حضرت عیسی علیہ السلام

نظرثانی بتاریخ 22:27، 25 دسمبر 2024ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (Saeedi نے صفحہ مسودہ:حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت عیسی علیہ السلام کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)

حضرت عیسی علیہ السلام 25 دسمبرکو مقبوضہ فلسطین کے شہر بیت لحم میں پیدا ہوئے- آپ(ع) اولوالعزم انبیاء میں سے ایک ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے- قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں۔ خداوند عالم نے اپنی حکمت کے تحت حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک مخصوص جگہ منتقل کر دیا ہے تاکہ ایک دن ظاہر ہو کر امام عصر عج کی اقتدا اور انکی حمایت کرسکیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے آخری نبی تھے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو خاتم الانبیاء، حضرت محمّد مصطفیٰ کی آمد کی خُوش خبری دی۔

حضرت عیسی علیہ السلام
حضرت عیسی.jpg
تاریخ ولادتحضرت محمد کی ولادت سے 570 سال پہلے
جائے ولادتناصره جلیل
والدہ ماجدہمریم بنت مریم
مدفنبیت المقدس

ولادت

بیٹے کی بشارت کے بعد حضرت جبرائیلؑ نے آپؑ پر پھونک ماری اور وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت مریمؑ کو بچّے کی پیدائش کے آثار محسوس ہونے لگے [1]۔ جیسے جیسے پیدائش کے دن قریب آتے جا رہے تھے، آپؑ کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ جب پیدائش کا وقت قریب آیا، تو آپؑ لوگوں کے خوف سے بیتُ المقدِس سے تقریباً 9 میل دُور جنگل کی جانب ایک پہاڑی’’ کوہِ سراۃ‘‘ کی جانب چلی گئیں۔

یہی وہ جگہ ہے، جو بعد میں’’ بیت اللحم‘‘ کہلائی۔ جب دردِ زہ شروع ہوا، تو آپؑ ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔ زچگی کی تکلیف کی شدّت اور دُنیا والوں کے خوف نے آب دیدہ کر دیا[2]۔ کہنے لگیں’’کاش! مَیں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔‘‘

علماء فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے موت کی آرزو اس لیے کی کہ وہ عزیز و اقارب، خاندان، برادری اور لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکیں گی، جب کہ کوئی اُن کی صداقت کی تصدیق کرنے والا بھی نہیں۔ اُن کی شہرت ایک نیک، پارسا اور زاہدہ کے طور پر تھی۔لہٰذا، اُن کے لیے یہ تصوّر ہی بڑا رُوح فرسا اور تکلیف دہ تھا کہ لوگ اُنہیں بدکار سمجھیں۔

آغوشِ مادر میں کلام

ابھی حضرت مریمؑ اَن جانے اندیشوں اور وسوسوں میں گِھری ہوئی تھیں کہ حضرت جبرائیلؑ نے وادی کے نیچے سے آواز دی:’’اے مریمؑ! پریشان نہ ہوں، تمہارے پروردگار نے تمہارے قدموں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور ذرا اس کھجور کے درخت کو ہلائو، دیکھو یہ تمہارے سامنے تر و تازہ کھجوریں گرا دے گا۔ اب تم اطمینان کے ساتھ یہ تازہ کھجوریں کھائو، چشمے کا پانی پیو اور بچّے کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو اور اگر تمہیں کوئی انسان نظر پڑ جائے، تو اشارے سے کہہ دینا کہ’’ مَیں نے روزہ رکھا ہوا ہے، مَیں آج کسی شخص سے بات نہیں کر سکتی۔‘‘

اُس وقت کی شریعت میں روزے میں کھانے پینے کے ساتھ بولنا بھی منع تھا۔ حضرت جبرائیلؑ کے اس پیغام سے حضرت مریمؑ کو اطمینان اور تسلّی ہوگئی کہ اب میرا رَبّ مجھے بدنامی اور رُسوائی سے بچا لے گا۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ولادت کے چالیس روز بعد جب طہارت ہو چُکی، تو حضرت مریمؑ اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئیں۔

لوگ نومولود بچّے کو گود میں دیکھ کر حیران رہ گئے اور بدگمان ہو کر بولے’’اے مریمؑ! یہ تو، تُو نے بڑے گناہ کا کام کیا، نہ تو تیرا باپ بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔‘‘ حضرت مریمؑ نے جبرائیل امینؑ کی ہدایت کے مطابق بچّے کی طرف اشارہ کر دیا۔ روایت میں ہے کہ جب خاندان نے حضرت مریمؑ کو ملامت کرنا شروع کیا، تو اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السّلام دُودھ پی رہے تھے۔

