عید قربان
عید قربان یا عید الاضحی (10 ذوالحجہ) مسلمانوں کی بڑی عیدوں میں سے ہے۔ احادیث کے مطابق اس دن خدا کی طرف سے حضرت ابراہيم خلیل اللہ کیلئے اسماعيل ذبیح اللہ کی قربانی پیش کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو قربان گاہ کی طرف لے گیا اور قربانی کی قصد سے جب اس کی گردن پر چھری پھیرنا چاہا تو خدا نے جبرئيل کے ساتھ ایک مینڈھے کو بھیجا اور حضرت ابراہیم نے اسماعیل کے بدلے اس کی قربانی دی۔ اس دن سے آج تک اس واقعے کی یاد میں ادیان ابراہیمی کو ماننے والے قربانی کی اس سنت پر عمل کرتے ہیں اور بیت اللہ الحرام کی زیارت یعنی حج پر مشرف ہونے والے حاجیوں پر منا میں معین شرایط کے ساتھ قربانی دینا واجب ہے اور یہ حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے۔ عید کے دن اور رات کو احادیث میں بہت سارے اعمال وارد ہوئی ہیں جن میں عید کی رات کو شب بیداری کرنا دعا و مناجات اور نماز میں مشغول رہنے کی بہت زیادہ فضیلت ذکر ہوئی ہے۔ جبکہ عید فطر کی طرح اس دن بھی روزہ رکھنا حرام ہے۔ تقریبا تمام اسلامی ممالک میں عید قربان کے دن سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے اور مسلمان اس دن جشن مناتے ہیں۔
مناسک حج میں اس دن کے مخصوص اعمال
عید کے دن حاجی صبح سرزمین منا میں چلے جاتے ہیں اور اس دن درج ذیل اعمال انجام دیتے ہیں:
- رمی جمرات
- قربانی
- حلق و تقصیر [1]
اہل سنت کے الفاظ میں عیدالاضحی
عید الاضحی کو دس ذی الحجہ کے دن منایا جاتا ہے اور یہ دونوں عیدوں میں افضل عید ہے اور حج کے مکمل ہونے کے بعد آتی ہے۔ جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تو اللہ تعالٰی انہیں معاف کر دیتا ہے۔ اس لیے حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پر ہوتی ہے جو حج کاایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی ہر شخص کوآگ سے آزادی دیتے ہیں عرفات میں وقوف کرنے والے اور دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزادی ملتی ہے۔
- یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہے : حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالٰی نے زاد المعاد میں کہتے ہیں : اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اور بہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی ) کا دن ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے۔ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے ) [2]
- یہ حج اکبر والا دن ہے :عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حج کے دوران میں جوانہوں نے کیا تھایوم النحر( عید الاضحی ) والے دن جمرات کے درمیان میں کھڑے ہوکرفرمانے لگے یہ حج اکبر والا دن ہے۔ [3]
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں [4]۔
قربانی کی سنت تاریخ کے آئینے میں
حضرت ابراہیم خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی پر مامور ہوئے اور عید قربان کے دن آپ نے خدا کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اسماعیل کو سرزمین منا میں قربانی کیلئے لے گئے۔ جب منا میں جمرہ اول کے مقام پر پہنچا تو شیطان ان کے سامنے ظاہر ہوا اور حضرت ابراہیم کو ورغلانے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم نے سات پتھر مار کر اسے بھگایا اسی طرح جمرہ دوم اور سوم کے مقام پر یہ عمل تکرار ہوا یوں حضرت ابراہیم کا یہ عمل حج کے اعمال میں شامل ہوا اور آج ہر جاجی پر واجب ہے کہ حج کے دوران اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے شیطان کو کنکریاں ماریں۔
حضرت ابراہیم، اسماعیل کو لے کر قربان گاہ میں پہنچے اور اپنے لخت جگر کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کا مصمم ارادہ کیا اور قربانی کرتے وقت اسماعیل کی پیشانی کو زمین پر رکھا اور تیز چاقو کے ذریعے اسماعیل کا گلا کاٹنے کیلئے اس کی گردن پر چھری پھیری لیکن چھری نے گردن کو نہیں کاٹی۔ جب خدا نے باپ بیٹے کی اخلاص کو دیکھا تو ان کی قربانی کو قبول کیا اور جبرائیل کے ساتھ ایک مینڈھے کو اسماعیل کے بدلے قربانی کیلئے بھیجا یوں حضرت ابراہیم نے اس حیوان کی قربانی خدا کی راہ میں پیش کی یہاں سے قربانی کی سنت مرسوم ہوئی اور آج قربانی کرنا حج کے واجب ارکان میں سے ہے اور دنیا بھر میں مسلمان اپنی بساط کے مطابق اس سنت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں یوں ہر سال اس دن ہزااروں لاکھوں کی تعداد میں حیوانات ذبح کرکے غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں [5].
