صوفیہ نوربخشیہ عالم اسلام کا ایک مستقل اور اتحاد بین المسلمین کا داعی مسلک ہے۔ جس کی بنیاد اللہ، اس کے فرشتوں، قرآن پاک سمیت آسمانی کتابوں اور صحیفوں، انبیاء اور قیامت پر ایمان اور کلمہ بنائے اسلام، نماز پنجگانہ، رمضان کے رو‌زے، زکوۂ اور حج پر عمل کرنے پر ہے۔ اعتقادات میں سید محمد نور بخش کی کتاب الاعتقادیہ اور فروعی امور میں انہی کے فقہ الاحوط اور سید امیر کبیر کی کتاب دعوات صوفیہ پر عمل پیرا ہیں۔

نوربخشیہ
نامنوربخشیہ
بانیسید محمد نوربخش
نظریہاسلامیت اور تصوف

سید محمد نور بخش قبستانی

سید محمد نور بخش قبستانی 13 شعبان المعظم 795 کو ایران کے ایک شہر قائن میں پیدا ہوئے اور 73 سال کی عمر میں 13 ربیع الاول 869ھ میں ایران ہی کے ایک مشہور شہر رے میں انتقال کر گئے اور محلہ سولغان میں مدفون ہیں۔ نام سید محمد لقب نور بخش خواجہ اسحاق ختلانی سے ایک خواب کی بنا پر آپ کو نور بخش کا لقب ملا ۔تخلص احسائی احسا جگہ کا نام ہے اُس کی مناسبت سے احسائی کہلاتے ہیں اور کنیت ابو القاسم والد کا نام محمد بن عبداللہ قطیف ، قہستان شہر میں ولادت کی نسبت سے قہستانی کہلاتے ہیں۔ انکا سلسلہ نسب سترہ پشتوں سے حضرت امام موسیٰ کاظم سے جاملتا ہے۔

نوربخشیت کی بنیاد

نور بخشیت کی اصل اسلام اور اسلامیت سے ماخوذ ہے ۔تصوف اس کا روحانی نظریہ جس میں حقیقت پر تاکید ہے۔ اسی تصوف کے بزرگ کا مذہب صوفیہ نوربخشیہ ہے۔اس سلسلہ میں شخصیات کے ناموں اور مقاموں کی تربیت کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ مذہب صوفیہ المعروف نور بخشیه سید محمد نور بخش قہستانی کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ نور بخشیہ اگر چہ دیگر سلاسل تصوف کی طرح ایک سلسلہ تصوف ہے لیکن اس کی انفرادی اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس سلسلے کے مؤسس سید محمد نور بخش قہستانی نے ایک مستقل فقہی دبستان کی بنیاد ڈالی اور دعوی کیا کہ انہوں نے اہل اسلام کے درمیان موجودہ اصولی اور فروعی اختلافات کو ختم کر کے شریعت محمدیہ کو بعینہ اسی طرح بیان کیا ہے جیسا کہ آنحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں موجود تھا۔ چنانچہ سید محمد نور بخش نے ایک عارف اور صوفی کے علاوہ ایک فقیہ اور مصلح کا کردار بھی ادا کیا ۔ سید محمد نور بخش نے اپنی تصانیف میں اپنا مذہب صوفیہ قرار دیا ہے۔ یوں مسلک صوفیہ نوربخشیہ ایک ایسے مکتب فکر کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جس میں دین کے ظاہری پہلوؤں کے ساتھ ساتھ باطنی پہلوؤں پر بھی خصوصی طور پر زور دیا گیا ہے۔ اور تعصب اور تنگ نظری کی بجائے وسیع المشربی اور انسان دوستی کو شعار بنایا گیا ہے۔ اس مسلک کے اکابرین کو کوئی محقق کسی خاص فرقے کا پابند قرار نہیں دے سکتا۔

نور بخشیہ فرقہ

نور بخشیہ فرقہ، سید محمد نور بخش کو ایک بڑے مجدد مانتا ہے۔ اس فرقہ کا عقیدہ یہ ہے کہ سید محمد نور بخش کا کہنا تھا کہ میں شریعت محمدی سے بدعتوں کو دور کرنے اور حضور کے زمانے میں رائج احکام کے زندہ کرنے پر مامور ہوں اور مسلمانان عالم کے متحد ہونے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ بغیر کسی کمی بیشی کے جو کچھ حضور کے دور میں رائج تھا اُس وقت کے فروعی مسائل اور اصول دین کو محور کے طور پر اپنا یا جائے تا کہ امت کے مابین اختلافات کا خاتمہ ہو۔

