}}

سید قطب
دوسرے نامابراہیم شاذلی
ذاتی معلومات
پیدائش1906 ء، 1284 ش، 1323 ق
یوم پیدائش9اکتوبر
پیدائش کی جگہاسیوط مصر
یوم وفات25اگست
وفات کی جگہمصر
اساتذہ
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • فی ظلال القرآن
  • معالم الطریق

سید قطب‌‌جن کا پورا نام ابراہیم شاذلی ہے ایک مشہور مصری ادیب، مصنف اور اسلامی نظریہ دان تھے۔ ان کے افکار اور نظریات اپنے ہم عصر مفکرین جیسے ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار سے متاثر تھے اور انہوں نے آٹھویں صدی کی بنیاد پرست سوچ جیسے ابن تیمیہ کے احیاء میں اہم کردار ادا کیا۔ 1970 کی دہائی میں، ایک صاحب نظر کے طور پر، انہوں نے اخوان المسلمین کی بنیاد پرستی کی قیادت کرنے کا کردار ادا کیا اور 1960 کی دہائی کے اوائل میں اخوان کے دوبارہ ابھرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور اخوان المسلمین کے دوبارہ اتحاد کے اہم عوامل میں سے ایک بن گیا۔ آج مصر اور عرب ممالک میں سید قطب کے افکار اور ان کے بعد کے اسلام پسندوں کے افکار پر اثرات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ ان کی پھانسی کے برسوں گزرنے کے ساتھ، ان کا کردار اور فکر ایک مبارزہ اور جہاد کے نمونہ کے طور پر اسلام پسند گروہوں کے ذہنوں اور اعمال میں زندہ ہے، اور کچھ اسلام پسند گروہ اب بھی انہیں اپنا روحانی پیشوا اور جدوجہد کا نمونہ مانتے ہیں۔

خاندانی پس منظر

قطب ان کا خاندانی نام ہے اور ان کے آباء و اجداد جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کرکے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ہو گئے۔ ان کا کنبہ ایک زمیندار گھرانہ تھا اور آپ کے والد محترم کا شمار اپنے خاندان اورعلاقہ کے بڑے بزرگوں میں ہوتا تھا، جملہ سیاسی وسماجی و انتظامی مسائل میں آپ کے والدبزرگوار کی رائے کوایک طرح سے فیصلہ کن مقام حاصل تھا۔ گویا قیادت کی صلاحیت سید قطب کوخاندانی وراثت سے ہی ملی تھی۔آپ کے والد کی ایک خاص بات ہفتہ وار مجالس ہیں جن میں اس وقت کے سیاسی وقومی معاملات کوقرآن کی روشنی میں سمجھاجاتاتھا۔ اس طرح گویاقرآن فہمی بھی آپ کو اپنے بابا کی طرف سے علمی وراثت میں ملی تھی۔ اسی کے باعث لڑکپن سے ہی روایتی ملائیت کے خلاف ان کے اندر شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی،کیونکہ روایتی مذہبی تعلیم کے مدارس قرآن مجید کی انقلابی تعبیر سے بہت بعید ہوتے ہیں آپ بچپن سے ہی کتب کے بہت شوقین تھے،اپنی جیب خرچ سے پیسے بچاتے ہوئے اپنے ہی گاؤں کے کتب فروش ’المصالح‘سے کتابیں خرید لیتے تھے اور بعض اوقات شوق مطالعہ انہیں ادھار پر بھی مجبور کر دیتا تھا۔

بارہ سال کی عمرمیں ان کے پاس پچیس کتابوں کی لائبریری مرتب ہو چکی تھی ،گویا امت مسلمہ کا یہ یکے از مشاہیر اپنی جسمانی عمر سے دوہری نوعیت کی ذہنی و فکری عمرکا حامل تھا ۔اس چھوٹی عمر میں بھی لوگ ان سے اپنے سوالات کیاکرتے تھے اور بعض اوقات بڑی عمرکے لوگوں کی ایک مناسب تعدادان سے اجتماعی طور پرکسب فیض بھی کرتے تھے تاہم خواتین کوان کی اسکول کی چھٹی کا انتظارکرنا پڑتاتھااور خواتین سے خطاب کے دوران ان پر شرم غالب رہتی تھی۔

