ابومحمد جولانی
ابومحمد جولانی | |
---|---|
دوسرے نام | احمد حسین شرع |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1982 ء، 1360 ش، 1401 ق |
پیدائش کی جگہ | ریاض سعودی عرب |
مذہب | اسلام، سنی |
مناصب | امیر تحریر الشام اور جبھۂ النصرۂ |
ابو محمد جولانی احمد حسین شرع (عربی: أحمد حسين الشرع) جو جبہۃ النصرہ کے بانی ہیں۔ اس کا عرفی نام الجولانی گولان کی پہاڑیوں سے مراد ہے وہ علاقہ جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس سے اس کے اسرائیل سے تعلق کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ اپنے جنگی نام ابو محمد جولانی (عربی: أبو محمد الجولاني) سے معروف ہیں، ایک شامی (سوری) عسکریت پسند راہنما ہیں جو حال میں جنگجو گروہ تحریر الشام کے سپہ سالار (امیر) ہیں. 2016ء میں القاعدہ سے اعلانِ برات کرنے سے قبل جولانی القاعدہ کی شامی شاخ جبہۃ النصرہ (شام کی فتح کے لیے محاذ) کے امیر رہ چکے تھے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے مئی 2013ء میں جولانی کو عالمی دہشت گرد قرار دیا۔ چار سال بعد ان کو پکڑنے کے لیے معلومات فراہم کرنے والے کو دس ملین امریکی ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا۔ "جولانی" کی نسبت مرتفعاتِ جولان کی طرف ہے، جو ان کے جنگی نام کا حصہ ہے۔ 1967ء میں مرتفعاتِ جولان کے اکثر حصہ پر اسرائیل نے چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ جولانی نے 28 ستمبر 2014ء کو ایک آڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ "امریکا اور اس کے اتحادیوں" سے لڑیں گے اور اپنے جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں مغرب کی مدد قبول نہ کریں۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ شام کی جنگ سے پہلے عراق میں موجود تھا اور امریکی افواج کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ جولانی ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک فوجی کمانڈر، ایک مذہبی رہنما اور ایک سیاست دان کے طور پر کام کرتا ہے۔
سوانح عمری
ابو محمد الجولانی 1982ء میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اسد خاندان کے معاشی مشیر تھے اور اسی وجہ سے ابو محمد اور ان کا خاندان دمشق چلے گئے جب وہ بچپن میں تھے۔ وہ وہاں آرام دہ زندگی گزارتے تھے اور سرمایہ داروں کے محلے میں رہتے تھے۔ جولانی خاندان سیکولر تھا۔ جب وہ جوان تھا تو اسے شام میں ایک علوی لڑکی سے محبت ہو گئی۔
جولانی کی اس لڑکی کے ساتھ شادی کی اس کے گھر والوں نے سخت مخالفت کی اور جولانی کے ذہن پر منفی تاثر چھوڑا۔ اس مسئلے کا ایک ایسے وقت میں ہونا جب الجولانی کی شخصیت پروان چڑھ رہی تھی اس نے ان پر بہت برا اثر ڈالا اور اس کی وجہ سے وہ فرقہ وارانہ تقسیم کے مسئلے پر خاصی توجہ مرکوز کرنے لگے۔ اس نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد القاعدہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ کئی سالوں تک اسامہ بن لادن کا شاگرد اور عاشق رہا۔
لیکن کچھ عرصے بعد اسے ابو مصعب الزرقاوی سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ عراق امریکہ جنگ شروع ہوتے ہی وہ موصل چلا گیا۔ وہاں، اس نے سرایا المجاہدین گروپ میں شمولیت اختیار کی، جو عراق کے صوبے موصل میں ایک چھوٹا اور فعال شدت پسند گروپ تھا۔ انہیں 2004ء میں قید کیا گیا تھا۔ جیل میں ان کی تکفیری گروہوں کے عمائدین سے ملاقات ہوئی اور جیل سے رہائی کے بعد اس نے سلفی تکفیری تحریک کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔
