سید دلدار علی نقوی

سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شیعہ عالم دین، مرجع اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

تعارف

سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شیعہ عالم دین ، مرجع اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ غفران مآب آپ کے معروف ترین القاب میں سے ہے نیز آپ کو مجدد الشریعہ کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ آپ نے بارھویں صدی کی آخری چار دہائیوں اور تیرھویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بہاریں دیکھیں۔ پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں سے سر فہرست شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کو پاک و ہند میں علم اصول فقہ کے مکتب کا بانی اور بنیاد گزار مانا جاتا ہے۔ دیگر تالیفوں کے ساتھ ساتھ علم اصول فقہ میں بھی اساس الاصول کے نام سے آپ کی تصنیف موجود ہے۔ پاک و ہند میں آپ نے مذہب حقہ کی ترویج کیلئے جہاں دن رات ایک کیا وہاں مذہب کے حقہ کے دفاع میں تالیفیں لکھ کر اس مذہب کو محکم بنیادیں فراہم کیں اور مذہب اثنا عشریہ کی حقانیت کو پاک و ہند میں دوام بخشا یہان تکہ سید دلدار علی سمیت اس دور کے علما کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔

اجداد

آپ حضرت امام حسن عسکری کے بیٹے اور حضرت امام زمانہ علیہم السلام کے بھائی جعفر کی اولاد میں سے ہیں جنہیں امامت کے جھوٹے دعوے کی نسبت سے کذاب اور بعد میں توبہ کرنے کی وجہ سے تواب کہا گیا ۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں مذکور ہوا ہے :

سيد دلدار علی بن محمد معين بن عبد الہادی بن إبراہيم بن طالب بن مصطفی بن محمود بن إبراہيم بن جلال الدين بن زكريا بن جعفر بن تاج الدين بن نصير الدين بن عليم الدين بن علم الدين بن شرف الدين بن نجم الدين بن علی بن أبي علي بن أبی يعلی محمد بن أبي طالب حمزة بن محمد بن الطاہر بن جعفر ابن امام علی الہادی ملقب بالنقی بن محمد جواد بن علی رضا بن موسی كاظم بن جعفر الصادق بن محمد باقر بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ع رضوی نصيرآبادی [1]۔ آپ کے اباؤ اجداد امراء، نواب اور شجاع افراد مانے جاتے تھے ۔ آپ کے اجداد میں سے نجم الدین سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو ایران کے شہر سبزوار سے سپہ سالار مسعود غازی کی مدد کیلئے ہندوستان آئے جنکے توسط سے ادیانگر نامی قلعہ فتح ہوا اور انہوں نے لکھنؤ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر جای عیش نامی جگہ کو اپنا مسکن قرار دیا جو بعد جایس کے نام سے مشہور ہو گئی ۔مسعود غازی سلطان محمود غزنوی کے جرنیلوں میں سے تھا۔ آپ کے اجداد میں سے سید زکریا نے تباک پور یا پتاک پور کو اپنے قبضے میں لیا تو اس کا نام اپنے جد نصیر الدین کے نام کی مناسبت سے نصیر آباد رکھ دیا۔

ولادت

آپ کی تاریخ ولادت کا سن 1166 ھ ق مذکور ہے لیکن تاریخ اور مہینہ مذکور نہیں ہے اگرچہ ورثۃ الانبیاء [2]۔ میں دی گئی تصویر کے مطابق تاریخ ولادت 17 ربیع الثانی 1166ھ ہے [3]۔ آپ کی ولادت کے موقع پر موجود شخص کے بیان کے مطابق آپ جمعہ کے روز پیدا ہوئے اور آپکی ولادت کے موقع پر نور ساطع کا مشاہدہ کیا گیا [4]۔ آپ کا پیدائشی شہر نصیر آباد ہے آپ کی مقام ولادت لکھنؤ سے تین منزل کی مسافت پر جائس اور نصیر آباد واقع ہے [5]۔