الفقہ الاحوط

الفقہ الاحوط میں سید محمد نور بخش نے سنی تعلیمات اور شیعہ تعلیمات کے قریب قریب متوسط مسلک کو بیان کیا ہے۔ سید محمد نور بخش فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی پر اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ترویج کی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں حضرت محمد یہ اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں۔ عہد نبوی میں رائج شریعت محمدیہ ہو بہو نذکرہ سلسلہ الذہب کے جملہ بزرگان دین کے سینوں میں یکے بعد دیگرے پہنچی ہیں ۔ جب یہ علم سید محمد نور بخش موسوی قہستانی تک پہنچا تو انہوں نے غیبی اور الہام ربانی کے تحت اپنے سینہ علم سے اُسے صفحہ قرطاس پر منقل کیا چنانچہ اس اشارہ غیبی اور الہام ربانی کا اظہار انہوں نے الفقہ الاحوط کے افتتاحی کلمات میں بیان کیا ہے۔ جب یہ مجموعہ شریعت محمدیہ کاغذ پر منتقل ہوا تو سید محمد نور بخش نے اس مجموعہ کو الفقہ الاحوط کا نام دیا [1]۔ اب اس فقہی کتاب کی تدریس تمام مدارس نور بخش کے نصاب میں شامل ہے[2]۔

سلسلۃ الذهب

سید محمد نور بخش نے اپنی تصنیف سلسلہ الذهب ملقب بہ مشجر الاولیاء میں سلسلۃ الذھب کے جملہ پیران طریقت کے مختصر احوال اور اقوال جمع کئے ہیں۔ اس کتاب میں خاتم الانبیاء حضرت محمد اللہ سے شروع کر کے آدم الاولیاء حضرت علی علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام تک ائمہ اہل بیت کے حالات اور سلسلۃ الذھب کے پیران طریقت کے مختصر سوانح تحریر کئے ہیں ۔حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بعد ائمہ اثنا عشر میں سے باقی تین ائمہ یعنی حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور حضرت امام علی النقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا ذکر مبارک افراد کی حیثیت سے اور حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کا ذکر رجال الغیب میں سے ہونے کی حیثیت سے کیا ہے [3]۔

جبکہ حضرت امام علی الرضا علیہ السلام کے خادم اور مرید ابو محفوظ معروف کرخی سے سلسلہ شیخ سری سقطی اور پھر شیخ جنید بغدادی سے چل نکلا ہے۔ تصوف کی اکثر جماعتوں اور سلاسل کی انتہا شیخ جنید بغدادی پر ہوتی ہے۔ طائفہ اول سلسلہ الذهب الصوفیہ مشرب ہمدانیہ نوربخشیہ جو تصوف کے تمام سلسلوں میں سب سے زیادہ طاقتور اور کامل ترین ہے۔ سلسلہ الذھب مذہب صوفیہ، مشرب ہمدانیہ نور بخشیہ اس طرح ہے کہ سید محمد نور بخش خواجہ اسحاق ختلافی کے مرید ہیں اور وہ امیر کبیر سید علی ہمدانی کے مرید ہیں ،وہ شیخ محمود مزدقانی کے مرید اور وہ شیخ علاؤالہ دولہ سمنائی کے ، وہ شیخ احمد جوزجانی کے، وہ شیخ علی لالا کے اور وہ شیخ نجم الدین کبری کے، وہ شیخ عمار یاسر کے، وہ شیخ ابو نجیب سہرودی کے ،وہ شیخ احمد غزالی کے،وہ شیخ ابو بکر نساجی کے ،وہ شیخ ابو عثمان مغربی کے، وہ شیخ ابو علی کاتنبی کے، وہ ابو علی رود باری کے ، وہ سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی کے، وہ شیخ سری سقطی کے، وہ شیخ معروف کرخی کے مرید ہیں اور انہوں نے علم شریعت وسلوک طریقت و حقیقت و معرفت حضرت امام علی رضا علیہ اسلام سے حاصل کیا اور ان کے بعد ان کے خلیفہ اور جانشین بنے۔