سوانح عمری

ان کی پیدائش 9 اکتوبر 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ہوئی اور ان کے والد ایک سمجھدار اور عاقل اور نیشنل پارٹی کی کمیٹی کے رکن تھے، اور ان کے خاندان کے بزرگ تھے، جو کہ ان کی عزت اور زندہ دل تھے، اس کے علاوہ وہ اپنے طرز عمل میں بھی مذہبی تھے۔ جب سید قطب نے اپنی کتاب "مشاهد القيامة في القرآن"قرآن میں قیامت کے مناظر میں اپنے والد کے نام ایک وقف لکھا تو نے لکھا: " تم نے مجھ میں یوم آخرت کا خوف نقش کر دیا تھا، اور تم نے مجھے نصیحت نہیں کی اور نہ ہی ملامت کی، بلکہ تم میرے سامنے رہتے تھے، اور آخرت کا دن تمہارے ضمیر میں اور تمہارے دلوں میں اس کی یاد ہے۔ اور آپ کی تصویر میرے تخیل میں نقش ہے جب ہم ہر شام رات کا کھانا ختم کرتے تھے تو آپ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں اور اسے آخرت میں اپنے والد کی روح کے لیے ہدیہ کرتے، اور ہم، آپ کے چھوٹے بچے، آپ کی طرح، متفرق آیات اس سے پہلے کہ ہم انہیں مکمل طور پر حفظ کرنے میں اچھے ہوں [1]۔ جب آپ اسکول گئے تو ایک نئی خوبی نمودار ہوئی، اس کے علاوہ اس کی والدہ کی طرف سے خود اعتمادی اور والد کی طرف سے یہ ایک پختہ ارادہ تھا، جس کا ثبوت ان کا پورا قرآن پاک حفظ کرنا تھا۔ ، دس سال کی عمر میں۔ احساس اور خود اعتمادی کے عروج میں، 1919 کے انقلاب کی راہ ہموار کرنے والی سیاسی اور سماجی جدوجہد نے ان پر وطن کی محبت کے جذبے کے ساتھ اثر ڈالا اور وہ آزادی کے جذبے سے بھی متاثر ہوئے۔ ان کے گھر میں رائے کا سمپوزیم تھا، جس میں سید قطب نے نیشنل پارٹی کا اخبار پڑھا اور پھر تقریریں اور نظمیں لکھ کر عبادت گاہوں اور مساجد میں پھینکتے تھے۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعد میں اسی یونیورسٹی کے پروفیسر ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس کے بعد اخوان المسلمین سے وابستہ ہو گئے اور آخری دم تک اسی سے وابستہ رہے [2]۔

قاہرہ کی طرف ہجرت

سید قطب چودہ سال کی عمر میں قاہرہ گئے اور تقدیر نے انہیں ایک باضمیر خاندان کے ساتھ رہائش کی ضمانت دی جس نے انہیں تعلیم کی ہدایت کی، جو کہ ان کے چچا کا خاندان تھا، جو ایک استاد اور صحافی کے طور پر کام کرتے تھے، اس لڑکے میں سیکھنے کا شدید شوق تھا۔ 1929ء سے 1933 کے دوران برطانوی تعلیمی اداروں سے عصری تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا۔ پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدامیں ہی ادیب اور نقاد ہونا آپ کی پہچان بن گئی تھی۔ اگرچہ کچھ ناول بھی لکھے لیکن زیادہ تر ادیبوں ،شاعروں اور عربی ناول نگاروں کی مددکرتے رہے۔ علوم و معارف میں ترقی آپ کی پیشہ ورانہ ترقی کا باعث بھی بنی اور 1939ء میں مصر کی وزارت تعلیم جس کا مقامی نام ’وزارت معارف‘ہے، میں انتظامی عہدوں پر تعینات ہو کراعلی افسر بن گئے [3]۔

