مندرجات کا رخ کریں

مجلس خبرگان قانون اساسی

ویکی‌وحدت سے
مجلس خبرگان قانون اساسی
بانی پارٹی
پارٹی رہنماسی
مقاصد و مبانی
  • قانون سازی

مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی مجلسِ بررسیِ نهاییِ قانونِ اساسیِ جمهوریِ اسلامیٔ ایران — جسے اختصاراً "مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی" کہا جاتا ہے — نئی قائم شدہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی پہلی مجلس تھی جس پر اس نظام کے قانونِ اساسی (آئین) کی تدوین اور تصویب کی ذمہ داری عائد تھی۔

تاریخی پس منظر

قانونِ اساسی کی تدوین اپنی موجودہ شکل میں یورپ کی اٹھارویں صدی کی تبدیلیوں سے مربوط ہے۔ انقلابِ کبیرِ فرانس کے بعد 1791ء میں پہلا قانونِ اساسی مرتب کیا گیا، جس میں بعد ازاں متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ یہی قانون دنیا کے دیگر ممالک میں مختلف آئینوں کی تدوین کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ آئین سازی کا سب سے اہم مقصد اُن بادشاہوں اور سلاطین کی طاقت کو محدود کرنا تھا جو معاشرے کے نظم و نسق میں کسی ضابطے یا قانون کے پابند نہ تھے۔ اگرچہ بعض ممالک میں اس سے قبل بھی حکمران طبقہ چند غیر مدوّن ضابطوں کا پابند تھا۔

لیکن تحریری آئین کے فوائد کے باعث مختلف ریاستوں نے سماجی تعلقات کے نظم اور صاحبانِ اقتدار کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے آئین سازی اختیار کی۔ ممالک کی آزادی، انقلاب یا فوجی بغاوت جیسے واقعات بھی آئین کی تدوین یا اس میں تبدیلی کے اہم عوامل شمار ہوتے ہیں۔

ایران اُن اولین ایشیائی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے انقلابِ مشروطہ (1906ء/1285ھ ش) کے بعد آئین مرتب کیا۔ اُس وقت حتیٰ کہ یورپ کے بعض ممالک بھی آئین سے محروم تھے۔ انقلابِ مشروطہ اور مجلسِ شورای ملی کے قیام کے بعد 1285ھ ش میں پہلا آئین تیار ہوا، جو چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نے بلجیم اور فرانس کے آئین سے استفادہ کرتے ہوئے پانچ ابواب اور 51 اصولوں پر مرتب کیا تھا۔ اس میں بنیادی اور عادی مواد ایک ساتھ شامل تھا۔ تاہم اس کی بعض کمزوریوں کے باعث علما اور عوامی نمائندوں پر مشتمل ایک خصوصی ہئیئت مقرر کی گئی تاکہ آئین کی تکمیل کی جائے۔

اس کے نتیجے میں متمم قانونِ اساسی دس ابواب اور 107 اصولوں پر مشتمل تیار ہوا جو مشروطہ خواہانِ مغرب گرا کی مخالفت کے باوجود 1286ھ ش میں مجلس سے منظور ہوا۔ متمم آئین کا سب سے اہم محلِّ اختلاف اس کا اصلِ دوم تھا، جس کے مطابق:"مجتهدین اور فقہا پر مشتمل ایک ہئیئت مجلس کی مصوبات کا جائزہ لے گی تاکہ قوانینِ اسلامی کے مخالف امور کو قانون بننے سے روکا جا سکے، اور یہ اصل ظہورِ حضرت حجت (عج) تک غیر قابلِ تغیّر ہوگا۔"

تاریخِ مشروطہ میں یہ ہئیئت کبھی تشکیل نہ پائی اور مشروطہ سلطنت میں قانون گذاری اور اجرا کا عمل علما کی کسی نگرانی کے بغیر جاری رہا۔ بالآخر رضاخان پہلوی کی جانب سے آئین میں مداخلت کے نتیجے میں ایک استبدادی سلطنت ملک پر مسلط ہوگئی۔ 1304ھ ش میں، آئین کی تدوین کے بیس برس بعد، مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی تاکہ قاجاری سلطنت کے خاتمے اور پہلوی سلطنت کے قیام کا اعلان کیا جائے۔

