امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات کے بعد شیعوں میں کئی فرقے پیدا ہو ئے۔ ایک تو وہ جس نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرف امامت منسوب کی اور ان کی نسل میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے بیٹےامام مہدی علیہ السلام تک ۔یه فرقه امامیه اثناعشری یا صرف شیعه کے نام سے معروف ہے ۔دوسرا وہ فر قہ جس نے اسماعیل بن جعفر صادق کو اور ان کے بعد اُن کے صاحبزادے محمد بن اسماعیل کو اپنا امام تسلیم کیا اور پھر ان کی نسل میں امامت مانتا رہا۔ یہ فرقہ جناب اسماعیل کی امامت پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے ” اسماعیلیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

تاریخ

اسماعیلی خلیفہ مستنصر کی وفات کے دوسرے دن ۱۸ ذی الحجہ کو امام مستعلی کی بیعت عمل میں آئی اس وقت ان کی عمر ۲۱ سال تھی ۔ امام مستعلی کے سبب، امامت کو قوت حاصل ہوئی اور ان کی نسل میں اللہ تعالیٰ کا کلمہ قیامت تک باقی رہے گا۔ امام مستعلی کی ولادت ماہ محرم ۴۶۷ھ میں ہوئی۔ بوہرے مستنصر باللہ کے بعد امام مستعلی باللہ کو امام بحق جانتے ہیں۔ امام مستعلی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے آمر با حکام اللہ تخت نشین ہوئے۔ امام آمر کے قتل کے بعد مستعلویوں نے اپنی دعوت یمن میں منتقل کر لی۔ پھر ان کا بیٹا ابو القاسم طیب جس کی عمر اس وقت ڈھائی سال تھی جو حقیقی امام تھا نزاریوں کے ڈر سے چھپا دیا گیا تھا [1]۔

عقائد

داؤدی بوہرہ اہل تشیع کی اسماعیلی شاخ کا ایک ذیلی فرقہ ہے [2]۔ امام جعفر صادق ع کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔امام صادق ع کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق ع کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق ع کی زندگی میں ہی ہو گئی۔جب امام صادق ع کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثرلوگوں نے امام کاظم ع کو امام مان لیا۔ لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے۔ یہ لوگ "اسماعیلی" کہلائے۔ اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔ آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے "خلافت فاطمی" کی بنیاد رکھی۔ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا۔ مستعلی اور نزار دو بھائی تھے۔ مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے۔ ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے" بوھرہ" ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے "آغا خانی" ہیں۔ [3]۔ امامت کا سلسلہ ان کے ہاں تاحیات پشت در پشت موجود ہے اور چلتا رہتا ہے ۔ ان کی مسجد بھی دوسرے فرقوں کی طرح الگ ہے اور وہ دوسروں کی مسجد میں کبھی نماز نہیں پڑھتے اور نہ دیگر اماموں کی امامت میں نماز پڑھتے ہیں۔ [4]۔

بوہروں کی ہندوستان آمد

یہ ایک اسماعیلی المذہب قوم ہے۔ سلطان صلاح الدین کی کوشش سے جب مصر سے مذہب مہدویہ اکھڑ گیا تو اکثر اسماعیلی مصر اور مغرب سے نکل کر یمن میں رہنے لگے۔ یمن ایک زرخیز زمین اور مرطوب موسم والا ملک ہے۔ یمن میں سب سے اہم قبیلہ یا خاندان ملکہ سبا کا ہے ۔ سبا حکومت جنوبی یمن کے علاقے میں قائم تھی اور اس کا صدر مقام صفا کے قریب مارب تھا ۔ یمن کے شہر حراز میں قدیم سے ان کا داعی موجود تھا۔ پھر ہندوستان چلے آئے۔ اب ہندوستان میں گجرات، دکن ،مالوہ، کوکن اورراجپوتانہ میں بوہرے کے نام سے مشہور ہیں۔

