مندرجات کا رخ کریں

سلفیہ

ویکی‌وحدت سے

سلفیہ کا دعویٰ ہے کہ ہمیں اپنے سلف و اجداد کے دور میں واپس آنا چاہیے اور اسلام کو مذہب سے ہٹ کر قبول کرنا چاہیے۔ وہ اپنے سوا باقی تمام امت اسلامیہ کو دین سے خارج تصور کرتے اور ان کی تکفیر کے قائل ہیں اور وہ اس طرح دوسرے مسلمانوں کو اسلامی معاشرے سے نکال کر کفار کے حصار میں لے جاتے ہیں۔

سلفیہ کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں؟

سلفیت ایک ناپسندیدہ اور نسبتاً نیا رجحان ہے جو ایک مخصوص انداز میں اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے علاوہ ہر کسی کو کافر سمجھتا ہے۔ ایک ایسا خود غرض فرقہ جو سلف صالحین سے انتساب کا لبادہ اوڑھ کر بے دین ماحول میں اتحاد کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن دراصل اتحاد و وحدت کے مخالف ہے۔ سلفیہ جو کہ وہابیت کی بنیاد ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی "مذہب" موجود نہیں ہے اور اسے سلف کے دور میں ہونا چاہیے۔

یعنی صحابہ کرام، تابعین اورتبعِ تابعین کے دور میں ہونا چاہئے اور اسلام کو بلا مذہب کے اختیار کیا جانا چاہئے۔ وہ اس دعوت پر ہاتھ اٹھاتے اور کہتے ہیں: "آئیں تمام مذاہب کو چھوڑ کر اتحاد کی طرف چلتے ہیں"، لیکن یہی افراد دوسرے ہاتھ سے تکفیر کی تلوار کھینچتے ہیں اور دوسروں کو اسلامی معاشرہ سے نکال کر کافروں کے حصار میں ڈال کر ان میں پھوٹ ڈالتے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ لوگوں کو ان کے مذاہب کو ترک کرنے کی دعوت دینا ناممکن ہے۔ کیونکہ ہر مذہب کے پیروکار آسانی سے اپنے عقائد سے دستبردار نہیں ہوتے اور کسی ایسے نامعلوم اور تاریک مقام کی طرف نہیں جاتے جس کا سلفیت دعویٰ کرتی ہے۔ خاص کر یہ کہ ان کے بقول اس "غیرمذہبی" کی دعوت کے پیچھے درحقیقت ایک قسم کا مذہب چھپا ہوا ہے، بلکہ یہ دعوت بذات خود مذہب کی ایک قسم ہے۔

جمود اور تنگ نظری کے چنگل میں پھنسا ہوا ایسا مذہب جو اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر پیش کرتا ہے جو غیر فعال، بے روح، نامکمل، کمزور اور ناخوشگوار ہے اور تشدد اور تعصب کے جذبے کو زندہ کر کے کسی بھی دوسرے مذہب کے اس کی طرف رجوع کرنے کے راستے کو بند کرتا ہے اور اس کے بجائے تصادم اور شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرتا ہے اور سب کو شمشیر کے استعمال کی جانب کھینچتا ہے [1] ۔

تاریخی پس منظر

جب اصحاب حدیث نے دیکھا کہ معتزلہ اعتقادی اور آیات و احادیث کے معاملے میں عقل کو دخل دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ سلف کی سنت کے خلاف ہے تو احمد بن حنبل اور ائمہ سلف کی ایک جماعت نے اس کام سے اجتناب کرنے کیا اور کہا: "ہم صرف اس چیز پر ایمان لائیں گے جو قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے لیکن اس میں تأویل کئے بغیر"۔

شہرستانی سلفیت کے ظہور کی تاریخی وجہ کے بارے میں کہتا ہے: "علماء حدیث کے پیش رو نے جب دیکھا کہ معتزلہ کس طرح مسائلِ کلامی کی گہرائی میں چلا گئے ہیں اور عقائد کے مسائل میں عقل کو مداخلت دے کر سنتِ سلف کی مخالفت کرتے ہیں۔ لہذا وہ لوگ متحیر ہوئے کہ آیاتِ متشابہہ اور احادیثِ و اخبارِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا کریں؟ تو احمد بن حنبل اور داؤد بن علی اصفہانی اور سلف ائمہ کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا کہ اعتقادی مسائل میں اصحاب حدیث جیسے مالک بن انس اور مقاتل بن سلیمان کی سابقہ روش اور طریقہ کے مطابق عمل کریں۔ انہوں نے کہا: "ہم صرف اس چیز پر ایمان لائیں گے جو قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے لیکن اس میں تأویل کئے بغیر" [2]۔

