بشار اسد

نظرثانی بتاریخ 19:59، 9 دسمبر 2024ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

بشار اسد 17 جولائی 2000ء کو شام کے صدر منتخب ہوئے اس وقت شام کے صدر، شام کے مسلح افواج کے کمانڈر انچیف اور شام کے بعث سوشلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ ان کے والد حافظ الاسد 1971 سے 2000ء تک شام کے صدر رہے۔

بشار اسد
بشار اسد.jpg
دوسرے نامبشار حافظ اسد
ذاتی معلومات
پیدائش1965 ء، 1343 ش، 1384 ق
یوم پیدائش11 ستمبر
پیدائش کی جگہشام
مذہباسلام، علوی
مناصبشام کا صدر

سوانح عمری

بشار اسد 11 ستمبر 1965ء دمشق میں پیدا ہوا۔ آپ عرب جمہوریہ سوریہ کے موجودہ صدر ہیں انہوں نے 17 جولائی 2000ء کو عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی شامی شاخ نے انہیں اپنا قومی سیکرٹری جنرل منتخب کیا۔ اپنے والد حافظ الاسد کی جانشینی، جو 1971 اور 1965 کے درمیان شام کے صدر تھے۔ 2000 تک۔ وہ شامی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔

تعلیم

بشار الاسد دمشق میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، انہوں نے دمشق یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن سے گریجویشن کی اور 1988ء میں اپنی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے شامی فوج میں بطور ڈاکٹر کام کرنا شروع کیا۔ چار سال بعد، انہوں نے لندن کے ویسٹرن آئی ہسپتال میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کی، جو امراض چشم میں مہارت رکھتے تھے۔ 1994ء میں، ایک کار حادثے میں اپنے بڑے بھائی باسل کی موت کے بعد، بشار کو بظاہر وارث کے طور پر باسل کا کردار سنبھالنے کے لیے شام واپس بلایا گیا۔

سیاسی سرگرمیاں

انہوں نے ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی، اور 1998ء میں لبنان میں شامی فوج کی موجودگی کی ذمہ داری سنبھالی۔ 10 جولائی 2000ء کو، وہ اپنے والد کی جگہ صدر منتخب ہوئے، جو ایک ماہ قبل انتقال کر گئے تھے۔ 2000ء کے صدارتی ریفرنڈم اور اس کے بعد 2007ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں انہیں بالترتیب 99.7 فیصد اور 97.6 فیصد حمایت ملی۔

بہت سے ممالک نے انہیں ایک ممکنہ مصلح کے طور پر قبول کرلیا، جبکہ امریکہ، یورپی یونین، اور عرب لیگ کی اکثریت نے اسد کے صدارت سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا جب کہ اس نے عرب بہار کے مظاہرین پر جبر اور فوجی محاصرے کا حکم کرنے کا الزام لگایا جس کے نتیجے میں 2011 میں شامی عوام خانہ جنگی کے بارے میں اقوام متحدہ کی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ شام کی سول سوسائٹی نے جنگی جرائم میں اسد کے ملوث ہونے کے ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کی۔

جون 2014 میں، بشار اسد کو حکومتی اہلکاروں اور باغیوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جسے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے کیا گیا تھا۔ اسد نے جنگی جرائم کے الزامات کو مسترد کیا اور حکومت کی تبدیلی کی کوشش کے لیے شام میں امریکی قیادت میں مداخلت پر تنقید کی۔ 16 جولائی 2014ء کو بعثی شام کی تاریخ کے پہلے متنازع صدارتی انتخابات میں 88.7 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد اسد نے سات سالہ تیسری مدت کے لیے حلف اٹھایا۔

یہ انتخابات ملک میں جاری خانہ جنگی کے دوران صرف شامی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہوئے تھے اور شامی اپوزیشن اور اس کے مغربی اتحادیوں نے انہیں "برای نام انتخابات" قرار دیا تھا جب کہ 30 سے زائد ممالک کے مبصرین کے ایک بین الاقوامی وفد نے کہا تھا۔ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے۔ اسد کی حکومت خود کو سیکولر قرار دیتی ہے، جب کہ کچھ سیاسی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت ملک میں فرقہ وارانہ بدامنی کا استحصال کر رہی ہے اور اقتدار میں رہنے کے لیے علوی (نصیری) اقلیت پر انحصار کرتی ہے، وہ مئی 2021ء میں چوتھی مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے۔

طب: 1988–1994

بشار کے بڑے بھائی باسل الاسد کا 1994ء میں انتقال ہو گیا جس سے بشار کے مستقبل کی صدارت کی راہ ہموار ہو گئی۔ 1988ء میں، بشار اسد نے میڈیکل اسکول سے گریجویشن کیا اور دمشق کے مضافات میں واقع تشرین ملٹری ہسپتال میں فوجی ڈاکٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ چار سال بعد، آپ ویسٹرن آئی ہسپتال میں امراض چشم میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ شروع کرنے کے لیے لندن چلے گئے۔ ان دوران ان کو سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور ان کے والد بشار کے بڑے بھائی باسل کو مستقبل کے صدر کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ تاہم، باسل 1994ء میں ایک کار حادثے میں مر گیا، اور بشار کو اس کے فوراً بعد شامی فوج میں طلب کر لیا گیا۔