یہ خاندان 1967ء میں چھ روزہ جنگ کے دوران گولان کے علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے بعد بے گھر ہو گیا تھا۔ جولانی کے والد ایک عرب قوم پرست طالب علم تھے جو شام میں ناصریت پسندوں کے لیے سرگرم تھے۔ انہیں 1961ء اور 1963ء کی بغاوتوں کے بعد شروع ہونے والی ناصریت مخالف کارروائیوں کے دوران شامی بعثیوں نے قید کیا، جس میں متحدہ عرب جمہوریہ میں ٹوٹ گئی اور عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔
ان کے والد بعد میں 1971ء میں عراق میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے لیے جیل سے فرار ہو گئے۔ اس عرصے کے دوران، انہوں نے تنظیم آزادی فلسطین کی فدائیوں فلسطینیون کے ساتھ تعاون کے لیے اردن کا سفر بھی کیا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں شام واپس آئے تو جولانی کے والد تو دوبارہ قید کر دیا گیا۔
سرگرمیاں
شام کی جنگ میں کلیدی کردار؛ جولانی شام کی خانہ جنگی کے اہم ترین اداکاروں میں سے ایک رہے ہیں اور ان کے فیصلوں کا اس جنگ کے دوران براہ راست اثر پڑا ہے۔ مبہم اور متنازعہ شناخت؛ جولانی کی مبہم شناخت اور متنازعہ کردار نے انہیں شام کی جنگ کی سب سے پرکشش اور متنازعہ شخصیات میں سے ایک بنا دیا ہے۔ ایک طاقتور گروپ کی قیادت؛ جولانی کی قیادت میں تحریر الشام شام میں سب سے طاقتور باغی گروپ بن چکا ہے۔
جبہۃ النصرہ کا قیام
2011ء میں الجولانی نے شام میں داعش کی شاخ قائم کرنے کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے جبہۃ النصرہ کے نام سے ایک گروپ کی تشکیل کی نگرانی کی۔ یہ گروپ ابوبکر البغدادی کی قیادت میں داعش کی شامی شاخ کے طور پر کام کرتا تھا، اور البغدادی نے جنگجو، ہتھیار اور رقم فراہم کرکے الجولانی کی مدد کی۔ جنوری 2012ء میں الجولانی کو النصرہ فرنٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی امریکی محکمہ خارجہ نے جبہۃ النصرہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے عراق میں القاعدہ کے لیے ایک نیا عرفی نام سمجھا، جسے اسلامک اسٹیٹ آف عراق یا آئی ایس آئی ایس بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 2012ء میں جبہۃ النصرہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام کے سب سے طاقتور باغی اور تکفیری گروہوں میں سے ایک بن گیا اور اسے اس ملک میں القاعدہ کی سرکاری شاخ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
جبہۃ النصرہ نے شامی حکومتی فورسز کے خلاف وسیع فوجی آپریشن کیا اور بڑے علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ 2016ء میں جبہۃ النصرہ نے باضابطہ طور پر القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا نام تبدیل کر کے تحریر الشام رکھ لیا۔ یہ علیحدگی بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے اور کچھ سلفی اور بنیاد پرست گروہوں کی مزید حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے کی گئی۔ الجولانی کی قیادت میں تحریر الشام ایک پیچیدہ اور طاقتور تنظیم بن گئی جو فوجی کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی شعبوں میں بھی سرگرم تھی۔ ایک متوازی حکومتی ڈھانچہ بنا کر، اس گروپ نے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں شامی حکومت کی جگہ لینے کی کوشش کی۔
جبہۃ النصرہ کے ساتھ عہد کو توڑنا اور القاعدہ سے وفاداری
