علی رضا اعرافی

علی رضا اعرافی قم کےامام جمعه ، ایران کے تمام دینی مدارس کے سربراه، خبرگان رهبری کونسل کے رکن، المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سابق سربراه اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے موجوده رکن، ایران کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے ممبر اور دیگر دسوں تعلیمی ، ثقافتی اور سماجی ادارات اور تنظیموں کے سربراه یا اهم رکن ہیں ، وه حوزه علمیه قم کے مدرس اور ایران کی اهم یونیورسٹیوں کے اعلی دورس کے ممتاز اساتذه میں سے ہیں۔ انهوں نے اپنی زندگی میں سیاسی اور سماجی نمایاں کارکردگی کے علاوه بے شمار علمی اور تحقیقاتی کارنامے سرانجام دیے ہیں۔

علی رضا اعرافی
اعرافی.jpg
پورا نامآیت الله اعرافی
دوسرے نامڈاکٹر علی رضا اعرافی
ذاتی معلومات
پیدائش1338 ش، 1960 ء، 1378 ق
پیدائش کی جگہایران یزد
اساتذہحاج شیخ مرتضی حائری، آیت الله محمد فاضل لنکرانی، آیت الله وحید خراسانی
مذہباسلام، شیعه
مناصب، امام جمعه قم ، ایران کے تمام دینی مدارس کے سربراه، خبرگان رهبری کونسل کے رکن، المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سابق سربراه اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے موجوده رکن، ایران کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے ممبر

پیدائش :

علیرضا اعرافی سنه 1959ء کو ایران ، صوبہ یزد کے شہر میبود کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آیت اللہ محمد ابراہیم اعرافی رحمۃ اللہ علیہ ان بے باک ، بہادر اور انسان دوست علماء میں سے تھے جنہوں نے خطے میں اسلامی اقدار اور الہامی رسومات کے احیاء میں مرکزی کردار ادا کیا اوروه ایران کی شهنشاهی حکومت کے مذهب مخالف اقدامات اور ناانصافی کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ شمار هوتے تھے۔ آیت الله اعرافی کے والد امام خمینی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔اسلامی انقلاب سے برسوں پہلے، آپ نے جمعہ کی نماز کا اہتمام اور لوگوں کو مظاهروں کی دعوت اور علاقے اور ملک کے لیے مومن، عالم اور انقلابی نسل کی پرورش کرکے میبود یزد کے عوام کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ آیت اللہ اعرافی کی والدہ بھی آیت اللہ شیخ کاظم ملک افضلی اردکانی (رح) کی اولاد میں سے تھیں، جو اس وقت کی نیک اور پرہیزگار خواتین میں سے ایک تھیں، جنہوں نے ان کے والد کے ساتھ مل کر بچوں کی پرورش اور اسلامی اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے بهت کوشش کی ۔

تحصیل

آیت اللہ اعرافی نے اپنے والد اور دیگر اساتذه کی خدمت میں بچپن کی عمر میں قرآن کریم، عربی گرامر اور احکام کے بنیادی مسائل سیکھنے کے بعد سنه 1970ء کو قم کی طرف ہجرت کی اور با قاعده طور پر عصری تعلیم کے حصول میں مصروف هوگئے اور سنه 1971ء کو حوزوی دورس کا آغاز کیا۔ ان کی ذاتی صلاحیت اور قابل تعریف کوشش کی بدولت انهوں نے کم عرصه میں حوزے کے ابتدائی اور سطح کے دورس کو مکمل کیا ۔ اس طرح که وه سنه 1977ء کو درس خارج فقه اور اصول کے لئے برزگان حوزه کے دورس میں حاضر هوئے۔آیت اللہ اعرافی ان مذہبی اور شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے مختلف علمی شعبوں میں بہت سے اساتذه کے کے دورس میں شرکت کی اور ان میں سے ہر ایک کے علمی سمندر سے سیراب هوئے۔ انهوں نے درس خارج فقه اور اصول کے لئے آیت‏ الله‌العظمی حاج شیخ مرتضی حائری(ره)، آیت‏ الله‌العظمی فاضل لنکرانی(ره)، آیت‏‌الله‌العظمی وحید خراسانی(دامت برکاته) اور آیت‏‌الله‌العظمی جواد تبریزی(ره) کی شاگردی اختیار کی ۔ تفسیر کا علم آیت‏ الله میرزا علی مشکینی(ره) سے حاصل کیا اور فلکیات علامه حسن‏زاده آملی(حفظه ‏الله) سے سیکھے۔ شهید صدر کی کتاب اقتصادنا اور فلسفتنا دونوں آیت الله سید کاظم حائری کے پاس پڑھی۔ وه اپنے تحصیل کے دوران فلسفه کےدورس میں حصه لینے سے باز نهیں آئے ، اسفار اربعه، برهان شفا، فصول‏الحکم و تمهید القواعد آیت الله جوادی آملی کی خدمت میں پڑھی اور اسفار کا ایک حصه آیت الله شهید مطهری سے حاصل کیا جبکه آیت الله مصباح یزدی سے فلسفه سے متعلق مختلف موضوعات کا علم حاصل کیا ۔ ان تمام سالو ں میں انهوں نے درس اخلاق میں شرکت اور استاتید اخلاق کی خدمت میں حاضری دینے میں کوتاهی نهیں کی اور حوزے کی قدیم روایات کی بنیاد پر تعلیم کے ساتھ ساتھ تهذیب اور تربیت کو بھی اپنے اهداف میں شامل کیا ۔انهوں نے اپنے رفتار اور گفتار میں محاسبه اور مراقبه اور اخلاقیات میں برزگوں خاص اپنے والد کے طرز عمل کی پیروی کرنے کی کوشش کی ۔