اقتدار میں : 1994–2000ء

باسل کی موت کے فوراً بعد، حافظ الاسد نے بشار کو اقتدار کا نیا وارث بنانے کا فیصلہ کیا۔ اگلے ساڑھے چھ سال، 2000ء میں اپنی موت تک، حافظ نے بشار کو اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار کیا۔ ہموار منتقلی کی تیاریاں تین سطحوں پر ہوئیں۔ سب سے پہلے، بشار کی حمایت فوج اور سیکورٹی سروسز میں کی گئی۔ دوسری بات یہ کہ عوام میں بشار کا امیج مضبوط ہوا۔ آخر کار، بشار کو فوج میں اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے، حمص میں ملٹری اکیڈمی میں داخل کیا گیا اور جنوری 1999ء میں شامی ریپبلکن گارڈ میں کرنل بننے کے لیے انہیں وہاں عہدہ دیا گیا۔

فوج میں بشار کے لیے پاور بیس بنانے کے لیے، ڈویژن کے کمانڈروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ پرانے ریٹائر ہو جائیں، اور ان کی جگہ نئے نوجوان علوی افسران نے لے لی، 1998 میں، بشار نے لبنان-شام فائل کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1970ء کی دہائی سے انچارج ہیں۔ سابق نائب صدر عبدالحلیم خدام جو اس وقت تک صدارت کے ممکنہ دعویدار تھے۔ لبنان میں شامی امور کی ذمہ داری سنبھالنے سے، بشار خدام کو ایک طرف دھکیلنے اور لبنان میں اپنی طاقت کا مرکز قائم کرنے میں کامیاب رہے۔

اسی سال، لبنانی سیاست دانوں سے معمولی مشورے کے بعد، بشار نے اپنے ایک وفادار اتحادی ایمیل لاہود کو لبنان کا صدر مقرر کیا، اور سابق لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کو وزیر اعظم کے طور پر نامزدگی کے پیچھے اپنا سیاسی وزن نہ ڈال کر ایک طرف دھکیل دیا۔ لبنان میں پرانی شامی حکومت کو مزید کمزور کرنے کے لیے، بشار نے لبنان میں ڈی فیکٹو شامی ہائی کمشنر، غازی کنان، کو رستم غزالہ سے بدل دیا، بشار اپنے فوجی کیریئر کے ساتھ ساتھ عوامی امور میں کام کر رہے تھے۔ انہیں وسیع اختیارات دیے گئے اور وہ شہریوں کی شکایات اور اپیلیں وصول کرنے کے لیے دفتر کے سربراہ بن گئے۔

انہوں نے بدعنوانی کے خلاف مہم کی قیادت کی۔ اس مہم کے نتیجے میں صدر کے عہدے کے لیے بشار کے بہت سے ممکنہ حریفوں پر بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ بشار شامی کمپیوٹر سوسائٹی کے صدر بھی بنے، اور شام میں انٹرنیٹ متعارف کرانے میں مدد کی، جس سے ان کی تصویر کو ایک جدید اور مصلح کے طور پر بنانے میں مدد ملی۔

مزاحمت سے شام کو علاقے میں خاص مقام حاصل ہوا

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جمعرات کو شام کے صدر جناب بشار اسد اور ان کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں مزاحمت کو شام کا نمایاں تشخص بتایا اور کہا کہ خطے میں شام کی خاص پوزیشن بھی اس نمایاں تشخص کی وجہ سے ہے اور اس اہم خصوصیت کو باقی رہنا چاہیے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جمعرات کو شام کے صدر جناب بشار اسد اور ان کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں مزاحمت کو شام کا نمایاں تشخص بتایا اور کہا کہ خطے میں شام کی خاص پوزیشن بھی اس نمایاں تشخص کی وجہ سے ہے اور اس اہم خصوصیت کو باقی رہنا چاہیے۔

انہوں نے ایرانی قوم کو تعزیت پیش کرنے کے لیے جناب بشار اسد کی تہران آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایران اور شام کے تعلقات کو استحکام عطا کرنے میں مرحوم صدر جناب رئيسی کے نمایاں کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جناب امیر عبداللہیان بھی اس سلسلے میں خصوصی توجہ کے حامل تھے۔

شام مزاحمت و استقامت کے محاذ

رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحتمی محاذ کے دو اہم ارکان کی حیثیت سے ایران اور شام کے تعلقات میں استحکام کو اہم بتایا اور کہا کہ شام کا نمایاں تشخص، جو مزاحمت سے عبارت ہے، مرحوم حافظ اسد کے دور صدارت میں، "مزاحمت و استقامت کے محاذ" کی تشکیل کے ساتھ سامنے آیا اور اس تشخص نے شام کے قومی اتحاد کی بھی ہمیشہ مدد کی ہے۔ انہوں نے اس تشخص کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مغرب والے اور خطے میں ان کے پٹھو، شام کے خلاف جنگ شروع کر کے اس ملک کے سیاسی نظام کو گرانا اور شام کو علاقائي معاملات سے دور کر دینا چاہتے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اور اس وقت بھی وہ کبھی پورے نہ ہونے والے وعدوں جیسے دوسرے طریقوں سے شام کو علاقائي معاملات سے باہر نکال دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