اپریل 2013ء میں، البغدادی نے جبہۃ النصرہ النصرہ کو تحلیل کرنے اور ISIS حکومت میں ایک ذیلی گروپ کے طور پر اس کی حیثیت کو کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام نے جبہۃ النصرہ کے تمام رہنماؤں اور فیصلوں کو ابوبکر البغدائی کے کنٹرول میں کر دیا۔ الجولانی نے اختلاف کیا اور القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری سے بیعت کی، جس نے الجولانی کی اپنے گروپ کو ایک آزاد ادارے کے طور پر رکھنے کی درخواست منظور کر لی۔
تحریر الشام کی قیادت
ابو محمد الجولانی معروف شخصیت اور تحریر الشام کے سرکاری رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لیکن اس گروپ کا ڈھانچہ پیچیدہ ہے اور اس میں کئی لیڈر شپ کونسلز اور فوجی کمانڈر شامل ہیں۔ یہ کونسلیں میکرو اور اسٹریٹجک فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اہم افراد بھی مختلف مقامات پر تحریر الشام کی قیادت میں شامل ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
- شریعہ کونسل: یہ کونسل اسلامی قوانین کی تشریح اور فتوے جاری کرنے کی ذمہ دار ہے۔
- ملٹری کونسل: یہ کونسل فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور نفاذ کی ذمہ دار ہے۔
- اعلیٰ فوجی کمانڈر: یہ کمانڈر تحریر الشام کے زیر کنٹرول مختلف علاقوں میں کام کرتے ہیں اور ان علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے ذمہ دار ہیں۔
حلب واپسی
29 نومبر 2024ءکو، 9 دسمبر 1403 ہجری کے برابر، تحریر الشام کی افواج نے حلب پر حملہ کیا جب کہ نئے آلات جیسے خود مختار ڈرون اور یہاں تک کہ ان کے کپڑے بھی پہلے سے مختلف تھے، اور وہ حلب کے بہت سے حصوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس پر قبضہ کرنا یہ حملہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے چند روز بعد ہوا ہے اور تحریر الشام کے لیے اسرائیل کی حمایت کے شکوک و شبہات کو تقویت ملی ہے۔
جولانی فورسز کو 8 سال قبل شامی فوج، ایرانی فوج، روسی فضائیہ، حزب اللہ فورسز اور مزاحمتی محاذ کی دیگر فورسز نے حلب سے باہر دھکیل کر ادلب میں داخل کیا تھا۔ تاہم، حلب میں تحریر الشام فورسز کی موجودگی کے چند گھنٹے بعد، وہ 9 دسمبر کی شام کو ایک کار میں حلب میں داخل ہوا تاکہ جنگ کو قریب سے آگے بڑھا سکے۔
شام پر حملہ
ابو محمد جولانی کی قیادت میں شامی وفد کی آمد کے بعد شام پر حملہ 29 نومبر 2024 کو حلب شہر سے شروع ہوا جو شامی عرب فوج کے زیر کنٹرول تھا۔ یہ لڑائی باغیوں کے زبردست حملے کے تیسرے دن شروع ہوئی۔
نظریہ
سلفی جہادی نظریہ: الجولانی اور تحریر الشام سلفی جہادی نظریہ پر کاربند ہیں۔ یہ نظریہ اسلام کی ظاہری اور سخت تشریح پر زور دیتا ہے، اور اس کا ہدف پوری دنیا میں اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد پر تاکید: جولانی اور تحریر الشام مغربی حکومتوں اور سیکولر عرب حکومتوں سمیت اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کو فرض سمجھتے ہیں۔ اسلامی ریاست کے قیام کی کوششیں: الجولانی کی قیادت میں تحریر الشام نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسلامی شریعت کے قوانین کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کی ہے۔ عہدوں میں تبدیلیاں: جولانی نے اپنی سالوں کی سرگرمی کے دوران بعض اوقات اپنے عہدوں اور انداز میں تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں میدان میں ہونے والی پیش رفت، بین الاقوامی دباؤ، یا اندرونی گروہی وجوہات کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ شخصیت کی پیچیدگی: جولانی ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک فوجی کمانڈر، ایک مذہبی رہنما، اور ایک سیاست دان کے طور پر کام کرتا ہے، اور اپنے پیروکاروں کے لیے ایک دلچسپ رہنما ہے۔