وجہ تسمیہ

بیوہار ہندوستانی ( ہندی زبان ) میں تجارت کو کہتے ہیں اور بوہرہ کے معنی تاجر کے ہیں۔ بوہرہ لفظ بوہار سے مشتق ہے اس کی لغوی معنی تاجر کے ہیں اور بوہرے تجار کے معنی میں اس لفظ کی جمع ہے۔ چونکہ یہ ساری قوم تجارت پیشہ ہے اس لئے بوہرے کہلاتی ہیں۔

مذہب

یہ لوگ اسماعیل یمنی کے پیرو ہونے کے سبب اسماعیلی کہلاتے ہیں۔ ایک فاضل بو ہرے نے جس کا نام عبدالعلی سیف الدین ہے اور سیفی تخلص ہے ایک کتاب عربی زبان میں لکھی ہے جس کا نام "مجالس سیفیہ" ہے۔ اُس کتاب سے بھی یہ ثابت ہے کہ بوہرے ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں۔ مجالس سیفیہ کی نویں جلد میں اس طرح مذکور ہے کہ شیخ آدم صفی الدین بن ذکی الدین نے کہا ہے کہ مستنصر باللہ نے اپنے پاس مصر کے دو آدمی بلائے اُن میں سے ایک کا نام عبد اللہ اور دوسرے کا نام احمد تھا۔ بوہروں کے بیان کے مطابق ان کے پہلے خلیفہ عبداللہ تھے جنہیں خلیفہ مستنصر باللہ نے ہندوستان میں اسماعیلی مذہب کی تبلیغ پر مامور کیا تھا۔ بوہرے کہتے ہیں عبداللہ اور احمد دونوں اکٹھے ہندوستان آئے تھے۔

بوہروں کی جماعت میں فرقے

بوہرے اسماعیلی شیعوں کی ایک شاخ ہے۔۱۹۲۱ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ ترپن ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔ یہ زیادہ تر ہندو نسل کے مسلمان ہیں۔ لیکن بعض عربی النسل ہونے کا بھی دعوی کرتے ہیں۔ اس فرقہ کے سردار نے عرب چھوڑ کر ہندوستان کے شہر بندہ میں بود و باش اختیار کر لی۔ سولھویں صدی کے آخر میں بوہروں کے فرقہ کی سرداری کے دو دعوے دار اُٹھ کھڑے ہوئے تھے جس کے سبب ان کی دو شاخیں ہو گئیں ۔ ایک داؤدی بوہرے اور دوسرے سلیمانی بوہرے۔ ان کا اختلاف زیادہ تر شخصی ہے۔ داؤدی بوہرے داؤد ابن قطب شاہ کو داؤ د ابن عجب شاہ کا جانشین تصور کرتے تھے ۔ سلیمانی بو ہرے داؤ د ابن عجب شاہ کی بیوی کے بھائی ذارہ سلیمان ابن یوسف کو جانشین قرار دیتے تھے۔ یمن کی جماعت سلیمان کو اپنا امام یا داعی تسلیم کرتی ہے۔ حراز کا علاقہ سلیمانی بوہرہ جماعت کا مرکز ہے ۔ ہندوستان کی جماعت داؤد ابن قطب شاہ کے تابع فرمان ہو گئی اور اسے اپنا ستائیسواں داعی تسلیم کر لیا۔ ہندوستان میں بوہرے اور خوجے سب سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اس جماعت کے داعی مطلق سورت کے شیخ لقمان ملا جی حبیب اللہ صاحب ہیں۔

