کے اتحاد نے منصور ہادی کی حمایت میں یمن پر شدید فضائی اور سمندری حملے کیے، جس کے بعد یمن کے بہت سے بنیادی ڈھانچے، فوجی اور شہری مراکز کو تباہ کر دیا گیا۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق 11 جولائی 2014 تک تین ہزار سے زائد افراد شہید اور سات ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ القاعدہ اور اتحادی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحادی افواج کے فضائی حملوں کے بعد انصار اللہ اور عوامی کمیٹیوں نے یمن کے مختلف علاقوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ تاہم سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کی جارحیت کے تقریباً دو ماہ گزر جانے کے بعد انصار اللہ تحریک اور عوامی قوتوں نے یمنی فوج کے ساتھ مل کر اتحاد کی جارحیت کے جواب میں سعودی عرب کے خلاف متعدد کارروائیاں کیں۔ اتحادی حملوں میں توسیع کے ساتھ یمنی انصار اللہ نے حملوں کو روکنے کے مقصد سے سعودی عرب کے خلاف بیلسٹک میزائلوں کا استعمال کیا۔
سعودی عرب اور اتحادیوں کا یمن پر حملہ
سربراہ عبدالملک الحوثی نے جمعہ کی رات یمن پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے کی مناسبت سے اپنے خطاب میں کہا کہ آل سعود حکومت امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور ان کے پٹھوؤں کی مدد سے یمن میں ایک بار پھر آمرانہ نظام برسراقتدار لانا چاہتی تھی لیکن یمنی عوام اور فورسز کی ہوشیاری سے یہ سازش ناکام ہو گئی۔ انھوں نے یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ دنیا کے سب سے بڑے مجرموں نے یمن پر جارحیت کا نقشہ تیار کیا، سعودی عرب کو علاقے کے امن میں خلل ڈالنے والا ملک قرار دیا اور کہا کہ ریاض نے رہائشی علاقوں، بنیادی تنصیبات، صحت اور تعلیم کے مراکز پر بمباری اور عام شہریوں کو شہید کر کے یمن کے عوام کے ساتھ اپنی دشمنی کو ثابت کر دیا ہے۔ تحریک انصار اللہ کے سربراہ نے یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ سعودی عرب نے ہمسائیگی کے حق کو نظرانداز کرتے ہوئے یمن پر حملہ کیا ہے، مزید کہا کہ سعودی عرب نے یہ جرائم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی آڑ میں اور امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے انجام دیے ہیں۔ عبدالملک الحوثی نے سلامتی کونسل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی ادارہ صرف سرکش طاقتوں کی سلامتی کا تحفظ کرتا ہے اور اقوام متحدہ کا منشور مظلوم لوگوں کے لیے نہیں بنایا گیا ہے اور یہ صرف استبدادی اور آمرانہ حکومتوں کے مفادات کو پورا کرتا ہے۔ انھوں نے یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ یمن کے خلاف سعودی اتحاد دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگوں کو خرید کر مزاحمت کے محاذ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، کہا کہ یمن کے عوام خدا پر ایمان اور بھروسہ کرتے ہوئے ظلم اور ذلت کو برداشت نہیں کریں گے۔
عبدالملک الحوثی نے کہا کہ اس جارحیت کا سعودی عرب کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور سعودی حکومت کے لیے اس کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن پر وسیع فوجی جارحیت کے باوجود اس ملک کے عوام بدستور ڈٹے ہوئے ہیں اور جب تک یمن پر جارحیت جاری رہے گی ہم تمام جائز اور قانونی طریقوں سے اس کا مقابلہ اور استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کریں گے۔ تحریک انصار اللہ کے سربراہ نے اس خطاب کے دوران اسی طرح بعض ممالک، حکام اور شخصیات خاص طور پر حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کی جانب سے یمن کے عوام کی حمایت کرنے پر ان کی تعریف کی [3]۔
تحریک انصاراللہ کا انقلاب کا نعرہ
سید عبدالملک الحوثی کی قیادت میں یمنی عوام کے دوسرے انقلاب نے اپنی سرگرمی کا آغاز تین نعروں سے کیا:
- بدعنوان حکومت کا تختہ الٹنا: تحریک انصار اللہ کا خیال تھا کہ یمن کی حکومت ہر لحاظ سے بدعنوان ہے، مثال کے طور پر ہم ان تیل کی مراعات کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جن پر احمر خاندان اور سعودی عرب سے وابستہ کچھ افراد کی اجارہ داری ہے۔
- عوام سے معاشی دباؤ اور بھاری مہنگائی کو دور کرنا اور بدلے میں وسیع پیمانے پر سرکاری کرپشن میں کمی
- قومی مذاکرات کے منصوبے کی کامیابیوں پر عمل درآمد، جسے اس وقت تک یمنی حکومت نے بے حسی سے نظر انداز کیا تھا۔
اسرائیل کی نابودی تک حملے جاری رہیں گے
یمنی تنظیم کے اعلی رہنما نے خطے میں امریکی موجودگی کو بین الاقوامی جہازرانی کے لئے خطرہ دیتے ہوئے کہا کہ یمن کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کی صورت میں مغرب کو بھاری قیمت چکانا ہوگا۔ یمنی مقاومتی تنظیم انصاراللہ کے سیاسی دفتر کے رکن علی القحوم نے المیادین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں امریکی موجودگی کی وجہ سے اہم سمندری گزرگاہوں پر مغربی کی اجارہ داری قائم ہورہی ہے جس سے بین الاقوامی جہازرانی کو خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت کی جانب فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے جواب میں ہونی والی کاروائیاں اسرائیل کی مکمل نابودی تک جاری رہیں گی۔
انہوں نے آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر میں امریکی اور اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے بین الاقوامی جہازرانی اور خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
علی القحوم نے کہا کہ یمن ایک خودمختار ملک ہے جو اپنی تمام سرحدوں کی پوری طرح حفاظت کرے گا اور بین الاقوامی قوانین کے تحت سمندری حدود کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔
انہوں نے فلسطین کے لئے یمن کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک کے دباو میں آکر اپنا موقف تبدیل نہیں کریں گے۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ صہیونی حکومت کی حمایت کرنے والے اس کی قیمت ادا کریں گے۔ امریکیوں سے مخاطب ہوکر انہوں نے کہا کہ خطے کے امن سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اسرائیل کی موجودگی میں خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ یمن کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی صورت میں دشمنوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا [4]۔
حوالہ جات
- ↑ یمن اور یمنیوں کا اسلام میں کردار، hawzahnews.com
- ↑ یمن اور یمنیوں کا اسلام میں کردار، hawzahnews.com
- ↑ یمن پر سعودی جارحیت کا ایک سال مکمل، تحریک انصار اللہ کے سربراہ کا خطاب، sahartv.ir
- ↑ اسرائیل کی نابودی تک حملے جاری رہیں گے، mehrnews.com