سید علی خامنہ ای
سید علی حسینی خامنہای شیعہ مرجع تقلید اور اسلامی انقلاب کے دوسرے رہبر ہیں۔ سنہ 1989ء میں رہبر انقلاب کے طور پر منتخب ہونے سے پہلے دو بار اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور اس سے قبل کچھ عرصے تک مجلس شورائے اسلامی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ امام خمینی نے انہیں تہران کے امام جمعہ کے طور پر مقرر کیا اور یہ ان کے شرعی مناصب میں سے ایک ہے۔ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے مشہد مقدس کے مؤثر ترین علمائے دین میں شمار ہوتے تھے۔ آیت اللہ العظمی خامنہای کے افکار و آراء کو حدیث ولایت نامی مجموعے میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کے اقوال اور مکتوب پیغامات کو حسب موضوع مختلف کتب کی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں اور کئی کتب کا ترجمہ کیا ہے اور یہ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی مفصل ترین کاوش طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن اور مشہور ترین ترجمہ کتاب صلح امام حسن ہے۔
سید علی خامنہ ای | |
---|---|
پورا نام | سید علی خامنہ ای |
دوسرے نام | امام |
ذاتی معلومات | |
پیدائش کی جگہ | مشہد، ایران |
اساتذہ |
|
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب |
|
قمہ زنی اور عزاداری کی بعض رسومات کی صریح مخالفت اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی تحریم ان کے مشہور اور مؤثر فتوؤں میں سے ہیں۔ ثقافتی یلغار اور اسلامی بیداری ان کی خاص تخلیقی اصطلاحات ہیں جو ان کی تقریروں اور پیغامات کے توسط سے سیاسی ادب کا حصہ بن چکی ہیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہای ادب میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور ادبیات کے مختلف اسالیب سے واقفیت رکھتے ہیں۔ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں اور ان کا تخلص "امین" ہے۔ معتبر تاریخی کتب کا مطالعہ ان کی دائمی مطالعاتی روش کا حصہ ہے، یہاں تک کہ تاریخ معاصر کے موضوعات و مباحث پر مکمل احاطہ رکھتے ہیں۔
تعلیم
انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز چار سال کی عمر میں اسکول میں قرآن پاک سے کیا۔
مشہد میں تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم مشہد کے پہلے اسلامی اسکول دار العلم دیانتی میں حاصل کی۔ انہی ایام میں مشہد میں چند قراء کرام کے ہمراہ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنا شروع کیا۔پرائمری اسکول کی پانچویں جماعت سے انہوں نے حوزہ کی ابتدائی تعلیم بھی شروع کی۔ حوزہ کی تعلیم کے سلسلے میں ان کا زبردست جوش اور والدین کی حوصلہ افزائی سبب بنی کہ انہوں نے پرائمری اسکول سے فارغ ہونے کے بعد حوزہ کی دنیا میں قدم رکھ دیا اور مدرسہ سلیمان خان میں دینی علوم کی تعلیم کو آگے بڑھایا۔انہوں نے مقدمات کا کچھ حصہ اپنے والد محترم کے سامنے طے کیا۔پھر وہ مدرسہ نواب گئے اور وہاں دورہ سطح کو مکمل کیا۔ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ہائی اسکول کے دوسرے سال تک اسکولی تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے معالم الاصول آیت اللہ سید جلیل حسینی سیستانی سے اور شرح لمعہ اپنے والد اور میرزا احمد مدرس یزدی سے پڑھی۔ انہوں نےرسائل، مکاسب اور کفایہ کا درس بھی اپنے والد اور آیت اللہ حاج شیخ ہاشم قزوینی سے حاصل کیا ۔ 1334 ہجری شمسی میں آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی کے فقہ کے درس خارج میں شرکت کی۔
نجف میں تعلیم
1336 ہجری شمسی میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک مختصر سفر کے دوران نجف اشرف گئے اور حوزہ علمیہ نجف کے نامور اساتذہ کےدروس میں شرکت کی جن میں آیت اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی، آیت اللہ سید محمود شاہرودی اور مرزا باقر زنجانی اور میرزا حسن بجنوردی شامل تھے۔ لیکن اپنے والد کی اس شہر میں رہنے کی خواہش نہ ہونے کی وجہ سے مشہد واپس آئے اور مزید ایک سال آیت اللہ میلانی کے درس میں شرکت کی۔
پھر 1337 ہجری شمسی میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کےشوق میں حوزہ علمیہ قم چلے گئے۔ اسی سال قم روانگی سے قبل آیت اللہ محمد ہادی میلانی نے انہیں اجازہ روایت عطا کیا ۔
قم میں تعلیم
سید علی خامنہ ای نے قم میں آیت اللہ حسین طباطبائی بروجردی، امام خمینی، حاج شیخ مرتضی حائری یزدی، سید محمد محقق داماد اور آیت اللہ سید محمد حسین طباطبائی جیسے بزرگوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ قم میں قیام کے دوران انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت تحقیق، مطالعہ اور تدریس میں گزارا [1]۔
واپس مشہد
وہ اپنے والد کی کمزور نظر کی وجہ سے ان کی مدد کرنے کے لئے 1343 ہجری شمسی میں مجبوراً قم سے مشہد واپس آئے۔ اور ایک بار پھر آیت اللہ میلانی کی درسی نشستوں میں شرکت کی۔یہ سلسلہ 1349 تک جاری رہا۔ مشہد میں قیام کے آغاز سے ہی انہوں نے اپنے آپ کو فقہ و اصول کے اعلیٰ درجات (رسائل،مکاسب،کفایہ) کی تعلیم دینے اور عوام الناس کے لیے تفسیر کی نشستیں منعقد کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ان جلسوں میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد بالخصوص کالج کے طلبہ شرکت کرتے تھے۔ اپنی تفسیری نشستوں میں وہ قرآن کی آیات سے اسلام کی اہم ترین فکری بنیادوں کا استخراج کرکے بیان کیا کرتے تھے۔اور ظالم حکومت سے لڑنے اور اس کا تختہ الٹنے کی فکر کی بنیادوں کو مزید گہرا کرنے کا کام کرتےجس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ شرکاء درس اس ضروری اور فطری نتیجے پر پہنچتے کہ ملک میں اسلام کی اور دینی معارف پر مبنی حکومت کا قیام ضروری ہے۔ ان کے درس تفسیرکے اہم مقاصد میں سے ایک انقلاب اسلامی کے اصولوں کو معاشرے تک پہنچانا تھا۔
1347 ہجری شمسی سے، انہوں نے دینی علوم کے طلباء کے لیے تفسیر کا ایک خصوصی درس شروع کیا، جو 1356 تک ان کی گرفتاری اور ایران شہر کی جانب جلاوطنی تک جاری رہا۔ ان کا تفسیر کا درس صدارت کے سالوں میں اور اس کے بعد بھی جاری رہا۔
سیاسی سرگرمیاں
انقلاب سے پہلے کی جدوجہد کا دور
آیت اللہ خامنہ ای کے خاندان کی سیاسی-مذہبی سرگرمیوں کے پس منظرنے انہیں سیاسی مذہبی جد و جہد کے لئے تربیتی پس منظر فراہم کر دیا تھا۔ان کی سیاسی سرگرمیوں کا نقطہ آغاز مشہد میں ان کی سید مجتبی نواب صفوی (میر لوحی)سے ملاقات تھی۔ خود ان کے مطابق اس ملاقات سے ان کے اندر انقلاب کی پہلی چنگاریاں نمودار ہوئیں۔
وہ ان پہلے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے 15 خرداد 1342 کی بغاوت سے پہلے کے عرصے میں ہم آہنگی کے ساتھ مبارزاتی جد و جہد کا آغاز کیا۔ بہمن 1341 میں ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل پر ریفرنڈم کے بعد آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے بھائی سید محمد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ مشہد کے عوام کے ردعمل کے بارے میں آیت اللہ محمد ہادی میلانی کی رپورٹ امام خمینی کو ایک خط کی صورت میں پہنچائیں۔
پہلی گرفتاری
1342 میں ماہ محرم کے موقع پر، امام خمینی نے انہیں آیت اللہ میلانی اور خراسان کے دیگر علما اور مذہبی انجمنوں تک تحریک کو جاری رکھنے اور لوگوں کو پہلوی حکومت کے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں پیغامات بھیجنے پر مامور کیا۔
ان پیغامات میں امام خمینی نے جدوجہد کی پالیسی کا خاکہ پیش کیا اور علماء اور روحانی حضرات سے کہا کہ وہ پہلوی حکومت کے جرائم کی وضاحت کے لیے محرم کی ساتویں تاریخ سے منبروں سے مدرسہ فیضیہ کا واقعہ بیان کریں۔ آیت اللہ خامنہ ای خود مقصد کو حاصل کرنے اور امام خمینی کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بیرجند گئے جو کہ علم خاندان کے زیر اثر تھا اور اس شہر کے منبروں اور مجالس میں انھوں نے مدرسہ فیضیہ کے حادثے اور اسلامی معاشروں پر اسرائیل کی حکمرانی کے متعلق تقریریں کی۔ ان تقاریر کے بعد آپ کو 7 محرم 1383 مطابق 12 خرداد 1342 کو مشہد میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا۔
رہائی کے بعد آیت اللہ محمد ہادی میلانی نے ان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے نظربند امام خمینی کی غیر موجودگی میں اسلامی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے آیت اللہ میلانی کے گھر پر منعقدہ نشستوں میں شرکت کرکے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ حوزہ علمیہ قم واپس آئے اور کچھ مجاہد علما کی مدد اور تعاون سے مشاورتی جلسوں اور تبلیغات کے ذریعے سیاسی سرگرمیوں کو دوبارہ منظم کیا۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے 11 دی 1342 کو آیت اللہ سید محمود طالقانی ، مہدی بازرگان اور ید اللہ سحابی کو ٹیلی گرام بھیجا تھا جو امام خمینی کی حمایت کی وجہ سے قید کر لئے گئے تھے۔ اسی دوران ان کی رہنمائی میں حوزہ علمیہ قم کے خراسانی طلبہ نے امام خمینی کی نظربندی کے جاری رہنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم حسن علی منصور کو ایک خط لکھا اور شائع کیا۔ان طلبہ میں ان کے علاوہ ابوالقاسم خزعلی اور محمد عبائی خراسانی شامل تھے۔
دوسری گرفتاری
وہ اسلامی تحریک کے مسائل کی تبلیغ اور وضاحت کے لیے بہمن 1342 مطابق رمضان المبارک 1383ھ میں زاہدان گئے۔زاہدان کی مسجدوں میں ان کی تقاریر اور عوام کی پذیرائی نے حکومت کو انہیں گرفتار کرنے اور قزل قلعہ جیل میں منتقل کرنے پر اکسایا جو اس وقت سیاسی قیدیوں کی حراست کی جگہ تھی۔ 14 اسفند 1342 کو آیت اللہ خامنہ ای کی گرفتاری کے حکم کو تہران کے دائرہ سے باہر نہ نکلنے کے حکم میں تبدیل کر کے انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے انقلاب اسلامی کی فتح تک ان کی سرگرمیاں ہمیشہ سیکورٹی ایجنٹوں کے زیر نظر رہیں۔
حوزہ علمیہ قم کے گیارہ اراکین کا اجلاس
آیت اللہ خامنہ ای 1343ھ کے موسم خزاں میں قم سے مشہد واپس آئے اور اپنے والد کی دیکھ بھال کے علاوہ علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے امام خمینی کی ترکی جلاوطنی کے فوراً بعد، 29 بہمن 1343کو اس وقت کی حکومت یعنی امیر عباس ہویدا کی حکومت کو خط لکھا، جس میں ملک میں پھیلی افراتفری اور امام خمینی کی جلاوطنی کے خلاف احتجاج کیا۔سید علی خامنہ ای، عبدالرحیم ربانی شیرازی، علی فیض مشکینی، ابراہیم امینی، مہدی حائری تہرانی، حسین علی منتظری، احمد آذری قمی، علی قدوسی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید محمد خامنہ ای اور محمد تقی مصباح یزدی کے ہمراہ اس گیارہ نفری گروپ کا حصہ تھے، جو پہلوی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے حوزہ علمیہ قم کی تقویت اور اصلاح کے مقصد سے تشکیل دیا گیا تھا۔
تحریک فکر اور عقیدے پر مبنی تھی اور یہی اس کی ترقی کا راز تھا۔ اور علما اس جدوجہد کی باڈی اور ماسٹر مائنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ جدوجہد کے اس مرحلے پر وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تنظیم کے بغیر انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملے گی جبکہ تنظیم کا وجود حکومت کے ہاتھوں تحریک کے خاتمے کو روک دے گا۔ امام خمینی کی جلاوطنی کے دوران اس گروہ نے مہم کی منصوبہ بندی اور اس کے تسلسل کو سنبھالا۔
