عثمان 1.jpg

عثمان بن عفان اہل سنت کے صالح خلفاء میں تیسرے خلیفہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک ہیں۔ خلیفہ کے انتخاب کے لیے عمر بن خطاب کی طرف سے اپنی وفات سے قبل مقرر کردہ کونسل کے مطابق عثمان خلیفہ بنے اور 23 قمری سال سے 35 قمری سال تک حکومت کی۔ عثمان نے اپنی زندگی کے آخری 49 دن اپنے مخالفین اور مظاہرین کے گھیرے میں گزارے جو بالآخر ان کے قتل پر منتج ہوئے۔ عثمان نے قرآن کا ایک سرکاری نسخہ بھی جمع کیا اور رجسٹر کیا۔ ان کے بعد مسلم گروہوں اور متحدہ اسلامی سرزمینوں (جیسے شام، عراق، حجاز اور مصر) کے درمیان اختلافات بڑھے، یہ سیاسی اور مذہبی عدم مطابقتیں شدید تنازعات کا باعث بنیں۔

سوانح عمری

عثمان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی، ان کی والدہ عروی ہیں، کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی کی بیٹی ہیں، اور ان کی والدہ بیدہ، بیٹی ہیں۔ عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف جن کی کنیت ام حکیم ہے۔

جاہلیت کے زمانے میں عثمان کی کنیت ابو عمرو تھی اور جب اسلام نازل ہوا تو ان کا ایک بیٹا عبداللہ تھا جس کا نام رقیہ تھا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھی۔ یا انہوں نے الفل کا چھٹا سال لکھا ہے [1]

کہا گیا ہے کہ عثمان نے ابوبکر کی دعوت پر اسلام قبول کیا ۔ البتہ بعض نے ان کا اسلام طلحہ اور زبیر کے اسلام کی پیروی کو سمجھا ہے [2]۔

عثمان کا اسلام قبول کرنا

عثمان نے مکہ میں ابوبکر کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ عثمان کے اسلام لانے کا صحیح سال صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وہ ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے شروع میں ہی ایمان لے آئے تھے۔ عثمان ان اولین لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ جنگ بدر کے دوران اگرچہ وہ مدینہ میں تھے لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ مؤرخین نے کہا ہے کہ جنگ میں ان کی عدم شرکت کی وجہ ان کی اہلیہ رقیہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں کی بیماری تھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ میں رہنے کا حکم دیا تھا اور رقیہ کا انتقال اسی جنگ کا خاتمہ [3]

خلافت سے پہلے عثمان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں

وہ اپنی بیوی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھے۔ اور مدینہ کی طرف ہجرت کے دوران بنی نجار کے محلے میں اوس بن ثابت (حسن بن ثابت کے بھائی) کے گھر میں داخل ہوئے [4]. لکھا ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کی بیماری کی وجہ سے بدر کی لڑائی میں شرکت نہیں کی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مال غنیمت میں عثمان کا حصہ مراد لیا۔

نیز صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں قریش کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تاکہ انہیں بتادیں کہ مسلمان لڑائی کے لیے نہیں آئے ہیں بلکہ خانہ خدا کی طرف جھکنے کے لیے آئے ہیں اور چلے جائیں گے۔ اونٹوں کی قربانی کے بعد شہر۔

عثمان ابوبکر و عمر کے دور میں

ابوبکر کے زمانے میں وہ خلیفہ کے قریبی لوگوں میں سے تھے اور ان کا کاتب سمجھا جاتا تھا۔ عثمان جو کہ ابوبکر کی بیماری کے پورے دور میں ان کے ساتھی تھے، ان کی طرف سے عمر کی جانشینی کا معاہدہ لکھنے کا پابند تھا [5]۔

عہد کا آغاز لکھنے کے بعد ابوبکر کوما میں چلے گئے اور عثمان نے جو اپنے فرض کو جانتے تھے، عہد کو آخر تک لکھا اور اس میں عمر کا نام بھی شامل کیا۔ ہوش میں آنے کے بعد ابوبکر نے ان سے کہا کہ آپ نے کیا لکھا ہے اسے پڑھیں، آپ نے ایسا کیا اور ابوبکر نے اپنی تحریر کی تصدیق کی۔ عمر کے دور میں ان کا کافی اثر و رسوخ تھا اور ان حالات میں وہ بنی امیہ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

خلافت کونسل

ہجری میں فیروز نامی ایک ایرانی غلام مغیرہ بن شعبہ نے عمر بن خطاب کو قتل کر دیا۔ عمر اس حملے کے چند دن بعد ہی بچ گئے لیکن ان کی وفات سے قبل چھ رکنی کونسل جس میں امام علی علیہ السلام، عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبید اللہ، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن شامل تھے۔ ابی وقاص کو تشکیل دیا اور حکم دیا کہ وہ اپنے میں سے ایک شخص کو خلیفہ منتخب کریں۔ شروع سے ہی سعد نے اپنا ووٹ عبدالرحمن کو دیا۔ زبیر، علی علیہ السلام کے حق میں، خلافت کی امیدواری سے دستبردار ہو گئے۔ عبدالرحمٰن نے اعلان کیا کہ وہ خلافت نہیں چاہتے [6]۔

طلحہ جو کہ ابوبکر کے چچازاد بھائی اور علی علیہ السلام کے مخالف تھے، عثمان کی حمایت کے لیے روانہ ہوئے۔ اس لیے صرف علی اور عثمان ہی خلافت کے امیدوار تھے اور عبدالرحمٰن کی رائے بہت اہم ہوگئی۔

لوگوں سے 3 دن تک مشورے کے بعد، خاص طور پر امیروں اور رئیسوں سے، عبدالرحمٰن بن عوف نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام سے کہا کہ وہ کتاب خدا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیروی کا عہد کریں۔ خلافت کے منصب پر فائز ہونے کی صورت میں عمر علی نے جواب دیا: میں امید کرتا ہوں کہ خدا کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر اپنے علم، استطاعت اور اجتہاد کی حد میں عمل کروں۔ پھر عبدالرحمٰن نے اپنی شرط عثمان سے بیان کی تو انہوں نے فوراً مان لیا۔ اسی وجہ سے ابن عوف نے عثمان کی بیعت کی۔

حوالہ جات

  1. طبقات ابن سعد/ ج۳
  2. طبقات ابن سعد ج۳ ص ۴۶
  3. واقدی، المغازی، ۱، ۱۰۱؛ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸
  4. طبقات ابن سعد/ترجمه، ج۳ ص ۴۶
  5. تاریخ الطبرى، ج ۳، ص ۴۲۹
  6. تاریخ الامم و الملوک، ج ۳، ص