علمی اور سماجی خدمات

آیت الله اعرافی کو اپنے دور کے علم اور تقوا کی بلندیوں پر فائز علما اور استاتذه کی شاگردی اختیار کرنے اور ان کے افکار اور نظریات سے آشنا هونے کا شرف حاصل هوا ، ان کی فکری اور اخلاقی بنیاد ، ان علما کی قرآنی آیات اور ائمه معصومین (ع) کے فرامین پر مبنی سیرت سے تشکیل پائی جس کے نتیجے میں جب انهوں نے نئی دنیا کے مختلف علمی شعبوں اور نئے موضوعات کا سامنا کیا تو وه مکمل تیاری کے ساتھ علمی اور فکری میدانوں میں نت نئے سماجی مسائل سے نمٹنے کے لئے ابھرے اور ان تمام میدانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ اس سلسلے میں ان کی عربی اور انگریزی زبانوں کے سیکھنے اور ریاضی اور مغربی فلسفہ، انسانی علوم اورمعاشرتی علوم کے شعبوں میں ان کے بہت سے مطالعے اور ان کتابوں کا مطالعه ( جو عام طور پر حوزے میں رائج نهیں تھا) ،نے انہیں معاشرے کے نئے ماحول کو سمجھنے میں مدد فراہم کی۔ .تا هم حوزه اور دانشگاه تحقیقاتی مرکز کی جانب سے تعلیم و تربیت اور انسانی علوم کے عنوان سے منقده تحقیقاتی دورے میں ان کی شرکت نے ان کو ایک خاکه دیا که نئے مکاتب اور نئے نظریات کے ساتھ کیسے سامنا کرنا هے ، ان کے ساتھ کیسے گفتگو کرنا هےاور کیسے ان پر تنقید کرنا هے؟ سب سے اهم بات یه هے که انهوں نے اس جدو جهد کے نتیجے میں دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کی نئی نسل کی پهچان اور ان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے راهنمائی حاصل کی ۔ اور گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بین الاقوامی میدان میں ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ہمیشہ رابطے میں رہے اور مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے هیں ۔ آیت اللہ اعرافی نے تحصیل کے دوراں چھٹیوں کے وقت تفسیر المیزان اور نہج البلاغہ اور دیگر علمی کتابوں کا مباحثه کیا اور اس کے ذریعےکلام وحی اور معصومین(ع) کے ارشادات کی روشنی میں اپنے فکری، علمی اور اخلاقی بنیادیں مضبوط کی ۔آخر کار اس ثقافتی اور سماجی تحریک نے انہیں تعلیم اور تربیت کے حوالے سے مطالعے اور تحقیق کی طرف راغب کیا۔ اس شعبے کی ضرورت اور اس میں موجود خلا نے کو قدیم کتابوں میں موجود موضوعات کو نئے موضوعات کے ساتھ موازنه کرنے اور ان میں نئے مباحث شامل کرکے فقه التربیه کی تدریس کرنے اور انسانی علوم (بشَریات) اور اس کا فلسفه خاص کر تربیتی علوم اور فلسفه تربیت میں فقه تربیتی، فقه سماجی تعلقات اور فقه اخلاق جیسے ابواب کی تاسیس پر مجبور کیا۔ اس طرح کہ انہیں اسلامی تعلیم و تربیت کے میدان میں جدت اور نظریہ سازی کا عالمی اسلامی ہیومینٹیز ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ واقفیت برسوں کی تحقیق، تبلیغ اور تدریس کے دوران ہوئی جب ان کا اسفار اربعه اور درس خارج فقه اور اصول کی تدریس کا سلسله جاری تھا اور فقه ، اصول اور فلسفه کے موضوعات پر تدریس کا موقع فراهم هونے اور طلبا کی طرف سے درخواست کی وجه سے حوزه علمیه قم کے ممتاز اساتذه کی جماعت میں شامل هوئے ۔ آیت الله اعرافی مختلف علوم کا از حد مطالعه ، دنیا کے بہت سے ممالک کے علمی اور دینی مدارس کے قریب سے مشاہدہ، بین الاقوامی علمی اور دینی کنفرانسوں اور سمیناروں میں نمایاں شرکت کے علاوه دینی علوم پر مکمل عبور اور حوزے کے اعلی سطح کےدورس کی تدریس کی وجه سے آپ کا شمار ان چند علمی شخصیات میں هوتا هے جنهوں نے دینی مدارس کا نئے دور میں داخل هونے اور اسلامی انقلاب کا چوتھی دهائی(یعنی تصادم اور تعامل کا عشره) میں داخل هوتے وقت مختلف سیاسی ، سماجی اور فکری موضوعات کی شناخت اور ان کے حوالے سے مواقع اور خطرات کی تشخیص دینے کا ذمه داری به احسن وجه ادا کی هیں ۔ آیت اللہ اعرافی کے علمی اور انتظامی فرایض اور ذمہ داریاں ان کے مذهبی ، علمی اور اخلاقی مقام کا بہترین اظہار ہیں، اس طرح کہ وہ ایک ہی وقت میں جامعه مدرسین قم کے رکن ہیں اور حوزے کے بزرگوں ، علماء اور قم کے تعلیمی مراکز کے ساتھ ان کے تعلقات برقرار هونے کے ساتھ ساتھ قم کے امام جمعه هونے کی وجه سے عوام کے ساتھ بھی ان کے گهرے تعلقات هیں جبکه ملک بھر کے مدارس کے انتظامی امور کے سربراه هونے کے ناطے پورے ملک کے ممتاز علمی اور سماجی شخصیات سے همیشه رابطے میں رهتے ہیں۔