آيت اللہ خامنہ ای نے جناب بشار اسد کی مضبوط استقامت کو سراہتے ہوئے کہا کہ سبھی کو شام کی حکومت کے خصوصی امتیاز یعنی مزاحمت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہیے۔ انھوں نے ایران اور شام پر امریکا اور یورپ کے سیاسی و معاشی دباؤ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ہمیں اپنا آپسی تعاون بڑھا کر اور اسے منظم بنا کر ان حالات سے گزر جانا چاہیے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں ایران اور شام کے تعاون میں اضافے کی خاطر مرحوم اور عزیز صدر جناب رئيسی کی مستعدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی جناب مخبر صاحب، صدر کے اختیارات کے ساتھ، اسی روش کو جاری رکھیں گے اور ہمیں امید ہے کہ تمام امور بہترین طریقے سے آگے بڑھتے رہیں گے۔

ایران اور شام کے تعلقات، اسٹریٹیجک تعلقات ہیں

شام کے صدر جناب بشار اسد نے رہبر انقلاب اور ایران کی حکومت و قوم کو تعزیت پیش کرتے ہوئے آيت اللہ خامنہ ای سے کہا کہ ایران اور شام کے تعلقات، اسٹریٹیجک تعلقات ہیں جو آپ کی رہنمائي میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان ہدایات کو عملی جامہ پہنانے میں سب سے پیش پیش جناب رئیسی اور جناب امیر عبداللہیان تھے۔ انہوں نے جناب رئیسی صاحب مرحوم کی متواضع، حکیمانہ اور بااخلاق شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں اسلامی انقلاب کے نعروں اور مواقف کا نمایاں مظہر بتایا اور کہا کہ جناب رئيسی صاحب نے پچھلے تین سال میں، علاقائي امور اور فلسطین کے مسئلے میں ایران کے کردار ادا کرنے اور اسی طرح ایران اور شام کے تعلقات کے استحکام میں مؤثر طریقے سے کام کیا۔

مزاحمت عقیدتی اور سیاسی نظریے میں بدل گئي ہے

شام کے صدر نے اسی طرح خطے میں مزاحمت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچاس سال سے زیادہ گزرنے کے بعد خطے میں مزاحمت پیشرفت کر رہی ہے اور اس وقت وہ ایک عقیدتی اور سیاسی نظریے میں بدل گئي ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہمارا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ مغرب کے مقابلے میں کسی بھی طرح کی پسپائي، ان کی چڑھائی کا سبب بنے گي، کہا کہ میں نے کئي سال پہلے اعلان کیا تھا کہ مزاحمت کا خرچ، سازباز کے خرچ سے کم ہے اور یہ بات اب شام کے عوام کے لیے پوری طرح سے واضح ہے اور غزہ کے حالیہ واقعات اور مزاحمت کی فتح نے بھی خطے کے عوام کے لیے اس بات کو ثابت کر دیا ہے اور دکھا دیا ہے کہ مزاحمت ایک "بنیادی اصول" ہے۔

ہم جتنا پیچھے ہٹیں گے، فریق مقابل آگے بڑھے گا

بشار اسد نے خطے میں مزاحمت کی حمایت میں اہم اور نمایاں کردار ادا کرنے اور اسی طرح تمام معاملات میں شام کی حمایت کرنے پر رہبر انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا اور ان کی قدردانی کی۔ جناب بشار اسد کی اس گفتگو کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ آپ کی گفتگو میں کئي اہم نکات تھے لیکن ایک نکتہ میرے لیے زیادہ اہم تھا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ آپ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ "ہم جتنا پیچھے ہٹیں گے، فریق مقابل آگے بڑھے گا" اس بات میں کوئي شک نہیں ہے اور یہ، پچھلے چالیس سال سے ہمارا نعرہ اور عقیدہ رہا ہے[1]۔

شام اپنے اتحادیوں سے مل کر دہشت گردوں کو شکست دے گا

شام اپنے اتحادیوں سے مل کر دہشت گردوں کو شکست دے گا، بشار الاسد شامی صدر بشار الاسد نے حلب اور ادلب میں تکفیری دہشت گردوں کو شکست دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شامی صدر بشار الاسد نے حال ہی میں ادلب اور حلب پر حملہ کرنے والے تکفیری دہشت گردوں کو شکست دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زائد سے ٹیلفونک گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گرد تکفیریوں کو شکست دے گا۔ تاس نیوز ایجنسی کے مطابق صدر اسد نے کہا کہ شام میں تکفیری دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے پوری طاقت کے ساتھ آپریشن کیا جائے گا۔ اس موقع پر عرب امارات کے صدر نے کہا کہ ابوظہبی شام کی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں شامی صوبے ادلب اور حلب میں تکفیری دہشت گردوں نے شامی فوج کے ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہوئے وسیع رقبے پر قبضے کا دعوی کیا ہے۔ شام اور روس کی فضائیہ دہشت گردوں پر مسلسل حملے کررہی ہیں۔ اب تک 600 سے زائد دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبریں موصول ہوئی ہیں[2]۔

مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے

شام کے صدر بشار الاسد نے ایرانی عبوری وزیرخارجہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ مقاومت کو شام کی پالیسی میں اہم اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی عبوری وزیرخارجہ علی باقری کنی نے دمشق میں شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی اور فلسطین سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران شام کے صدر نے کہا کہ قوموں کو استعماری طاقتوں کے خلاف اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہئے ورنہ یہ طاقتیں کمزور اقوام کو نگل لیں گی۔

انہوں نے کہا مقاومت نے صہیونی حکومت کو شکست دے کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ مجاہدین کے سامنے شکست کے بعد صہیونی حکومت نے سویلین کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ ملاقات کے دوران علی باقری کنی نے کہا کہ ایران اور شام کے تعلقات کی بنیادیں مضبوط ہیں اور دونوں ممالک خلوص نیت کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دے رہیں۔ علی باقری نے شام کے دو روزہ دورے کے دوران شامی وزیرخارجہ فیصل مقداد اور مقاومتی رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں[3]۔

صیہونی مظالم پر بشار الاسد کا ردعمل

ریاض میں حالیہ او آئی سی اور عرب لیگ سربراہانِ مملکت کی کانفرنس کے موقع پر شام کے صدر بشار الاسد کا خطاب مشرق وسطیٰ کی موجودہ سیاسی صورتحال اور اسرائیل کے خلاف عرب ممالک کی پوزیشن کو ایک نئی جہت دینے کے مترادف تھا۔ صدر بشار الاسد نے اپنی تقریر میں فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی، غاصب صہیونی ریاست کے جرائم اور عرب ممالک کے مشترکہ اہداف کو نہایت مدبرانہ انداز میں اجاگر کیا۔ ان کی تقریر نہ صرف عرب دنیا کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیتی ہے بلکہ خطے میں جاری صہیونی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط موقف اپنانے کی دعوت بھی دیتی ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ امن مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ صہیونی حکومت ہی کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گذشتہ ایک سال سے اسرائیلی جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ ان مظالم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بھی امن مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے، اسرائیل اپنی جارحیت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی اور لبنانی عوام کے خلاف ظالمانہ کاروائیاں اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ اسرائیل امن کی زبان نہیں سمجھتا بلکہ خونریزی کو اپنی اسٹریٹیجی کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔

صدر بشار اسد کے الفاظ میں ایک گہری تشویش جھلکتی ہے جو کہ نہ صرف عرب بلکہ عالمی برادری کے اس رویے کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں فلسطینی عوام کے حقوق کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کو اس مسئلے پر متحد ہو کر ایک نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ صہیونی ریاست کی بربریت کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔

شامی صدر نے مزید کہا: میں صہیونی ریاست کو "وحشی آبادکاروں" کی حکومت قرار دیا اور کہا کہ ہمیں ایک قوم نہیں بلکہ استعماری طاقتوں کا سامنا ہے جو خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ ان کا یہ بیان ایک نئے بیانیے کو فروغ دیتا ہے جس میں اسرائیل کو ایک استعماری منصوبے کا حصہ تصور کیا جاتا ہے جو نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے امن کے لئے خطرہ ہے۔

اسرائیل پورے خطے لے لیے خطرہ

بشار اسد کے کہنے کے مطابق، صہیونی ریاست کے مظالم صرف فلسطینی عوام تک محدود نہیں بلکہ یہ پورے خطے کے لئے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ بشار الاسد نے عرب لیگ اور او آئی سی کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے مشترکہ اہداف کو واضح کریں اور اسرائیل کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دیں۔ بشار الاسد نے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو عرب دنیا کی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "آج ہماری پہلی ترجیح فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنا ہونا چاہیے۔" ان کا یہ بیان عرب ممالک کے لئے ایک دعوت ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو دوبارہ ترتیب دیں اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عرب دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ مسئلہ ان وسائل کے درست استعمال کا ہے۔ عرب ممالک اگر اپنی اقتصادی اور عسکری طاقت کو صحیح طور پر استعمال کریں تو اسرائیل جیسے غاصب کے خلاف ایک مضبوط دیوار کھڑی کی جا سکتی ہے۔

فلسطین اور لبنان میں شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین

بشار اسد نے فلسطین اور لبنان میں شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کے مطابق، فلسطینی اور لبنانی عوام کی استقامت ہی ان کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فیصلے اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کریں کہ آج کے اجلاس کے فیصلے آنے والے دنوں میں خطے کی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔

بشار الاسد کا خطاب عرب دنیا کے لئے ایک نئے عزم کی تجدید ہے۔ انہوں نے عرب ممالک کو دعوت دی کہ وہ آپس کی ناچاقیوں کو ختم کر کے ایک مشترکہ مقصد کے لئے متحد ہو جائیں۔ بشار الااسد کے مطابق، اگر عرب ممالک متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف ایک مؤثر حکمت عملی اپنائیں تو نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی ممکن ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام بھی لایا جا سکتا ہے[4]۔

بشار الاسد دمشق میں موجود ہیں، مغربی میڈیا کی خبریں پروپیگنڈہ وار کا حصہ ہیں

شام کے صدارتی محل سے جاری ایک بیان میں بشار الاسد کے شام چھوڑنے سے متعلق غیر ملکی میڈیا کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے دمشق میں ان کی موجودگی پر زور دیا گیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے سانا نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام کے صدارتی محل نے ایک بیان شائع کرتے ہوئے صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی افواہوں پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ صدارتی محل ان تمام افواہوں کی تردید کرتے ہوئے یہ واضح کرتا ہے کہ غیر ملکی میڈیا کی یہ افواہیں نئی نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی غیر ملکی ذرائع ابلاغ جنگ کے گذشتہ سالوں میں شام کے عوام کو دھوکہ دینے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لئے اس بھونڈے طریقے کو استعمال کرتے رہے ہیں۔

شام کے صدارتی محل نے اعلان کیا ہے کہ بشار الاسد دمشق میں موجود ہیں اور اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں شام کے ایک فوجی ذریعہ نے بتایا کہ دہشت گرد تنظیموں کی باقیات نے اپنے میڈیا چینلز کے ذریعے دمشق اور دیگر صوبوں کے مضافاتی علاقوں سے ویڈیوز جاری کرتے ہوئے ان پر قبضہ کرنے دعویٰ کیا۔ مذکورہ ذریعے نے کہا کہ ان ویڈیوز اور دعوؤں کا مقصد شہریوں میں افراتفری پھیلانا اور عوام کو خوفزدہ کرنا ہے[5]۔

شام پر اسد خاندان کے دور اقتدار پر ایک طائرانہ نگاہ

اسد خاندان کا دور نئے شام کی پوری تاریخ کا نصف سے زیادہ حصہ ہے اور کسی دوسرے حکمران کی طرح اس میں بھی بہت سی خوبیاں اور کمزوریاں موجود ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ فروری 1971ء میں حافظ الاسد کے شام کی صدارت سنبھالنے سے لے کر دسمبر 2024ء بشار الاسد کے اقتدار کھونے تک باب بیٹے کی شام پر حکومت کے تقریباً 54 سال بنتے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں کا تخت صدارت پر آنا اور معزول ہونا فوجی مہم جوئی کا نتیجہ تھا۔ اس رپورٹ میں باپ بیٹے کے طرز حکمرانی کے اہم ترین پہلوؤں اور اثرات کا مختصراً جائزہ لیا جائے گا۔

بغاوتوں کے دور کا خاتمہ!

شام 1920ء میں پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فرانس کی سرپرستی میں وجود میں آیا۔ اس وقت سے لے کر 1946ء تک فرانس کے حتمی انخلا اور شام کی آزادی تک اس ملک کا انتظامی ڈھانچہ بدترین تقسیم سے دوچار ہوا 1946 میں "آزاد شام" کے قیام کے بعد سے، اس ملک نے انتشار، بیرونی جنگوں، اندرونی بغاوتوں اور یہاں تک کہ "غیر ملکی اتحادوں" کا مشاہدہ کیا اور 1948ء میں، مقبوضہ فلسطین میں ناجائز صیہونی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی، پہلے بیرونی فوجی تنازعات نے جنم لیا۔

1967ء میں، شام نے اپنی دوسری بڑی غیر ملکی جنگ کا تجربہ کیا، اور ان تمام سالوں کے دوران، اس کا ترکی کے ساتھ "اسکندرون" کی واپسی پر تنازعہ رہا، جس نے مزید فوجی تنازعات کو جنم دیا۔ 1949ء میں پہلی بغاوت ہوئی، اس کے بعد بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور 1963ء تک کل سات فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں حکومت ختم ہو گئی۔ فروری 1958ء میں شام اور مصر کے اس وقت کے صدور "شکری القوتلی" اور "جمال عبدالناصر" کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد "متحدہ عرب جمہوریہ" کا قیام عمل میں لایا گیا، اور اس طرح سے شام بنیادی طور پر ختم ہوگیا! نئے ملک کا دارالحکومت قاہرہ تھا اور اس کے صدر جمال عبدالناصر تھے۔