جب اُنہوں نے لوگوں کی ملامت بَھری باتیں سُنیں، تو دُودھ پینا چھوڑ دیا اور اپنی بائیں کروٹ پر سہارا لے کر اُن کی جانب متوجّہ ہوئے اور انگشتِ شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’انّی عبداللہ‘‘ یعنی’’ مَیں اللہ کا بندہ ہوں‘‘ اور پھر اللہ کی طرف سے نبوّت اور کتاب ملنے کی خبر دی۔

اُس کے بعد فرمایا’’ اللہ نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا پابند بنایا اور جب تک مَیں زندہ ہوں، مجھے اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو سرکش اور بدبخت نہیں بنایا اور اللہ کی سلامتی ہے مجھ پر، جب مَیں پیدا ہوا، جب مَیں مروں گا اور جب دوبارہ زندہ کرکے اُٹھایا جائوں گا‘‘ [3]۔ لوگوں نے جب نومولود بچّے کے منہ سے یہ الفاظ سُنے، تو حیرت زدہ رہ گئے اور اُنہیں یقین ہوگیا کہ بی بی مریمؑ پاک دامن ہیں اور یہ بچّہ، اللہ کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس واقعے کے بعد خاندان اور بنی اسرائیل کے سمجھ دار لوگ دونوں کی بڑی عزّت کرنے لگے اور اُنہیں خیر و برکت کا باعث سمجھنے لگے۔

حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا مقام

جودیہ کے پہاڑوں میں واقع’’ بیتُ اللحم‘‘ فلسطین کا ایک بہت بڑا گاؤں ہے، جو سطحِ سمندر سے 800 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ بیتُ اللحم کے جنوب میں چند میل کی مسافت پر کوہِ سراۃ (کوہِ ساعیر) کے دامن میں وہ تاریخی مقام ہے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے ۔ اس غار سے متصل کونے میں ایک پتھر نصب ہے، جس میں ایک گول سوراخ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس جگہ کھجور کا وہ درخت تھا، جس کے متعلق قرآنِ مجید میں ذکر ہے کہ’’ اے مریمؑ! اسے ہلائو، تو کھجوریں گریں گی‘‘ [4]۔

حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی والدہ

حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی والدہ گرامی صدیقہ، طاہرہ اور برگزیدہ خاتوں تھیں۔ قرآن مجید میں ایک سورہ سورہ مریم کے نام سے ہے اور حضرت مریم (س) کو خدا کی نشانی، مثال اورماڈل کے طورپرذکرکیا گیا ہے۔ وہ ابتدا میں معبد میں خادمہ کی حیثیت سے تھیں۔ بعد میں الہی فرشتے کے ذریعے صاحب اولاد ہوئیں۔ انکے بیٹے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی خود کو متعارف کروایا اور فرمایا:

﴿قَالَ إِنىّ‏ِ عَبْدُ اللَّهِ آتاَنىِ‏َ الْكِتَابَ وَ جَعَلَنىِ نَبِيًّا وَ جَعَلَنىِ مُبَارَكا أَيْنَ مَا كُنت﴾۔[5]۔

"فرمایا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، خدا نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر قراردیا ہے اور مجھے ہرجگہ باعث برکت بنایا ہے"۔ آپ نے خود کو انتہائی واضح انداز میں اوراچھی طرح متعارف کروایا اورخدا کی جانب سے روزے اور نماز کے احکامات کو بیان فرمایا:

﴿وَ أَوْصاني‏ بِالصَّلاةِ وَ الزَّكاةِ ما دُمْتُ حَيًّا﴾۔ [6]۔

"اورمجھے زندگی بھرنمازاورزکات کی پابندی کا حکم دیا ہے"۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے اسی طرح واضح کیا کہ انہیں اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا دستور بھی دیا گیا ہے:

﴿ وَ بَرَّا بِوَالِدَتى﴾۔ [7]۔

اور یہ کہ انہیں خدا نے سخت گیر اور جابر نہیں بنایا:

﴿ وَ لَمْ يجَْعَلْنىِ جَبَّارًا شَقِيًّا﴾۔ [8]۔

قرآن کریم میں دو ایسے انبیاء ہیں جن پر خدا نے تین سلام بھیجے ہیں، ولادت کے موقع پر، وفات کے موقع پر اور قیامت کے دن مبعوث ہوتے وقت۔ ان میں سے ایک حضرت یحیی علیہ السلام ہیں جو بنی اسرائیل کے ایک حکمران کی ہوس رانی کے نتیجے میں شہید ہو گئے اور سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے وقت انکا ذکر کیا تھا۔ دوسرے نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور خدا کی نشانیوں میں سے قرار پائے۔


قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’ اور جب عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ نے کہا’’ اے بنی اسرائیل! مَیں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور ایک پیغمبر کی، جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمدؐ ہوگا، بشارت سُناتا ہوں‘‘[9]۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بعد تقریباً چھے سو سال تک کوئی نبی نہیں آیا۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے آقا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور اُن پر آخری آسمانی کتاب، قرآنِ مجید نازل فرمائی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر انجیل نازل فرمائی گئی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے ان پیغمبروں کے بعد عیسیٰ ؑ ابنِ مریمؑ کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا اور ہم نے انجیل عطا کی۔ جس میں ہدایت اور نور تھا‘‘ [10]۔ ابنِ جریر نے تحریر کیا ہے کہ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر جب انجیل نازل ہوئی، تو آپؑ کی عُمر مبارک تیس سال تھی اور نبوّت کے تین سال بعد ،یعنی تینتیس برس کی عُمر میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا‘‘

قرآنِ مجید میں تذکرہ

قرآنِ کریم کی تیرہ سورتوں میں مختلف ناموں سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ موجود ہے۔26 مقامات پر عیسیٰ علیہ السّلام،23 مقامات پر ابنِ مریمؑ، 11 جگہوں پر مسیح ؑاور ایک مقام پر عبداللہ کہا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی انیسویں سورہ ’’سورۂ مریم‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ کے نام پر ہے، جس میں حضرت مریمؑ بنتِ عمران اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قصّہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے [11]۔

اس کے علاوہ، قرآنِ کریم کی تیسری سورہ، سورۂ آلِ عمران، حضرت مریمؑ کے والد ماجد کے نام سے منسوب ہے، جس میں حضرت مریمؑ کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی پانچویں سورہ، سورۃ المائدہ میں اُس کھانے کا ذکر ہے، جس کی فرمائش حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے حواریوں نے کی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی، جس پر آسمان سے مآئدہ یعنی کھانے کے خوان کا نزول ہوا۔

مِصر کی جانب ہجرت

حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریمؑ گود میں بات چیت کے بعد کلام کرنے سے رُک گئے تھے، پھر جب لڑکپن کو چُھونے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی زبان پر حکمت اور دانائی کی باتیں جاری کر دیں۔ جب آپؑ سات سال کے ہوئے، تو حضرت مریمؑ نے آپؑ کو معلّم کے پاس درس گاہ میں بھیجنا شروع کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بچپن ہی میں اللہ کی طرف سے الہام کردہ عجائبات کا نظارہ کرتے تھے۔

یہ بات یہودیوں میں پھیل گئی، تو اُنہوں نے آپؑ کے خلاف منصوبے بنانے شروع کر دیئے، حالاں کہ آپؑ کے خاندان کے لوگ آپؑ کی اور حضرت مریمؑ کی بہت عزّت کرتے تھے۔ یہود نے آپؑ اور آپؑ کی والدہ کے متعلق طرح طرح کے اعتراضات شروع کر دیئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زکریا علیہ السّلام بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، لیکن یہود اپنی سابقہ روایات اور عاداتِ خبیثہ کے باعث حضرت زکریا علیہ السّلام کی نافرمانی اور اُن کی تکذیب کرتے تھے۔ اُن لوگوں نے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر مشرکانہ طور طریقے اختیار کر لیے تھے، یہاں تک کہ اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں بھی بہت زیادہ ردّوبدل کر لیا تھا۔

اُن کے عقائد و اعمال دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ جب بیتُ المقدِس کے حالات خراب ہونے لگے، تو حضرت مریمؑ آپؑ کو لے کر اپنے عزیزوں کے پاس مِصر چلی گئیں۔ تیرہ سال بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے مصر سے واپس ہوئیں۔ پھر اللہ نے آپؑ کو انجیل عطا فرمائی اور تورات کی تعلیم دی۔ اس کے علاوہ، مُردوں کو زندہ کرنا، کوڑھیوں کو صحیح کرنا اور دُوسرے معجزات سے نوازا۔