شیخ عبدالعزیز عزالدین سیروان بھی کہتے ہیں: "ایسا لگتا ہے کہ احمد بن حنبل کے سلفیت سے تمسک کرنے کا اصلی سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے عہد میں فتنہ، خصومت اور کلامی مجادلات کو مشاہدہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس نے عجیب و غریب افکار اور مختلف تہذیب و تمدن کو دیکھاکہ یہ کس طرح اسلامی علمی میدانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ لہذا اس نے (اپنے تئیں) اسلامی عقائد کو بچانے کے لیے شدت پسند سلفیت کی طرف رجوع کیا"[3]۔

حوالہ جات:

(۱). کتاب" سلفی گری و پاسخ به شبهات، علی اصغر رضوانی، انتشارات مسجد مقدس جمکران، چاپ پنجم، ص ۱۰" سے ماخوذ۔

(۲). ملل و نحل، شهرستانی، ص ۹۵ و ۹۶.

(۳). العقیدة للامام احمد بن حنبل، ص ۳۸.

(۴).کتاب" سلفی گری و پاسخ به شبهات، علی اصغر رضوانی، انتشارات مسجد مقدس جمکران، چاپ پنجم، ص 21" سے ماخوذ۔

منبع: آئینِ رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی - دفتر حضرت آیت الله مکارم شیرازی

لغوی معنی

سلف کا لغوی معنی ہوتا ہے "جو گزر چکا ہے" ، اور سلفیہ کا مطلب ہوتا ہے سلفی مکتب فکر کے ماننے والے ، یہ امت محمدیہ کا ایک خاص گروہ ہے جو اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو اس کی اصل اور بنیاد سے لیاجائے اور جو دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کے لئے چھوڑا ہے اس کو حقیقی شکل میں پیش کرکے عوام کو اس سے جوڑا جائے۔ سلفیت کے ماننے والے اسلام کے بنیادی اصول قرآن وحدیث سے اُس طریقہ پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جس طریقہ اور منہج پر ان کے سلف یعنی صحابہ کرام اور ان کے بعد قرون اولی کے علمائ، محدثین اور فقہاء عظام نے امت کے سامنے اسلام کو پیش کیا ہے، یہ معلومات اور مواد بہت سی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے، اور ان کے لکھنے والے مختلف براعظم اور سلطنتوں میں پھیلے ہوئے تھے، جو اسلام کی وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں بس چکے تھے۔ سلفیت کے ماننے والے اجتہاد کے قائل ہیں ، اور کسی خاص امام اور عالم کی تقلید کو اسلام کی روح اور اس کی تعلیمات کے منافی مانتے ہیں۔

اس لئے اس گروہ کو فرقہ کہنا غلط ہے، فرقہ کسی سے نسبت کی بنیاد پر موسوم ہوتا ہے، جیسے حنفی: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ماننے والے ، شافعی: امام شافعی رحمہ اللہ کے ماننے والے، مالکی: امام مالک رحمہ اللہ کے ماننے والے، حنبلی: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ماننے والے۔

سلفیت اور وہابیت میں فرق

کچھ لوگ سلفیت کو وہابیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور امام محمد بن عبد الوہاب نجدی سے اس کی نسبت کرتے ہیں جو سراسر غلط فہمی اور تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اگرچہ محمد بن عبد الوہاب بھی تقریبا یہی نظریہ واعتقاد رکھتے تھے جو سلفی کا نظریہ ہے، مگر کوئی سلفی نہ تو محمد بن عبد الوہاب کا مقلد ہے اور نہ ہی ان کو اپنا امام تصور کرتاہے، سلفی کا عقیدہ ہے کہ اسلام وہی صحیح ہے جس کو اللہ کے رسول محمد صحابہ کرام کے بیچ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے، یہ دین مکمل تھا، اور اس کے ماننے والوں نے اس دین کی برتری کو دنیا کے سامنے ثابت کردیا تھا۔

