مندرجات کا رخ کریں

علی بن الحسین (علی اکبر)

ویکی‌وحدت سے
علی بن الحسین (علی اکبر)
تاریخ ولادت11 شعبان33 ق
جائے ولادتمدینہ
شهادت61 ہجری
القاب
  • شبیہ پیمبر
والد ماجدامام حسین علیہ السلام
والدہ ماجدہام لیلی
مدفنکربلا عراق

علی بن الحسین (علی اکبر) امام حسین (ص) کا سب سے بڑا بیٹا تخلیق ، اخلاقیات، کردار اور گفتار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ ملتا جلتا تھا۔ اس کی بہادری ، مذہبی اور سیاسی بصیرت ، شجاعت اور خاص طور پر عاشورہ کے دن سرزمین میں جلوہ گر ہوئی ۔ آپ کربلا میں تقریبا 25 سال کا تھا۔ روز عاشور آپ بنی ہاشم کا پہلا شہید تھے۔

ولادت

جناب علی اکبر ؑ کی تاریخ ولادت کو ۱۱ شعبان سن ۳۳ ہجری قمری قرار دیا ہے[1]۔ حضرت علی اکبر (ع) بن ابی عبد اللہ الحسین (ع) 11 شعبان سن43 ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے [2]۔

حضرت علی اکبر ؑ امام حسین ؑ کے فرزند ارجمند ہیں آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی وجہ سے آپ کی عمر شریف بھی معلوم نہیں ہے۔ اکثر مورخین نے صرف کربلا کے مصائب بیان کرتے ہوئے آپ کے حالات کا تذکرہ کیا ہے اور فقط آپ کی شہادت کے واقعہ کو بیان کیا ہے [3]۔

آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جو کہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں [4]۔

اس طرح علی اکبر (ع) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوئے تھے

آپ والد کی طرف سے طایفہ بنی ہاشم سے کہ جس میں پیغمبر اسلام (ص) حضرت فاطمہ (س) ، امیر المؤمنین علی بن ابیطالب (ع) اور امام حسن (ع) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ہمسر رسول خدا (ص) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی

اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے۔ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلیے کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلیے سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین (ع) ہے کہ اسکا نانا رسول خدا (ص) ہے اور اس میں بنی ہاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے [5]۔

حضرت علی اکبر (ع) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم (ص) سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام (ص) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا تھا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المؤمنین علی (ص) سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے [6]۔

تربیت

حضرت علی اکبر (ع) نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب (ع) کے مکتب اور اپنے والد امام حسین (ع) کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کر کے رشد و کمال حاصل کر لیا۔ امام حسین (ع) نے ان کی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے بھرپور کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خود کو روک نہ پاتا تھا۔

بہر حال ، حضرت علی اکبر (ع) نے کربلا میں نہایت مؤثر کردار نبھایا اور تمام حالات میں امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور دشمن کے ساتھ شدید جنگ کی [7]۔ قابل ذکر ہے کہ حضرت علی اکبر (ع) عرب کے تین معروف قبیلوں کے ساتھ قربت رکھنے کے باوجود عاشور کے دن یزید کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے دوران اپنے نسب کا بنی امیہ اور ثقیف کی طرف اشارہ نہ کیا ، بلکہ صرف بنی ہاشمی ہونے اور اہل بیت (ع) کے ساتھ نسبت رکھنے پر افتخار کرتے ہوئے یوں رجز خوانی کرتے تھے :

أنا عَلي بن الحسين بن عَلي نحن و بيت الله اَولي بِالنبيّ

أضرِبكُم بِالسّيف حتّي يَنثني ضَربَ غُلامٍ هاشميّ عَلَويّ

وَلا يَزالُ الْيَومَ اَحْمي عَن أبي تَاللهِ لا يَحكُمُ فينا ابنُ الدّعي

عاشور کے دن بنی ہاشم کا پہلا شہید حضرت علی اکبر (‏ع) تھے اور زیارت معروفہ شہداء میں بھی آیا ہے :

السَّلامُ عليكَ يا اوّل قتيلٍ مِن نَسل خَيْر سليل [8]۔

میدان جنگ میں

حضرت علی اکبر (ع) نے عاشور کے دن دو مرحلوں میں عمر سعد کے دو سو سپاہیوں کو ہلاک کیا اور آخر کار مرّہ بن منقذ عبدی نے سر مبارک پر ضرب لگا کر آنحضرت کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد دشمن کی فوج میں حوصلہ آيا اور حضرت پر ہر طرف سے حملہ شروع کر کے شہید کر دیا۔ امام حسین (ع) انکی شہادت پر بہت متاثر ہوئے اور انکے سرہانے پہنچ کر بہت روئے اور جب خون سے لت پت سر کو گود میں لیا ، فرمایا: عَلَي الدّنيا بعدك العفا [9]۔