معجزات، انعامات اور فضیلتیں

اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر نبی کو اُس کے زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اُن کی صداقت، افضلیت اور برتری نمایاں رہے۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بھی معجزے اور فضیلتیں عطا فرمائیں۔ سب سے پہلا معجزہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا تھا۔ آغوشِ مادر میں کلام کر کے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور صداقت کی گواہی دی۔ مٹّی کا پرندہ بناتے، اُس پر پھونک مارتے، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا۔

پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے، تو اُس کی بینائی ایسے آ جاتی، جیسے کبھی نابینا نہ ہوا ہو۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرتے۔ مُردوں کو زندہ کر دیتے۔ لوگ جو کچھ گھروں سے کھا کر آتے اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے، اُس کی تفصیل بتا دیتے۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کی پھانسی سے بچا کر زندہ سلامت آسمانوں پر اُٹھا لیا۔

حواری کون تھے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا کوئی گھر تھا اور نہ ہی بیوی بچّے۔ آپؑ شہر شہر، قریہ قریہ دینِ حق کی تبلیغ فرماتے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے۔ حسبِ ضرورت اپنے معجزات سے اُن کی مدد بھی فرماتے، لیکن ان سب کے باوجود یہودیوں کی اکثریت آپؑ کو اذیّت دینے اور تکذیب کرنے سے باز نہ آتی۔ دراصل، بنی اسرائیل آپؑ کی نبوّت کے منکر رہے۔ البتہ اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے، جو آپؑ کے پیروکار اور ہم درد و غم خوار تھے۔ وہ آپؑ کے ساتھ دین کے کام میں مشغول رہتے۔ قرآنِ کریم نے اُنہیں’’ حواری‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اُن کا کفر محسوس کرلیا، تو کہنے لگے’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا’’ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں(آپؑ کے) مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپؑ گواہ رہیے کہ ہم تابع دار ہیں‘‘ [12]۔ لفظ ’’حواری‘‘ حور سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنیٰ’’ سفیدی‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے مخلص ساتھیوں کو یہ لقب دیا گیا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو صحابی کے لقب سے نوازا گیا۔

مفسرّین نے بہت ہی قریبی حوارییّن کی تعداد بارہ بتلائی ہے۔ حواریّین، حواری کی جمع ہے اور اس کے معنیٰ’’انصار‘‘ یعنی مددگار کے ہیں۔ جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ہر نبی کا کوئی حواری یعنی مددگار ہوتا ہے، میرے حواری زبیرؓ ہیں‘‘[13]۔

قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان

ول ڈورنٹ، معروف مغربی مصنف اپنی مشہور کتاب History of Civlizations میں لکھتا ہے کہ قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان ہے اور وہ یہ کہ انکے دین اور کتاب میں انجیل اور حضرت عیسی علیہ السلام کو انتہائی عزت اور بزرگی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے اور انجیل کی تائید بھی کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت عیسی علیہ السلام کے وجود کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا

کیونکہ انکی کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ ہی انکا کوئی مزار یا مقبرہ ہے۔ اگر نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کریم کی جانب سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تائید نہ ہوتی تو منکر افراد بہت آسانی سے انکے وجود کا انکار کرسکتے تھے۔ قرآن اور اہلبیت علیھم السلام کی احادیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کو اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔

حضرت عیسی روایات میں

"تحف العقول" ایک انتہائی باارزش اورعلمی کتاب ہے جو پانچویں ھجری قمری میں علی بن شعبہ کی جانب سے لکھی گئی ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور چودہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ اسی طرح اس کتاب کے آخر میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی کچھ مناجات بھی ذکر کی گئی ہیں۔ ہم اس کتاب میں سے حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ خدا کی گفتگو کے کچھ حصے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

"اے عیسی، میں تیرا رب ہوں اور تیرے آباء و اجداد کا بھی رب ہوں، میرا نام ایک ہی ہے اور میں خود بھی ایک ہوں، میں اکیلے ہی ہرچیزکو خلق کرتا ہوں، ہر چیز میری مخلوق ہے اور میری ہی طرف پلٹ کر آنے والی ہے۔