امریکہ کا سفر

1948 تا1950 سید قطب نے امریکہ میں قیام کیا جس کا مقصد وہاں کے تعلیمی نظام سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔ ان کا کسی بھی مغربی ملک میں یہ پہلا دورہ تھا۔ نام نہاد سیکولرمعاشرہ کی قباحتیں آپ نے بہت گہرائی سے محسوس کیں اور خاص طورپر مغربی دنیاکا جوروشن چہرہ سارے عالم کے سامنے ہے اس کے اندرون میں چنگیزسے تاریک تر تاریکی آپ نے بنظر خود مشاہدہ کی، دل میں موجود ایمان بھڑک اٹھا اور اسی دورہ کے موقع پر آپ کی پہلی شہرہ آفاق تصنیف العدل الاجتماعیہ فی الاسلام1949ء میں شائع ہوگئی۔ امریکہ میں دوسالہ قیام کے دوران کے تاثرات اور مشاہدات بھی امریکہ ،جو میں نے دیکھا کے عنوان سے کتاب میں شائع ہوئے۔ علامہ اقبال کی طرح انتہائی دیانتداری سے سید قطب نے امریکی معاشرے کا تجزیہ پیش کیا،جہاں خامیوں اور کمزوریوں پر تنقید کی جبکہ اس معاشرے کی خوبیوں کوبھی واضح کردیا۔

انہیں ایک پرائمری اسکول ٹیچر کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی تنخواہ اور اپنی پرانی وراثت کے علاوہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرلیے یہ تبدیلی کمیونٹی کے ساتھ براہ راست رابطے کی ایک وجہ تھی، جس سے نمٹنے کا طریقہ گاؤں والوں کے انداز اور تجربے سے مختلف تھا۔ جس نئے معاشرے میں انہوں نے زندگی گزاری اس نے صحت مند شہر میں زندگی کے ترازو کو بدل دیا اور قاہرہ میں غیر ملکی قبضوں کی برائیاں اور سیاست کی خرابیاں عیاں ہوئیں، جہاں طبقاتی تقسیم اور متعصبانہ تصادم کے عوامل غالب تھے، اور خود غرضی اور اس کے نتیجے میں منافقت اور طرفداری مروجہ روح بن گئی [4]۔

آزمائشیں

1950ء کے آغاز سے ہی اس ذہین انسان کو مذہب نے اپنی طرف کھینچ لیا اور انہوں نے اخوان المسلمین میں شمولیت اختیارکرلی۔ ابتداء آپ کی علمی استعداد کے باعث کے اخوان المسلمین کے ہفتہ وار رسالے کا مدیر اور مسوول مقررکیا گیا بعدد میں ان کو میں اخوان المسلمین کے مرکزی ذمہ دار برائے نشرواشاعت منتخب ہوئے اور پھر ان کا خلوص اور تقویت ایمان انہیں اس تنظیم کے اعلی ترین مشاورتی ادارے کی رکنیت تک لے آئے۔ ان دنوں جمال عبدالناصر نے حکومت کے خلاف تحریک چلارکھی تھی پہلے اخوان المسلمین اور جمال عبدالناصر کے تعلقات بہت اچھے رہے تھے اور ایک بار تو جمال عبدالناصرخود چل کر سید قطب کے گھربھی گئے تاکہ انقلاب کی کامیابی کیلئے تفصیلی منصوبہ تیارکیاجائے۔