شہادت

شہادت کے وقت حضرت علی اکبر (ع) کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ـ بعض نے 18 سال ، بعض نے 19 سال اور بعض نے 25 سال کہا ہے [10]۔ مگر یہ کہ امام زین العابدین (ع) سے بڑے تھے یا چھوٹے اس پر بھی مورخوں اور سیرہ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے ـ البتہ امام زین العابدین (ع) سے روایت نقل کی گی ہے کہ جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ سن کے اعتبار سے علی اکبر (ع) سے چھوٹے تھے ـ امام زین العابدین (ع) نے فریایا ہے:

کان لی اخ یقال لہ علی ، اکبر منّی قتلہ الناس ـ ـ ـ میرے ایک بڑے بھائی تھے، جنکا نام علی تھا کہ جنکو لوگوں ( شامیوں ) نے قتل کر دیا تھا۔

[11]۔

شبیہ رسول اللہ

علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشابہ تھے آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے تھے۔ اور جب بھی اہلبیت علیہم السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار کیا کرتے تھے۔ آپ عالم ، پرہیزکار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:

سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست، ۔۔۔کتنا عظیم ہے آپ کا مقام، اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی مجاہدت کی قدر دانی کی اور اجر و پاداش میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا۔ اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔ جیسا کہ اس [خدا] نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے۔

علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم بہ قدم رہے۔ مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع [انا للہ و انا الیہ راجعون] جاری تھا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:

جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ بنی ہاشم میں سے پہلے میدان کارزار میں جانے والے جناب علی اکبر ہیں۔ جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا:

بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کیا کرتے تھے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی اور فرمایا: پروردگارا زمین کی برکات ان سے چھین لے اور ان کی چند روزہ زندگی میں ان کے درمیان تفرقہ پیدا کر دے اور ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کی جان پر ڈال دے۔

اور ان حکمرانوں کو ان سے راضی نہ کر۔ اس لیے کہ اس گروہ نے ہمیں دعوت دی کہ ہماری نصرت کریں لیکن ہمارے مقابلہ میں جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے۔ جس طریقے سے تم نے ہمارے ساتھ رشتہ کو کاٹا ہے۔ اور ہمارے رسول خدا [ص] کے ساتھ رشتہ کی رعایت نہیں کی۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:

إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ* ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ ایسی ذریت ہے جو بعض کی نسل میں سے بعض ہیں۔ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔"

جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں۔ مولا نے اجازت دی اہل حرم سے الوداع ہوئے تاریخ خاموش ہے کہ جناب علی اکبر بیبیوں سے کیسے رخصت ہوئے مگر میرا تصور یہ کہتا ہے کہ ایک کڑیل جوان کو مقتل میں جانے کے لیے ماؤں بہنوں نے کیسے رخصت کیا ہو گا؟ جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ جناب لیلی نے بیٹے کی رخصتی کے وقت کیسے اسے باہوں میں لیا ہو گا اور کیسے بین کیے ہوں گے۔ بہن سکینہ نے بھائی کو قتلگاہ بھیجتے ہوئے کیسے الوداع کیا ہو گا؟ یہ ایسا منظر ہے جسے الفاظ کے قالب میں بند نہیں کیا جا سکتا ہر باپ ماں اور بہن اس کا بخوبی تصور کر سکتے ہیں اور اپنے احساسات کے دائرے میں اس کی منظر کشی کر سکتے ہیں۔

آخر کار جناب علی اکبر علیہ السلام خیموں سے رخصت ہوئے اور میدان کارزار میں روانہ ہوئے اس حال میں کہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:

انَا عَلىُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ عَلى‏ نَحْنُ وَبِيْتُ اللَّهِ اوْلى بالنَّبِى‏

اطْعَنُكُمْ بالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنى‏ اضْرِبُكُمْ بالسَّيْفِ احْمى‏ عَنْ ابى‏

ضَرْبَ غُلامٍ هاشِمِىٍّ عَرَبى‏ وَاللَّهِ لا يَحْكُمُ فينَا ابْنُ الدَّعى‏

میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔ اس قدر نیزے سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ ٹیرا ہو جائے اور اس قدر تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تا کہ اپنے بابا کا دفاع کر سکوں۔ ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہم پر حکومت نہیں کر سکتے۔

آپ نے اپنے شجاعانہ حملوں کے ساتھ دشمن کی صفوں کو چیر دیا اور ان کی چیخوں کو بلند کر دیا۔ نقل ہوا ہے کہ جناب علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں ایک سو بیس دشمنوں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد اس حال میں کہ زخموں سے چھلنی تھے اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا: اے بابا پیاس ہلاک کیے جا رہی ہے اور اسلحہ کی سنگینی مجھے زحمت میں ڈالے ہے کیا پانی کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ تا کہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لیے کچھ طاقت حاصل ہو جائے۔