1960ء میں دونوں ممالک کی پارلیمنٹ بھی تحلیل ہو گئی اور متحدہ پارلیمنٹ نے قاہرہ میں کام کرنا شروع کر دیا، بالآخر 1961 میں دمشق میں ایک اور بغاوت ہوئی اور متحدہ عرب جمہوریہ معدوم ہوا۔ مندرجہ بالا صورت حال سے واضح ہوا کہ شام میں بنیادی طور پر اسد خاندان کی حکمرانی تک سیاسی استحکام کا فقدان تھا، یقیناً اسی دور میں جمہوریت قائم ہوئی اور میڈیا اور مختلف نظریات رکھنے والی جماعتیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی تھیں۔ لیکن اسی جمہوریت نے سیاسی نظام کے خلاف انتشار اور کئی فوجی بغاوتیں بھی کیں! لیکن شام میں اسد خاندان کی حکمرانی کے بعد بالکل مختلف صورت حال ہے، حافظ الاسد کی موت کے بعد بھی بغاوت کی کوئی خبر نہیں تھی، اور دمشق میں مشکل ترین دور میں بھی "سیاسی استحکام" برقرار رہا۔

شام کی حقیقی آزادی

دوسرا اہم نکتہ اسد باپ بیٹے کے دور میں شام کی حقیقی آزادی ہے۔ 1956ء میں، سوویت یونین کے معاہدے کے بعد، شام مشرقی بلاک کا رکن بن گیا۔ لیکن حافظ الاسد کے دور میں وہ بتدریج اپنی آزادی بحال کرنے میں کامیاب رہے، جس کا اظہار صدام کی بغاوت کے بعد بغداد کے ساتھ ان کے تصادم کے دوران ہوا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد حکومتی ڈھانچے اور حتیٰ کہ شام کی خارجہ پالیسی میں بھی کوئی خلل نہیں پڑا۔ کیونکہ شام حافظ الاسد کے دو عشروں کے دور حکومت میں آزادی کی طرف بڑھ چکا تھا۔

1991ء کے آغاز اور سوویت یونین کے آخری مہینوں میں، شام پہلی خلیج فارس جنگ اور کویت کی آزادی کے اہم فریقوں میں سے ایک تھا۔ اسی سال اس نے خلیج فارس تعاون کونسل کے مشترکہ فوجی سیکورٹی معاہدے میں بطور مبصر شرکت کی اوریہ آزادی بشار الاسد کے دور حکومت میں برقرار رہی اور اس نے لبنان سے انخلاء، شام کے بحران، عرب لیگ میں بااختیار واپسی وغیرہ جیسے مسائل میں خود کو ظاہر کیا۔

قنیطرہ کی آزادی

تیسرا اہم نکتہ جس پر اس تناظر میں غور کیا جانا چاہیے وہ 1973ء میں جنگ تشرین کا تجربہ ہے جو قنیطرہ کی آزادی کا باعث بنی۔ پوری تاریخ میں تشرین کی جنگ شامی حکومت کا واحد کامیاب تجربہ ہے، جس میں دمشق اپنی سرزمین کے ایک حصے کو غیر ملکی دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوا۔ اسد خاندان کی حکومت سے پہلے، "لبنان کی آزادی"، "اسکندرون صوبے پر ترکی کے حملے اور اس کے الحاق" اور "گولان پر صیہونی حکومت کے حملے اور اس کے الحاق" کی صورت میں شامی سرزمین کا ایک حصہ الگ کر دیا گیا تھا۔

1973 کی جنگ میں حافظ الاسد نے مقبوضہ گولان کے ایک حصے کو آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی جسے آج "صوبہ قنیطرہ" کہا جاتا ہے۔ یہ بات بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے کہ بشار الاسد کے زوال کے چند گھنٹے بعد ہی صیہونی غاصب دوبارہ اس علاقے میں داخل ہو گئے۔

لبنان میں عسکری موجودگی کا اتار چڑھاؤ

لبنان میں موجودگی کے اتار چڑھاؤ اسد خاندان کی حکمرانی کی ایک اور خصوصیت ہے۔ لبنان کا ملک شام کے علاقے کا ایک حصہ تھا، جسے فرانس کی طرف سے خود مختار علاقوں یا نام نہاد "ریاستوں" کے قیام کے دوران، فرانس کے عیسائیوں کی حمایت سے خود مختاری دی گئی۔ لبنان نے شام سے آزادی اور علیحدگی کا مطالبہ کیا، یوں لبنان کو وجود میں لایا گیا۔

اس کے بعد سے لبنان اور شام کے درمیان سماجی بندھن جاری رہا اور یہاں تک کہ بعض واقعات میں شام کے صدور کو لبنان میں قتل کیا گیا۔ لیکن سیکورٹی اور فوجی لحاظ سے شام اور لبنان ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ اسد خاندان کے دور میں، اس تعلق کی ایک مختلف انداز میں وضاحت کی گئی تاکہ لبنان کی آزادی کی خلاف ورزی نہ ہو۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی اور فوجی تعلقات بھی برقرار رہ سکیں۔

اس معاملے کا ایک حصہ لبنان میں شام کی فوجی موجودگی کی صورت میں تشکیل پایا جو 1982ء میں شروع ہوا اور 2005ء تک جاری رہا اور دوسرا حصہ شام اور لبنانی مزاحمت کے درمیان رابطے کی صورت میں تشکیل پایا۔