اس گروہ کو حوزہ علمیہ قم کی پہلی خفیہ تنظیم کہا جاتا ہے جس کی سرگرمیوں کا انکشاف 1345ھ کے اواخر میں ساواک نے کیا اور اس کے بعد کچھ ارکان کو گرفتار کر لیا گیا اور دیگر پر ظلم و ستم کیا گیا جن میں آیت اللہ خامنہ ای بھی شامل تھے۔
جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی بنیاد
اس کے علاوہ ایک اور نشست کاآغاز کیا گیا جو موجودہ جامعہ مدرسین کی بنیاد ہے۔ ”ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے جامعہ مدرسین کی ابتدائی میٹنگوں میں شرکت کی۔میں تھا، اور میرے خیال میں ہاشمی رفسنجانی تھے۔ جناب (علی )مشکینی، ربانی شیرازی،( ناصر) مکارم اور(عمر کے اعتبار سے) کچھ بزرگ لوگوں نے بھی شرکت کی“۔ ان ملاقاتوں اور ان میں ہونے والے فیصلوں نے حوزہ علمیہ قم کا ماحول بدل دیا۔حقیقت یہ ہے کہ ان فیصلوں کے پیچھے اراکین اجلاس کے بجائے دوسرے افراد کاہاتھ ہوتا تھا یعنی نوجوان اور دلچسپی رکھنے والے طلباء۔اس ہل چل نے قم کے بند اور اداس ماحول کو کھول دیا۔ انہی ایام میں آیت اللہ خامنہ ای نے خفیہ طور پر ”مستقبل در قلمروی اسلام“ نامی کتاب کا ترجمہ کرکے شائع کیا۔ اس کتاب میں دو اہم مسائل یعنی مغربی دباؤ اور کمیونزم کے پروپیگنڈے کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے مستقبل کا ایک تناظر پیش کیا گیا ہے۔ ساواک نے کتاب ضبط کر لی اور اس کی اشاعت سے وابستہ لوگوں کو گرفتار کر لیا، لیکن آیت اللہ خامنہ ای (کتاب کے مترجم) کو گرفتار کرنے میں ناکام رہا۔ آیت اللہ خامنہ ای ان دنوں کچھ عرصہ تہران اور کرج میں سرگرم رہے۔ لیکن حکومت مخالف مطالب کا اظہار نہ کرنے کا عہد نہ دینے کی وجہ سے کرج میں ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ انہوں نے تہران کی مسجد امیرالمومنین (ع) میں بھی کچھ عرصہ نماز جماعت کی امامت کی۔
تیسری گرفتاری
فروردین 1346 میں مسجد گوہرشاد میں حکومت مخالف تقریر کے نتیجےمیں آیت اللہ سید حسن قمی کی گرفتاری اور جلاوطنی کے بعد، آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ میلانی سے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرنے کو کہا۔ اس اقدام کی وجہ سے ساواک کے افسران کو مشہد میں ان کی موجودگی کا پتہ چلا اور اسی سال 14 فروردین کو آیت اللہ شیخ مجتبیٰ قزوینی کی تشیع جنازے کی تقریب میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اسی سال 26 تیر ماہ کو رہا کیا گیا تھا۔
رہائی کے فوراً بعد انہوں نے تہران میں سیاسی قیدیوں سے ملاقات کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے مختلف جگہوں پر مجاہدین کے ساتھ رابطے کے ذریعے مجاہدین اور تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کی، مجاہدوں اور انقلابیوں کی نئی نسل خاص طور پر دینی علوم کے طلباء اور کالج کے طالب علموں کو اسلامی فکر پر مبنی تربیت دی اور قرآن و حدیث سے تحریک کے اصول و مبانی کا استنباط کرنے کی کوشش کی۔ مارکسی اور لبرل مادیت پسند اور ان جیسے دوسرے نظریات کا مقابلہ کرتے ہوئے امام خمینی کی تحریک کے دائرہ کار میں اسلامی فکر اور جدوجہد کو مزید گہرا کیا اور پہلوی حکومت کی مخالفت کے باوجود بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔
جدوجہد کے متعلق ہمہ جہتی نقطہ نظر، امام خمینی کی تحریک کے وسیع معلوماتی نیٹ ورک کا استعمال اور منبرجیسا جامع میڈیا اور ان کی عملیت پسندی ان کی کامیابی کے چند اسباب ہیں۔ خراسان کے جنوب میں 9 شہریور 1347 کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد، خراسان کے کچھ علما آیت اللہ خامنہ ای کی سربراہی میں زلزلہ زدگان کو امداد پہنچانے اور عوامی امداد کو منظم کرنے کے مقصد سے فردوس گئے۔ مقامی سیکیورٹی حکام کی جانب سے اس کارروائی کی مخالفت کی گئی تاہم امدادی گروپ نے متاثرین زلزلہ کی مدد کے لیے موثر اقدامات کئے۔
فردوس میں آیت اللہ خامنہ ای کی دو ماہ کی موجودگی اور امداد نے ان کے لیے زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے مسائل کو قریب سے جاننے اور مجلسوں میں اور منبروں سے نیز مذہبی انجمنوں میں اس علاقے کے لوگوں کے لئے تحریک کے پیغام کو بیان کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان سرگرمیوں نے خراسان کے شہری انتظامیہ اور ساواک کی حساسیت کو جنم دیا اور فردوس میں ان کا قیام ختم کر دیا گیا۔ اسی سال دیماہ کے آخر میں، انہوں نے مشاہد مقدسہ کی زیارت پر جانے اور امام خمینی سے ملاقات کا منصوبہ بنایا، لیکن انہیں ساواک کی مخالفت اور رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پابندی اسلامی انقلاب کی فتح تک جاری رہی اور انہیں وہاں سے نکلنے سے منع کر دیا گیا۔
چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی
آیت اللہ خامنہ ای کو گیارہ نفری گروپ کا رکن ہونے کی وجہ سے چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ کیہان اخبار میں اس خبر کی اشاعت اور آیت اللہ خامنہ ای کو اپیل کورٹ میں طلب کیے جانے کے بعد انہوں نے مشہد کے بعض علماء سے مشورہ کر کے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ ان پر مقدمہ چل رہا تھا، اس کے باوجود وہ مشہد اور تہران کے کچھ عسکریت پسند علما سے رابطے میں تھے جن میں سید محمود طالقانی، سید محمد رضا سعیدی، محمد جواد بہنر، محمد رضا مہدوی کنی، مرتضی مطہری، اکبر ہاشمی رفسنجانی اور فضل اللہ محلاتی شامل تھے۔اگرچہ ان کا قیام مشہد میں تھا مگر پھر بھی انہوں نے تہران کے عسکریت پسند علماء کی متعدد مجالس میں شرکت کی ۔
مشہد کی نواحی بستیوں میں علماء اور طلباء کو بھیجنے کے سلسلے میں انہوں نے بعض علماء کے ساتھ مل کر جلسات منعقد کئے اوراس میں لئے گئے فیصلوں پر عمل در آمد کیا۔آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی تحریک کو عقیدت کی نظر سے دیکھا اور اسی بنیاد پر لوگوں کی فکری تربیت کرتے ہوئے اپنی جد و جہد کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے دینی طلباء اور کالج کے اسٹوڈنٹس کے لیے درس تفسیرمنعقد کر کے اور مختلف طبقوں کے درمیان تقریروں کے ذریعہ ان کی دینی -اعتقادی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ اسلامی اہداف کا حصول ثقافتی کوششوں کے ذریعہ ممکن ہے اور عوامی قیام شعور اور علم پھیلائے بغیرممکن نہیں ہے۔ روشن فکر افراد اور گروہوں کو یونیورسٹیوں میں فعال اور عسکریت پسند سمجھا جاتا تھا۔ وہ مارکسی فکر پر یقین رکھنے والے سیاسی دھاروں کی سرگرمیوں کے جواب میں اس نقطہ نظر کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے 1348 میں اسلامی مجاہدین اور مفکرین کے ساتھ علمی سرگرمیوں اور ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔
تہران میں حسینیہ ارشاد اور مسجد الجواد میں تقریریں
آیت اللہ خامنہ ای ،جدوجہد کے میدان میں بہت سے مشہور دانشوروں اور فکری مراکز کے ساتھ تعلقات اور تعاون رکھتے تھے۔ 1348 میں، انہیں تہران کے بعض سرگرم سیاسی-اسلامی مراکز میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا جن میں حسینیہ ارشاد اور مسجد الجواد شامل ہیں، تاکہ جدوجہد کے عمل میں اثر انگیز مسائل کی وضاحت کی جا سکے۔
سنہ 1348 کے آخر میں آیت اللہ مرتضی مطہری کی دعوت پر حسینیہ ارشاد میں انہوں نے جو تقریریں کی نیز انجینیئروں کی اسلامی انجمن کی دعوت پر تہران کی الجواد مسجد میں ان کی تقریروں نے نوجوان نسل بالخصوص طلباء کی روشن خیالی پر بہت اثر ڈالا۔
1349 کے موسم بہار میں، آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی تحریک کے عمل کو مزید گہرا ئی عطاکرنے اور پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ قائم کیا، جس میں انھوں نے اسلامی تصور کائنات اور آئیڈیالوجی مرتب کرنے کے لیے جد و جہد پر مبنی اپنا نظریہ پیش کیا۔ مرتضی مطہری، سید محمود طالقانی، سید ابوالفضل زنجانی، مہدی بازارگان، اکبر ہاشمی رفسنجانی، ید اللہ سحابی، عباس شیبانی اور کاظم سامی جیسے لوگوں کو مدعو کرکے نظریہ پر بحث اور تجزیہ کیا۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اسلامی تصور کائنات اورآئیڈیالوجی کی تشکیل کا باعث بنا۔
چوتھی گرفتاری
خرداد 1349 میں آیت اللہ سید محسن حکیم کی وفات کے ساتھ ہی مرجعیت کا مسئلہ جو ماضی میں آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد اٹھا تھا،ایک بار پھر سنجیدگی سے اٹھا۔ اس بیچ آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ حکیم کے فقہی اور علمی مقام و مرتبے کی قدر دانی کی اور بعض علما کو تعزیتی پیغامات بھیجے ۔اسی کے ساتھ انہوں نے مرجع تقلید کے طور پر امام خمینی کی مرجعیت کو مستحکم کرنے کی غیر معمولی کوشش کی۔
انہی دنوں 20 خرداد 1349 کو ساواک کے ہاتھوں آیت اللہ سید محمد رضا سعیدی کی شہادت کے بعد، جو اس وقت امام خمینی کے سب سے اہم مبلغین میں سے تھے، انہوں نے بہت سے دوسرے انقلابیوں کے ساتھ مل کر آیت اللہ سعیدی کی شہادت کے خلاف عوامی ردعمل کی رہنمائی کرتے ہوئے نئی صورت حال کا تحریک کے حق میں استعمال کیا۔
محرم 1391/اسفند 1349 میں، اگرچہ آیت اللہ خامنہ ای کا نام ساواک کے ممنوعہ مبلغین کی فہرست میں شامل تھا، لیکن انہوں نے تہران کی انصار الحسینی انجمن میں تقریریں کیں۔ 1350 میں آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ طالقانی کی دعوت پر تہران کی مسجد ہدایت میں تقریریں کیں جو کالج کے طلباء اور انقلابی نوجوانوں کی توجہ کا مرکز تھیں۔
امام خمینی کی جانب سے 2500 سالہ تقریبات پر پابندی کے بائیکاٹ کے بعد، ساواک نے انقلابی علماء کی سرگرمیوں کے خلاف سخت احتیاط برتی۔ اسی بنا پر مرداد 1350ء میں انہیں مشہد ساواک بلوایا گیا اور کچھ عرصہ لشکر خراسان کی جیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد، انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی اور اسی سال دو بار اور گرفتار کیا گیا۔ ایک بار آبان 1350 میں، جس کے نتیجے میں وہ لشکر خراسان جیل میں مختصر مدت کے لیے نظر بند رہے۔ دوسربار داخلی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزام میں اسی سال 21 آذر کو تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی ۔
رہائی کے بعد انہوں نے اپنی سماجی -سیاسی سرگرمیوں کو وسعت دی اور تہران میں انجمن انصار الحسین اور مسجد نارمک کے کئی اجلاسوں میں شرکت کی اور دینی اور سیاسی مسائل پر تقریریں کیں۔ مکتب میرزا جعفر ، مسجد امام حسن (ع) اور مسجد قبلہ کے علاوہ مشہد میں ان کے گھر میں ان کے درس و تفسیر کی نشستیں جاری رہی۔ ان نشستوں میں ان کے سامعین اسکول اور کالج کے اسٹوڈنٹس، ، نوجوان دینی طلباء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، جنہیں انہوں نے اسلام کی انقلابی اور سیاسی سوچ سے متعارف کرایا۔ ان جلسوں کے سامعین اور ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے بعد میں جدوجہد کے عروج پر ملک کے مختلف حصوں میں بیداری پھیلا نے کا کام کیا۔
ان کی تقریروں اور دروس کی رپورٹس سیکیورٹی افسران کی طرف سے کئی بار منظر عام پر آئی۔ ساواک کی نظر میں ، آیت اللہ خامنہ ای جیسے افراد حوزہ علمیہ کے روشن فکر اور انقلابی مدرسین کی فہرست میں شامل تھےجو اسٹوڈنٹس اور نوجوانوں سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ ،امام خمینی کے انقلابی نظریات کو فروغ دیتے تھے اور دینی علوم کے طلباء کو سیاسی اور سماجی مسائل سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ فروردین 1352 میں آیت اللہ خامنہ ای تبلیغ کے لیے نیشاپور گئے اور وہاں کی مسجدوں میں اصول عقائد کا درس دیا جو ہفتے میں ایک بار منگل کو منعقد ہوتا تھا۔ خرداد 1352 میں ساواک نے مسجد امام حسن (ع) اور خود ان کے گھر میں جو تفسیر کا درس ہوتا تھا اسے بند کروا دیا۔