اس کے بعد بارہ بارہ گھنٹے طویل نشستوں میں جزیات پر بھی بحث کی جاتی رہی اوراس دوران شہید قطب کو آنے والی حکومت میں وزارتوں کی پیشکش بھی کی جاتی تھی۔ جمال عبد الناصرکے ان اقدامات کے باعث اخوان المسلمین کی اکثریت بہت خوش ہو گئی تھی کہ شاید اب نفاذ اسلام کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔1952ء کے دوران جمال عبدالناصرنے ایک بغاوت کے ذریعے مصری حکومت کو چلتاکردیااورخود اقتدارکے ایوانوں پرقابض ہوگئے اور نفاذ شریعت کے تمام وعدوں سے منحرف بھی ہو گئے۔ بہت جلد جمال عبدالناصر کو سیکولرازم کی روایتی بدعہدی نے اخوان المسلمین سے بہت دور کردیا کہ مسلمانوں کو پہلے دن سے ہی لکم دینکم ولی دین کا سبق پڑھا دیا گیا تھا۔

اسلام اورسیکولرازم اکٹھے نہ چل سکے۔اس کے باوجود بھی اخوان المسلمین عوام کے اندر نظریاتی اور خدمت خلق کا کام کرتی رہی اور عوام الناس میں مقبول تر ہوتی رہی۔ بہت جلد مصر کے سیکولر حکمرانوں کیلئے ’اخوان المسلمین‘کاوجودہی ناقابل برداشت ہوگیا اور 1954ء کے دوران بغاوت کے جھوٹے الزامات کے تحت سیدقطب شہید سمیت ’اخوان المسلمین‘کے ہزارہاکارکنوں اور مقتدررہنماؤں کو قیدوبندمیں ڈال دیاگیااور انہیں بدترین تشدداور انتہائی غیراخلاقی اور غیرانسانی بہیمانہ مارپیٹ کانشانہ بنایا گیاکہ سیکولرازم کویہی رویہ ہی زیب دیتا تھا۔

عدالتی شکنجہ

تین سال کی طویل مدت تک جب طاغوت اپنی پوری کوشش کے باوجود اخوان المسلمین کے پائے استقامت میں لغزش پیدانہ کرسکا تو استعمار کی رگیں ڈھیلی پڑ گئیں اور سید قطب کومحدود نقل و حرکت اور لکھنے کی اجازت مل گئی۔ مصر میں فی ظلال القرآن پس دیوار زنداں سے منظر عام پر آئی اور آہنی سلاخون کا دوسراعرق معالم الطریق کے عنوان سے امت کو میسرآیا۔ اب تک ان کتب کے بے شمار طباعتیں اور کتنی ہی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

1964ء کے دوران انہیں عراق کے صدرعبدالسلام عارف کی سفارش پر رہا کر دیا گیا یہ ایک اورامر تعجب ہے کہ پاکستان اور مصر کے مشاہیرکو عالمی حمایت تو حاصل ہوتی ہے لیکن اپنے ہی وطن کے حکمران ان کی نہایت نا قدری پر ہی کمربستہ رہتے ہیں۔ محض آٹھ ماہ کی مختصرمدت کے بعد ہی انہیں معالم الطریق جیسی کتاب لکھنے کے جرم میں دھر لیاگیا جبکہ اس مرد مجاہد نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرعدالت میں اپنی تحریرکردہ کتاب پرکسی طرح کامعذرت خواہانہ رویہ اختیارکرنے کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پراپنے موقف کے حق میں پرزوردلائل پیش کئے۔

معالم الطریق کا تعارف

معالم الطریق 12 ابواب پر مشتمل 160صفحات کی مختصرسی کتاب ہے، لیکن محققین کے مطابق گزشتہ صدی میں عربی زبان میں اس سے عمدہ کتاب شاید نہیں لکھی گئی۔اس کتاب میں امت کو جھنجوڑاگیاہے کہ قرآن مجید کی فراہم کردہ بنیادوں پرایک نئی فکراور نئے معاشرے کاقیام عمل میں لایا جائے۔ اس کتاب کے مضامین کافی حد تک محمداقبال کے خطبات فکراسلامی کی تجدیدنو سے ملتے جلتے ہیں ۔ان کی بنیادی اٹھان توادیب اور شاعرکی حیثیت سے ہی تھی اور قرآن مجید جیسی الہامی کتاب میں بھی صرف ایک چیلنج ہے اور ادیبوں اور شاعروں کو ہے کہ اس جیسی کوئی کتاب یا سورہ یا آیت ہی بناکردکھادو۔ مصر کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ادب و نقد اورقرآن مجید یکجا ہوگئے تو معالم الطریق جیسی مختصر کتاب سے ہی باطل شکست کھاگیا۔ سیکولرازم جیسے انسان دشمن نظریہ کی عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھناگویااپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے [5]۔