دنیا کے حالات بگڑے تو اسلام کے ماننے والے بھی بگڑے ، ان کا نظریہ بھی بگڑا اور سوچ و فکر بھی بدلی، حکمرانوں نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے علماء کو استعمال کیا، اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا، تقلید کو ضروری قرار دے کر ایک خاص طرح کے دین کی اشاعت ہوئی، نتیجہ کیا ہوا، کوئی حنفی بنا تو کوئی شافعی، کسی نے امام مالک کو اپنا امام مانا تو کسی نے امام احمد بن حنبل کی پیروی کو بہتر سمجھا۔ حالانکہ اسلام ایک تھا مگر اس کے قبلہ اور حرم پاک میں چار مصلے لگائے گئے تاکہ جھگڑا نہ ہو۔

چاروں فرقہ والے الگ الگ طریقہ سے نماز پڑھتے ، ہر کوئی اپنے کوحق اور دوسرے کو غلط بتاتا، کسی انسان کے ذہن میں اس تعلق سے کوئی سوال اٹھتا تو یہ کہہ کر بیٹھا دیا جاتا کہ ہمارے امام صاحب کا یہ فتوی ہے پس اسی کو دیکھئے، اپنے اپنے امام کی برتری دکھانے کے لئے جھوٹے اور من گھڑت فضائل پیش کئے گئے تاکہ کوئی اپنے فرقہ کو نہ چھوڑے۔ سلفی قبر پرستی کو شرک سمجھتے ہیں جو سب سے بڑا گناہ ہے، انسان اللہ کا بندہ اور اس کی مخلوق ہے ، اس کو جو بھی مانگنا ہے اپنے خالق سے مانگے یہی اسلام کی تعلیم ہے، اللہ کے رسول محمد ﷺ نے پکی قبر بنانے سے منع کیا ہے، اور کسی طرح کا عرس اسلام میں نہیں ہے۔ محرم میں ماتم وتعزیہ داری، اللہ کے رسول کی میلاد اور بہت سی رسمیں جو آج مسلمانوں میں رائج ہیں قرون اولی میں نہیں تھیں، یہ اسلامی نہیں ہوسکتیں، اس لئے سلفی ان کو نہیں مانتے۔

سلفی کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ قرآن اور حدیث کو اصل اول مانتے ہیں، اور اسلامی کتابوں میں پہلے بھی ایسے لوگوں کواہل حدیث کے لفظ سے یاد کیا گیاہے۔ سلفی اجتہاد کے قائل ہیں اور روز آمدہ مسائل میں کتاب وسنت کی روشنی میں غور وفکر کرکے فیصلہ کرتے ہیں، ہم تنگ نظری کے قائل نہیں ، مسائل میں وسعت ہے ، ہٹ دھرمی سے بہتر ہے کہ صحیح بات مان لی جائے، یہی نجات کا راستہ ہے۔

ہم تمام ائمہ کی عزت کرتے ہیں اور ان کو امام مانتے ہیں، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام اور انسانیت کی خدمت کی ہے، ان کا مقام بہت بلند ہے، ان کی خدمات عظیم ہیں، مگر علم ومعرفت کسی ایک امام میں محصور نہیں اور نہ کوئی انسان اس کا دعوی کر سکتا ہے، اس لئے حق کی تلاش میں جستجو کرنی چاہئے اور جوحق ثابت ہو اس کو تسلیم کرنا چاہئے ، چاہے وہ کسی امام کے قول کے موافق ہو یا مخالف، حق اللہ اور اس کے رسول کے پاس ہے، یہی ہمارا نظریہ، یہی ہمارا اصول اور یہی ہماری دعوت ہے[4]۔ ہم اصول پڑھاتے ہیں، راستہ بتاتے ہیں، علم سکھاتے ہیں ، ماننا یا نہ ماننا ہر انسان کا اپنا فیصلہ اور اپنا حق ہے۔ہماری دعا ہے اللہ تعالی ہم کو حق سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے کی توفیق بخشے ۔

  1. سلفی گری و پاسخ به شبهات، علی اصغر رضوانی، انتشارات مسجد مقدس جمکران، چاپ پنجم، ص
  2. ملل و نحل، شهرستانی، ص ۹۵ و ۹۶.
  3. العقیدة للامام احمد بن حنبل، ص ۳۸
  4. سلفیت کا مفہوم- شائع شدہ از: 4 ستمبر 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 مئی 2025ء