آبان 1353 میں تہران کی مسجد جاوید میں وہاں کے امام آیت اللہ محمد مفتح کی دعوت پر تقریر کی جن پر اس وقت تقریر کرنے کی پابندی تھی۔ اس کے بعد ساواک نے آیت اللہ مفتح کو گرفتار کر لیا اور جدو جہد کے ایک اہم مرکز کے طور پر مسجد جاوید کو بند کر دیا۔ اس کے بعد اسی سال آذر ماہ میں ساواک نے آیت اللہ خامنہ ای کے گھر کی تلاشی لی۔ ساواک نے تلاشی کی وجہ ایک ، ایک خصوصی جلسے میں ان کے بیانات کو قرار دیا جہاں انہوں نے مشہد میں اسلامی تحریک کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے جدوجہد کو منظم کرنے اور مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
آخر کار آیت اللہ خامنہ ای کو دیماہ 1353 میں چھٹی مرتبہ گرفتار کر لیا گیا اور اس بار انہیں تہران میں مشترکہ انسداد تخریب کمیٹی کی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور خود ان کے بقول انہوں نے اپنی قید کی سخت ترین اور مشکل ترین صورتحال کا تجربہ کیا۔ جیل میں ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی اور ان کے گھر والوں کو ان کی حالت اور قید کی جگہ کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔
جلاوطنی کا باعث بننے والی سرگرمیاں
وہ 2 شہریوار 1354 کو جیل سے رہا ہوئے لیکن وہ سیکورٹی اہلکاروں کے پہرے میں تھے، اور ان کے گھر میں جماعت، تقریر، درس و تفسیر کی نشستوں پر بھی پابندی تھی۔ تاہم تمام تر سیاسی اور سیکورٹی پابندیوں کے باوجود انہوں نے اپنےدرس تفسیر اور لوگوں کو بے دار کرنے والی انقلابی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور دینی علوم کے طلباء کو امام خمینی کا شہریہ بھی ادا کرتے رہے۔
خرداد 1355 میں، قوچان میں سیلاب کے بعد، انہوں نے ایک گروپ بنایا جسے مشہد سے اس قوچان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے بھیجا گیا تھا اور جس نےوہاں کے عوضیہ اسکول میں مستقر ہوکر امدادی کام انجام دیا۔ ساواک کی دستاویزات میں 1355 کے اواخر میں ،مشہد میں، آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے والد کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاعات موجود ہیں جنہوں نے امام خمینی کی حمایت کی اور اسلامی تحریک کا پرچار کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے محرم 1396/دیماہ 1355 میں حکومت کے خلاف تقریریں کیں اور خاص طور سے طلباء اور نوجوانوں کے لیے فکری-ثقافتی ماحول کی وضاحت کے سلسلے میں جلسات منعقد کئے اور تہران میں علماء اور روحانی حضرات کی نشستوں میں شرکت کرکےتحریک کے عمل کو شدت بخشی۔ دوسری طرف، ساواک نے بھی خود ان کے اور دیگر انقلابیوں کے خلاف دستاویزات حاصل کرنے کے لیے ان نشستوں میں نفوذ کی کوشش کی۔ 29 خرداد 1356 کو لندن میں علی شریعتی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے ان کی یادگاری تقریب میں شرکت کی۔ ان کی یہ شرکت شریعتی اور ان کے والد کے ساتھ ان کی شناسائی اور دیرینہ تعلق کی وجہ سے تھی۔
ایرانشہر جلاوطنی
یکم آبان 1356 کو نجف اشرف میں آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی رحلت کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے کچھ انقلابیوں کے ساتھ مل کر 6 آبان کو مسجد ملا ہاشم میں ان کی مجلس ترحیم برپا کی۔ انہی دنوں مشہد کے بعض علماء کے ہمراہ نجف میں امام خمینی کے لیے تعزیتی ٹیلی گرام بھیجا۔ آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی رحلت اور اس کے بعد ہونے والی پیش رفت سے اسلامی تحریک اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوئی اور انقلاب کی فتح کے لیے سنجیدہ تحریکوں کا آغاز ہوا۔
ان سرگرمیوں کے جواب میں پہلوی حکومت نے کھلی سیاسی فضا کی پالیسی کا اعلان کرنے کے باوجودانقلابیوں کی سرگرمیوں کو دباکر اور کچل کر محدود کر دیا۔ اس سیاست کے نفاذ کے بعد آیت اللہ خامنہ ای سمیت کچھ نامور انقلابیوں کو جلاوطنی کی سزا سنائی گئی۔
خراسان کے سوشل سیکورٹی کمیشن نے انہیں ایران شہر میں تین سال کی جلاوطنی کی سزا سنائی اور ساواک کے ایجنٹوں نے 23 آذر 1356 کو ان کے گھر پر چھاپہ مارااور انہیں گرفتار کر کے ایران شہر منتقل کر دیا۔ حکومت کا مقصد عوام اور انقلابیوں سے ان کا ابطہ منقطع کرنا تھا تاکہ نتیجے میں وہ حکومت کے خلاف لڑنے اور اسے بے نقاب کرنے میں ناکام ہوجائے۔ تاہم اہل سنت کے ساتھ میل جول کی وجہ سے انہیں ایران شہر کے عوام میں شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے انقلاب کا پیغام ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک پہنچایا۔ ایران شہر کی مسجد آل رسول میں ان کی تقاریر اور عسکریت پسند علماء ، انقلابی قوتوں اور مختلف طبقوں کے لوگوں کی ان کے گھر آمد و رفت کی وجہ سے سیکورٹی افسران نے ان کی سرگرمیوں کو محدود کردیا اور لوگوں کے آنے جانے پر پابندی لگا دی۔
19 فروردین 1357 کو یزد میں لوگوں کے قتل عام کے بعد آپ نے آیت اللہ محمد صدوقی کے نام ایک خط میں پہلوی حکومت کے اس وحشیانہ اقدام کی مذمت کی اور لوگوں کو جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے اس حادثہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ خط ایک اعلامیہ کی شکل میں پورے ملک میں پھیل گیا۔
11 تیر ماہ 1357 کو ایران شہر میں آنے والے سیلاب نے آیت اللہ خامنہ ای کو اپنے سابقہ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے واحد امدادی گروپ کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالنے کا موقع فراہم کیا۔ یزد اور مشہد سمیت مختلف شہروں کے علما کے ساتھ جو ہم آہنگی تھی، اس کی وجہ سے وہ پورے ایران سے لوگوں کی امداد حاصل کرنے اور سیلاب زدگان میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہے۔
اپنی جلاوطنی کے دوران آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کے مختلف شہروں میں جدوجہد کے پہلے درجے کے انقلابیوں اور علمائے کرام کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا اور تحریک اسلامی کے بارے میں ان کے ساتھ مسلسل خط و کتابت کی اور اس طرح وہ بہت سے حالات و واقعات سے مطلع رہے اور مختلف خطوط کے ذریعے بعض علما کے ذریعہ لئے گئے فیصلوں میں شامل رہے۔
جیرفت کو جلاوطنی
اسلامی انقلاب کے عروج کے ساتھ ہی 28/ شعبان1398مطابق 28 تیر/ 1357 کوحوزہ علمیہ مشہد کے متعدد طلباء نے آیت اللہ خامنہ ای کی جلاوطنی کے خلاف احتجاج کیا اور ان کی مشہد واپسی کا مطالبہ کیا جس پر پولیس نے مداخلت کی۔ایک طرف ان کا ایران شہر اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں اور شہروں میں جد و جہد کو منظم کرنے کے لئے عوامی اور انقلابی سرگرمیوں کو وسعت دینا دوسری طرف اس علاقے کے عوام کے مختلف طبقوں میں ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثر و رسوخ ان دونوں باتوں کی وجہ سے سیکوریٹی افسران نے انہیں ایران شہر سے جیرفت جلا وطن کر دیا جو ایران شہر کے مقابلے میں زیادہ دور افتادہ بھی تھا اور وہاں زیادہ محدودیتیں بھی تھیں۔ اس طرح وہ 22 مرداد کو جیرفت منتقل ہوئے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی سیاسی مہمات جیرفت میں بھی نہیں رکی اور اس شہر میں اپنی آمد کے آغاز سے ہی انہوں نے جامع مسجد میں تقریر کر کے پہلوی حکومت کے جرائم سے نقاب اٹھانا شروع کر دی۔ ایک تقریر، جو 15 شہریور1357 کو ہوئی تھی، لوگوں کی طرف سے مظاہروں اور انقلابی نعروں کی وجہ بنی۔ یہ اس وقت ہوا جب چھوٹے شہروں میں مظاہرے اور مارچ ابھی عام نہیں تھے۔ وہ ان جلاوطن علماء میں سے تھے جنہوں نے آیت اللہ سید عبد الحسین دستغیب کے نام ایک خط میں ملک کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے اور شیراز، مشہد، اصفہان اور جہروم میں پہلوی حکومت کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے پہلوی حکومت کے خاتمے تک اسلامی تحریک جاری رکھنے کے لئے مختلف طریقے تجویز کئے۔ اسی دوران وہ چپکے سے کہنوج گئے اور انکشافی تقریریں کیں۔
مشہدواپسی
عوامی جدوجہد کے پھیلنے اورارکان حکومت کے ٹوٹنے اور انقلابی عمل کو روکنے میں ان کی ناکامی کے ساتھ، آیت اللہ خامنہ ای یکم مہر 1357 کو جیرفت سے مشہد واپس آئے اور وہاں انہوں نے انقلاب کے امور کو منظم کرنے ،جد و جہد کے عمل کو تیز کرنے اور تحریک کے مختلف مسائل کو آگے بڑھانے کے سلسلےمیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ امام خمینی کے فرانس میں قیام کے دوران مشہد کے بعض انقلابی علما کے ساتھ امام خمینی کو ایک ٹیلی گرام بھیج کر فرانس میں ان کے عارضی قیام کو لوگوں کے دلوں میں امید اور عزم کی لہر کے ابھرنے کا سبب اور امت مسلمہ کی نجات کے سلسلے میں امام خمینی کے پختہ عزم کی علامت قرار دیتے ہوئے ان سے جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے ضروری احکامات جاری کرنے کی درخواست کی۔ آخر میں انہوں نے امام خمینی کی ایران واپسی کی درخواست کی۔
مشہد میں آیت اللہ خامنہ ای کی انقلابی سرگرمیوں نے مختصر عرصے میں مزید زور پکڑا اور انہوں نے عوامی تحریکوں اور مظاہروں کو منظم کرتے ہوئے مشہد میں عوامی اجتماعات میں انکشافی تقریریں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امام خمینی کے اہل خانہ اور دیگر انقلابیوں سے مسلسل رابطے میں رہے ۔اسی رابطے کا نتیجہ تھا کہ سید احمد خمینی نے 10 آبان 1357 کو پیرس سے آیت اللہ صدوقی سے رابطہ کیا اور امام خمینی کی ان سے اور آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای ان علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے مشہد کے سعد آباد اسٹیڈیم میں اس شہر کے علماء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں امام خمینی کی واپسی اور اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ آبان مہینے کے آخری دنوں میں سید عبدالکریم ہاشمی نژاد کے ساتھ مل کر قوچان، شیروان اور بجنورد کے شہروں میں گئے اور وہاں انقلاب کو تقویت دینے کے لیے تقریری جلسےبرپا کئے۔ مشہد میں آیت اللہ خامنہ ای کی بڑھتی ہوئی اور اثر انگیز سرگرمیوں نے پہلوی حکومت کے سیکورٹی حکام کو انہیں گرفتار کرنے پر اکسایا۔ ساواک کی رپورٹوں میں آیت اللہ خامنہ ای کا ذکر خراسان میں انقلاب کے نمایاں پرچم برداروں میں سے ایک کے طور پر کیا گیا ہے۔
آپ نے 19 اور 20 آذر 1357مطابق تاسوعہ اور عاشورائے حسینی مشہد کے عزاداروں کے بڑے اجتماع میں ایک پرجوش تقریر کی اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں شب عاشورہ کا خطبہ امام خمینی کے نام سے پڑھا۔ اس انقلابی اقدام سے انہوں نے پہلوی حکومت کی اس روایتی رسم کو توڑ ڈالا جو اس سے پہلے پرتکلف طور پر اور محمد رضا پہلوی کے لیے دعاؤں کے ساتھ انجام پاتی تھی۔ نیز عاشورہ کے دن آپ نے مشہد کے لوگوں کے ایک بہت بڑے مظاہرے کو منظم کیا اور ان کے بڑے اجتماع میں تقریر کی۔ وہ ان علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے 24 آذر کو مشہد کے شاہ رضاہسپتال(موجودہ امام رضا ہسپتال) پر پہلوی حکومت کے حملے کے خلاف دھرنے کا پروگرام تجویز کیا تھا۔جب وہ دھرنے پربیٹھنے جا رہے تھے تو راستے میں، بہت سے لوگ ان سے ملحق ہو گئے اور دھرنا دینے والوں میں شامل ہوگئے ے۔دھرنے پر بیٹھنے والوں نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے پہلوی حکومت کے ایجنٹوں کے جرائم کو بیان کیا اور ان کی سزا کا مطالبہ کیا اور پہلوی حکومت کے خاتمے اور امام خمینی کی واپسی پر زور دیا۔ ان کے اس اقدام کو بھرپور ردعمل ملا اور پورے ایران میں ان کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کے کئی اعلانات شائع ہوئے۔
