مندرجات کا رخ کریں

الغدیر فی الکتاب والسنّة والأدب(کتاب)

ویکی‌وحدت سے

الغدیر فی الکتاب والسنّة والأدب جو الغدیر کے نام سے معروف ہے عربی زبان میں لکھی گئی ایک ایسی کتاب ہے جسے واقعہ غدیر خم میں امام علی علیہ السلام کی امامت و خلافت بلافصل کی اثبات کیلئے علامہ عبدالحسین امینی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب 11 جلدوں میں مرتب ہوئی ہے جس کی پہلی جلد میں حدیث غدیر پر تحقیق کی گئی ہے۔ علامہ امینی حدیث غدیر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول احادیث میں سب سے یقینی اور متواترترین حدیث قرار دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ اس حدیث کی سند کو اہل سنت منابع سے صحابہ و تابعین سے لے کر چودویں صدی کے علماء تک ذکر کرتے ہیں۔

کتاب کا تعارف

اس کتاب کی پہلی جلد میں آپ نے پہلے اس حدیث کو نقل کرنے والے110صحابی اور 84 تابعی کا نام ذکر کرتے ہیں۔ علامہ امینی نے بعد والے 6 جلدوں میں غدیر پر شعر لکھنے والے شاعروں کی معرفی کرتے ہوئے ان کے اشعار کو بیان کیا ہے۔ آخری جلدوں میں بھی شاعروں کی معرفی کے علاوہ بعض شیعہ اور سنی اختلافات جیسے خلفائے ثلاثہ کے مقام و منزلت اور شیعوں کا ان پر اعتراضات فدک، ایمان ابوطالب، معاویہ بن ابوسفیان کے رفتار و کردار کی توجیہ وغیرہ کو بھی ذکر کیا ہے۔

علامہ امینی اس کتاب کو لکھنے کی خاطر مختلف ممالک کی لائبریریوں من جملہ ہندوستان، مصر اور شام وغیرہ کا سفر کیا ہے. الغدیر کے مصنف فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لاکھ سے زائد کتابوں کی طرف مراجعہ اور دس ہزار سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کیا ہے. الغدیر کی کتابت پر 40سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔الغدیر کے بارے میں کئی کتابیں اور تھیزز لکھے گئے ہیں۔ اسی طرح الغدیر میں پیش کیے گئے موضوعات کو 27 جلدوں پر مشتمل مجموعے کی صورت میں بھی منظر عام پر لایا گیا ہے[1]۔

اردو میں ترجمہ

کتاب کا پورا نام الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب ہے جوصرف صاحبان تحقیق کی آرزو ہی نہیں بلکہ ایسا آبشار حقیقت اور بے نظیر دائرۃ المعارف ہے جس کے ذریعہ ہر شخص دین اسلام کے معارف کی واقعی شناخت حاصل کر سکتا ہے۔ اردو میں انہیں گیارہ جلدوں کا ترجمہ کیاگیاہے اور اسے چھ حصوں میں شائع کیاگیاہے۔ اس کتاب کی عظمت و اہمیت کا اعتراف علمائے فریقین نے کیاہے ، الغدیر کی اشاعت کے بعد فارسی اور اردو میں بے شمار چھوٹی بڑی کتابیں اس سے استفادہ کرتے ہوئے تالیف کی گئی ہیں اور شائع ہوئی ہیں.

ادیب عصر عالی جناب مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری مرحوم نے وقت کی اہم ترین ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج سے تقریباً بیس سال قبل اس عظیم کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا تھا ۔ حضرت ادیب عصر ؒکی اہل بیت کرام سے ارادت و عقیدت بڑی شدید ، والہانہ اور فطری ہے ، توارث و ماحول کے علاوہ ان کی اپنی تحقیق و کاوش بہت وقیع ہے پھر یہ کہ وہ وکیل آل محمد کی حیثیت سے تقریر و تحریر دونوں میدانوں میں سرگرم عمل رہے ہیں ، آپ نے فضائل اہل بیت اور ولایت کو اپنی تحریر و تقریر میں بڑی شدت سے پیش کیاہے ، آپ ہمیشہ کوشاں رہتے تھے کہ اردو داں طبقہ حقیقی ولایت و فضائل اہل بیت سے آشنا ہو چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں متعدد مضامین قلم بند کئے

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عظیم کتاب کی دو ( چھٹی اور گیارہویں )جلدیں ایک سفر کے دوران مولانا مرحوم سے چرا لی گئی تھیں جس کا قلق مولانا مرحوم کو آخر عمر تک تھا لیکن جب اشاعت کا زمینہ فراہم ہوا تو راقم الحروف سید شاہد جمال رضوی ( فرزند مترجم الغدیر ) نے اپنی استطاعت بھر کوشش کرکے غائب شدہ جلدوں کا ترجمہ مکمل کیا تاکہ ترجمۂ الغدیر کا یہ سیٹ بطور کامل منظر عام پر آسکے۔

مؤلف کا تعارف

کتاب کے مؤلف علامہ عبدالحسین الامینی نجفی ہیں جو ۱۳۲۰ہجری کو شہر تبریز میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم اور سطوح کے دروس تبریز میں حاصل کر کے نجف اشرف تشریف لے گئے اور وہاں جید علمائے کرام اور آیات عظام سے کسب فیض کیا ، آپ کو بہت سے آیات عظام نے اجازہ اجتہاد و روایت عطا فرمایا ۔علامہ امینیؒ کا زیادہ تر وقت تالیف و تحقیق میں گزرتا تھا اسی لئے الغدیر کےعلاوہ دیگر کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ ہوئیں. اس کتاب کے مترجم ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی گوپال پوری ہیں جنہوں نے دیہات کی زندگی میں وسائل و آسائش حیات کی کمی کے باوجود اس کا ترجمہ کیاہے۔

