ابو الحسن علی حسنی ندوی ایک ہندوستانی اسلامی مفکر اور مبلغ ہیں، وہ تکیہ گاؤں ہندوستان میں 1333 / 1914 میں پیدا ہوئے اور 23رمضان المبارک 31 دسمبر 1999 کو وفات پائی۔

ابو الحسن علی حسنی ندوی
ابو الحسن علی حسنی ندوی.jpg
پورا نامابو الحسن علی حسنی ندوی
دوسرے نامعلی میاں
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہہندوستان
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • عالم عربی کا المیہ
  • دریائے کابل سے دریائے یرموک تک
  • دعوت فکر و عمل
  • انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر
مناصب
  • آکسفرڈ سینٹر برائے اسلامک اسٹڈیز کے صدر
  • رابطہ ادب اسلامی کے صدر

اس کا نام اور نسب

ابو الحسن علی بن عبدالحی بن فخر الدین الحسنی ان کا سلسلہ نسب عبداللہ الاشتر بن محمد ذوالنفس الزکیہ بن عبداللہ المحدث بن الحسن المثنیٰ بن الحسن پر ختم ہوتا ہے۔ بن علی ابن ابی طالب ان کے دادا قطب الدین محمد المدنی ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان ہجرت کر گئے۔

ان کے والد عبد الحی ابن فخر الدین الحسنی ہندوستان کے ممتاز مسلمان، آخر کار ہندوستان کی تاریخ میں قابل ذکر مرد کے نام سے چھاپے گئے، یہاں تک کہ انہیں ابن خلیقان الہند کا خطاب ملا۔ ان کی والدہ قرآن مجید کی مصنف اور حافظ تھیں، وہ شاعری کرتی تھیں، اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں آیات کا ایک گروپ بنایا تھا۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔اس کے بعد عربی، فارسی اور اردو میں تعلیم کا آغاز کیا۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔ اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی۔ وہ بیک وقت مفکر، مدبر، مصلح، قائد، زمانہ شناس ، ادیب اور نباضِ وقت ، خطیب تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فہم وفراست اور حکمت وبصیرت کے بڑے حصہ سے نوازا تھا۔

تبلیغ دین

دور حاضر کے تقاضے اور نفسیات کے مطابق وہ دین وشریعت پیش کرنے کا کام اپنے قلم اور زبان سے لیا کرتے تھے، دنیا کے جس گوشے میں جاتے وہاں دل کی گہرائیوں سے اسلام کا پیغام لوگوں کو سناتے۔ خاص طور سے عالم عرب اور اسلامی ملکوں میں لوگوں کو یاد دلاتے کہ تمہارے گھر سے دیئے گئے پیغام کی بدولت ہندوستان میں ہمارے آباء واجداد اسلام لائے اور آج ہم جب اسلام لانے کی قیمت ادا کررہے ہیں تو تم محوِ خواب ہو، آپ نے عرب ممالک میں پاکستان کے اس پروپیگنڈہ کا بھی رد کیا کہ ہندوستان میں اب مسلمان نہیں رہ گئے، جو تھے وہ پہلے پاکستان منتقل ہوگئے یا بعد میں مار دیئے گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ سے اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ عربوں کو اس خوبی سے متعارف کرایا کہ اس سے پہلے کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرسکا۔ وہ ہمارے عہد کے واحد ہندوستانی تھے جو عربوں کو ان کی زبان اور ان کے لہجہ میں بغیر کسی مرعوبیت کے مخاطب کرتے تھے اور ایسی فصیح عربی بولتے و لکھتے تھے کہ اہل عرب بھی اس کے سحر میں کھو جاتے، اس میں تنقید واحتساب کی دعوت کے ساتھ طاقت و توانائی حاصل کرنے کی راہ بھی دکھاتے، ان کے دکھ درد میں شریک رہتے، ان کے غم پر آنسو بہاتے اور بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کرتے۔