9 دیماہ 1357 کو آیت اللہ خامنہ ای مشہد کے چند انقلابی علما کے ساتھ خراسان گورنریٹ کے ملازمین کو انقلاب کے ساتھ لانے کے لیے لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کے ساتھ گورنریٹ کی عمارت کی طرف بڑھے۔ لیکن ان کی پرامن کوششوں کے باوجود گورنریٹ میں تعینات پولیس فورس نے لوگوں پر گولیاں چلا دیں۔ اس کے بعد مظاہرین کا ہجوم سڑکوں پر نکل آیا اور کچھ سرکاری عمارتوں اور مراکز کو آگ لگا دی۔ حادثہ کی رات مشہد کے علمائے کرام بشمول آیت اللہ خامنہ ای نے ایک اجلاس منعقد کیا اور اگلے دن مزید لوگوں کی ہلاکتوں اور تصادم کو روکنے کی کوشش کی لیکن پہلوی حکومت کے ایجنٹوں نے مظاہرین کا قتل عام کیا اور اس طرح 10 دیماہ 1357کو خونی اتوار کا سانحہ وجود میں آیا۔ ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مشہد کے بعض انقلابی علما کے ساتھ مل کر ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں اس حادثے کی مذمت اور تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔
پہلوی حکومت کے خاتمے اور اسلامی تحریک کی حتمی فتح کے آثار کے ظاہر ہونے کے ساتھ ہی امام خمینی نے 22 دیماہ 1357 کو اسلامی انقلابی کونسل کی تشکیل کا فرمان جاری کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای،جو امام خمینی کے ذریعہ اس کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے، مشہد میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت میں اپنے اہم کردار کے ساتھ اس شہر کو چھوڑ کر دیماہ 1357 کے آخر میں تہران آئے اور مدرسہ رفاہ میں سکونت اختیار کی اور دیگر انقلابیوں بالخصوص آیت اللہ بہشتی،آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ مفتح کے شانہ بشانہ انقلاب اسلامی کی فتح کے آخری مرحلے کی تیاری اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کرنے لگے۔ اسلامی- انقلابی کونسل کی جانب سے امام خمینی کے استقبال کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے بعد اس کی تبلیغی کمیٹی کی ذمہ داری سنبھال لی۔
بختیار کے حکم سے ملک کے ہوائی اڈوں کی بندش اور امام خمینی کی ایران واپسی کو روکنے کے بعد، آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ بہشتی اور کئی معروف انقلابی علما کے ساتھ مل کر تہران یونیورسٹی کی مسجد میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف ایک بہت بڑا دھرنا دیا جس نے دیگر علما، اہل دانشگاہ اور عوام کی شرکت سے وسیع شکل اختیار کر لی۔
دھرنا شروع ہونے سے ایک رات پہلے آیت اللہ بہشتی نے بہشت زہرا میں تقریر کی اور آیت اللہ خامنہ ای نے جو قرارداد عوام کے لیے تیار کی تھی پڑھ کر سنائی اور اس پروگرام کے ساتھ ہی تہران یونیورسٹی کی مسجد میں اگلے دن کے دھرنے کی تصدیق ہوگئی۔ . دھرنے کے دوران، آیت اللہ خامنہ ای نے ایک ہیڈکوارٹر بنا یا اور دھرنا دینے والے بعض انقلابیوں کی مشارکت سے مختلف کارروائیاں انجام دی، جن میں تقریر کرنا، اعلامیہ جاری کرنا اور "تحصن"(یعنی دھرنا) کے نام سے ایک رسالہ کی اشاعت شامل تھی۔ 8 بہمن کو مظاہرین نے ایک بیان جاری کیا اور اس بات پر زور دیا کہ جب تک امام خمینی کے لئے ہوائی اڈے نہیں کھولے جاتے وہ اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔ 12 بہمن کی صبح تک جاری رہنے والے اس دھرنے نے تہران یونیورسٹی کی مسجد کو جدوجہد کے عمل میں ایک بااثر مرکز میں تبدیل کر دیا۔
12 بہمن 1357 کو امام خمینی کی وطن آمد کے تاریخی لمحے میں آیت اللہ خامنہ ای نے علماء، روحانی حضرات اور اسلامی انقلابیوں کے ساتھ مہر آباد ایئرپورٹ پر امام خمینی کے استقبال کے لئے پہنچے۔ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی ، آیت اللہ خامنہ ای ہمیشہ امام خمینی کے ساتھ رہتے تھے اور انہیں بہت سے معاملات میں مشورہ دیتے تھے۔اسی طرح وہ امام کے دفتر کی تبلیغی کمیٹی کے بھی ذمہ دار تھے جس کا مقصد اسلامی حکومت کے اندرونی اور بیرونی مخالفین کی خبروں اور پروپیگنڈا سازشوں کا مقابلہ کرنا،مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی موقع پرستی کا مقابلہ کرنا،خبروں کو منظم کرنا اور شائع کرنا اور ”امام “ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا تھا۔انہوں نے خود بھی کچھ مضامین لکھے اور اس اس رسالے میں شائع کئے۔
اسلامی انقلاب کے پہلے عشرے میں سیاسی سرگرمیاں
انقلابی کونسل کی رکنیت
اسلامی جمہوریہ کے قیام کے عمل میں آیت اللہ خامنہ ای کے کردار کے اولین شعبوں میں سے ایک انقلابی کونسل کی رکنیت اور سرگرمی تھی۔ یہ کونسل مہرماہ 1357 میں امام خمینی کی فرانس کی طرف ہجرت اور اسلامی انقلاب کی فتح کے آثار کے ظاہر ہونے اور آبان کے آغاز سے امام خمینی کی رائے کے مطابق اسلامی تحریک کے انقلابی مرحلے میں داخل ہونے کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔ اور اس کے ارکان کو بتدریج امام خمینی نے منتخب کیا، لیکن اس کا باضابطہ اعلان مختلف تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے 22 دیماہ 1357 کو انقلاب کی فتح کے موقع پر کیا گیا تھا۔
کونسل کے پہلے ارکان جناب مرتضی مطہری، سید محمد حسینی بہشتی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی، سید علی خامنہ ای، سید محمد حسینی بہشتی، اور اکبر ہاشمی رفسنجانی تھے۔ سلسلہ آگے بڑھا تو دوسرے لوگ بھی اس کے ممبر بنتے چلے گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دیماہ کے آخر میں ان جلسوں میں شرکت کی۔ اس موقع پر کونسل نے جدوجہد کے حوالے سے اہم فیصلے کئے۔
ان میں پہلوی حکومت کے حکام اور امریکہ سمیت بیرونی ممالک کے حکام کے ساتھ مذاکرات اور امام خمینی کے لیے استقبالیہ کمیٹی کی تشکیل شامل تھی۔ فتح سے قبل انقلابی کونسل کا ایک اور اہم اقدام عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر، مہدی بازارگان کا امام خمینی سے تعارف کرانا تھا۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد، انقلابی کونسل کی ذمہ داری جو تھی وہ یہ تھی: مقننہ کی غیر موجودگی میں قانون بنانا، تیرماہ 1358 میں عبوری حکومت اور انقلابی کونسل کے انضمام کے بعد ایگزیکٹو کے کچھ فرائض انجام دینا، اور 14 آبان 1358 کو عبوری حکومت کے استعفیٰ کے بعد ایگزیکٹو کے سارے فرائض انجام دینا۔ ان اہم فرائض کے علاوہ وہ اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کو درپیش مسائل اور بحرانوں کو حل کرنا اور امام کو مشورہ فراہم کرنا بھی انقلابی کونسل کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔
انقلابی کونسل کے ارکان کی ترکیب میں متعدد بار تبدیلی کے باوجود آیت اللہ خامنہ ای 29 تیرماہ 1359 کو اس کی سرگرمیو ں کے اختتام تک چاروں ادوار میں اس کے مستقل رکن رہے۔انقلابی کونسل میں ان کے اہم مواقف میں کونسل کے نام نہاد لبرل اراکین کے نظریات کے خلاف کھڑے ہو نا اور ایران کی تودہ پارٹی کے اراکین اور حامیوں اور اسلامی انقلاب کی مخالفت کرنے والی دیگر جماعتوں اور گروہوں کے فوج اور ملک کے دوسرے ثقافتی شعبوں میں اثر و رسوخ کو روکنے کی ضرورت کے بارے میں بار بار انتباہات، شامل ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ انقلابی کونسل میں سماج کے مختلف طبقات کے نمائندے ہونے چاہئے۔ کردستان، سیستان و بلوچستان اور ملک کے دیگر خطوں کے مسائل اور اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت دیگر اہم مسائل میں سے تھے جن کی طرف انہوں نے انقلابی کونسل میں توجہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کردستان کے معاملے میں عبوری حکومت نے کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے اور اسے مختلف طریقوں سے حل کیا جانا چاہیے اور اسے ملک کے دیگر نسلی علاقوں میں پھیلنے سے روکنا چاہیے۔ سیستان و بلوچستان کے علاقے کے بارے میں، جلاوطنی کے دوران اپنی موجودگی کے تجربے اور اس علاقے کی سیاسی اور سماجی صورتحال سے آگاہی کی بنا پر، آپ نے اس سرزمین کے لوگوں کے معاشی اور اقتصادی حالات کی بہتری پر زور دیا۔
اسی تناظر میں 9 فروردین 1358 کو امام خمینی نے انہیں ایک وفد کے ساتھ اس علاقے میں لوگوں کی ضروریات اور مسائل سے نمٹنے اور اس خطے کے حالات کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرنے کے لئے بھیجا۔ اس سفر میں انہوں نے مذکورہ مشن کے علاوہ بعض مقامی رہنماؤں اور بااثر افراد سے ملاقات کی اور انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں سے آگاہ کیا۔
اسلامی انقلابی گارڈ کور اورجہاد سازندگی جیسے انقلابی اور عوامی اداروں کے قیام اور مضبوطی میں مدد کرنا، انقلابی کونسل میں ان کے دوسرے اصولی مواقف میں سے ہے۔
شہید چمران کے نائب
تیر ماہ 1358 کے آخر میں عبوری حکومت اور انقلابی کونسل کے انضمام کے ساتھ، انقلابی کونسل کے کچھ اراکین کو اس کونسل کی جانب سے کچھ حساس وزارتوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ ان میں سے آیت اللہ خامنہ ای کو وزارت دفاع کے انقلابی امور کے نائب وزیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر مصطفی چمران وزیر دفاع تھے۔
نیز، انقلابی کونسل اور عارضی حکومت کے انضمام کے دوران جس کا مقصد انتظامیہ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا تھا، وہ سیکورٹی وزراء کمیشن کے رکن بن گئے، جس کا کام تمام انتظامی، فوجی اور سیکورٹی امور کی نگرانی اور سرپرستی کرنا تھا جن میں گنبد، کردستان اور خوزستان کے بحران اور انقلاب مخالف جماعتوں کے اقدامات سے نمٹنا شامل تھے۔
پاسداران انقلاب کی سرپرستی
انقلابی کونسل کی جانب سے ان کی دیگر ذمہ داریوں میں دستاویزی مرکز کی ذمہ دار ی اور 3 آذر 1358 میں پاسداران انقلاب (IRGC) کی سربراہی بھی تھے۔ اس سے پہلے وہ انقلابی کونسل کے نمائندے کے طور پر IRGC کے بعض اجلاسوں میں شریک ہوچکے تھے۔ آئی آر جی سی کے سربراہ کے طور پر ان کے انتخاب کی وجہ آئی آر جی سی کی باڈی اور تنظیم میں کچھ اختلافات تھے جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد کے مہینوں میں پیدا ہوئے تھے اور ثالثی کی کوششوں کے باوجود حل نہیں ہوئے تھے۔
وہ عوامی فوجی دستوں بالخصوص سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے حامیوں میں سے تھ۔ اس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے دور میں انہوں نے موجودہ اختلافات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک مناسب تنظیم دینے کی کوشش کی۔
اسلامی جمہوری پارٹی کا قیام
آیت اللہ خامنہ ای ، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دنوں میں اور اس کے بعد انقلابی کونسل میں اپنی موثر موجودگی اور عبوری دور میں انقلاب کے امور کی نگرانی کے ساتھ ساتھ سید محمد حسینی بہشتی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی اور محمد جواد باہنر کے ساتھ ملک کر ایک انقلابی تنظیم بنانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس تنظیم نے باضابطہ طور پر 29 بہمن 1357 کو اسلامی جمہوری پارٹی کے نام سے اپنے وجود کا اعلان کیا۔ لیکن اس کے قیام کی بنیادیں 1356 کے موسم گرما میں مشہد میں ہونے والے اجلاسوں میں پڑ گئی تھی، جہاں کچھ انقلابی ، جن میں اسلامی جمہوری پارٹی کے موسسین بھی شامل تھے،پہلوی حکومت کے خلاف سرگرمیوں اور اسلامی فکر کی ترقی کے لیے ایک منظم پارٹی بناناچاہتے تھے۔