صیہونی رجیم کے ساتھ تصادم؛ سمجھوتہ یا مزاحمت

اسد خاندان کے دور حکومت کا ایک اور اہم پہلو صیہونی رجیم کے ساتھ سمجھوتے اور مزاحمت کا پہلو ہے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ حافظ الاسد کی قیادت میں دمشق پہلا عرب ملک تھا جو صیہونیوں کو شکست کا مزہ چکھانے میں کامیاب ہوا، جس نے بالآخر 1973 کے جنگ بندی معاہدے اور صیہونیوں کی قنیطرہ سے پسپائی میں خود کو منوا لیا۔

شام کو سمجھوتے کی راہ میں سب سے اہم رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ وادی عربہ میں صیہونی حکومت کے ساتھ اردن کے شاہ حسین کے معاہدے کے بعد عمان اور دمشق کے تعلقات میں دراڑھ پڑ گئی۔ شام اس سلسلے میں کبھی بھی ان دباؤ میں نہیں آیا اور مختلف فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی میزبانی کی۔ پچھلی صدی کے اواخر اور نئی صدی کے آغاز میں امریکہ نے شام کو معمول پر لانے اور صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، یہاں تک کہ گولان کی واپسی کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن وہ ان کے لالچ اور دباؤ میں نہیں آئے[6]۔

سقوط دمشق کی کہانی، بشار الاسد نے اقتدار کیوں چھوڑ دیا؟

شام کے مقاومتی بلاک سے خارج ہونے سے مقاومتی محاذوں کے مشکلات بڑھ سکتی ہیں تاہم جنگ احد کے واقعات سے سبق حاصل کیا جائے تو خیبر کی فتح ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:8 دسمبر 2024ء کو شام کی معاصر تاریخ کا ایک اہم باب رقم ہوا۔ 54 سال تک بعث پارٹی اور اسد خاندان کی حکمرانی کے بعد شام کی تاریخی سرزمین میں سیاسی حالات یکسر بدل گئے۔ دہشت گردوں نے صرف دس دن میں حلب، حماہ، حمص، درعا، اور بالآخر دمشق پر قبضہ کرتے ہوئے بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ دمشق کے سقوط کے بعد تمام سرکاری اور عسکری مراکز دہشت گردوں کے کنٹرول میں آ گئے اور شام کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 کے تحت آئندہ آزاد انتخابات کے انعقاد اور نئے آئین کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی "تاس" کے مطابق بشار الاسد اور ان کے خاندان نے ماسکو پہنچ کر روس میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ تکفیری دہشت گردوں کے دمشق پر قبضے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرٹزی ہالیوی نے شام کے جنوب پر حملے کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کیا کیونکہ وہ اس صورتحال کو شام میں اپنی کارروائیوں کے لیے موزوں سمجھتے تھے۔

مبصرین اور قارئین کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد کس طرح بغیر کسی قسم کی مزاحمت کے دمشق تک پہنچنے اور دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے؟ وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے بشار الاسد اقتدار میں رہنے میں ناکام رہے اور تاریخ نے اپنے آپ کو کیوں نہیں دہرایا؟

اسد نے مدد نہیں مانگی؛ کیوں؟

شام کے صوبہ ادلب میں دہشت گرد تکفیریوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور شامی فوج کی ناقص کارکردگی نے ایرانی عسکری قیادت کو چند ہفتے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ ایرانی فوجی حکام نے دمشق کا دورہ کر کے بشار الاسد کو آگاہ کیا کہ ادلب میں موجود دہشت گردوں نے وسیع پیمانے پر عسکری تربیت اور ہتھیاروں سے لیس ہونے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ ایرانی مشیروں نے شمال مغربی شام میں خاص طور پر ادلب کے آس پاس مزاحمتی فورسز کو دوبارہ منظم اور فعال بنانے کی منصوبہ بندی کی لیکن یہ سب اس وقت ممکن تھا جب بشار الاسد اس کے لئے گرین سگنل دیتے۔

اس سفر کے دوران ایرانی فوجی حکام پر واضح ہوگیا کہ شامی حکومت سے عوام کی اکثریت ناراض ہے جس کی دلیل شہروں کی تعمیر نو نہ ہونا اور اقتصادی مشکلات تھیں۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران السویدا جیسے حکومت کے حامی ترین صوبے میں بھی عوام نے مظاہرہ کیا تھا۔ شام کے دوسرے شہروں میں بھی کم و بیش ایسی صورتحال تھی۔ ایرانی حکام نے مخلص اتحادی کی حیثیت سے بشار الاسد کو عوامی تشویش سے آگاہ کیا۔ شامی فوج کی کمزوری، مختلف محاذوں پر شکست، اور عوامی سطح پر پھیلی ہوئی ناراضگی نے بشار الاسد کو مزید کمزور کر دیا۔ یہ عوامل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اسد نے ایران سے عسکری مدد طلب کیوں نہیں کی اور وہ اپنے اقتدار کو بچانے میں کیوں ناکام رہے۔