سلیمانیوں کے مرشد یمن میں ہیں۔ سلیمانیوں کی تعداد داؤدیوں سے کم ہے۔ بوہروں کے مبلغ کا نام ملا علی بھی ہے۔ بوہرہ روایت کی رُو سے وہ صاحب کشف و کرامات بھی تھے۔ یہ لوگ سلیمان ابن یوسف کی پاسداری سے سلیمانی بوہرے کہلاتے ہیں۔ ان دونوں میں کوئی اصولی تخالف نہیں صرف سلسلہ دعوت جدا گانہ ہے۔ تعداد کے لحاظ سے داؤ دی فرقہ بڑا ہے اور ان کے داعی سید نا ابو محمد طاہر سیف الدین ہے جو بوہرہ جماعت کے داعی اور مقتدائے اعظم بھی ہیں۔ یہ ہندوستان کی بوہرہ کمیونٹی کے پیشوائے اعظم ہیں۔ یہ بوہروں کی تعلیمی، مذہبی ، دنیوی و دینی فلاح بہبود، عافیت و حفاظت کے منجانب اللہ محافظ و پاسبان ہیں۔ بوہرے عقائد میں شیعہ حضرات سے ضرور ملتے ہیں لیکن مذہبا وہ اسماعیلی شیعہ ہیں۔ بوہروں کی سنہری زرین پگڑیاں بوہرہ کمیونٹی کی شوکت و عظمت کا پتہ دیتی ہیں ۔ موجودہ داؤدی بوہرہ برادری کے روحانی پیشوا سید برہان الدین سیفی ہیں جو سید نا ابو محمد طاہر سیف الدین کے بڑے بیٹے ہیں ۔ ان کی ۹۶ ویں سالگرہ مئی ۲۰۰۷ء کے پہلے ہفتے میں یمن میں منائی گئی جس میں پاکستان سے تقریباً ۱۰ہزار بوہروں نے شرکت کی۔ دوسرے بوہرے ہندوستان میں سلیمانی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے مبلغ کا نام علی ابن محسن ہے۔ سلیمانی بوہروں کے مطابق علی ابن محسن صاحب کشف و کرامات تھے [5]۔

بوہروں کی زیارت گاہ

بوہروں کی زیارت گاہ عام ہے خانجی بھائی کا مزار اودیپورمیواڑ میں ہے۔ بوہرے بڑے شوق و عقیدت سے ہمیشہ اُس کی زیارت کرتے ہیں۔ ناریل (کھوپرا) لے جاتے ہیں اور مزار پر ناریل توڑ کر تقسیم کرتے ہیں اور اگر بتیاں جلاتے ہیں۔

علمی وادبی کیفیت

بوہروں میں عری زبان کے بڑے بڑے ادیب ہیں۔نظم و نثر فصاحت بلاغت کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ہمیشہ عربی اور فارسی میں کتابیں لکھتے ہیں۔ علماء خط و کتابت بھی آپس میں عربی زبان میں کرتے ہیں اور جو کم علم ہیں وہ گجراتی اور اُردو زبان میں لکھتے ہیں۔ گجراتی زبان بوہروں کے ہاں عام مادری زبان ہے۔ بوہروں کے علماء کسی سے مناظرہ نہیں کرتے۔ خاص کر مذہبی مناظروں سے بالکل بچتے ہیں۔ نہ اپنے مذہب کے اصول وفقہ وحدیث و تفسیر وعقائد کی کتابیں کسی غیر مذہب والے کو دکھاتے ہیں۔

بوہروں کا طرز معاشرت

بوہروں کا سارا فرقہ نماز روزہ کا پابند ہے اور اپنےمرشد کی اطاعت میں سرگرم رہتا ہے۔ کوئی مذہبی بوہرہ داڑھی نہیں منڈوا تا بلکہ داڑھی کو قینچی بھی نہیں لگاتااور سر پر بال نہیں رکھتا۔ نہ حقہ پیتا ہے نہ تمبا کو ( نسوار ) کھاتا ہے نہ سونگھتا ہے۔ جس شہر یا قصبے میں بوہرے رہتے ہیں وہاں ان کی تمام جماعت ایک محلے میں سکونت رکھتی ہے دوسرے مذہب والوں کو اُس میں جگہ نہیں دیتے۔ بوہرے اپنی شادی وغمی میں سوائے اپنی برادری کے دوسرے کو دخل نہیں دینے دیتے ۔اپنی ہی قوم میں شادی بیاہ کرتے ہیں۔ ناچ رنگ وغیرہ نہیں کرتے صرف آتش بازی چھوڑتے ہیں اور باجہ بجواتے ہیں۔ کسی غیر فرقہ والوں کی (مسلمانوں) میں سے بیٹی نہ لیتے ہیں نہ اُسے دیتے ہیں۔ میت خانہ اور قبرستان بھی سب سے علیحدہ رکھتے ہیں ۔ عاشورے کے دن کسی اہلِ سنت و جماعت کو اپنی مجلس مرثیہ خوانی میں شریک نہیں ہونے دیتے اس کا بڑا انتظام رکھتے ہیں سوائے عاشورے کے اور دنوں میں شریک ہونے دیتے ہیں۔ بوہروں کے ہاں کوئی تفریق نہیں نہ کوئی شیخ ہے نہ سید ہے نہ مغل ، نہ پٹھان اگر کوئی سید بوہرہ بن جائے تو بنی فاطمہ ہونے کی برتری اُس میں نہیں رہتی۔

