مندرجات کا رخ کریں

سید علی الحسینی

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 22:30، 23 دسمبر 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («'''سید علی الحسینی''' کا نامِ نامی یا ذکرِ خیر جب بھی آتا ہے، دل عقیدت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ تصور میں تقویٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ایک باعمل عالم، شفیق و مہربان اور شریف النفس شخصیت کا نورانی چہرہ ابھر آتا ہے اور نظریں احترام سے خود بخود جھک جات...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

سید علی الحسینی کا نامِ نامی یا ذکرِ خیر جب بھی آتا ہے، دل عقیدت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ تصور میں تقویٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ایک باعمل عالم، شفیق و مہربان اور شریف النفس شخصیت کا نورانی چہرہ ابھر آتا ہے اور نظریں احترام سے خود بخود جھک جاتی ہیں۔ آج چونکہ اس عظیم ہستی کی برسی ہے، تو میں یادوں کی ڈائری کے اوراق پلٹنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ ان کی یاد میں چند باتیں اور واقعات یہاں شیئر کر رہا ہوں [1]۔

سوانح عمری

یہ میری کم سنی کا دور تھا، لیکن مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہے 25 مارچ 1985ء کا دن تھا۔ میرے والدِ محترم انتہائی پریشانی اور گریہ کی کیفیت میں گھر تشریف لائے اور یہ روح فرسا خبر سنائی کہ "آغا سید علی صاحب انتقال فرما گئے ہیں"۔ یہ خبر ہم سب کو سوگوار کر گئی، بالخصوص میری والدہ صاحبہ کو، جو آغا مرحوم کی انتہائی عقیدت مند تھیں۔ آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ کا عقیدت مند بھلا کون نہیں ہوگا؟

انڈیا، کشمیر، پاکستان اور پوری دنیا میں ان کے چاہنے والے موجود تھے۔ پاکستان بننے کے اتنے عرصے بعد بھی انڈیا تک سے ان کے عقیدت مند ان سے رابطے میں رہتے تھے۔ ہمارے گھر ہی کیا پورا بلتستان، بالخصوص سکردو کے ہر گھر میں ان کا مقام انتہائی اہم اور قابلِ عزت تھا۔ ذاتی طور پر ہمارے والدین کے ساتھ ساتھ ہم تمام بہن بھائیوں سے بھی آغا صاحب بہت پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔

اخلاقی زندگی

گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان سے متعلق جو بھی کام ہوتا، یا بالخصوص شبِ برات کی شام اماں جی کی جانب سے یہ میری خصوصی ڈیوٹی لگتی تھی کہ سب سے پہلے "نغلسپنگ" جانا ہے اور آغا سید علی صاحب کو تبرک پہنچانا ہے۔ جب میں وہاں پہنچتا تو آغا صاحب چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمال شفقت سے مجھے اپنے پاس بٹھاتے، احوال پرسی کرتے، مذاق کرتے (جو ان کی پیاری عادت تھی) اور کچھ کھلائے پلائے بغیر واپس نہیں آنے دیتے تھے۔

مجھے ایک واقعہ اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن اماں جی نے مجھے کہا کہ آغا صاحب کے پاس جاؤ اور انہیں کہنا کہ فلاں مقصد کے لیے مجھے ایک تعویذ لکھ دیں۔ میں آغا صاحب کی خدمت میں پہنچا اور ابھی مدعا بیان ہی کیا تھا کہ وہ اٹھے، قرآن پاک کھولا اور اس میں سے ایک تعویذ نکال کر مجھے تھماتے ہوئے فرمایا: "ہاں بیٹا! یہ لے لو، میں نے لکھ رکھا تھا۔" شعوری طور پر یہ میرے لیے ان کی روحانیت اور کشف کی پہلی واضح دلیل تھی۔

ابھی تو میں نے انہیں پورا مقصد بتایا بھی نہیں تھا کہ ایسے میں انہوں نے وہ تعویذ، جو پہلے ہی سے لکھ رکھا تھا، مجھے دے دیا؛ یعنی وہ اس ضرورت کو پہلے سےہی جانتے تھے۔ یہ میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب فون یا رابطے کا آج جیسا کوئی جدید نظام موجود نہیں تھا کہ یہ شک بھی گزرے کہ شاید کسی نے پہلے سے کہہ دیا ہو کہ فلاں بندہ آ رہا ہے۔انھیں اس مقصد سے یہ تعویذ لکھ کردے دیں۔

اس کے علاوہ ان کا ایک اور دلچسپ واقعہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ میں جب کسی کام سے ان کے پاس گیا تو وہ مجھ سے ہمیشہ کی طرح خوش مزاجی اور شفقت کے ساتھ پیش آئے۔ حالانکہ میں اس وقت ایک چھوٹا بچہ تھا۔ گھر میں ڈانٹ پڑنے کے خوف سے میں نے جلدی واپس جانے کی اجازت چاہی، مگر وہ کمال شفقت سے مجھے کہنے لگے: "کھانا کھائے بغیر نہیں جاؤ گے۔"

یہ انتہائی محبت سے دیا ہوا حکم تھا جسے ٹالنے کی جرأت نہیں تھی۔ اس دن آغا صاحب نے مجھ سے کافی باتیں کیں اور حسبِ معمول مذاق بھی کیا۔ باتوں باتوں میں پوچھنے لگے کہ آپ کے گھر میں کون کون سے درخت ہیں؟ میں اپنے گھر کے چھوٹے سے باغیچے کے درختوں کے نام لینے لگا۔جب میں نے ایک درخت کا نام "گیلاس" (Cherry) لیا تو وہ انجان بنتے ہوئے کہنے لگے: "اچھا! یہ 'گلاس' کیسا ہوتا ہے؟ کیا اسے پھل بھی لگتا ہے؟"

میں نے بڑے جوش سے کہا: "جی ہاں جناب آغا صاحب! اس میں پھل بھی لگتا ہے۔" تو وہ مصنوعی حیرت سے بولے: "مگر ہمارے 'گلاس' (پانی پینے والا برتن) کو تو پھل نہیں لگتے۔ ہمارے گلاس تو کافی دیر پانی کے کول (Cool) میں بھی پڑے ہوں تو ان پر پھل نہیں اگتے۔" اس بات پر میں اپنے بچپن کے معصومانہ انداز میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ یہ تھے میرے عظیم روحانی باپ، جن کی ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ اتنی محبت تھی، تو سوچئے پوری ملت کے لیے ان کے دل میں کیا فکر اور درد ہوگا۔

آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ صحیح معنوں میں متقی اور پرہیزگار عالمِ دین تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں جو چند انتہائی دیندار، متقی اور پرہیزگار علماء یا شخصیات دیکھی ہیں، آغا سید علی الحسینی مرحوم کا نام ان میں سرِ فہرست ہے۔ وہ سواری کے بجائے پیدل چلنا پسند فرماتے تھے۔ 'سندس' میں نماز پڑھانے کے لیے انہیں جانا ہوتا تو وہ پیدل تشریف لے جاتے۔ کہتے ہیں جب وہ کھیتوں کے درمیان سے گزرتے تو آہستہ آہستہ کسی سے باتیں کرتے ہوئے چلتے تھے۔ ی

  1. تحریر: حاجی شبیر احمد شگریحضرت آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ کی برسی کے موقع پر