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس پارٹی نے انقلاب کی کامیابی پر منتہی ہونے والے مہینوں میں اپنی غیر رسمی فعالیت کے دوران جلسوں اور تقاریر کے انعقاد میں موثر کردار ادا کیا اور اس میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کی سرگرمی نمایاں تھی۔
اسلامی جمہوری پارٹی کے قیام کی وجوہات میں ، اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کی حفاظت اور حمایت کے لیے منظم اور جدید تنظیموں کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا، انقلاب کو جاری رکھنے، عوامی یکجہتی کو برقرار رکھنے اور لوگوں کو میدان میں باقی رکھنے میں مدد کرنا، اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد ڈالنا، انقلاب کے بعد کے دور میں امام خمینی کے موثر کردار کی مرکزیت کا تحفظ کرنا، لوگوں کے ذہنوں میں اصل اسلامی فکر کو گہرا کرنا، لمحہ بہ لمحہ لوگوں کی سیاسی رہنمائی کرنا، اسلامی انقلاب کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انتظامی اداروں کو افرادی قوت فراہم کرنے میں مدد کرنا، ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کی چالوں اور فریب کاریوں کے مقابلے میں صاف اور دیانتدارانہ موقف اختیار کرنا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای پارٹی کا منشور بنانے والوں میں شامل تھے۔ ارکان کے فرائض کی تقسیم میں بھی انہوں نے پارٹی کے شعبہ تبلیغات کی ذمہ داری نبھائی۔
وہ پارٹی کے بانی رکن اور مرکزی کونسل کے رکن تھے۔مجموعی طور پر پارٹی کے تاسیسی دور میں انہوں نے وضاحتی کردار ادا کیا اور تقریروں اور پمفلٹ کی صورت میں پارٹی کے موقف کو پیش کیا۔ انہوں نے مشہد میں پارٹی کی شاخ کے قیام میں کردار ادا کیا اور 26 اسفند 1357 کو اس شاخ کا دفتر کا افتتاح کیا۔
اسلامی جمہوری پارٹی کے جنرل سیکرٹری
پارٹی کے پہلے اور دوسرے جنرل سکریٹری آیت اللہ بہشتی اور ڈاکٹر باہنر کے بعد ، آیت اللہ خامنہ ای کو شہریور 1360میں پارٹی کی مرکزی کونسل نے پارٹی کے تیسرے جنرل سکریٹری کے طور پر منتخب کیا ۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے سالوں اور 1360 کی دہائی میں اسلامی جمہوری نظام کی بنیادیں استوار ہونے تک، اسلامی جمہوری پارٹی نے سرکاری سیاسی ڈھانچے سے باہر رہتے ہوئے حکومت کے ایک اہم ستون کے طور پر کام کیا۔
وہ اسلامی جمہوری پارٹی کو اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کی کلیت کے تحفظ کے لیے ایک ضروری ادارہ سمجھتے تھے۔ پارٹی کی پہلی کانفرنس اردیبہشت 1362 میں منعقد ہوئی اور آیت اللہ خامنہ ای دوسری بار پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور پارٹی کی مرکزی کونسل اور ثالثی(arbitral) کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنی صدارت کے دوران انہوں نے تہران اور دیگر شہروں میں اسلامی جمہوری پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی اور پارٹی کے مشن اور اہداف کو بیان کرتے ہوئے پارٹی کے دفاتر، شاخوں اور اراکین کے سوالات کے جوابات دیئے۔
دوسری مدت صدارت کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی جمہوری پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اس عرصے میں پارٹی کی سرگرمیاں مختلف وجوہات کی بنا پر سست پڑ گئی اور اس میں ابتدائی سالوں والی اثر انگیزی باقی نہ رہی۔ان وجوہات میں انقلاب کے ابتدائی سالوں کے بحرانوں کا حل ہوجانا، اسلامی جمہوریہ کو درکار اداروں اور تنظیموں کا قیام، جن کے قیام، مضبوطی اور ترقی میں پارٹی نے موثر کردار ادا کیا، آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی سمیت پارٹی کی اہم شخصیات کا نظام کے اہم منصبوں پر مشغول ہوجانا، بعض با اثر بانیوں کادنیا سے چلے جانا،امام خمینی کا اس بات سے ناخوش ہونا کہ یہ پارٹی اب متحد کرنے والے عامل سے تفرقہ پرداز عامل میں بدل چکی ہے اور پارٹی کے اندر گروپ بازی میں شدت کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی نے خرداد 1366 کے اوائل میں امام خمینی کو ایک خط لکھا اور مذکورہ وجوہات بالخصوص جماعت کے اندر دھڑے بندی کے ابھرنے اور اس کی شدت اور معاشرے کے اتحاد و اتفاق کے لیے ا س کے خطرہ کا ذکر کیا اور اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ امام خمینی نے بھی 11 خرداد 1366 کو اس درخواست پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بعد پارٹی کی سرگرمیاں بند کر دی گئیں۔
تہران کے امام جمعہ
امام خمینی نے 24 دیماہ 1358 کو تہران میں آیت اللہ خامنہ ای کو امام جمعہ مقرر کیا اور علم و عمل میں ان کے اچھے ریکارڈ اور قابلیت کا حوالہ دیا۔ آپ نے 28 دیماہ 1358 کو پہلی بار نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس تاریخ سے لے کر 6 تیرماہ 1360 کے واقعے تک، جب تہران کی مسجد ابوذر میں ان پر حملہ ہوا اور اس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئے، 21 بہمن سے 6 اسفند 1359 تک کے عرصے کو چھوڑ کر جب وہ تبلیغی سفر کے سلسلے میں ہندوستان کے دورے پر تھے، تہران میں نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ اس عہدے پر فائز رہے۔
نماز جمعہ کے سلسلے میں ان کا اہم اور منفرد اقدام یہ تھا کہ انہوں نے ملک اور عالم اسلام کے اندر ائمہ جمعہ کے نیٹ ورک کو مربوط کرنے کے مقصد سے ائمہ جمعہ کے لیے سیمینار منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم ترین اور فیصلہ کن اصولی اور اسٹریٹجک موقف کو پیش کیا اور معاشرے کی دینی فکر اور سیاسی بصیرت کو بھی گہرا کیا۔ عربی خطبات پر توجہ دینا، جن میں عالم اسلام کے مسلمانوں سے خطاب تھا، ان کے خطبات کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
اسلامی مشاورتی اسمبلی میں نمائندگی
اسفند 1358 میں اسلامی کونسل کے قانون سازی کی پہلی مدت کے انتخابات میں امیدوار بننے پر آیت اللہ خامنہ ای کو ”نیروی ہای خط امام“ نامی عظیم اتحاد کی حمایت حاصل ہوئی جس میں تہران کی جامعہ روحانیت مبارز،اسلامی جمہوری پارٹی اور دوسری کئی اسلامی تنظیمیں شامل تھیں۔انہوں نے تہران سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور پارلیمنٹ میں آ گئے۔ پارلیمنٹ میں وہ کمیشن برائے دفاعی امور کے رکن اور چیئرمین رہے۔
ان کی صدارت کے دوران اس کمیشن میں کئی منصوبوں، بلوں اور مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سب سے اہم پاسداران انقلاب کی بھرتی کی ضروریات کی فراہمی، بسیج مستضعفین نامی تنظیم کا پاسداران انقلاب میں انضمام، کردستان کا مسئلہ، سرحدی مسائل، بلوچستان کا مسئلہ اور فوج کی از سر نو تنظیم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کے دوران ان کے اہم اقدامات میں سے، صدارت کے لیے بنی صدر کی سیاسی نااہلی کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ان کی اہم اور مستند تقریر کا ذکر کر سکتے ہیں۔
31 شہریور 1359 کو ایران -عراق جنگ شروع ہونے اور جنگی محاذوں پر موجودگی کی وجہ سے وہ اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شاذ و نادر ہی شریک ہوئے اور 6 تیرماہ 1360 کو شدید زخمی ہونے کے بعد صرف چند مواقع پر ہی شریک ہوئے۔ مہر 1360 میں عہدہ صدارت کے لئےمنتخب ہونے کے بعد وہ اسلامی کونسل سے الگ ہو گئے
جنگ میں شرکت
آیت اللہ خامنہ ای نے ایران عراق جنگ کے پہلے گھنٹوں سے ہی جنگی مسائل کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔ ملک کی سرزمین پر حملہ شروع ہونے کے کچھ دیر بعدہی انہوں نے عراق کی بعثی فوج کے ایران پر حملے کا پہلا اعلانیہ تیار کیا اور ریڈیو کے ذریعہ لوگوں کو آگاہ کیا۔
جنگ کے آغاز کے دوسرے دن انہوں نے فوج کےمشترکہ ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ عراق کی فوجی جارحیت سے کیسے نمٹا جائے۔ اور جب یہ طے پایا کہ ان میں سے کوئی ایک جنگی محاذ پر جا کر اس مسئلے کی تحقیق کرے گا تو سب سے پہلے جس شخص نے اس تجویز کو قبول کیا وہ آیت اللہ خامنہ ای تھے۔
5 مہر 1359 کو امام خمینی کی اجازت کے بعد آپ نے فوجی لباس میں جنگی محاذوں پر حاضری دی تاکہ عراقی افواج کے حملہ آور علاقے میں ایرانی افواج کے مورچوں اور تنصیبات کی صورت حال کی رپورٹ تیار کر سکے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے افواج کو منظم کرنے میں مدد کرسکے۔ اس بنا پر وہ جنوبی محاذ کی طرف روانہ ہوئے اور 1360 کے وسط بہار تک اس محاذ پر مستقر رہےاس کے بعد وہ مغربی محاذ پر پہنچے۔ تہران میں نماز جمعہ کی امامت، امام خمینی سے ملاقات اور انہیں رپورٹ دینااور ضروری ملاقاتوں اور ضروری سفروں اور تقریروں کو چھوڑ کر وہ مسلسل محاذ پر موجود رہے۔
انہوں نے کئی فوجی آپریشنز یا ان کےتیاری میں حصہ لیا۔ سپاہ پاسداران اور بسیجی افواج کی ہتھیاروں اور رسد کی ضروریات کی فراہمی، میدان جنگ میں ان کی دیگر سرگرمیوں میں سے ہے۔
مورچوں پر ان کا زیادہ تر وقت، بے قاعدہ جنگوں کے ہیڈکوارٹر کی کارروائیوں کی رہنمائی، حمایت اور منصوبہ بندی میں گزرتا تھا جسے مصطفی چمران نے تشکیل دیا تھا۔ اس ہیڈکوارٹر کے خصوصی اقدامات میں سے ایک، جس میں آیت اللہ خامنہ ای براہ راست شریک تھے، ٹینکوں کے شکار کے لیے خصوصی فوجی گروپوں کی تشکیل تھی۔
خرمشہر، آبادان اور سوسنگرد محاذوں کی حمایت میں انہوں نے موثر کردار ادا کیا اور اسلامی انقلابی گارڈ کور(irgc) اور بسیج جیسی عوامی فوجی قوتوں کو مضبوط بنانے اور ان کی تکنیکی اور سازوسامان کی ضروریات کو پورا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کی ایک اور کوشش آئی آر جی سی اور فوج کے درمیان محاذوں اور فوجی کارروائیوں میں ہم آہنگی قائم کرنا تھی۔
سپریم کونسل آف ڈیفنس میں امام خمینی کے نمائندے
20 مہر 1359 کو امام خمینی کے فرمان کے مطابق، سپریم کونسل آف ڈفینس کو تمام جنگی امور کی ذمہ داری دے دی گئی، اور آیت اللہ خامنہ ای، جو 20 اردیبہشت 1359 کے امام خمنیی کے فرمان کے مطابق، اس کونسل میں ان کے نمائندے اور اس کے ترجمان بھی تھے، اس دوران جنگی معاملات میں امام خمینی کے مشیر بھی رہے۔
وہ عموماً سپریم کونسل آف ڈیفنس کے اجلاسوں کے اختتام پر کونسل کی مباحثوں اور فیصلوں کے بارے میں ایک پریس انٹرویو دیتے تھے اور کونسل کے فیصلوں سے عوام کو آگاہ کرتے تھے۔
وہ آبادان کا محاصرہ توڑنے کے آپریشن میں براہ راست موجود تھے اور خرمشہر کے معاملے میں بھی وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ درست فوجی اقدامات سے اس کے سقوط کو روکا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس تناظر میں انہوں نے اس وقت کے افواج کے صدر اور کمانڈر انچیف ابوالحسن بنی صدر کو ایک خط لکھا اور مطلع کیا کہ اگر سوسنگرد کے ارد گرد دو بکتر بند بریگیڈ تعینات کر دی جائیں تو شہر کے سقوط کو روکا جا سکتا ہے۔ تاہم بنی صدر نے اس تنبیہ پر توجہ نہیں دی۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد بین الاقوامی شخصیات اور تنظیموں کے ایک گروپ کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک نے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے سرگرمیاں شروع کر دیں۔
اس معاملے میں ان کا خیال تھا کہ جب تک عراق ایران کی اہم شرائط کو تسلیم نہیں کرتا جس میں بین الاقوامی سرحدوں سے پیچھے ہٹنا، ہرجانہ ادا کرنا اور جارح کو سزا دینا شامل ہے، امن نہیں ہو سکتا اور اگر عراق ان شرائط کو قبول نہیں کرتا ہے تو ہم طاقت کے بل پر اسے اپنے ملک کی سرزمین سے نکال باہر کریں گے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ تھوپی گئی امن جنگ سے بدتر ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے امن وفود کی رفت و آؐمد کو اس لحاظ سے مفید سمجھا کہ اس سے صدام حسین اور اس کی افواج کے ایرانی عوام کے خلاف کیے گئے جرائم کی جہتیں واضح ہو گئی اور ایران کی مظلومیت اور صدام کی جارحیت ثابت کرنے میں مدد ملی۔