سیاسی بصیرت

آیت اللہ اعرافی جو خود جہاد اور اجتہاد کے گھر میں پلے بڑھے اور بچپن سے ہی اپنے والد کی جدوجہد اور انقلاب کے حامیوں کی اپنے گھر میں موجودگی کو دیکھتے رہے هیں، انقلاب کی فتح کے دوران انقلابیوں کے ساتھ همراهی اور همکاری کا تجربه بھی کیا اور 16 سال کی عمر میں انهی انقلابی کار ناموں کی وجه سے ان کو جیل میں بھیجا گیا۔ انقلاب کی فتح کے بعد انہوں نے حاصل شدہ اقدار کے دفاع میں ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا۔ مقدس دفاعی سالوں میں وہ کئی بار محاذ جنگ پر حاضر ہوئے اور اسلام کے جنگجوؤں کی حوصلہ افزائی کی۔ دشوار حالات میں ولایت مداری کے جذبے کے ساتھ شہداء کے خون اور حاصل شدہ اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور فرض شناسی کی بنیاد پر اسلام اور انقلاب نے جو ذمه داری ان کے کندھوں پر ڈالی ان کی ادائیگی میں کبھی کوتاهی نهیں کی۔ .

ولایت فقیه  کی حمایت ، شہداء کے خون سے حاصل ہونے والی الہی اور انسانی اقدار کا تحفظ، مذہبی جمہوریت اور قانون اور عوام کے ووٹ کا احترام، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے معاشرتی عارضوں سے نمٹنے اورسیاسی میدان میں  اسلامی اخلاقیات اور شائستگی کا خیال رکھنا وغیره ان کے سیاسی اور سماجی تحفظات میں شامل تھے۔ 