عید قربان کی شب و روز کے اعمال شیعہ کتب میں
امام صادق اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں: امام علی سال میں چار راتوں میں شب بیداری کرنا پسند فرماتے تھے، ماہ رجب کی پہلی رات، ماہ شعبان کی پندرہویں رات، عید فطر کی رات اور عید قربان کی رات اور یہاں شب بیداری سے مراد عبادات میں مشغول رہنا ہے۔ اسی طرح عید کے دن اور رات میں امام حسین کی زیارت بھی مستحب ہے۔
- غسل کرنا: علامہ مجلسی کے بقول اس دن غسل کرنا سنّت مؤكّدہ ہے یہاں تک کہ بعض علماء اس دن غسل کرنے کو واجب سمجھتے تھے۔
- نماز عید
- دعائے ندبہ: دعائے ندبہ کا اس دن اور دوسرے اعیاد میں پڑھنا مستحب ہے
نمازعید قربان
شیعہ نقطہ نظر سے عید الاضحی کی نماز
یہ نماز امام معصوم کے زمانے میں واجب ہے لیکن امام زمانہ(عج) کی غيبت کے دوران مشہور شیعہ فقہاء کے فتوا کی مطابق مستحب مؤكّد ہے۔ (خواہ جماعت کے ساتھ پڑھی جائے یا فرادا ادا کی جائے)۔
- نماز عید سے پہلے اور بعد میں ماثور دعاوں کا پڑھنا مستحب ہے جن میں سے بہترين دعا صحیفہ سجادیہ کی 48ویں دعا ہے جو ان جملوں سے شروع ہوتا ہے:أللّهُمَّ هذا يَومٌ مُبارَك اسی طرح اسی کتاب کی 46ویں دعا کا پڑھنا بھی مستحب ہے۔ [6]
سنی نقطہ نظر سے عید الاضحی کی نماز
فقہ مالکی [7] اور فقہ شافعی میں یہ سنت مؤکدہ ہے [8]۔ فقہ حنبلی میں یہ فرض کفایہ ہے۔ فقہ حنفی میں ہر مسلمان پر واجب ہے، لہذا ہر مرد پر واجب ہے اور بغیر کسی عذر کے ترک کرنے پر گناہ گار ہوگا، اس متعلق احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ہے، غیر مقلد عالم ابن تیمیہ اور شوکانی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ [9]
بعض علما جن مین حنفیہ اور حنابلہ شامل ہیں نے نماز عیدین کے وجوب کے وجہ سے اقامت اور جماعت شرط رکھی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس میں نماز جمعہ والی شروط ہی ہیں صرف خطبہ نہیں، لہذا خطبہ میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔ جمہور علما کہتے ہیں کہ نماز عیدین کا وقت دیکھنے کے اعتبار سے سورج ایک نیزہ اونچا ہوجانے پر شروع ہوجاتا ہے اور زوال کے ابتدا تک وقت رہتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ عطائی اصفہانی، علی،اسرار حج، ص ۱۲۶-۱۲۳
- ↑ سنن ابوداؤد حدیث نمبر 1765
- ↑ صحیح بخاری حدیث نمبر 1742
- ↑ سنن ترمذی حدیث نمبر 773
- ↑ صافات، آیہ۱۰۴-۱۰۵
- ↑ مجلسی، زادالمعاد، ص ۴۲۶-۴۲۷
- ↑ مواهب الجليل في شرح مختصر الشيخ خليل". مکتبۃ الاسلامیہ. 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019
- ↑ المبدع في شرح المقنع. مکتبۃ الاسلامیہ. 25 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 04 جون 2019
- ↑ صلاة العيدين