بوہروں میں وصی اور ائمہ

بوہروں میں وصی اور ائمہ کی ترتیب اس طرح ہے۔ (۱)وصی حضرت علی ، (2) امام حسن، (3) امام حسین، (4)امام زین العابدین،(5) امام محمد باقر،(6) امام جعفر صادق،(7) امام اسماعیل، (8) امام محمد، (9) امام عبد الله (10) امام احمد (11) امام حسین (12) امام مهدی (13) امام قائم (14) امام منصور (15) امام معثر (16) امام عزیز (17) امام حاکم (18) امام ظاہر (19) امام مستنصر (20) امام مستعلی (21) امام آمر (22) امام طیب ۔ بوہروں کے نزدیک ۲۲ امام ہیں۔ نوٹ: بوہروں میں سلسلہ امامت جاری ہے جو تقریباً اب حاضر امام ۵۵ ہیں۔

اسماعیلی اسلام کے سات دعائم

اسماعیلی اسلام کے سات دعائم شمار کرتے ہیں ، ولایت ، طہارت، صلوۃ ، زکوۃ ، صوم، حج ، جہاد۔ ان دعائم میں ولایت افضل ترین ہے اور اسے اولیت حاصل ہے اس کے بغیر کوئی عمل بارگاہ خداندی میں مقبول نہیں ہوسکتا ۔ ہر امام زمان ولی اسرار ہوتے ہیں ان کے حکم کی تعمیل ہر ایک پر فرض ہے ۔ وہ معصوم ہوتے ہیں ان سے کسی گناہ کا سرزد ہونا ممکن نہیں [6]۔

بوہروں کا کلمہ

بوہروں کا کلمہ لا اله الا الله محمد رسول الله مولانا على ولى الله وصى رسول الله. بوہرے وضو مثل اہل سنت کے کرتے ہیں اذان میں۔ اشھدان محمد رسول الله کے بعد اشهدان مولانا علی ولی الله دو بار کہتے ہیں اور حي على الفلاح کے بعد حى على خير العمل محمد و على خير البشر و عترتهما خير العتر دو بار کہتے ہیں اور بعد اذ ان کے دُعا پڑھ کے باتیں کر کے چند قدم چلتے پھرتے ہیں ۔ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں نماز کاسامان تہ بند کرتا، ٹوپی مصلی جدا رکھتے ہیں۔ نماز کے وقت جو کپڑے پہنے ہوتے ہیں اُن کو اتار کر نماز کے کپڑے پہن کر نماز ادا کرتے ہیں مگر یہ بات صرف مسجد میں ہوتی ہے۔ گھر میں یا کسی اور جگہ عام کپڑوں ہی میں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ نماز تین وقت پڑھتے ہیں۔ (۱) ایک بار فجر کے وقت پڑھتے ہیں ۔ (۲) دوسری بار ظہر کے وقت ظہر وعصر کو ملا لیتے ہیں۔ دن کے بارہ بجے کے بعد جب آدھا گھنٹہ گزرا تو ظہر کی نماز شروع کرتے ہیں اور اُس کو ختم کر کے پیش امام وہیں بیٹھے رہتے ہیں ۔ اور ایک بجتے ہی عصر کی نماز پڑھا دی جاتی ہے غرضیکہ ڈیڑھ بجے تک دونوں نمازیں ختم ہو جاتی ہیں۔ (3) تیسری نماز مغرب کے وقت پڑھتے ہیں اور مغرب و عشاء کو ملا لیتے ہیں۔ بوہرے پنجتن کی تسبیح مقررہ قاعدے کے ساتھ پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے جاتے ہیں۔ بوہرے لوگ جمعہ کی نماز نہیں پڑھتے۔ اُس دن خطبہ وغیرہ کچھ نہیں ہوتا۔ جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز پڑھتے ہیں۔ مسجد میں عورتوں کے واسطے بھی ایک حصہ علیحدہ رکھتے ہیں۔ پیش امام بطور عامل اور قاضی ، بوہروں کی ہر بستی کے لئے مقرر ہوتے ہیں [7]۔