ذکاوت وذہانت

علوم عقلیہ سے دلچسپی کا یہ عالَم تھا کہ جہاں بھی کسی مشہورعلم منطق کے عالم کی خبر ملتی اسکے پاس چلے جاتے اور اس سے بحث و مباحثہ کرتے ۔اسی سبب سے مختلف مقامات کا سفر کیا۔

علوم عقلیہ کے متبحر نہایت متعصب اور صوفی المسلک سنی مولوی عبد العلی سے ملاقات کیلئے شاہجہان پور گئے اور وہاں مولوی عبد العلی نے قضیہ شرطیہ کی بحث کے متعلق مولوی حمد اللہ کے بارے میں اعتراض کیا ۔اس اعتراض کا جواب شافی و وافی اسکے دو شاگردوں مولوی صبغۃ اللہ اور دوسرے کا نام یاد نہیں رہا کے سامنے دیا۔ یہ بات ان سالوں کے مدرسہ کے طلاب کے درمیان مشہور تھی۔ دہلی کے شاہجہان آباد کی مسجد جامع میں مولوی حسن بیٹھا تھا۔ مولوی ممدوح نے ملا شیرازی شرح ہدایہ الحکمہ پر تعلیقہ لگایا جس میں اس نے جزو کی ادلہ باطلہ ذکر کیں۔ آپ نے مولوی حسن کے سامنے ان میں سے ایک دلیل پر اعتراض کیا ۔لیکن مولوی حسن اس کا جواب دینے سے قاصر رہا۔ فقہی مسائل کی باریک بینیوں کو درک کرنے کی استعداد یوں تو شروع سے ہی آپ کی ذات میں پائی جاتی تھی ۔جب عراق و ایران زیارات عالیہ سے مشرف ہونے کیلئے گئے تو وہاں آیات عظام کی موجودگی میں ایسے واقعات پیش آئے جس سے آپ کی یہ خصوصیت آیات عظام کیلئے واضح ہو گئی ۔مثلا: ایک روز صاحب ریاض المسائل آیت اللہ سید علی طباطبائی نماز میں رکوع کے اضافے سے بطلان نماز کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ آپ نے سوال کیا یہاں رکوع سے معنی مصدری مراد ہے یا معنی حاصل مصدر مراد ہے ؟حاضرین اس سوال کو نہ سمجھے اور متعجب ہوئے۔ آپ نے اپنے سوال کی دونوں شقوں کی وضاحت کی۔آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی تعریف کی اور معنائے رکوع کی وضاحت فرمائی۔

ایک روز آیت اللہ سید علی طباطبائی نے عورت کے مرد کے برابر ہونے یا مرد کے سامنے موجودگی کی صورت میں نماز کے جائز نہ ہونے کا مسئلہ بیان کیا اور کہا کہ بعض فقہا نے حضرت عائشہ کی حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے کہ جس کا مضمون یہ ہے " حضرت عائشہ حالت حیض میں رسول خدا کے سامنے اس طرح پاؤں پھیلا کر لیٹی ہوئی تھیں کہ رسول اللہ جب سجدے میں تشریف لے جاتے تو پہلے آپؐ ان کے پاؤں اکٹھے کرتے اور پھر سجدہ کرتے"۔سید علی طباطبائی نے کہا "اس حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کرنے کی کوئی مناسب وجہ موجود نہیں ہے۔ کیونکہ کہاں مصلے کے سامنے عورت کا سونا اور کہاں عورت کا نماز پڑھنا ؟ ہاں اگر حدیث میں حضرت عائشہ کے نماز پڑھنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح تھا ۔" آپ نے کہا: ان فقہا کی دلیل جواز ہو سکتا ہے قیاس اولویت ہو چونکہ حالت حیض میں مصلے کے سامنے سونے کی نسبت عورت کا نماز پڑھنا زیادہ اولویت رکھتا ہے ۔ آیت اللہ سید علی طباطبائی نے اس توجیہ کو قبول کیا اور آپ کیلئے تعریفی کلمات بیان کئے۔ مشہد میں آیت اللہ مرزا محمد مہدی اصفہانی کے درس میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ جس شخص کے پیٹ کے شکن آپس میں ملے ہوئے ہوں تایسے شخص کو غسل ارتماسی میں چاہئے کہ وہ اس حصے سے جسم کو جدا کرے اور پھر وہاں پانی پہنچائے۔آقای اصفہانی یا کسی دوسرے نے اس مسئلے میں یوں دقت فرمائی کہ جب وہ شخص پیٹ کے شکم کو ہاتھوں سے جدا کرے گا تو اس کی وجہ سے پانی کی حرکت کے درمیان لحظہ کیلئے انفصال زمانی متحقق ہو گا [6]۔ آپ نے کہا:قاعدۂ کلیہ ہے کہ جس طرح انطباق آنی ہوتا ہے اسی طرح انفصال بھی آنی ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو حرکت سے حاصل ہوتی ہے وہ زمانی ہو گی پس جب انفصال بھی حرکت سے ہوگا تو خواہ نخواہ وہ بھی زمانی ہی ہو گا ۔حضرت آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی اس دلیل کو قبول فرمایا۔

