عبدالرزاق القسوم

ڈاکٹر عبدالرزاق قسوم الجزائر کے اسلامی اور تعلیمی تحریکوں کے فعال رکن ، معروف اسلامی اسکالر ، سنکڑوں مضامین ، تالیفات اور تصیفات کے مالک، جمعیه علمای الجزائریین کے موجوده صدر اور عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے رکن ہیں۔ وه عالمی مسلم علما بورڈ کے ممبر بھی ہیں۔ ان کو سلفی علما میں سے اعتدال پسند افراد میں شمار کیے جاتے ہیں۔

عبدالرزاق القسوم
قسوم.jpg
پورا نامعبدالرزاق قسوم
دوسرے نامڈاکٹر عبدالرزاق قسوم
ذاتی معلومات
پیدائش1933 ء، 1311 ش، 1351 ق
پیدائش کی جگہسوف وادی الجزائر
اساتذہالطاهر بوزوید، عبدالحمید بن بادیس، احمد الحمانی
مذہباسلام، سنی
مناصبجمعیه العلماء الجزائریین کے موجوده صدر، عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے رکن

پیدایش

ڈاکٹر عبدالرزاق قسوم سنه 1933ء کو ایک مذهبی گھرانے میں، الجزائر کے المغیر نامی شهر میں پیدا ہوئے، جو جنوب مشرقی الجزائر کے صوبہ ال اوید کے دارالحکومت سے ایک سو بیس کلومیٹر دور ہے۔

فصیح عربی اور آزادی کے ماحول، ماں کے پاک صاف دودھ اور صحرا کی ہواؤں میں اس نے پرورش پائی ۔ ان کے والد عبدالله عالم دین تھے لیکن زراعت اور تجارت کے ذریعے گزر بسر کرتے تھے۔ ایک اچھی ماں جو صالح اور نیک لوگوں سے محبت کرتی تھی، اس نے اپنے چھ بچوں کی پرورش کی اور بہت احتیاط سے نگرانی کی۔

تعلیم

انهوں نے اپنے آبائی شہر میں تعلیم حاصل کی، اور سب سے ممتاز اساتذہ کے زیر نگرانی قرآن پاک حفظ کیا۔انهوں نے حفظ قرآن کی تعلیم حمیده صحراوی اور عبدالله بوحنیک سے حاصل کی اور الشيخ لعروسي الحويدق، الشيخ محمد بن عبد الرحمن المسعدي سے عربی لغت کا علم حاصل کیا جس نے ان کی فکری نشو ونما پر گهرا اثر چھوڑا۔ مسٹر بریٹ سے فرانسیسی زبان کی تعلیم اور اس کا ادب حاصل کیا۔

1949 ‏ء میں وہ قسطنطنیہ کے عبدالحمید بن بدیس ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ وہ جمعیۃ علماء کے سابق صدور احمد حمانی اور عبدالرحمن شیبان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ اس کے بعد وہ تیونس کی ال زیتون یونیورسٹی گئے اور وہاں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ الجزائر واپس آنے کے بعد، انهوں نے مختلف اسکولوں میں بطور استاد پڑھایا۔ تاہم، فرانسیسیوں کی طرف سے اس پر شک کیا گیا اور ان کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔

الجزائری انقلاب کی فتح کے بعد وہ الجزائر کی یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور اس یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی، پھر مصر چلے گئے اور قاہرہ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور سوربون یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ عربی، فرانسیسی اور انگریزی پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔

تعلیمی سرگرمیاں

عبدالرزاق القسوم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف جگہوں میں تعلیمی فعالیتوں میں سرگرم رہے۔ اپنے پیدایشی گاؤں المغیر میں واپس آنے کے بعد المغیر الحره نامی سکول میں رضاکار استاد کے طور پر اپنے تدریسی سلسله کا آغاز کیا ۔ انہوں نے اس سکول میں فلسطینی شاعر ابراهیم طوقان کے آزادی اور حریت کے پیغامات پر مشتمل اشعار کو موضوع درس بناکر بچوں کو آزادی اور حریت کا درس دیتے رہے۔ان کے اور "نور صالح" کے درمیان مفت عرب تعلیم کے میدان میں سرگرم کارکن "سی زبیر الثعالبی" کے ذریعے رابطہ قائم ہوا، جو بدیسی انسٹی ٹیوٹ میں ان کے ساتھی تھے اور وه بعد میں وہ منخ فرانس ضلع بوزارہ میں ناصریہ اسکول کا ڈائریکٹر بن گیا۔

جب وہ اس اسکول میں پڑھا رہے تھے، تو انھوں نے اپنے ایک ساتھی"محمد منیع" کے ساتھ مل کر اسکول کا ایک دیواری رسالہ شائع کیا، لیکن یہ دیواری رسالہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا، کیونکہ طباعت کے ذرائع کی فرامی مشکل تھی اور ان کا مذکوره ساتھی بھی گرفتار ہوا ۔انقلاب کے دوران انهوں نے تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ، تیلملی اسکول میں عربی پرائمری سرٹیفکیٹ کے امتحان کا اہتمام بھی کیا۔ جولائی 1959 میں، ٹیلیملی اسکول کے متعدد مرد اور خواتین طلباء عربی پرائمری سرٹیفکیٹ کے امتحان میں شرکت کی ، اور امتحان کی نگرانی کرنے والی کمیٹی اساتذہ : عبد الرزاق قسوم، محمد منیع، اور حسین قوامیہ شامل تھے ۔ عبدالرزاق قسوم کو اس سرٹیفکیٹ کے لیے ٹیسٹ کے سوالات تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