کتاب غدیر؛عالم اسلام کا عظیم سرمایہ

غدیر ہمارے عقائد و کردار کی بنیاد ہے ، ہماری ثقافت کی شہ رگ حیات ہے ، ہم اسی سے لو لگائے جیتے آئے ہیں اور اسی پر مرتے رہیں گے ، اس کا سر چشمہ قرآن کی ابد آثار آیات سے ملتاہے اور اس کی آبیاری مسلسل تیس سالہ سیرت رسول نے کی ہے ۔ آنحضرت(ص) نے اعلان غدیر کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر اسے آنے والی تمام نسلوں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کا خصوصی حکم دیاہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے : الا فیبلغ الشاھد الغائب خبردار ! حاضرین ، غائب افراد تک یہ پیغام پہونچا دیں۔آنحضرت کا یہ آفاقی اعلان آج بھی ہمارے ذہنوں کو ٹہوکا دے رہاہے کہ ہم اس دینی فریضہ سے غافل نہ ہوں اور اپنی مقدور بھر کوشش کر کے غدیر کی بات معاشرے میں عام کریں اور دنیا کے گوشے گوشے میں پہونچائیں۔

قابل مبارکباد ہیں وہ افراد جو الا فیبلغ الشاھد الغائبکو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد سمجھتے ہوئے زبان و قلم کے ذریعہ غدیر کی صحیح تصویر اور حقیقی پیغام مودت و ولایت دنیا کے گوشے گوشے میں پہونچا کر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی تائید حاصل کررہے ہیں۔ کتاب غدیر اسی سلسلے کی عمدہ اور اہم ترین کڑی ہے ، جسے وقت کے جید عالم حضرت علامہ شیخ عبدالحسین امینی طاب ثراہ نے ہزاروں کتابوں کی چھان بین کے بعد تحریر کیاہے ۔ یہ کتاب صرف صاحبان تحقیق کی آرزو ہی نہیں بلکہ ایسا آبشار حقیقت اور بے نظیر دائرة المعارف ہے جس کے ذریعہ ہر شخص غدیر کی واقعی شناخت حاصل کرسکتاہے ۔

یہ کتاب علامہ امینی کی عرفان انگیز پیش کش اور معرکة الآراء کارنامہ ہے، یہ آپ کی خانوادہ ٔ عصمت و طہارت سے بے پناہ عقیدت کا بین ثبوت بھی ہے ، اس میں جہاں حق کی حمایت دیدہ زیبی اور عرق ریزی سے کی گئی ہے وہیں باطل اور باطل پرستوں کے کریہہ چہروں سے نقاب کشائی بھی نہایت سلجھے اور موثر انداز میں کی گئی ہے۔ ظاہر ہے جس کتاب میں حقائق و معارف کا سمندر موجزن ہو اس کا ترجمہ دنیا کی ہر ترقی یافتہ زبان میں ہونا چاہئے تاکہ یہ انوکھا پیغام مودت دنیا کے گوشے گوشے میں عام ہوسکے

یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اصل کتاب الغدیر گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے لیکن کتاب کی ضخامت اور اردو داں حضرات کی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے گیارہ جلدوں کو چھ جلدوں میں شائع کیاگیاہے، پہلی جلد جداگانہ طور پر شائع ہوئی ہے جس میں صرف حدیث غدیر سے متعلق بحث و گفتگو ہوئی ہے ، شروع میں مترجم الغدیر ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری کی اجمالی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق علماء کے تاثرات بھی موجود ہیں جنہیں گوشۂ شعور کے عنوان کے تحت شامل کیاگیاہے ، بہت سے علماء نے کتاب اور مؤلف و مترجم الغدیر کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیاہے جن میں سرکار شمیم الملة مولانا سید شمیم الحسن ، آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد ، استاد الاساتذہ مولانا محمد شاکر امروہوی ، مولانا سید احمد حسن ، مولانا سید محمد جابر جوراسی، مولانا ناظم علی خیرآبادی ، مولانا نیاز علی ، مولانا سید ممتاز علی اور مولانا سید ضمیر الحسن شامل ہیں۔ متذکرہ علماء نے مترجم الغدیر کی علمی و ادبی حیثیت کو بیان کرنے کے بعد عہد حاضر میں اس کتاب کی شدید ضرورت پر روشنی ڈالی ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ مترجم الغدیر نے اس عظیم کتاب کو اردو زبان میں منتقل کرکے عالم تشیع پر بہت بڑا احسان کیاہے۔

یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ یہ کتاب اب تک دو مرتبہ شائع ہوچکی ہے ، جسے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پہلے ایڈیشن کی تمام کاپیاں بہت جلد ختم ہوگئیں ، پہلی مرتبہ قم ایران سے قرآن و عترت فائونڈیشن نے شائع کیا اور اس کے چھ مہینے بعد پاکستان سے بھی شائع ہوئی اور اب تیسری مرتبہ ہندوستان سے شائع ہورہی ہے ،اس سلسلے میں ہمیں آپ کے کسی بھی طرح کے تعاون کی شدید ضرورت ہے ، خدا سے دعا ہے کہ ہندوستان میں بھی اس کتاب کا اسی طرح استقبال ہو جس طرح ایران اور پاکستان میں ہوا تھا[2]۔

حواله جات

  1. الغدير في الكتاب والسنة والأدب- شائع شدہ از: 1 جون 1994ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2025ء
  2. غدیر، قرآن،حدیث اور ادب میں- شائع شدہ از:4 اگست 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2025ء