مجلسِ مؤسسان نے ایک مادہٴ واحدہ منظور کیا جس کے مطابق متمم آئین کی اصول 36، 37 اور 38 منسوخ کر کے ان کی جگہ نئے اصول نافذ کیے گئے۔ اصل 36 کے مطابق: "ایران کی مشروطہ سلطنت ملت کی جانب سے مجلسِ مؤسسان کے ذریعے اعلیحضرت شاہنشاہ رضا شاہ پہلوی کو تفویض کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ ان کی نسلِ ذکور میں پشت در پشت جاری رہے گا۔"

یوں خاندانِ قاجار کو عملاً اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس دور میں آئینِ مشروطہ متعدد تبدیلیوں کا شکار ہوا۔ 1328ھ ش میں دوبارہ مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی اور شاہ کو مجلسِ شورای ملی اور مجلسِ سنا کو تحلیل کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ آئین میں تبدیلی کا طریقہ کار بھی مقرر کیا گیا، جس کے مطابق مجلسِ مؤسسان کی مصوبات کو شاہ کی توثیق کے بعد قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔

بعد ازاں 1346ھ ش میں ایک مرتبہ پھر مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی تاکہ اصول 38 میں ترمیم کی جائے۔ اس ترمیم کے تحت ولیعہد کی والدہ کو "نائب السلطنت" کا خطاب دیا گیا، الاّ یہ کہ شاہ کسی اور شخص کو نائب السلطنت مقرر کریں۔ مزید برآں اصول 41 اور 42 میں بھی تبدیلی کی گئی اور شاہ کی غیر حاضری یا سفر کی حالت میں "شورای سلطنتی" کی تشکیل کو قانونی حیثیت دی گئی۔ بالکل، ذیل میں متن کا **دقیق اور وفادار اردو ترجمہ** پیش کیا جا رہا ہے:

اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کا قیام

ایران کے اسلامی انقلاب کے عروج اور نظامِ شاہنشاہی کے ارکان میں زوال پیدا ہونے کے ساتھ، اور امام خمینیؒ کی جانب سے نظامِ سلطنت اور آئینِ مشروطہ کے دائرے میں رہ کر اصلاحات کی امید کے ختم ہونے کے بعد، سیاسی نظام کی تبدیلی ایجنڈے میں شامل ہو گئی۔ انقلاب کی کامیابی سے چند ماہ قبل ہی انہوں نے اپنے اس ہدف کو علنی کر دیا کہ وہ نظامِ سلطنت کو برچھیند کر ایک اسلامی حکومت اور بالآخر اسلامی جمہوریہ قائم کریں گے، جو حکومت کی شکل بھی ظاہر کرتی ہو اور اس کا مضمون بھی۔

وہ آئینِ مشروطہ کے لیے دو مرحلے کے قائل تھے:پہلا مرحلہ رضاخان کے کودتا سے پہلے کا تھا، جب عوام اسلامی حکومت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی قدرت نہ رکھنے کے باعث قاجاری استبداد و ظلم میں کمی لانے کی نیت سے اس پر آمادہ ہوئے کہ ایسے قوانین وضع کیے جائیں کہ سلطنت مشروطہ بن جائے۔ ان کے نزدیک تمام مباحث کو متممِ قانونِ اساسی کی طرف نسبت دی جا سکتی ہے۔ دوسرا مرحلہ رضاخان کے کودتا کے بعد کا تھا، جب اس نے طاقت، سرنیزے اور جبری اقدامات کے ذریعے آئین کو تبدیل کیا اور ایک مجلسِ مؤسسان زور و جبر سے بنائی، جبکہ ملت کسی بھی طرح اس کی حامی نہ تھی۔