علمی آثار

قرآن اور مباحث قرآنی

  • التصوير الفني في القرآن
  • مشاهد القيامة فی القرآن.
  • في ظلال القرآن.
  • ہذا القرآن
  • تفسیر آیات الربا۔
  • تفسیر سورۂ الشوری۔
  • تفسیر سورہ المنافقون۔
  • ھذا الدینفی ظلال القرآن (تفسیر قرآن)۔

اسلام کی شناخت

  • معالم علی الطریق۔
  • المستقبل لھذا الدین۔
  • خصائص التصور الإسلامی.
  • اولیات ھذا الدین۔
  • فی موکب الایمان۔
  • المعالم فی الطریق۔
  • فی ظلال الیسیر [6]۔

ادبیات

  • مهمة الشاعر فی الحياة، وشعر الجيل الحاضر
  • الشاطئ المجهول (شعر)
  • نقد كتاب مستقبل الثقافة في مصر
  • الدلالہ النفسیہ للالفاظ والتراکیب العربیۃ۔
  • النقد الأدبي: أصوله ومناهجه.
  • كتب وشخصيات.
  • المدینۃ المسحورۃ (سحر زدہ شہر)۔
  • طفل من القریۃ (گاؤں کا بچہ)
  • الصبح یتنفس۔

سماجی اور اجتماعی کتابیں

  • مقومات التصور الإسلامی.
  • أمريكا التي رأيت۔
  • نحو مجتمع الاسلامی۔
  • دراسات الاسلامیۂ۔
  • المستقنل لھذا الدین۔
  • قیمہ الفضیلہ بین الفرد والجماعہ،حدثینی۔
  • وظیفۃ الفن والصحافۃ العدالۃ الاجتماعیہ۔

اقتصاد اور حکومت اسلامی

  • العدالة الاجتماعية فی الإسلام.
  • معرکۂ الاسلام ، الراسمالیۂ۔
  • معرکتنا مع الیھود۔
  • السلام العالمی والاسلام
  • فی التاریخ فکرہ و منہاج۔
  • کیف وقعت مراکش تحت الحماہ الفرنسیہ؟
  • ھل نحن متحضرون؟
  • ھم الحیاۃ۔
  • شیلوک فلسطین او قضیہ فلسطین،
  • این انت یا مصطفی کامل؟
  • ھتاف الروح۔
  • تسبیح۔
  • فلنعتمد علی انفسنا۔
  • ضریبۃ الذل۔
  • این الطریق؟

گرفتاری

مصر کے صدر جمال ناصر کے تاریک دور آمریت میں کئی بار آپ کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اخوان المسلمین سے آپ کی وابستگی مصری حکومت کو بہت کھٹکتی تھی۔ جمال ناصر کے دور میں جب آپ کو گرفتار ہوئے تقریبا 10 سال ہوچلے تھے۔ مصر کی حکومت نے یہ پیشکش کی کہ آپ چند سطور لکھ دیں جن میں مصری حکومت سے معافی کی درخواست کی گئی ہو آپ نے کہا کہ" مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ باطل سے معافی مانگ لے۔ اگر میری گرفتاری قدرت کی طرف سے ہے تو میں اسی میں خوش ہوں اور اگر میری گرفتاری باطل کی طرف سے ہے تو میں باطل سے رحم کی بھیک مانگنے کیلئے ہرگزتیار نہیں۔" اس کے بعد آپ پر ظلم و ستم کا سلسلہ مزید تیز کردیا گیا[7]۔

