اخوان المسلمین فلسطین
اخوان المسلمین فلسطین ایک اسلام پسند تنظیم هے جس کا آغاز 1919 ءکے اوائل میں جہادی گروپ کی تشکیل سے ہوا تھا، اور اس کی تخلیق میں حاج امین حسینی، شیخ حسن ابو سعود اور شیخ محمد یوسف عالمی جیسے متعدد علماء نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ فلسطین میں یهودیوں کے خطرات سے نمٹنے اور اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار تحریکوں کے تعاون اور ان کو اپنے اهداف میں کامیاب بنانے کے لئے مقدمات فراهم کرنے میں اهم کردار ادا کر رهی هے.اخوان المسلمین نے فلسطین کے مسئلے پر توجه دینے سے پهلے یهودیت کے خطرات اور مسلم دنیا کے خلاف ان کے ناپاک عزائم کو برملا کرنے کی طرف توجه دی. اخوان المسلمون فلسطین نے 1948 کی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور جفا، قدس، غزہ اور دیگر علاقوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور فلسطینیوں میں بہت مقبولیت اور عزت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ [1]
اخوان المسلمین فلسطین | |
---|---|
قیام کی تاریخ | 1946 ء، 1324 ش، 1364 ق |
بانی پارٹی |
|
پارٹی رہنما |
|
تاسیس
اخوان المسلمین فلسطین کی بنیاد 19 مارچ 1946 ءکو بیت المقدس میں اسد الامام، محمد العمید اور عبدالباری برکات کے ہاتھوں رکھی گئی۔ فلسطینی اخوان المسلمین کا خیال ہے کہ اس کی جهادی سرگرمیوں کے آغاز کا 1987 ء میں حماس کی تشکیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ گروہ اپنے آپ کو اسلام پسندی کی جدوجہد کا ایک توسیع اور تسلسل سمجھتا ہے، جو عثمانی حکومت کے خاتمے اور فلسطین پر برطانوی قبضے کے آغاز (1918 ءکے آخر میں) کے ساتھ قائم ہوئی تھی۔ ایک تحریک جس کا آغاز 1919 کے اوائل میں جہادی گروپ کی تشکیل سے ہوا تھا، اور اس کی تخلیق میں حاج امین حسینی، شیخ حسن ابو سعود اور شیخ محمد یوسف علمی جیسے متعدد علماء نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد مذکورہ مہم "الجہادیہ" گروپ اور "جهاد مقدس " تحریک کی شکل میں جاری رہی۔ الجہادیہ گروپ شیخ شہید عزالدین قسام نے بنایا تھا اور "مقدس جہاد" تحریک 1934 ءمیں شہید عبدالقادر حسینی کی قیادت میں قائم ہوئی تھی۔ [2]
اخوان المسلمین فلسطین کی جهادی سرگرمیاں
اخوان المسلمون فلسطین نے 1948 ءکی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور جفا، قدس، غزہ اور دیگر علاقوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور فلسطینیوں میں بہت مقبولیت اور عزت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ غزه کی پٹی میں فلسطینی اخوان المسلمین نے اپنے حالات کو منظم کرنا شروع کیا، اور اس گروہ کی شاخیں غزہ کی پٹی کے بیشتر علاقوں میں سرگرم تھیں۔ فلسطینی اخوان المسلمین تنظیم (جس کے انتظامی دفتر کی قیادت شیخ عمر صوان کر رہے تھے) کے ارکان کافی مقبولیت حاصل کرنے اور وسیع سرگرمیاں انجام دینے میں کامیاب رہے یهاں تک کہ جمال عبدالناصر کی سربراہی میں مصری حکومت نے 1954 ء میں اخوان المسلمون کو دبایا اور اس گروپ کو خفیہ سرگرمیاں کرنے پر مجبور کردیا۔ 1952 اور 1954 کے درمیانی عرصے میں، غزہ میں اخوان المسلمون نے ایک خفیہ عسکری تنظیم (ایک خصوصی تنظیم کی شکل میں) بنائی جس کا بانی کامل شریف تھے ، جو 1948 ء کی جنگ میں مصری اخوان المسلمین کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں سے ایک تھے، اور سینا نامی شهر کے العریش علاقے میں سکونت پذیر تھے۔ اس تنظیم کا انتظام -غزہ اور اس پٹی کے شمال میں ابو جہاد خلیل کی سربراہی میں هوتا تھا ۔ خانیونس اور غزہ کی پٹی کے مرکزی علاقوں میں تنظیم کی قیادت ابو اسامہ خیری الآغا کررهے تھے ، جو بعد میں فلسطینی اخوان المسلمین کے سربراہ اور حماس تحریک کے پہلے سربراہ بنے۔ رفح اور غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں مذکورہ فوجی تنظیم کی قیادت محمد یوسف نجار کر رہے تھے۔ ان لوگوں اور کامل شریف کے درمیان تعلقات کی ذمه داری بھی محمد ابوسیدو نامی شخص کےذمه تھی۔ 1948 ء کی جنگ کے بعد جب اردن نے فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے( کرانه باختری ) کو اپنی سرزمین میں ضم کر لیا تو فلسطینی اخوان المسلمین نے اردن کے مشرق میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ایک واحد تنظیم بنائی اور اس طرح اخوان کی مختلف شاخیں زیادہ تر مغربی کنارے کے علاقوں بالخصوص قدس، حبرون، نابلس اور عقبہ جبر فعال هوئیں ۔ اخوان المسلمون نے 1953 ءمیں قدس کانفرنس کے زریعے پنی خصوصی فوجی سرگرمیوں کو بڑھانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں فلسطین کی اخوان المسلمون نے کانفرنس کی آڑ میں اپنے عسکری کام کو انجام دینے کے لیے کامل شریف کو کانفرنس کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے طور پر منتخب کیا۔ اسی طرح خوان المسلمین فلطین کے ارکین کے توسط سے مختلف انداز میں جهادی سرگرمیوں کا تسلسل جاری رها یهاں تک که دسمبر 1987 ء میں ایک واقعه پیش آیا جس کے نتیجے میں چار فلسطینی کارکنان کی شہادت ہوئی، اخوان المسلمون کے رہنماؤں نے رات کے وقت غزہ کی پٹی میں شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور عبدالفتاح دخان کی موجودگی میں ایک اجلاس منعقد کیا اور فیصلہ کیا۔ غزہ کی پٹی سے مختلف علاقوں میں قابضین سے محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کریں گے اور عملی طور پر یہ جدوجہد 9 دسمبر ء 1987 کو صبح کی نماز کے بعد جبالیہ کیمپ میں صہیونیوں کے خلاف مظاہرے سے شروع ہوئی۔ اخوان کے دو ارکان، جو انتفاضہ کے پہلے شہید تھے، کی شہادت کے ساتھ ہی فلسطینی اخوان المسلمین کی قابضین کے کے ساتھ با قاعده طور پر جنگی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔
فلسطین لبریشن موومنٹ (فتح) کی تاسیس
اخوان المسلمین گروپ کو شدید ترین حملوں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے کے بعد جمال عبدالناصرکی حکومت نے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جس کی وجه سے اس گروہ کو روپوش ہونا پڑا۔ لیکن بہت سے اراکین جو جهادی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، مصری حکومت اور حزب اختلاف کی اسلام پسند تحریکوں کے مخالف حکومتوں کے دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک قوم پرست تنظیم (واضح اسلامی شناخت کے ساتھ نہیں) بنانے کا منصوبه بنایا۔ خلیل الوزیر نے 1957ء میں غزہ کی پٹی میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں کو ایک منصوبہ بھی پیش کیا تھا، لیکن وہ مشکل حالات سے دوچار تھے، اس لیے انھیں ان کی تجویز کا کوئی جواب نہیں ملا۔ خلیل الوزیر نے یاسر عرفات کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے، جو اخوان المسلمون کے قریبی شخصیات میں سے ایک تھے، "فلسطین لبریشن موومنٹ" (فتح) کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔
اخوان المسلمین کے بہت سے فعال اور قابل نوجوان ارکان نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی جن میں ریاض زعون، سلیم زنون، محمد یوسف نجار، عبدالفتاح حمود، یوسف عمیرہ، کمال عدوان، صلاح خلف، سلیمان حماد، رفیق نیتشے اور دیگر شامل تھے۔
حوالہ جات
- ↑ از اخوان المسلمین فلسطین تا حماس ( اخوان المسلمین سے حماس تک)-farsi.palinfo.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 27/جنوری/2017 ء تاریخ اخذ شده: 2می 2024ء-
- ↑ از اخوان المسلمین فلسطین تا حماس ( اخوان المسلمین سے حماس تک)-farsi.palinfo.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 27/جنوری/2017 ء تاریخ اخذ شده: 2می 2024ء-