مقاومت سے دوری اور نئے دوستوں کی فریب کاری

بدقسمتی سے بشار الاسد نے ایرانی تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ مذکورہ مسائل کے حل کے لیے کسی قسم کا اقدام کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ دہشت گرد گروہ وسیع جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے اور کسی عسکری پیش قدمی کی صورت میں آپس میں الجھ جائیں گے۔ یہ ناقص تجزیہ اور موقف درحقیقت شام میں ایران کے کردار کو کم کرنے کے لیے ایک بہانہ تھا۔

اس سے قبل اسد نے عرب ممالک کے اصرار پر ایرانی کمانڈرز کو شام میں اپنی ذمہ داریاں ختم کرنے کے احکامات دیے تھے۔ بشار الاسد کے طرزِ عمل اور ایران کے انتباہات کو نظرانداز کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اسد حکومت دیگر عالمی کھلاڑیوں کے جھوٹے وعدوں کے زیر اثر تھی۔ شام کی حکومت نے داخلی بحرانوں کے حل اور جنگ کی تباہ کاریوں کی بحالی کے لیے ایران سے دور ہو کر امریکہ اور عرب ممالک کی طرف جھکاؤ کا فیصلہ کیا تھا۔

متحدہ عرب امارات نے واشنگٹن اور دمشق کے درمیان ثالثی

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق متحدہ عرب امارات نے واشنگٹن اور دمشق کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے بشار الاسد کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ ایران اور محورِ مقاومت سے دوری اختیار کریں تو پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا اور پابندیوں سے آزاد ہوکر شام تیل کی دولت اور اقتصادی منصوبوں کے ذریعے اپنی معیشت کو بحال کر سکے گا۔ یہ پرکشش اور پرفریب وعدے دراصل محض ایک سراب ثابت ہوئے۔ 8 دسمبر 2024 کو جب دہشت گردوں نے دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا، تو یہ واضح ہو گیا کہ نہ تو کوئی وعدہ پورا ہوا اور نہ ہی اسد حکومت کو کوئی مدد ملی۔ ڈاکٹر بشار الاسد کی حکومت کا سقوط درحقیقت ان جھوٹے وعدوں پر اعتماد کرنے کا نتیجہ تھا۔

مشرق وسطی میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں

جب ادلب سے دہشت گرد گروہوں نے اپنی جنگی کاروائیاں شروع کیں تو اسلامی جمہوریہ ایران نے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ اعلی سطح پر رابطہ کیا اور دمشق کے ساتھ مکمل تعاون اور حمایت پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا۔ تاہم اسد نے ایران کی اس فراخدلانہ پیشکش کے جواب میں واضح طور پر کہا کہ تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا محاذ ان کے کنٹرول میں نہیں۔

اس طرح انہوں نے گیند تہران کے کورٹ میں پھینک دی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شام کے قانونی صدر نے ایرانی حکام سے باقاعدہ درخواست کرنے کے بجائے اپنے نئے اتحادیوں کی پیشکشوں پر غور کرنے کو ترجیح دی۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ ایک سنگین غلطی تھی کیونکہ مشرق وسطی کے پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی یا غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔

اس غیر یقینی صورت حال کے باوجود ایران کی مسلح افواج مکمل تیاری کی حالت میں تھیں۔ ایرانی فوجی دمشق کی جانب سے گرین سگنل ملتے ہی جنگی محاذ کی طرف روانہ ہونے کے لیے تیار تھے۔ آخری لمحے میں بھی ایرانی حکام نے بشار الاسد سے رابطہ کیا اور ایک بار پھر دمشق کے حق میں حالات کو بدلنے کے لیے اپنی مکمل آمادگی کا اعادہ کیا۔ تاہم بشار الاسد کی عدم آمادگی، شامی فوج کی کمزوری اور عوامی ناراضگی کے باعث ایرانی حکام طویل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس بار شام میں ایران کی عسکری مداخلت کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں[7]۔

گیلری

حوالہ جات

  1. مزاحمت سے شام کو علاقے میں خاص مقام حاصل ہوا: رہبر انقلاب اسلامی-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 31 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 دسمبر 2024ء۔
  2. شام اپنے اتحادیوں سے مل کر دہشت گردوں کو شکست دے گا، بشار الاسد-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 1ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1ستمبر 2024ء۔
  3. مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، بشار الاسد-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 5 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1ستمبر 2024ء۔
  4. صیہونی مظالم پر بشار الاسد کا ردعمل-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 13 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 دسمبر 2024ء۔
  5. بشار الاسد دمشق میں موجود ہیں، مغربی میڈیا کی خبریں پروپیگنڈہ وار کا حصہ ہیں، صدارتی محل-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 7 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 دسمبر 2024ء۔
  6. شام پر اسد خاندان کے دور اقتدار پر ایک طائرانہ نگاہ-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 8 دسمبر2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء
  7. سقوط دمشق کی کہانی، بشار الاسد نے اقتدار کیوں چھوڑ دیا؟-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 9 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 دسمبر 2024ء۔