نوربخشیوں کے عقائد

مسلک صوفیہ المعروف نور بخشیہ مکتبہ فکر کے عقائد جو کہ چودہ کلمات قدسیہ یا روحانی نعروں کا مخصوص ہنیت ہے یہی ہر فرد نور بخشی کا آئینہ بھی ہے ان کی مختصر جھلک یہ ہے: (۱) بنده، خدا (۲) ذریت، آدم (۳) ملت، ابراہیم (۴) امت محمد (۵) دین اسلام (۶) کتاب، قرآن (۷) کعبہ ، قبله (۸) متابعت ، سنت نبوی (۹) محب علی (۱۰) سلسلہ، ذهب (11) مذہب، صوفیہ (۱۲) مشرب، ہمدانی (۱۳) روش ، نور بخش (۱۴) مرید مرشد۔ ان کے ایک معروف عالم دین علامہ محمد بشیر نے لکھا ہے کہ یہ چودہ کلمات ہر فرد نور بخشی کے لئے ایک انمول موتی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نور بخشی بچوں کو نو کلموں کے ساتھ ان کلمات مقدسہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کا ورد کرنے کی تاکید بھی کرتے ہیں ۔ جب صبح صادق طلوع ہو جائے اذان دینے کا حکم بجالاتے ہیں۔ صبح کی فرض نماز سے پہلے اوراد صبحیہ پڑھتے ہیں اور فرض صبح کے بعد اوراد فتحیہ کا ورد کرتے ہیں۔ یوں خدا کی درگاہ میں آہ بکا کرتے ہوئے دُعا کرتے ہیں۔ پروردگار میں تجھ سے دل کے ساتھ رہنے والے ایمان کا طلب گار ہوں اور یقینی پہلو کا خواہاں ہوں جس کے حصول کے بعد کسی قسم کے کفر و شرک اور شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ نیز اس رحمت کا خواستگار ہوں جس کے ذریعے میں دنیا و آخرت دنوں میں عزت کا شرف حاصل کروں۔ پنجگانہ نمازوں کے بعد اسی توحید و وحدانیت کی روح افزا اذکار کے ساتھ آواز بلند کرتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد روزانہ یہ ورد زبان حال اور زبان قال دونوں سے جاری کرتے ہیں۔ جس کا اردو ترجمہ یوں ہے: اللہ تعالی نے خود گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں۔ فرشتے اور اہل علم بھی عدل و انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیتے ہیں اس اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ جس امر کی اللہ تعالٰی نے گواہی دی ہے میں بھی اس کی گواہی دیتا ہوں اور اس گواہی کو اپنی ضرورت کے لئے اللہ کے ہاں یقین رکھتا ہوں ۔ یہ گواہی بھی اللہ کی میری ایک امانت ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس امانت کو میرے حوالے کرے گا۔ بے شک اللہ کے نزدیک قابل قبول دین اسلام ہے۔ اللہ تعالی کا خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام کے ظہور ہونے کو تسلیم کرتے ہیں ان کی اولاد ذریت آدم کہلاتی ہیں۔ حضرت آدم سے لے کر حضور تک تمام انبیاء و رسل آخری صاحب ختم رسالت حضور کی زندگی میں تکمیل دین و دنیا کا منجانب اللہ اعلان ہو گیا ہے چنانچہ ملت اسلام کی روش حضرت ابراہیم کی ملت سے غماز ہوتی ہے۔

ملت کا لفظ تو حید طریقہ دین اور راستے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نوربخشیہ میں اس نعرے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نور بخشیہ کا چوتھا نعرہ کہ ہم حضرت محمد کے امتی ہیں جو سرور کائنات اور خاتم الانبیاء و مرسلین ہیں۔ چہاردہ معصومین سمیت اور مذہب کے تمام پیران طریقت شیخ معروف کرخی علیہ سے لے کر موجودہ پیرسید محمد شاہ نورانی الموسوی تک ، کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔

کتاب الاعتقادیہ

کتاب الاعتقادیہ میں سید محمد نور بخش قہستانی فرماتے ہیں کہ اس بات پر اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ حضور نے تمام سابقہ شریعتوں اور شرعی امور کا خاتمہ کیا اور حضور خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں۔ سید محمد نور بخش کا ارشاد ہے کہ آدم الاولیاء حضرت علی علیہ السلام اور خاتم الاولیاء حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔ جس طرح شریعت کے بارے میں انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا واجب ہے اسی طرح طریقت میں اولیاء کرام پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ ولایت کا یہ سلسلہ قیام قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ سید محمد نور بخش آسمانی الہامی کتب کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا واجب سمجھتےہی کہ قرآن، تورات، زبور، انجیل او جملہ آسانی صحیفے سب کے سب کلام اللہ ہیں ۔قرآن مجید لفظ اور معنی دونوں اعتبار سے تمام آسمانی کتابوں پر ممتاز ہے۔ قرآن پہلی کتابوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ مسلک صوفیہ المعروف نوربخشیہ کے پیرو کار حضرت علی کو تمام علوم نبوت کے مغز ہونے کے ناطے سے اپنی تمام تر محبت کے اظہار کے لئے دیگر تمام اصحاب رسول سے بر ہمہ وجوہ اعلیٰ و اولی اور افضل انسان شمار کرتے ہیں۔ لیکن جامع صفات عالیہ ہونے کی وجہ سے حضرت علی کی شان کو نرالی جانتے ہیں۔ اس بنا پر حضرت علی کو سید الوصیین ، امام المتقين ، امیر المومنین اور خلیفتہ المسلمین بھی کہتے ہیں۔