شہادت

تاریخ شاہد ہے کہ دور غلامی کے بدترین اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قوموں کو ماضی کے صفحات میں دفن کر کے تو اس دنیا سے ان کا وجود نابود کر دیتا ہے لیکن امت مسلمہ تاریخ انسانی وہ محترم و متبرک گروہ ہے جس کی کو دور غلامی میں بھی علمیت و قیادت کے بارآورثمرات سے سرسبزو شاداب رہی ہے۔ سید قطب اس امت وسط کے وہ مایہ ناز سپوت ہیں جنہوں نے دورغلامی کے پروردہ استعمار کے سامنے سپرڈالنے کی نسبت شہادت کے اعلی ترین منصب کو پسند کیا۔ سید قطب مصر کے نامور ماہر تعلیم،مسلم دانشوراورعربی کے معروف شاعر تھے۔ اخوان المسلمین سے وابستگی ان کیلئے جہاں باشعورمسلمان حلقوں میں تعارف کا باعث بنی وہاں امت مسلمہ کو ذہنی طور پردورغلامی سے نکالنے کیلئے انہوں نے قلم کے ہتھیارکو بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مصر کے غلامی زدہ سامراج کوسید قطب کی قلمی کاوشوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کا باشعور ہونا پسند نہ آیااور وقت کے طاغوت نے اس بطل حریت کو راہی ملک عدم کردیا۔انبیا کرام علیہم السلام کے بعد، انسانی تاریخ میں یہ آسمان شاید پہلی مرتبہ دیکھ رہاتھا کہ ملزم کس شان سے نہ صرف اعتراف جرم کررہاہے بلکہ اپنے جرم کے حق میں مضبوط ترین دلائل بھی بیان کررہا ہے۔ اسلام کے اس عظیم مفکر، داعی اور مفسر قرآن کو ان کی شہرہ آفاق کتاب معالم علی الطریق لکھنے پر مصری حکومت کے خلاف سازشیں کرنے کے بے بنیاد الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔چنانچہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق شہید سید قطب سمیت چھ اور اسلامیان مصرکو سزائے موت سنا دی گئی اور 25 اگست1966کو پھانسی دے دی گئی۔آپ نے پھانسی کے پھندے پر جھول کرابدی حیات جاوداں کے راستہ پر ہمیشہ کیلئے کامیاب و کامران ہو گئے۔

  1. ترجمة الأستاذ الشهيد سيد قطب (شہید سید قطب کی زندگی نامہ)-odabasham.net (عربی زبان)- شا‏ئع شدہ از:25 اکتوبر 2010ء - اخذ شدہ بہ تاریخ :20اپریل 2024ء۔
  2. شهید سید قطب (آیت جهاد)(شہید سید قطب جہاد کی نشانی)-taqribstudies.ir(فارسی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:21اپریل 2024ء۔
  3. عفت علی پور، اندیشہ سیاسی سید قطب، تہران، احسان 1388، ص55۔
  4. شهید سید قطب «شاهد بیدار» ; (1906- 1966م)(شہید قطب، شہید بیدار)- hawzah.net (فارسی زبان) شائع شدہ از:18مئی 2018ء-اخذ شدہ بہ تاریخ :21اپریل 2024ء۔
  5. نصیر زرواق، مقاصد الشریعۂ الاسلامیۂ فی فکر الامام سید قطب، دار السلام مصر، 2009ء،ص665۔
  6. شہید سیروس، اندیشہ ھای سیاسی سید قطب، انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1383،ص40۔
  7. مروری بر زندگانی شہید سید قطب(شہید سید قطب کی زندگی پر ایک نظر)-okhowah.com (فارسی زبان)-شائع شد از تاریخ :20جون 2015ء -اخذ شدہ بہ تاریخ:21اپریل 2024ء۔