اے عیسی، تو میرے حکم سے مسیح بنا ہے اور مٹی سے زندہ چیزیں بنانے پر قادر ہوا ہے، تو مردوں کو میرے اذن سے زندہ کرتا ہے، لہذا مجھ سے امیدوار رہو اور ہمیشہ مجھ سے ڈرتے رہو، میرے علاوہ تیری کوئی پناھگاہ نہیں۔

اے عیسی، میری یاد کو زبان سے زندہ رکھو اور میری محبت کو دل میں ڈالے رکھو۔ اے عیسی، غفلت کے وقت ہوشیار رہو اورحکمت سے کام لو۔ اے عیسی، تم دوسروں کے سامنے مسئول ہو، کمزور افراد پر رحم کرو، جس طرح میں تم پر رحم کرتا ہوں اور یتیم پرغضب نہ کرنا اور اسے خود سے دور نہ کرنا۔

اے لوگو، زراعت ہمیشہ نرم اور ہموار زمین پر انجام دی جاتی ہے نہ سخت اور پتھریلی زمین پر، حکمت بھی ایسی ہی ہے جو متواضع اور انکساری کے حامل قلوب میں پرورش پاتی ہے اور پھل دیتی ہے نہ متکبر اور سرکش دلوں میں"[14]۔

انجیل کا نزول

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اپنی کتاب بھی نازل فرمائی۔ یہ انجیل تھی ، جو اللہ کی حکمت کا خزانہ تھی ۔ اِس میں رأفت و رحمت تھی اور بنی اسرائیل کے لیےہدایت اور روشنی تھی۔اِس نے تورات کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ یہ اُس کی مصدق ثابت ہوئی۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًي وَّنُوْرٌﶈ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَهُدًي وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ﴾

’’اور ہم نے اُس کو انجیل عطا فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات کی تصدیق کرنے والی تھی جو اُس سے پہلے موجود تھی، خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت کے طور پر۔‘‘

انجیل اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت تھی۔ استاذِ گرامی نے اِس کے بارے میں لکھا ہے: ’’یہ مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اُن کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد آخری نبوت کی بشارت تھی۔ انجیل کے معنی بشارت کے ہیں اور یہ نام اِسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ الہامی کتابوں کے عام طریقے کے مطابق یہ بھی دعوت و انذار کی ضرورتوں کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی۔‘‘ [15]۔

حضرت عیسی علیہ السلام قتل نہیں ہوئے

قرآن کہتا ہے:مسیح قتل نہیں ہوئے اور نہ سولى پر چڑھے بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھیں سولى پر لٹکادیا ہے حالانکہ یقینا انھوں نے انھیں قتل نہیں کیا۔[16]۔ موجودہ چاروں اناجیل(متى ،لوقا،مرقس اور یوحنا)میں حضرت مسیح علیہ السلام کو سولى پر لٹکائے جانے اور ان کے قتل کا ذکر ہے_یہ بات چاروں انجیلوں کے آخرى حصوں میں تشریح و تفصیل سے بیان کى گئی ہے۔

آج کے عام مسیحیوں کا بھى یہى عقیدہ ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے تو قتل مسیح علیہ السلام اور انھیں مصلوب کیا جانا موجودہ مسیحیت کے اہم ترین بنیادى مسائل میں سے ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسا پیغمبر نہیں مانتے جو مخلوق کى ہدایت،تربیت اور ارشاد کے لئے آیا ہو بلکہ وہ انھیں خدا کا بیٹا اور تین خدائوں میںسے ایک کہتے ہیں جس کا اس دنیا میں آنے کا اصلى ہدف ہى خدا ہونا ہے اور اپنى قربانى کے عوض نوع بشر کے گناہوں کا سودا کرتا ہے۔

حوالہ جات

  1. علی عطائی اصفہانی، قصہ ھای پیامبران در قرآن، ص291۔
  2. انجیل لوقا، 1: 26 ـ 32.
  3. سورۂ مریم۔
  4. نشاناتِ ارضِ قرآن ص 211
  5. سورہ مریم، آیہ 30
  6. سورہ مریم، آیہ 31
  7. سورہ مریم، آیہ 32
  8. سورہ مریم، آیہ 32
  9. صف، آیہ 62
  10. مائدہ آیہ 46
  11. علی عطائی اصفہانی، قصہ ھای پیامبران در قرآن، ص 291۔
  12. آل عمران آیہ 25۔
  13. صحیح بخاری، کتاب الجہاد، ص 233
  14. ابن شیبہ حرانی، تحف العقول، ص ۵۰۱
  15. میزان ۱۵۷
  16. انبیاء آیہ 157