امیر کبیر سید علی

امیر کبیر سید علی معروف شاہ ہمدان آٹھویں صدی ہجری کے اولیاء اللہ اور مصلحین و مبلغین میں سے ہیں ۔ ہمدان ایران کا ایک مشہور شہر ہے۔ ہمدان شہر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے امیر کبیر سید علی ہمدانی کہلاتے ہیں۔ میر سید محمد نور بخش فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین سلسلہ ذہب کی دوسری کڑی ہیں یہی سلسلہ ذہب جو مشرب ہمدانیہ سے معروف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نور بخشی ہوں یا ذہبیہ حضرت شاہ ہمدان ان سب سلسلوں کی ایک کڑی ہیں۔ شاہ ہمداں کے جمع کردہ مجموعہ احادیث السبعین فی فضائل امیر المؤمنين الاربعين في فضائل امیر المومنین اور کتاب مودۃ القربیٰ مشہور ہے اس طرح وہ صاحب کثیر التصانیف بزرگ ہیں ۔

سلسلہ عالیہ ذہبیہ

نور بخشی سلسلہ، سلسلہ عالیہ ذہبیہ کے نام سے معروف ہے اور یہ سلسلہ تمام کتب تصوف میں کئی ناموں کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے معروفیہ ، سری سقطیه ، جنیدیہ ، ہمدانیہ، سہروردیہ،کبیرویہ، امیریہ، وغیرہ۔ سید محمد نور بخش نے تمام مسلمانوں کو یکسوئی کے ساتھ باہم مل بیٹھ کر زندگی گزارنے کے اصول بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایمان کے پانچ ارکان ہیں۔ اسی طرح اسلام کے بھی پانچ ارکان ہیں؛ کلمہ شہادت، صلوۃ خمسہ، صوم رمضان، زکوۃ المال، حج البیت ۔ ان چیزوں کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اصلاح نفس و روح کے طریقوں سے بھی پردہ کشائی کی اور روحانی تزکیہ وتحلیہ کے اصولوں کو متعین کرتے ہوئے ریاضت کو ہر فرد کے لئے ضروری قرار دیا اور عمل و عبادت کے ذریعے روحانی ارتقائی درجات طے کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔

نوربخشیہ کے ہاں حالت قیام میں اہل تشیع اور مالکیوں کی طرح ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور دیگر اہل سنت کی طرح ناف کے نیچے یا ناف کے اوپر اور چھاتی کے نیچے ہاتھوں کو باندھ کر رکھنا بھی روا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ رخ قبلہ کی طرف ہو ۔گرمیوں میں ہاتھوں کو کھول کر رکھنا اور سردیوں میں ہاتھوں کو باندھ کر رکھنا بہتر ہے۔ اس طرح وضو میں پاؤں کے صاف ہونے کی صورت میں اہل تشیع کی طرح مسح کرنے کی اجازت اور ناپاک ہو جانے کی صورت میں اُن کا دھونا مناسب قرار دیا ہے ۔ وضو میں منہ کو اور کہنیوں سمیت ہاتھوں کو پانی سے دھونے اور اپنا سر او ٹخنوں سمیت پاؤں کا مسح کرنے کا حکم ہے۔ منہ کا دھونا، پیشانی سے ٹھوڑی تک جس طریقے سے چاہے روا ہے ۔ ہاتھوں کا دھونا جس طریقے- سے چاہے دھوئے۔ نوربخشیہ کے ہاں جہاں ان کا کوئی بڑا عالم دین موجود نہیں ہوتا وہاں دینی رہنمائی کے لئے اہل افراد موجود ہیں جنہیں آخوند کہتے ہیں۔ وہ اپنی تعلیمات کے معلم ہوتے ہیں اور امامت و دینی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں۔ [4]۔