میثاق- عید غدیر

میثاق ( اردو لغت میں میثاق کے معنی قول و قرار، عہد و پیمان اور معاہدہ کے ہیں ) امام الزمان کے ساتھ وفادار رہنے کی قسم ہے۔ بوہرے ۱۸ ذی الحجہ کو واقعہ غدیرخم ( مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک مقام ہے جسے خم کہتے ہیں اس جگہ ایک تالاب یا چشمہ تھا عربی زبان میں چشمہ کو غدیر کہا جاتا ہے ) کی یادگار میں عید مناتے ہیں۔ روزہ رکھتے ہیں غسل کرتے ہیں عید غدیرخم کے دن ہر مقام پر عامل بوہروں سے میثاق میں عقائد اور مذہب کی باتوں پر قائم رہنے اور بُری باتوں سے بچنے کا اقرار لیتا ہے اور ہر ایک بوہرہ اپنی حیثیت کے مطابق عامل کو نذر دیتا ہے۔ اس نذر کے چار حصے ہوتے ہی۔ں چوتھا حصہ عامل کو اور باقی حصے داعی کی سرکار میں جمع ہوتے ہیں ۔ عید غدیرخم کے دن ہر مقام پر ہر عامل بوہروں سے میثاق لیتا ہے اور پندرہ برس سے جس کی عمر کم ہو اُس سے میثاق نہیں لیا جاتا اس میثاق میں عقائد اور مذہب کی باتوں پر قائم رہنے اور بُری باتوں سے بچنے کا اقرار لیا جاتا ہے [8]۔

داؤدی بوہرہ اور سلیمانی بوہرہ

ان کا اختلاف محض علاقائی ہے۔ داؤدی بوہروں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہروں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں۔ البتہ پاکستان میں بھی سلیمانی بوہروں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ داؤدی بوہرہ کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں، جبکہ سلیمانی بوہرہ پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے[9]۔

حوالہ جات

  1. ڈاکٹر زاہد علی، تاریخ فاطمین مصر حصہ دوم، نفیس اکیڈمی اسٹریچن روڈ کراچی
  2. داؤدی بوہرے ایک اجمالی تعارف، kitabosunnat.com
  3. بوہری فرقہ کے آغاز، mohaddis.com
  4. عاشق حسین، عہد فاطمی میں علم و ادب، ڈی۔ بی۔ بکڈ پومسجد بند روڈ بمبئی
  5. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 402
  6. مولوی نجم الغنی خان رامپوری مذہب اسلام ، ، ضیا القرآن پبلیکیشنز الاہور
  7. مرز امحمد سعید، مسلمانوں کی خفیہ اور باطنی تحریکیں، مثال پبلشنگ ۲۲- اے حبیب بینک بلڈنگ اردو بازار لاہور
  8. مرزا محمد سعید دہلوی، مذہب اور باطنی تعلیم ، اردو بازار اردو مرکز لاہور
  9. بوہری فرقہ کے آغاز، mohaddis.com