مسئلہ فلسطین

عرب قومیت کا گمراہ کن نعرہ ہو یا فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اس کے خلاف زبان وقلم سے جہاد چھیڑ کر حضرت نے واضح الفاظ میں عربوں کو متنبہ فرمایا کہ’’ اسلامی صلاحیت اور دینی حمیت کا مطلوبہ معیار پورا کئے بغیر وہ قیادت کے مستحق نہیں ہوسکتے، عربوں کو جو بھی عزت نصیب ہوئی وہ اسلام اور محمد عربی کا فیض ہے ، یہ مایا اگر عربوں سے چھن جائے تو ان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا‘‘ اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو انہوں نے عربوں کا نہیں اپنا مسئلہ سمجھا، اس پر تقاریر کیں اور کتابیں لکھیں، مسئلہ فلسطین کے اسباب وعوامل بیان کئے اور حل کیلئے راہ دکھائی، بارہا اپنی تحریر وتقریر میں فرمایا کہ عربوں کے اس زوال وپستی کی بنیادی وجہ ان کے یقین کی کمزوری، شک وشبہ کا نفوذ اور احساسِ کمتری ہے۔ کویت اور سعودی عرب کی یہ تقریریں عالم عربی کے المیہ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں، جن میں نہایت بے باکی اور دلسوزی کے ساتھ عربوں کی اخلاقی کمزوری، دینی قدروں کی زبوں حالی، فکری انارکی، ابن الوقتی اور جھوٹے معیار کے آگے سپر اندازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اتحاد امت اسلامی

ایران گئے تو شیعہ و سنیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مشورہ دیا۔ہندوستان میں بھی شیعہ و سنیوں کے مسلکی اختلافات کو امت کے رستے ہوئے ناسور سے تعبیر کیا اور اس کے تدارک میں پیش پیش وفکر مند رہے۔ آپ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبے دیئے، ان میں مسلمانان ہند کے لئے جہاں پرسنل لاء کو ناگزیر بتایا، وہیں اسے مسلمانوں کی عزت وآبرو کیلئے اہم قرار دیا اور اس کی حفاظت کو اسلامی تہذیب وتشخص کے تحفظ سے تعبیر فرمایا۔

تالیفات

آپ کے خطبات وتقاریر مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک اہم مجموعہ پاجا سراغ زندگی ہے ان تقریروں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کو وہ یہ پیام دیتے ہیں کہ شاخِ ملت انہی کے دم سے ہری ہوسکتی ہے۔ امریکہ کے سفر پر گئے تو وہاں کی یونیورسٹیوں اور مجلسوں میں جو تقاریریں کیں مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں اور نئی دنیا کے نام سے وہ منظر عام پر آگئی ہیں، ان تقاریر میں آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ’’امریکہ میں مشینوں کی بہار تو دیکھی، لیکن آدمیت اور روح کا زوال پایا‘‘۔وہاں کے مسلمانوں کو تعلق باللہ، اپنے کام میں اخلاص اور انابت کی روح پیدا کرنے پر زور دیا، یہی پیغام وہ ہر جگہ ہر ملک اور ہر شہر میں دیتے رہے، جو نیا نہیں تھا لیکن کچھ ایسے ایمانی ولولے، قلبی درد اور داعیانہ انداز میں اس کا اعادہ کرتے کہ سننے والوں کے قلوب گرما جاتے، اسی طرح یوروپ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور اسپین کی یونیورسٹیوں اور علمی مجلسوں میں تخاطب کے دوران یہ پیام دیا کہ ’’وہاں کے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے گرویدہ نہ ہوں کیونکہ اس کا ظاہر روشن اور باطن تاریک ہے، مسلمان اس سرزمین پر اسلام کے داعی بن کر رہیں، اسلام کی ابدیت پر مکمل اعتماد رکھیں اور مشرق ومغرب کے درمیان نئی نہر سوئز تعمیر کرنے کے لئے کام کریں [1]۔

  1. مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کی فکر ونظر یومِ وفات کے موقع پر خصوصی مضمون، dailysalar.com