نوربخشیوں کا مسکن

نور بخشی ہندوستان کے دراس تھن گام، کارگل، لذاخ، شملہ صوبہ ہماچل پردیش کے موضع دہرہ دون وغیرہ میں رہتے ہیں۔ یہاں تقریبا ہزاروں گھرانے نور بخشیوں کے آباد ہیں اور سب تبت کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور پاکستان میں کراچی، لاہور، پنڈی ، اسلام آباد ، مری ، ایبٹ آباد ، پشاور، گلگت، اور بلستان کے شہروں میں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ الفقہ الاحوط نوربخشیہ کی طرف سے اور دعوات صوفیہ ، الفقہ الاحوط انجمن صوفیہ نوربخشیہ دراس کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ اب ہر نور بخشی کے گھر یہ کتاب موجود ہے۔ نور بخشی مسلک میں الفقہ الاحوط کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

نوربخشوں کی کتابیں

کافی کتابیں عربی اور فارسی میں بھی موجود ہیں۔ اردو میں نور المومنین ، فلاح المومنین، عقائد المومنین چنانچہ علما نوربخشیہ کی فعال تنظیم ندوہ اسلامیہ کی جانب سے ابھی کئی فارسی عربی کتابوں کے ترجمے شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ 1992ء تک نور بخشی تراجم کی کمی کی وجہ سے نور بخشی فلاح المومنین کے مطابق اپنے دینی امور بجالاتے تھے۔ 1992ء کے بعد ندوہ اسلامیہ نوربخشیہ کی طرف سے کتاب دعوات صوفیہ، الفقہ الاحوط شائع ہوئیں۔ اور کئی کتابیں اور تراجم چھپ کر منظر عام پر آگئیں ہیں۔ کتاب الفقہ الاحوط اور کتاب الاعتقاد یہ پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ان کا مسلک نور بخشیہ کہلاتا ہے۔ سید محمد نور بخش کی تصانیف خصوصاً كشف الحقائق میں تصوف کو بہت ہی عمیق انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک تصوف وہ واحد دین الہی ہے جو کہ انسانی زندگی کی نجات کی ضمانت دیتا ہے۔ ان کے نزدیک تصوف اور اسلام ایک دوسرے کے لئے لازمی ہیں ۔اسلام اور تصوف ایک دوسرے کے لئے جزلا نیفک کی حیثیت رکھتے ہیں ۔شرطیہ تصوف کو اسلام کے آئینے میں دیکھیں کیونکہ اسلام اگر جسم ہے تو تصوف اس کی روح ہے [5]۔

تصانیف سید محمد نور بخش

  • اصول عقائد (عربی)،
  • الفقه الاحوط (عربی)،
  • بهم الہدی ( فارسی )،
  • مشجر الاولیاء ( عربی ، فارسی )، [6]۔
  • رساله کشف الحقائق ، رساله سلسله ذهب،
  • غزلیات نور بخش، دیوان نور بخش،
  • انسان نامه ( فارسی )،
  • سلسله اولیاء (فارسی)،
  • رساله معرفت،
  • سیر و سلوک،
  • رساله خواند،
  • رساله نفس شناسی،
  • عبرت جامعه رسالہ مکتوبات

نجم الهدی: حضرت سید محمد نور بخش موسوی کی یہ مایہ ناز کتاب ہے جو چار کوکبوں پر مشتمل ہے اس کتاب کے اندر تصوف کے مسائل نہایت ہی لطیف اور حسین انداز میں پیش کئے گئے ہیں۔ شریعت، طریقت ، حقیقت اور معرفت میں فرق کو مختلف انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ کوکب اول میں اداب شریعت کو کب دوئم میں لوازم طریقت کو کب سوئم میں حقیقت اور کو کب چہارم میں مدراج معرفت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ کتاب نجم الہدی نثر کی بجائے نظم میں لکھی گئی ہے اس کتاب کے شروع میں حمد باری تعالٰی نعت رسول مقبول اور دُعائیہ کلمات آتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. محمدبن‌ محمد، الفقه‌ الاحوط ( عربی‌ اردو)،اداره‌ مدرسه‌ شا‌ه‌ همدان‌ صوفیه‌ نوربخشیه‌ ؛ المعروف‌ اسلامک‌ اکیدمی‌ سکردو 2004م
  2. سید محمد نور بخش، کتاب الله الاحوط، اداره مدرسه شاه بندان صوفیه تو ریشه سکردو
  3. محمد بن محمد نوربخش، الفقه الاحوط، ج۱، ص۱۱۲ـ۱۱۳، کراچی (تاریخ مقدمه ۱۳۹۳)
  4. مولانا شکور علی انور کوروی، آئینه اسلامی
  5. سلیم چشتی، تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول:2009ء،ص324
  6. سید محمد نوربخش، مشجر الاولیا