اس بنا پر امام کے نزدیک سلطنتِ پہلوی جو انگریزوں کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی، غیر قانونی تھی۔ حضرتِ امام نے حکومتِ نظامیِ ازہاری کے اس حربے کے جواب میں کہ وہ آئینِ اساسی کو شریعتِ اسلام سے ہم آہنگ اور "تعدیل" کرنا چاہتی ہے، فرمایا: "اگر یہ سچ کہتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو آئینِ اساسی میں اسلام کے خلاف ہے، وہ شاہ کی سلطنت اور اصلِ نظامِ سلطنت ہے۔"

اس مرحلے میں رہبرِ انقلاب نے آئینِ اساسی کو مجموعی طور پر رد نہیں کیا بلکہ فرمایا: "ہم دیکھیں گے، اس کا جو حصہ قانونِ اسلام سے موافق ہوگا اسے باقی رکھیں گے، اور جو حصہ قانونِ اسلام سے مخالف ہوگا اسے ختم کر دیں گے۔"

ان کا مقصد آئین میں اصلاح کر کے اسلامی جمہوریہ کے نظام کا قیام تھا۔ اس موقع پر بعض سیاسی جماعتوں اور چند سادہ لوح مذہبی شخصیات یا نظامِ پہلوی سے وابستہ عناصر نے اپنا نعرہ یہ رکھا کہ "نظامِ سلطنت اور آئینِ مشروطہ کے دائرے میں اصلاحات" جاری رکھی جائیں، اور تحریک اسی دائرے میں آگے بڑھے۔ رژیم کے حامیوں نے بھی اپنی بقا کے لیے ۵ بہمن ۱۳۵۷ کو "طرفدارانِ قانونِ اساسی" کے عنوان سے ایک اعلامیہ جاری کیا، جس میں اعلان کیا کہ وہ آئینِ اساسی اور نظامِ سلطنت کے دفاع میں مظاہرے کریں گے۔

امام خمینیؒ، جو ملت کی حتمی کامیابی کے بارے میں پُرامید تھے اور اس موقع کو تبدیلیٔ نظام کے لیے مناسب سمجھتے تھے، اس نعرے کو انقلاب اور ملت کی راہ سے انحراف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔ انہوں نے اسے بعض سیاسی جماعتوں جیسے جبههٔ ملی ایران، نهضتِ آزادی ایران، اور چند سادہ لوح علما کی طرف سے پیش کی گئی تجویز قرار دیتے ہوئے اسے خیانت سے تعبیر کیا، کیونکہ یہ اقدام ملت کو دلسرد کرتا، تحریک کو موقوف کر دیتا اور اسے ادھورا چھوڑ دیتا۔

اس سے نظامِ استبدادیِ پهلوی کے سرکردہ عناصر کو دوبارہ موقع مل جاتا کہ وہ انقلاب سے بچ نکلیں، اپنی طاقت بحال کریں اور انقلابی قوتوں کو کچل ڈالیں۔ بعد کے مراحل میں امام نے نئے آئین کی تدوین کو ضروری قرار دیا اور ۱۸/۱۰/۵۸ کو ایک انگریز صحافی کے سوال کے جواب میں فرمایا: "ہم اس وقت ایک نیا آئین تیار کر رہے ہیں۔"

چند دن بعد انہوں نے اسلامی جمہوری حکومت کے قانونِ اساسی کے بنیادی خطوط قرآن و سنت میں بیان شدہ "اصولِ مسلمِ اسلام" کو قرار دیا۔ اس طرح سب پر واضح ہو گیا کہ رہبرِ انقلاب اسلامی ایک نئے نظام کے قیام کے درپے ہیں، جس کا قانونِ اساسی بھی نیا ہوگا اور اس کے بنیادی خطوط اسلامی اصولوں پر مبنی ہوں گے۔ دو دن بعد، یعنی ۲۵/۱۰/۵۷ کو، انہوں نے "شورایِ انقلاب" کے قیام کا مقصد ایک عارضی حکومت کا قیام بیان کیا، تاکہ مجلسِ مؤسسان تشکیل دے کر نیا قانونِ اساسی اور دیگر امور کو طے کیا جا سکے۔