عهدے اور ذمه داریاں

  1. شهر مقدس قم کے امام جمعه
  2. ایران کے تمام دینی مدارس کے سربراه
  3. شورای نگهبان کی فقها کمیٹی کے رکن
  4. خبرگان رهبری کونسل کے رکن
  5. المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سابق سربراه اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن
  6. ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے رکن
  7. وزارت تعلیم کے ثقافتی شعبے کے ممبر
  8. حوزه و دانشگاه تحقیقاتی مرکز کے سربراه
  9. حوزه و دانشگاه تحقیقاتی مرکز کے تحقیقاتی مشیر
  10. امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز کے تربیتی علوم شعبے کے مدیر
  11. حوزه علمیه قم کے انتظامی مرکز کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن
  12. یزد صوبے کے شهر میبد کے امام جمعه
  13. پیام نور یونیورسٹی اور الهیات کالج کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن
  14. "هدی" انٹر نیشنل فاونڈیشن کے سربراه
  15. حوزه علمیه قم کے انتظامی اور تحقیقاتی امور کے سربراه
  16. حوزه و دانشگاه ششماهی رساله کے چیف اڈیٹر
  17. جامعه مدرسین قم کے رکن
  18. مؤسسه اشراق اور عرفان کے موسس، سربراه اور انتظامی گروه کے ممبر

تالیفات اور تحقیقاتی فعالتیں

آیت الله اعرافی نے اپنی با برکت عمر میں تحقیق کے شعبے میں بھی نمایاں کارکردگی دیکھائی هیں اور وقت کی ضرورت، اسلامی بنیادوں پر هونے والے جدید اعتراضات کے جواب اور نئی نسل کے فکری اور ذهنی خلا کو اسلامی تعلیمات سے پورا کرنے کے لئے نئے موضوعات پر بهت سے کتابیں لکھی هیں ۔

  1. مجسمه و نقاشی
  2. وحدت حوزه و دانشگاه
  3. فقه تربیتی
  4. بررسی فقهی فلسفه ورزی و فلسفه آموزی
  5. قواعد فقهیه
  6. نفاق شناسی
  7. احکام تربیت فرزند
  8. درآمدی بر تفسیر ترتیبی
  9. ضمیر نا خود آگاه در قرآن
  10. روشهای دربیت
  11. هرمنوتیک
  12. در آمدی بر اجتهاد تمدن ساز
  13. حوزه علمیه چیستی ، گذشته ، حال و آینده
  14. قلمرو دین و گستره شریعت
  15. بررسی فقهی سب و دشنام
  16. خورشید عاشورا
  17. تبلیغ
  18. شیطان شناسی[1]

اتحاد کی اهمیت اور ضرورت آیت الله اعرافی کی نظر میں

آیت اللہ اعرافی نے 27/ جنوری / 2013ء کو "المصطفی یونیورسٹی" نیوز سنٹر میں ایک تقریر کے دوران عالم اسلام کے دو بڑے خطرات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا: آج عالم اسلام کو دو بڑے خطرات لاحق ہیں، پہلا خطرہ اسلامی ممالک کی سرحدوں کی تقسیم کا ہے، جو سوڈان میں ہوا ۔ سوڈان ایک عظیم اسلامی ملک تھا جس کو دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا، اور شام میں بھی دشمن کا یہ منصوبہ، جو کہ مزاحمت کا محور ہے اور ترکی، بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان میں بھی عملی کرنا چاهتا هے۔ مذہبی اختلاف اسلامی ممالک کو دشمنوں کی طرف سے دوسرا بڑا خطرہ ہے۔ دشمن، اسلامی ممالک کے درمیان نسلی اور مسلکی اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ امت اسلامیہ سے ایمان اور اسلام کی طاقت چھین لیں تاکہ ان کے خلاف سانس لینے کی طاقت خطے میں باقی نہ رہے، لیکن شیعه اور سنی دونوں مکتب فکر کے ماننے والوں کو فکری اختلافات کے با وجود اس لئے که ان دونوں کا تعلق اسلام سے ہے ، انہیں اپنے اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ [2]

حوالہ جات

  1. زندگینامه استاد علیرضا اعرافی ( استاد علی رضا اعرافی کے سوانح حیات )- arafi.ir (زبان فارسی )- تاریخ درج شده:اگست/2021ء۔تاریخ اخذ شده: 7/ دسمبر/ 2024ء
  2. بیوگرافی آیت الله علیرضا اعرافی ( استاد علی رضا اعرافی کے سوانح عمری )- biographyha.com (زبان فارسی )- تاریخ درج شده:9/ستمبر//2014ء۔تاریخ اخذ شده: 7/ دسمبر/ 2024ء