مارے جانے کی خبریں پر ردعمل
- فلسطینی خبر رساں ایجنسی ساما نے اسرائیلی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ روسی جنگجوؤں کے حملے میں تحریر الشام گروپ (النصرہ فرنٹ) کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
- بقول عصر ایران؛ قبل ازیں عراق کے احد ٹی وی سمیت بعض مزاحمتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ تحریر الشام گروپ کے کمانڈر ابو محمد الجولانی کے گھر پر روسی اور شامی فوج کے جنگجوؤں کے حملے کی اطلاعات ہیں۔
- بعض میڈیا نے ایک غیر مصدقہ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جولانی کے ساتھ ترکی اور یوکرین کے سینئر انٹیلی جنس افسران بھی بم دھماکے کی جگہ پر موجود تھے۔
- دوسری جانب خصوصی خبر رساں ذرائع نے روسی خبر رساں ایجنسی سپوتنک کو بتایا ہے کہ ادلب میں النصرہ فرنٹ کے ہیڈ کوارٹر جہاں ابو محمد الجولانی کو اس کا لیڈر مانا جاتا ہے، پر بمباری کی گئی۔
- اس نیوز چینل نے مزید کہا: تحریر الشام کمیٹی کے سیکورٹی دفتر نے تباہ شدہ ہیڈکوارٹر کے گرد ایک مضبوط حفاظتی پٹی بنائی ہے اور اس گروہ کے عناصر اور عام شہریوں کو اس جگہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔
- عراقی النجباء نیٹ ورک نے دمشق کے ایک اعلیٰ سیکورٹی اہلکار کا بھی حوالہ دیا جس نے اپنا نام نہیں بتایا اور مزید کہا: چند منٹ قبل احرار الشام گروپ کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔
تحریر الشام کا بیان
تحریر الشام کے سرکاری میڈیا نے اعلان کیا: جبہت النصرہ اور تحریر الشام کی عسکری افواج کے کمانڈر انچیف ابو محمد الجولانی کو کل رات روسی فوج کے پہلے سخوئی 34 سکواڈرن نے ہلاک کر دیا۔ فضائیہ مارٹر بموں کا استعمال کر رہی ہے۔
شام میں حالیہ بغاوت کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے
اس حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ سے اس کے اندر تھے: جولانی کا نامعلوم مقام سے امریکی میڈیا کو انٹرویو. شامی باغی گروہ حیات التحریر کے سربراہ نے کہا ہےکہ شام میں حالیہ بغاوت کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے۔ شام کے ایک نامعلوم مقام سے امریکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی گروہ حیات التحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے کہا کہ ان کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے۔
جولانی نے کہا کہ اس حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ سے اس کے اندر تھے، ایران نے اس حکومت کو بحال کرنے اور اس کے لیے مزید وقت لینے کوشش کی جب کہ روس نے بھی اسے سہارا دینے کی کوششیں کی مگر حقیقت یہی ہے کہ اس حکومت کی موت ہوچکی ہے۔ باغی لیڈر نے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے جیسے ہی موجودہ حکومت گر ے گی تو غیر ملکی افواج کی شام میں ضرورت نہیں رہے گی۔
واضح رہےکہ ماضی میں القاعدہ سے منسلک اس شامی باغی گروپ نے کچھ دن قبل اپنی کارروائیاں تیز کرتےہوئے پہلے شام کے اہم اور تاریخی شہر حلب پر قبضہ کیا جب کہ گزشتہ روز حیات التحریر الشام کے جنگجو حماہ شہر میں داخل ہوئے اور صدر بشار کی فوج کو شہر چھوڑنے پر مجبور کیا