امام علیہ السلام نے گریہ کیا اور فرمایا: بیٹا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، علی علیہ السلام اور تمہارے بابا پر بہت سخت ہے کہ آپ پکاریں اور ہم جواب نہ دے سکیں۔ آپ مدد چاہیں اور ہم مدد نہ کر سکیں۔ بیٹا اپنی زبان کو میری زبان میں دے دو، کہا: بابا اس میں مجھ سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں، فرمایا: یہ انگوٹھی لے لو اور اسے اپنے منہ میں رکھ لو اور دشمن کی طرف واپس چلے جاو ۔ انشاء اللہ جلدی ہی آپ کے جد امجد جام کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی پیاسے نہیں ہو گے۔

جناب علی اکبر میدان کی طرف پلٹ گئے اور پھر رجز پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے: جنگ کے حقائق آشکارا ہو گئے اس کے بعد سچے شاہد اور گواہ ظاہر ہوئے اس خدا کی قسم جو عرش کا پیدا کرنے والا ہے میں تمہارے لشکر سے دور نہیں ہوں گا جب تک کہ تلواریں غلاف میں نہ چلی جائیں۔ آپ نے سخت اور لاجواب جنگ کی اور 80 شامی یزیدیوں کو مزید ہلاک کر دیا اور آخر کار منقذ بن مرّہ عبدی کی کڑی ضربت کار آمد ثابت ہوئی دشمنوں نے اطراف میں حلقہ ڈال دیا اور تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

بعض روایات میں ہے کہ ضربت کھانے کے بعد آپ نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈالا اور گھوڑا وحشت کا مارا ہوا آپ کو دشمن کے لشکر کی طرف لے گیا اور انہوں نے اپنی تلواروں سے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے آخری لمحوں میں اپنے بابا کو آواز دیتے ہوا کہا: بابا جان یہ جد امجد رسول خدا [ص] ہیں جو جام کوثر لیے کھڑے ہیں کہ اس کے بعد اب مجھے پیاس نہیں لگے گی، اور کہا: بابا جان آپ بھی جلدی سے آئیے آپ کا جام بھی آپ کے انتظار میں ہے۔

آواز سنتے ہی امام علیہ السلام میدان کی طرف دوڑ پڑے اور جناب علی اکبر کے بدن کے کنارے بیٹھ گئے اپنا چہرہ آپ کے چہرے پر رکھا اور کہا: خدا نابود کرے اس قوم کو جس نے آپ کو قتل کیا ہے۔ کس چیز نے حرمت خدا اور پیغمبر کو توڑنے کی جرات دی ؟ اے بیٹا اب آپ کے بعد اف ہو اس دنیا پر۔ روایت میں نقل ہوا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا گریہ و فغاں کے عالم میں یہ کہتی ہوئی آئیں: "اے میرے دل کے چین، اے میرے بھتیجے" اور اس ٹکڑے ٹکڑے بدن پر اپنے آپ کو گرا دیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن کو واپس خیموں میں لوٹا دیا۔

امام حسین علیہ السلام نے بنی ہاشم کے جوانوں کو بلایا اور فرمایا: علی اکبر کے بدن کو خیموں کی طرف لے چلو۔ اس سلسلے میں کہ جناب علی اکبر کی ماں جناب لیلی کربلا میں موجود تھیں یا نہیں تاریخ کی مشہور کتابوں میں اسکا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ صرف صاحب " ذخیرۃ الدارین" نے لکھا ہے کہ علی اکبر علیہ السلام کی ماں روز عاشور کو ان کے لیے دعا کر رہی تھیں[12]۔

  1. حضرت علی اکبر (ع) کی ولادت اور عمر کے بارے میں مختصر تحقیق-شائع شدہ از: اپریل 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 فروری 2025ء۔
  2. مستدرك سفينه البحار (علي نمازي)، ج 5، ص 388
  3. محمد بن جریر طبرى، تاریخ الملوک و الامم، ج 5، ص 446. شیخ مفید ارشاد، ج 2، ص 135.
  4. أعلام النّساء المؤمنات (محمد حسون و امّ علي مشكور)، ص 126؛ مقاتل الطالبيين (ابوالفرج اصفهاني)، ص 52
  5. منتهي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 373 و ص 464
  6. منتهي الآمال، ج1، ص 373
  7. الارشاد (شيخ مفيد)، ص 459
  8. منتهي الآمال، ج1، ص 3
  9. منتهي الآمال، ج1، ص 375
  10. الارشاد، ص 458 منتهي الآمال، ج1، ص 375
  11. نسب قريش (مصعب بن عبدالله زبيري)، ص 85، الطبقات الكبري محمد بن سعد زهري)، ج5، ص 211
  12. ولادت ہمشکل پیغمبر، محمد ثانی، شہزادہ حضرت علی اکبر علیہ السلام- شائع شدہ از: 8 مئی 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 فروری 2025ء۔