اولاد

خدائے ذو الجلال اکرام نے آپ کو پانچ فرزند عطا کئے جن کے اسما درج ذیل ہیں: سلطان العلما آیت اللہ سید محمد معروف رضوان مآب(1199 ھ-1284ھ) سید علی(1200ھ-1259ھ) سید حسن.(1205ھ-1260). سید مہدی۔ آپ کی ندگی میں ہی 23 سال زندگی کر کے فوت ہوئے۔ آیت اللہ سید حسین علیین.(1211ھ-1273ھ))

اساتذہ

برصغیر پاک و ہند آپکے شاگردوں کے بیان کئے گئے احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہندوستان کے فاضل علما سے علوم عقلیہ حاصل کئے جن کے اسما درج ذیل ہیں: سید غلام حسین حسینی دکنی الہ آبادی: آپ کے اساتذہ میں سے ہیں جن سے آپ نے اکثر درسی کتب پڑھیں۔

مولوی حیدر علی سندیلوی: شرح تصدیقات سلّم العلوم معروف بہ حمد اللہ اس کے پاس پڑھی ۔مولوی حیدر علی 1225ھ کے رجب میں فوت ہوا۔

مولوی باب اللہ:کچھ درسی کتابیں مولوی حمد اللہ کے شاگرد مولوی باب اللہ کے پاس پڑھیں۔غلام حسین حسینی دکنی کی وفات کے بعد بریلی آئے اور یہاں باب اللہ کے پاس پڑھا۔ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ہندوستان میں رائج دروس نظامی اور عقلی علوم جن علما سے حاصل کئے وہ اکثر مذہبی لحاظ سے حنفی اور عقیدتی لحاظ سے ماتریدی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔

ایران و عراق

پاک و ہند کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا : آیت اللہ محمد باقر بہبہانی مشہور وحید بہبہانی:شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامے قرآت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔ آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔ سید محمد مہدی بن ابی القاسم شہرستانی:کربلا میں ان سے بھی استفادہ کیا۔ آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبائی:نجف میں مولائے متقیان کی زیارت اور آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبائی کی مکہ سے واپسی پر نجف میں الوافی اور معالم الاصول کی ان کے سامنے قرآت کی ۔ 1194 ھ میں عراق کی زیارتوں کے بعد مشہد زیارت کیلئے آئے۔ سید مہدی بن ہدایت اللہ اصفہانی:مشہد میں ان سے علوم معقول و منقول کا استفادہ کیا۔

  1. محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ ج6، ص425۔
  2. سید احمد نقوی، ورثۃ الانبیاء،ص 500۔
  3. بائیو گرافی سید دلدار علی
  4. احمد نقوی معروف بہ علامہ ہندی ،ورثہ الانبیاء حصۂ تذکرۃ العلماء ص242
  5. ورثۃ الانبیا حصہ تذکرۃ العلماء ص239
  6. حسن نجفی ،جواہر الکلام ،8/کراہۃ الصلاۃ مع تقدم المراۃ..../305و306۔محقق بحرانی ،الحدائق الناضرہ7/ہل یجوز تساوی الرجل/177