جنگ، صدارت کے زمانے کا سب سے اہم مسئلہ
ان کی صدارت کے دو ادوار میں جنگ کا مسئلہ سرفہرست اور ملک کا اہم ترین مسئلہ رہا۔ 1360 سے 1364 تک جنگی منظر نامے میں تبدیلیاں آئیں اور مجموعی طور پر جنگی مورچوں پر توازن ایران کے حق میں بدل گیا۔ عراقی افواج کو زیادہ تر مقبوضہ علاقوں سے باہر دھکیل دیا گیا، اور ملک کے اعلیٰ حکام، بشمول سپریم ڈیفنس کونسل کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے اتفاق رائے سے، فوجی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ڈیزائن اور نافذ کیا گیا۔ اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی میدان میں ایران کی سفارتی موجودگی زیادہ سے زیادہ فعال ہوتی گئی۔
اپنی صدارت کے کل آٹھ سالوں میں سے سات سالوں کے دوران، جو جنگ کے ہم زمان تھے، انہوں نے اپنے بیرونی مذاکرات کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی، اسلامی اور علاقائی تنظیموں کے خیر سگالی امن وفود یا اہم بین الاقوامی اور علاقائی شخصیات کے ساتھ مذاکرات کے لیے وقف کییا جو ثالثی پر مامور تھے۔
صدارت کے دور میں امام خمینی کی طرف سے جنگی مورچوں پر حاضری کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے اپنے مورچوں پر اپنی حاضری کو محدود کر لیا لیکن جنگ کے اختتام پر اور قرارداد کی منظوری کے بعد محاذوں کی سنگین صورتحال نے انہیں امام خمینی کی اجازت سے ایک بڑی تبدیلی کے لئے مورچوں پر جانے کے لئے مجبور کر دیا۔
اس کے علاوہ، وہ صدارت کے دوران سپریم کونسل آف وار سپورٹ کے سربراہ بھی تھے۔ یہ کونسل 1365 میں جنگ کے خاص حالات کے پیش نظر تشکیل دی گئی تھی اور اس کا مقصدیہ تھا کہ ملک کے وسائل و امکانات کو جنگ کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے اور جنگی مورچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افواج کو آمادہ کیا جائے اور سہولیات کی فراہمی کے لئے موثر اقدامات کیے جائیں۔ امام خمینی نے 19 بہمن 1366 کو ان کے استفسار کے جواب میں کونسل کے منظوریوں کو جنگ کے خاتمے تک لازم الاجرا قرار دیا۔
1367 کے موسم گرما میں اور صدارت کے آخری سال میں ایران کی طرف سے قرارداد 598 کی منظوری کے ساتھ ہی عراق اور ایران کے درمیان جنگ ختم ہو گئی۔ 26 تیرماہ 1367 کو آیت اللہ خامنہ ای کی زیر صدارت اجلاس میں قرارداد 598 کی منظوری دی گئی جس میں نظام کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور امام خمینی نے بھی اس پر دستخط کیے۔
ایران کے عوام کے نام ایک پیغام میں امام خمینی نے قرار داد کی منظوری کو ایک بہت ہی تلخ اور افسوسناک مسئلہ قرار دیا اور صرف انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مصلحت کی وجہ سے قرار دیا: "میرے لئے اس قرار داد کا قبول کرنا زہر سے زیادہ مہلک ہے۔ لیکن میں خدا کی مرضی پر راضی ہوں اور میں نے یہ مشروب اس کی رضا کے لیے پیا ہے... اس قرارداد کی قبولیت میں ایرانی حکام نے فقط اپنے آپ پر بھروسہ کیا ہے اور کسی شخص نے یا کسی ملک نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔“ اس فیصلے کے بعد 27 تیرماہ 1367 کو آیت اللہ خامنہ ای نے صدر ایران کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے اس وقت کے سکریٹری جنرل زیویئر پیریز ڈیکویار کے نام ایک خط میں ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
دہشت
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ایرانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ملک کے سرکاری سیاسی ڈھانچے میں دو بااثر دھڑوں کا وجود اور ان کی سرگرمیاں تھیں جنہیں ”نیروہای خط امام“ اور لبرلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام خمینی کے زیادہ تر دوست، رشتہ دار اور مشیر، بشمول آیت اللہ خامنہ ای” نیروہای خط امام“ نامی دھڑے میں شامل تھے۔ لبرل دھڑے کی سرکردہ شخصیت، جس کے فکری اور سیاسی نقطہ نظر سے”نیروہای خط امام“ سے کئی تنازعات تھے، ابوالحسن بنی صدر تھے۔
آیت اللہ خامنہ ای ، بنی صدر کو ایک ایسے دھارے کا نمائندہ سمجھتے تھے جو ملک کے اعلیٰ حکام کی سطح پر تفرقہ اور تصادم کا سبب تھا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں تفرقہ اور انتشار کا باعث تھا۔ تاہم بنی صدر اور ان کی ہم خیال اور حمایتی تحریک سے بنیادی اختلاف کے باوجود، معاشرے میں اتحاد کو برقرار رکھنے اور اس پر امام خمینی کی تاکید کی وجہ سے انہوں نے عوامی حلقوں میں اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ بعض معاملات میں وہ فیصلہ امام خمینی کے پاس لے جاتےتھے۔ بنی صدر کے اسلامی انقلاب اور آئین کی نوعیت سے واضح انحراف کے بعد اور 30 خرداد 1360 کو پارلیمنٹ میں صدارت کے لیے ان کی سیاسی نا اہلی کی تجویز کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مفصل اور موثر تقریر کی۔ تجویز
1358ء سے یکم تیرماہ 1360ء تک انہوں نے مختلف معاملات میں لبرل اور قوم پرست دھڑے کے خلاف موقف اختیار کیا۔ انہوں نے ایران میں امریکی فوجی مشیر کے دفتر کو برقرار رکھنے اور عبوری حکومت کی طرف سے اس کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی۔ وزراء، نائب وزراء کے انتخاب اور سرکاری محکموں اور اداروں میں صفائی ستھرائی کے بارے میں انہوں نے ایسے لوگوں کے انتخاب کی بھی مخالفت کی جو انقلاب کی صف میں نہ تھے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ یا خطے کے رجعت پسند عرب ممالک سے تعلقات رکھنا چاہتے تھے ۔
6 تیرماہ 1360 کو تہران کے جنوبی علاقے میں واقع مسجد ابوذر میں نماز ظہر کے بعد تقریر کرتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر میں نصب بم کے پھٹنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں ان کی جان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کے سینے، کندھے اور دائیں ہاتھ میں شدید چوٹیں آئیں۔ غیر سرکاری رپورٹس میں اس واقعے کا ذمہ دار مجاہدین خلق ایران نامی تنظیم کو بتایا گیا ۔ بنی صدر کی صدارت سےمعزولی کے بعد ہونے والے واقعات اور پیش رفت میں آیت اللہ خامنہ ای پہلے شخص تھے جن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ 18 مرداد 1360 کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور سماجی اور سیاسی منظر نامے پر واپس آئے اور 26 مرداد 1360 سے اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔
صدارت
پہلا دور - ٪95 ووٹوں کے ساتھ صدر کے طور پر انتخاب۔ جمہوریہ اسلامی ایران کے دوسرے صدر محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل اورجامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے ان کی مخالفت کے باوجود متفقہ طور پر انہیں صدارتی امیدوار منتخب کیا اور امام خمینی جو اس سے قبل علما کےصدارت کا منصب سنبھالنے کے خلاف تھے، انہوں نے بھی ان کی نامزدگی سے اتفاق کیا۔
گارڈین کونسل کی طرف سے ان کی نامزدگی اور اہلیت کے اعلان کے بعد، مختلف گروہوں اور شخصیات نے ان کی صدارت کی حمایت کی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے سب سے اہم حامیوں میں سے ایک امام خمینی کے ہم فکر گروپوں کا اتحاد تھا۔ انتخابات 10 مہر 1360 کو ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای ووٹوں کی مطلق اکثریت (95.11فیصد) کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔ 17 مہر 1360 کو امام خمینی نے ان کی صدارت کو نافذ العمل قرار دیا اور 21 مہر کو پارلیمنٹ میں ایران کے تیسرے اسلامی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
27 مہر 1360 کو علی اکبر ولایتی کو ، جو اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن اور ”نیروی ہای خط امام“ کا حصہ تھے، پارلیمنٹ میں بطور وزیراعظم متعارف کرایا، لیکن وہ 30 مہر 1360 کو ہونے والی ووٹنگ میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 4 آبان 1360 کوانہوں نے میرحسین موسوی کو بطور وزیر اعظم متعارف کرایا جو اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن،جمہوری اسلامی اخبار کے ایڈیٹر اور رجائی، باہنر اور مہدوی کینی کی حکومتوں میں وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ 6 آبان 1360 کو وہ پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایسے حالات میں اپنی صدارت کا آغاز کیا جب صدارتی ادارے کا کوئی مناسب ڈھانچہ نہیں تھا۔ صدر کی قانونی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد کرنے کے لیے مشاورتی گروپ اور ورکنگ گروپ ابھی تک تشکیل نہیں دیے گئے تھے جس سے صدر کی کارکردگی کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ رفتہ رفتہ صدارتی دفتر کئی مشیروں اور ورکنگ گروپس کے ساتھ تشکیل پا گیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شروع میں اپنی کوششوں کا ایک حصہ صدر کے دفتر اور صدارت کے ادارے کی تشکیل پر مرکوز کیا۔ بعد ازاں صدر کے فرائض کی وضاحت میں ابہام کی وجہ سے، جو خاص طور پر پہلی مدت کے دوران وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت میں واضح ہوا، صدر کے اختیارات سے متعلق قانون کا مسودہ تیار ہوا جسے 16 اردیبہشت1365 کو پارلیمنٹ نے منظوری دی۔
صدارت کی پہلی چار سالہ مدت میں آیت اللہ خامنہ ای کے منصوبوں کی سرخیاں یہ ہیں: مسلط کردہ جنگ سے متعلق امور کی طرف توجہ، مظلوموں اور مرکز سے دور رہنے والوں کی حمایت کے لئے معاشی پالیسیوں کا حصول، ایرانی عوام کی انتظامی، سماجی اور سیاسی زندگی کے تمام پہلوؤں سے طاغوت کا خاتمہ، تکنیک سے لے کر فن تک تمام شعبوں میں انسانی صلاحیتوں کو تلاش کرنا اور ان سے کام لینا، لوگوں کو موثر خدمات فراہم کرنے کے لیے سماجی، انتظامی اور عدالتی تحفظ فراہم کرنا،جمہوریہ اسلامی ایران سےوفادار تمام لوگوں کی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانا خواہ ان کا تعلق کسی بھی سوچ اور فکر سے ہو۔
دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سرفہرست تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں تخفیف اور معاملات کو عوام کے سپرد کرنا، حکومت میں با صلاحیت ،انقلابی اور کارآمد عہدہ داروں کا تقرر، معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر مدتوں سے چھائی ہوئی غربت کا خاتمہا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانا، تیل کے علاوہ دیگر برآمدات کو توسیع اور ترقی دینا، اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جان،ا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے تھا۔
سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبوں میں ،دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن انداز میں اور صراحت کے ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب کسی پر انحصار نہ کرنا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دینا،عالمی طاقتوں سے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی کے لئے سنجیدہ کوشش کرنا،خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک کا مسلسل مقابلہ کرنا، قدس کے مسئلے اور دیگر غصب شدہ فلسطینی اراضی کے مسئلے پر توجہ اور صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری، بین الاقوامی میدان میں اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ بنتے ہوئے مالامال اور اصلی اسلامی ثقافت کی طرف لوٹنااور بین الاقوامی منظرناموں میں بااثر موجودگی درج کرانا شامل ہے۔
اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اختلاف رائے کے باوجود انہیں پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
صدارت کے دوران سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں
8 شہریو 1362 کو،آیت اللہ خامنہ ای نے ، امام خمینی کے حکم پر ثقافتی انقلاب تنظیم میں بنیادی ترمیم کی ذمہ داری قبول کر لی۔ امام نے یہ حکم یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھلنے کے موقع پرآیت اللہ خامنہ ای استفسار کے جواب میں جاری کیا۔ اسی طرح انہوں نے ثقافتی انقلاب تنظیم میں 19 آذر 1363 کو امام خمینی کے حکم پر دوسری ترمیم انجام دی ۔ اس ترمیم میں، ثقافتی انقلاب تنظیم کا نام تبدیل کر کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل رکھ دیا گیا اور صدر جمہوریہ اس کونسل کے سربراہ بن گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای تیرماہ 1368 میں اپنی دوسری صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے ۔اس دوران انہوں نے ملک کی اہم ثقافتی پالیسیوں کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای کے آٹھ سالہ دور صدارت میں ایران کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا محکمہ زیادہ فعال ہوا۔ خارجہ پالیسی اور تعلقات کی ترقی کی ایک علامت ، تعلقات کو فروغ دینے کے لیے صدر جمہوریہ کے مختلف ممالک کے دورے تھے، جو صدارت کے پہلے دور میں شروع ہوئے اور دوسرے دور میں ترقی کی۔ انہوں نے اپنی صدارت کے پہلے دور میں 15 سے 20 شہریور1363 تک شام، لیبیا اور الجزائر اور دوسرے دور میں 23 دیماہ سے 3 بہمن 1364 تک ایشیائی اور افریقی ممالک پاکستان، تنزانیہ، زمبابوے، انگولا اور موزمبیق کا سفر کیا۔11 سے 15 شہریور 1365 تک وہ ہرارے میں ناوابستہ ممالک کے آٹھویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دوبارہ زمبابوے گئے۔ اس سفر کے دوران انہوں نے سربراہی اجلاس میں تقریر کی اور ناوابستہ ممالک کے بعض سربراہان سے ملاقات اور گفتگو کی۔ انہوں نے 2 سے 6 ماسفند 1367 تک یوگوسلاویہ اور رومانیہ اور 19 سے 26 اردیبہشت1368 تک چین اور شمالی کوریا کا سفر کیا۔
31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔
نیویارک میں نماز جمعہ کی امامت اور خطبات بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات میں ، افغانستان، عراق اور لبنان میں شیعہ سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر بھی کیا جا سکتاہے۔ تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ پارٹیوں سے وحدت اسلامی پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کی نقصان دہ مقابلہ آرائی کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی مجاہدین کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا ۔ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔
مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملی میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھر جانا ،ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملنے اور نزدیک سے ان کے مسائل جاننے، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنے، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنے اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون کرنے، علماء سے ملاقات، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقات اور اقتصادی مسائل کا جائزہ لینے کے مقصد سے ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنا ان کی مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں شامل تھا۔
امام خمینی کا خط
16 دیماہ 1366 کو امام خمینی نے ، تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کے حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کے مد نظر ان کے نام ایک خط میں اسلامی حکومت کو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیا جو دیگر تمام فرعی احکام پر مقدم ہے نیز ولایت فقیہ کو مطلق قرر دیا۔ امام خمینی کے خط کے جواب میں آیت اللہ خامنہ ای نے ان کے نقطہ نظر کے سلسلے میں اپنی نظریاتی اور عملی تائید کا اعلان کیا۔
اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں اپنے بیانات کے مقصد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور ان کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے لکھا: ”میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے برسوں پہلے سے گہرا تعلق رہا ہے اور حمد اللہ اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ میری نظر میں آپ جمہوری اسلامی کے تواناباز کی حیثیت رکھتے ہیں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہیں اور ان پر کاربند ہیں، اور جو ولایت فقیہ مطلقہ سے مربوط فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ اسلام اور اسلامی اصول و مبانی پر کاربند ان نادر افراد میں سے ہیں جو مثل خورشدید روشنی بکھیرتے ہیں۔“
مختلف بلوں کی منظوری میں پارلیمنٹ اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 بہمن 1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی(مجمع تشخیص مصلحت نظام) کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای اس کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد کے سالوں کی طرح ،اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران بھی وہ امام خمینی کے قریبیوں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔
یکم آبان 1362 کو انہیں امریکہ اور دیگر ممالک سے ایران کے مطالبات کی پیروی نے کا کام سونپا گیا۔ یکم آذر کو انہوں نے آرمی انفارمیشن پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام پر اتفاق کیا۔9 دیماہ 1362 کو ان کا تقرر تعزیرات بل کی دوبارہ جانچ کے لیے کیا گیا۔ 23 بہمن 1367 کو امام خمینی نے انہیں اس بات پر مومور کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو تینوں محکموں کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دےجہاں وہ لوگ اس کونسل کے بہتر انتظام کے لیے تقسیم وظائف کے متعلق اپنے منصوبے پیش کرسکے۔ آخر میں انہوں نے تینوں محکموں کے سربراہان کی ملاقات میں زیر بحث لائحہ عمل سے اتفاق کیا۔ 19 اسفند 1367 کو امام خمینی نے ایک خط میں انہیں ایران میں مقیم عراقیوں کے مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی۔
امام خمینی نے 4 اردیبہشت 1368 کو آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک فرمان میں آیت اللہ خامنہ ای سمیت بیس افراد پر مشتمل ایک وفد مقرر کیا جو پارلیمنٹ کے پانچ نمائندوں کے ساتھ مل کر جنہیں خود پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہو ،آئینی نظرثانی کونسل تشکیل دے اور پانچوں موضوعات میں آئین میں ترمیم، نظر ثانی اور تکمیل کا کام انجام دے۔ مذکورہ کونسل کی تشکیل کے بعد آیت اللہ مشکینی صدر منتخب ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای اور اکبر ہاشمی رفسنجانی کونسل کے پہلے اور دوسرے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اکتالیس نشستوں کے دوران، کونسل نے پانچ اہم امور پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا: قیادت کے شرائط، انتظامیہ اور عدلیہ میں تمرکز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے انتظام و انصرام میں تمرکز، مستقبل میں آئین پر امکانی نظر ثانی کی نوعیت اورپارلیمنٹ کے نمائندوں کی تعداد کے متعلق بحث و گفتگو کرکے فیصلے لئے۔ . یہ نشستیں امام خمینی کی وفات کے بعد تک تک جاری رہیں۔
ایران کی قیادت
14 خرداد 1368 کو جب عوام اور حکام امام خمینی کے مقدس جسم کو دفنانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک اجلاس میں جس میں قومی اور فوجی حکام نے شرکت کی، صدر آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رہ) کا سیاسی- الہی وصیت نامہ پڑھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے نئے لیڈر یا لیڈر شپ کونسل کے انتخاب کے لیے اسی دن شام کو مجلس خبرگان رہبری کا اجلاس ہوا۔ 1358 میں منظور شدہ آئین کے آرٹیکل 107 کے مطابق قیادت کا انتخاب مجلس خبرگان کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔
کونسل یا انفرادی لیڈر شپ کی بحث میں مجلس خرگان کی اکثریت نے کونسل کی قیادت کو ووٹ نہیں دیا اور جب ووٹنگ کے لئے قیادت کے مصداق کا سوال آیا تو آیت اللہ خامنہ ای کا نام لیا گیا۔ بعض نمائندوں نے ،جو امام خمینی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنہ کے اندر نظام کی قیادت کی صلاحیت کے بارے میں امام خمینی کے نظریے کا اجمالی علم رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے تینوں محکموں کے سربراہان ،وزیر اعظم اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ؐمختلف جلسات میں کیا تھا، ان جلسات کے عینی گواہوں سے وضاحت کا مطالبہ کیا۔
امام خمینی کی روایت کے دو گواہوں نے جو خود بھی مجلس خبرگان کے رکن تھے، امام کی طرف اس قول کے منسوب ہونے کی تصدیق کی۔ اسی جلسے میں آیت اللہ خامنہ ای کی اہلیت کے حوالے سے امام خمینی کا ایک اور بیان بھی سامنے آٰیا جس کا اظہار انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای کے حالیہ دورہ چین اور شمالی کوریا کے دوران کیا تھا۔ اس کے بعد رائے شماری ہوئی اور مجلس خبرگان کے نمائندوں کی بھاری اکثریت نے امام راحل کی رائے اور آیت اللہ خامنہ ای کی مذہبی، علمی اور سیاسی قابلیت کی بنیاد پران کو اسلامی جمہوریہ ایران کا قائد منتخب کیا۔
اس مسئلے کا ذکر انہوں نے خود کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت تک اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرتا رہا جب تک یہ انتخاب حتمی نہیں ہو گیا۔ آئین میں نظر ثانی اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد مجلس خبرگان نے ایک بار پھر آیت اللہ خامنہ کی قیادت کے حوالے سے نئے آئین کے مطابق ووٹنگ کرائی ا اور بھاری اکثریت نے انہیں دوبارہ نظام کے رہنما کے طور پر منتخب کیا۔
آیت اللہ خامنہ کی قیادت کے بارے میں امام راحل کی رائے کے چند اہم پہلو یہ ہیں: اسلامی حکومت کے حصول کے لیے طویل المدتی جدوجہد، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام پر پختہ اور واضح یقین، اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے لیے ایک دہائی سے زیادہ ہمہ جہت سیاسی، انتظامی اور ثقافتی سرگرمیاں، مذہبی روشن خیالی، دینی اصول و مبانی پر علمی تسلط، انفرادی اور سماجی رویے، زہد اور پاکدامنی۔ امام خمینی نے مختلف مواقع پر اسلامی جمہوریہ کی خدمت کے سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی خوبیوں، عزم اور خدمات کی تصدیق کی تھی۔