انقلابی سرگرمیاں

وہ حب الوطنی کے جوش و خروش کے ماحول جو پورے ملک میں پھیلنے لگا تھا ،اس کے درمیان المغیر واپس آیا دوبارہ اپنے آبائی شہر میں رہنے لگے ، تو انهوں نے شہید "سي عمار شهرة" کے گھر مجاہدین سے رابطہ کیا۔ انہوں نے انقلابی جوانوں سے مخاطب هو کر اپنی ایک تقریر میں کها تھا: یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ آپ کی خاطر ہے، الجزائر کے پڑھے لکھے نوجوان آپ اس ملک کا روشن مستقبل ہیں۔

جوانوں نے ان سے یه الفاظ سنے تو ان کے انقلاب الجرائر پر مکمل یقین اور فتح پر ایمان میں اضافہ ہوا اور پورے انقلابی سرگرمیوں کے دوران ان کی امید کا باعث بنا۔ انقلاب کے آغاز کے کچھ مهینوں کے بعد سنه 1955ء میں وه اپنے آبائی گاؤں المغیر سے دارالحکومت منتقل ہوگئے ایسی حالت میں جب اس وقت وہاں کا کوئی جان پہچان نهیں تھا۔ دارالحکومت میں ایک مدت گزارنے کے بعد، اس نے جمعیت العلماء مرکز سے رابطہ کیا۔

جہاں اس کی ملاقات بدیس سکول کے ساتھی، جیسے کہ عبدالسلام برجان، جو بعد میں نیشنل لبریشن آرمی میں آفسر بنے، اور صالح نور، جو بعد میں صدر بنے، سے ہوئی ۔ اسی وقت انہوں نے كتشاوة مسجد جہاں وہ رات کے وقت نوجوانوں کو عربی سکھاتے تھے،کےسامنے الجزائر ڈیموکریٹک یونین پارٹی سے تعلق قائم کیا۔ بیر مراد رایس کے محلے میں انقلاب کے عہدیداروں کو ان پر مکمل اعتماد تھا، اور جدوجہد کے ساتھ ان کا کام مجاہد "سی یحییٰ احمد زیغم" سے گزرتا تھا - اس لیے وہ اسے وقفے کے وقت اسکول لے آتے تھے۔

تاکہ نظام سے متعلق ہر چیز پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ وہ اسے ان کے مالکان کے نام خط لکھتا تھا ، یا اسے نئی اشاعتوں کے بارے میں مطلع کرتا تھا، یا اس سے کچھ کارکنوں سے رابطہ کرنے کو کہتا تھا جو طلباء کے سرپرست تھے۔ جب آزادی کی صبح نمودار ہوئی تو اس کے ساتھ ہی ان کے سامنے زندگی کے عظیم دروازے کھل گئے - جیسا کہ تمام الجزائر کے لوگوں کے سامنے کھول دیا گیا تھا - جس میں پہلا اور سب سے اہم دروازہ یونیورسٹی کا دروازہ اور علم کا دروازہ تھا، جس نے اس کی زندگی کی تمام خصوصیات کو بدل کر رکھ دیا۔ اس لیے وہ تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔

ان کے علمی اور فکری مضامین

قومی اور بین الاقوامی رسائل اور اخبارات میں ان کے بہت سے فلسفیانہ، ادبی، تاریخی اور سیاسی مضامین چھپے ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں:

  • مجلة الأصالة.– مجلة التراث (دبي).
  • مجلة الثقافة. – مجلة المستقلة (لندن) .
  • مجلة: الموافقات. – جريدة الوسط.
  • مجلة: الجيش.– جريدة المصريون.
  • حوليات مجلة جامعة الجزائر – جريدة أخبار اليوم (مصر).
  • مجلة الآداب اللبنانية. – جريدة الشرق الأوسط (لندن).
  • جريدة البصائر. – جريدة العالم الإسلامي (السعودية).
  • جريدة الوطن (الكويت). – جريدة المسلمون (السعودية)
  • الشروق اليومي.

تالیفات اور تصنیفات

  1. عبد الرحمن الثعالبي والتصوف.
  2. مفهوم الزمن في فلسفة أبي الوليد ابن رشد.
  3. مدارس الفكر العربي الإسلامي (تأملات في المنطق والمصب).
  4. نزيف قلم جزائري.
  5. مفهوم الزمن في الفكر العربي المعاصر (باللغة الفرنسية).
  6. فلسفة التاريخ من منظور إسلامي (قراءة إسلامية معاصرة).
  7. تأملات في معاناة الذات.

عهدے اور منصبی ذمه داریاں

  1. سنه 1956ء سے 1962 تک الجزائر کے جبهه تحریر الوطنی کا رکن اور مجاهد
  2. سنه 1980ء سے 1984ء تک الجزائری مترجم یونین کے سیکرٹری جنرل
  3. سنه 1984ء سے 1986ء تک پیرس مسجد کی اسلامی تنظیم کے نائب صدر
  4. سنه 1986ء تا 1988ء تک الجزائر یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف فلسفہ کے ڈائریکٹر
  5. سنه 1988ء سے سنه 1994ء تک الجزائر کی اصول الدین نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر
  6. جمعیة العلماء المسلمین الجزائریین کے صدر ۔
  7. مجمع تقریب مذاهب اسلامی ایران کی سپریم کونسل کے رکن .[1]

حوالہ جات

  1. أ.د. عبدالرزاق قسوم (ڈاکٹر عبدالرزاق قسوم )- algerianscholaraward.org (زبان عربی )- تاریخ درج شده:... تاریخ اخذ شده: 29/ نومبر/ 2024ء