سید احمد خمینی، امام خمینی کے قریب ترین شخص، جو ان کے مشیر اور معتمد تھے، نے کہا کہ ان کے غیر ملکی سفر کے بعد، امام نے فرمایا: "بے شک ان کے اندر قیادت کی صلاحیت ہے۔" امام خمینی کی بیٹی زہرہ مصطفوی نے بیان کیا کہ جب انہوں نے امام سے نظام کی مستقبل کی قیادت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کا نام بتایا، اور جب انہوں نے ان کی علمی حیثیت پوچھی تو انہوں نے ان کے اجتہاد کی تصدیق کی۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب امام آیت اللہ منتظری کو مستقبل کی قیادت سے ہٹانا چاہ ر رہے تھے، تو تینوں محکموں کے سربراہان، وزیر اعظم (میر حسین موسوی) اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ہونے والی نشست میں قیادت کی تبدیلی کے بارے میں بات چیت ہوئی تو انہوں نے نظام کے مستقبل کے رہنما کے طور پر آیت اللہ خامنہ ای کا نام لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام راحل کے ساتھ اپنی نجی ملاقات میں انہوں نے مستقبل میں قیادت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے جواب میں امام نے آیت اللہ خامنہ ای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہوئے فرمایا: "تم بن بست کا شکار نہیں ہوگے جبکہ تمہارے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہے۔تم خود کیوں نہیں جانتے؟“
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کا رہبر منتخب کیا گیا وہ خاص اہمیت اور حساسیت کا حامل تھا۔ امام خمینی کی بیماری کے بعد پیدا ہونے والے کچھ خدشات یہ تھے:
- امام خمینی کے بعد کے دور میں ملک کا انتظام
- آئین کی نامکمل ترمیم اور نظرثانی
- عراق، امریکہ اور منافقین کے فوجی حملوں یا اشتعال انگیزیوں کی فکر؛ عراق کی بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور جنگ میں اس کی سمجھی جانے والی فتح کے لیے وسیع پروپیگنڈے کے پیش نظر
- مصنف سلمان رشدی کے ارتداد پر امام خمینی کے حکم سے پیدا ہونے والے بحران کا تسلسل، جسے مغربی ممالک کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن جس چیز نے تمام پریشانیوں کو امید میں بدل دیا وہ یہ تھے:
- آیت اللہ خامنہ ای کا رہبر کے عہدے پر انتخاب، جو کہ مختصر ترین وقت میں ہوا۔
- امام خمینی کے لاکھوں منفرد جنازے اور الوداعی اور سب سے بڑے جنازوں کی تشکیل اور ایک مقبول رہنما کے لیے الوداعی جس نے ایک بہت بڑے طوفان کی طرح دشمن کی کسی بھی سازش کے امکان کو ختم کر دیا۔
- نظام کے اعلیٰ حکام اور ملک کے مختلف اداروں، ایوان ائمہ، مذہبی حکام اور علماء بشمول آیت اعظم اراکی، مرعشی نجفی، آیت اللہ مرزا ہاشم آملی، آیت اللہ العظمیٰ گولپائیگانی اور آیت اللہ کی طرف سے بیعت کی تصدیق اور بیعت۔ میشکینی، اشرافیہ، مدرسے اور یونیورسٹی کی شخصیات، شہداء کے اہل خانہ اور عوام کے مختلف طبقات
- آیت اللہ خامنہ ای کے رہبر منتخب ہونے کے چند گھنٹے بعد حاج سید احمد خمینی نے انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور کہا: حضرت امام حسین علیہ السلام! کئی بار آپ کو ایک مسلم مجتہد اور ہمارے اسلامی نظام کی رہنمائی کے لیے بہترین شخص کہا۔ میں اور امام کے گھر کے تمام اراکین معزز ماہرین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام کی روح اس انتخاب سے خوش اور پرسکون ہوئی ہے۔ ایک بار پھر، ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، میں اس فقیہ کے احکامات کو اپنے لیے پابند سمجھتا ہوں۔
عالم اسلام کا اتحاد
وہ اسلامی امت کے اتحاد اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی کے مسئلہ کے سب سے پرجوش محافظوں میں سے ایک ہیں اس طرح کہ اسلامی مذاہب کے عالمی فورم کے قیام کے بعد ان کا پہلا اقدام تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی اتحاد کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد۔
تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی ان تقاریر کا مجموعہ ایک اندازاً روڈ میپ اور ایک اہم میراث ہے جو نہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے۔ عالم اسلام بلکہ عام مسلمانوں کو حتی الامکان اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے اور مذہب، اسلام اور روحانیت کے کھلے ہوئے دشمنوں کے خلاف فکر سے ایک مذہبی فریضہ اور اسلامی اصول کی طرف موڑ دیتی ہے۔
عام عقائد پر توجہ دیں
اور مسلمانوں اور مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ان پاکیزہ تعلیمات کے محور کے گرد دین کی ترویج و اشاعت یقیناً ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب اور قریب کر دے گی۔ انہوں نے بارہا اس نکتے پر تاکید کی اور کہا: آج ہمارا ایک ہی دشمن ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرے میں ایک ہی کتاب، ایک سنت، ایک ہی نبی، ایک ہی قبلہ، ایک کعبہ، ایک حج، ایک ہی عبادت اور ایک ہی عقیدہ ہے۔ یقینا، اختلافات ہیں.
سائنسی اختلافات دونوں علماء کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عالم اسلام کے خلاف واحد دشمن ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اسے اس طرح ہینڈل کیا جانا چاہئے۔ ہر روز جب یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے، عالم اسلام نے ایک دن کھو دیا ہے اور یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ اتنے حساس ہیں کہ زندگی بھر متاثر کرتے ہیں۔ آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ہم تمام مسلمانوں کو بتانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں - شیعہ اور سنی سے - کہ آپ میں ایک نقطہ مشترک ہے اور ایک نقطہ فرق ہے۔ کچھ چیزوں میں آپ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ہر فرقے کا اپنا طریقہ ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ، سب سے پہلے، مشترکات کے وہ نکات فرق کے نکات سے زیادہ ہیں۔ یعنی تمام مسلمان ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی، ایک حکم، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ایمان رکھتے ہیں۔
آپ کو دو مسلمان ایسے نہیں ملیں گے جو صبح ہوتے ہی نماز کے لیے نہ اٹھیں۔ جب تک وہ اپنا فرض ادا نہ کرنا چاہے، دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسے صبح، دوپہر، شام اور رات کی نماز پڑھنی چاہیے، اور مستحب ہے کہ وہ رات کی نماز نصف شب میں ادا کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نماز کعبہ کی طرف اور قرآن کی زبان میں اور قرآن کی آیات سے ادا کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مسلمان جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو روزہ رکھتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہ کا پہلا دن ہے۔
بڑی مشترکات ہیں؛ سب کو اس محور کے گرد ضم کیا جانا چاہیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ برداشت کریں۔ اصول ہیں، محور ہیں؛ اصول ان اصولوں میں ہمدرد ہونا ہے۔ سو شاخوں میں لوگوں کے لیے ایک دوسرے سے اختلاف کرنا ممکن ہے۔ یہ برادری، اجتماع، انضمام سے متصادم نہیں ہے۔ یہ معیار ہونے چاہئیں۔ ہماری تقریر میں محتاط رہیں۔ دوسروں کو رد کرنا، دوسروں کو رد کرنا، ثانوی مسائل کے لیے قطعاً مناسب نہیں۔
تمام ایرانی عوام کو ہمارے پیارے امام کے اس بامعنی اور مختصر سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور اسلام کے محور پر کلمہ کی وحدت کو نہ بھولنا چاہیے: الہی دھاگے کو پکڑو اور اسلام کے محور پر متحد ہو جاؤ۔ یہ اتحاد تمام دردوں کا علاج ہے اور تمام دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ ایرانی قوم کی فتح کا عظیم امر یہ ایک نکتہ ہے: اسلام کی بنیاد پر کلمہ کی وحدت آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے چمٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران، 103) حبل اللہ کا روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن قرآن ہمیں حبل اللہ کا روزہ رکھنے کا حکم دینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہبل اللہ کا روزہ جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ "کل"؛ مل کر ہڑتال کریں۔ اتحاد کے بارے میں رہبر معظم کے ارشادات کے سلسلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کوئی مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ الگ الگ، اسلامی معاشروں کو اتحاد تلاش کرنا چاہیے اور ساتھ چلنا چاہیے۔ اس تناظر میں جن عوامل کا مرکز ہو سکتا ہے ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہے۔
مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اس معزز شخص کی شخصیت اور تعلیمات میں سرمایہ کاری کریں اور اسلام کے ہمہ جہت نظریہ کے ساتھ اس محترم شخصیت سے محبت کریں۔ پیغمبر اسلام (ص) کی موجودگی تمام اسلامی ادوار میں اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے اور آج بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس عظیم اور مقدس وجود پر عقیدہ محبت اور محبت کے ساتھ ہے اور اسی لیے وہ عظمت تمام مسلمانوں کے جذبات اور آراء کا مرکز اور محور ہے اور یہ مرکزیت اتحاد بین المسلمین کے اسباب میں شمار ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے دل اور اسلامی فرقے کی ایک دوسرے سے قربت۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق، آپ کے اخلاق اور آپ کی کہی اور لکھی ہوئی تعلیمات کے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام کریں۔
ان عوامل میں سے جو اس اتحاد کا مرکز ہو سکتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہو سکتے ہیں، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی پیروی ہے۔ تمام مسلمان پیغمبر کے اہل بیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ اپنی امامت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک غیر شیعہ انہیں شیعہ اصطلاح میں امامت کے معنی میں امام نہیں مانتا، لیکن وہ انہیں اسلام کے بزرگانِ اسلام سے جانتا ہے، پیغمبر کے خاندان سے، جو اسلامی تعلیمات اور احکام کو جانتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور اہل بیت کے ارشادات پر عمل کریں۔
یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ یقیناً یہ ایک تکنیکی کام ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے ابتدائی مراحل ہیں۔ جو لوگ سائنس کے ماہر ہیں، حدیث کے ماہر ہیں، اور حدیث سے متعلق علوم کے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے لیے کیا شرائط ہیں۔
غدیر
مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو کے کے سوا جسے شیعوں نے عقیدہ کے طور پر قبول کیا ہے( یعنی وہ حکومت جو امیر المومنین (ع) کو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سےحاصل ہوئی ہے، جو حدیث غدیر میں واضح ہے) سرپرستی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ اب اس میں شیعہ یا سنی نہیں ہیں۔ اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ممالک کی قومیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو امت اسلامیہ کی بے شمار حل نہ ہونے والی گرہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ممالک کے مسائل حل ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے
امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا احترام کرتا ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواصب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں بعض گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے عام لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعارموجود ہیں۔
مشہور اشعار جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ شافعی کے ہیں۔ امام شافعی کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں مدحیہ اشعار ہیں۔ صرف امیر المومنین کے بارے میں ہی نہیں بلکہ تمام یا زیادہ تر ائمہ کا یہ لوگ احترام کرتے ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ آرشیو مرکز اسناد، شمارہ 1226