"اہل بیت" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 37: | سطر 37: | ||
== احادیثِ نبوی == | == احادیثِ نبوی == | ||
بہت ساری احادیث ہیں نبی کی کہ اہلبیت میں علی،فاطمہ،حسن اور حسین شامل ہیں؛ | بہت ساری احادیث ہیں نبی کی کہ اہلبیت میں علی،فاطمہ،حسن اور حسین شامل ہیں؛ | ||
=== حدیث کساء === | |||
یہ واقعہ سند کے لحاظ سے کسی صورت بھی خدشہ پزیر نہیں ہے۔ بڑے اور نامی گرامی محدثین نے اس واقعے کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے؛ یہ حدیث اصطلاحاً مستفیض ہے اور حتی وسیع تحقیق کرکے اس کے بارے میں تواتر کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ اسلامی معاشرے میں اس قدر معروف و مشہور ہے کہ اس کے رونما ہونے کے دن کو "یوم کساء" کا نام دیا گیا اور جو خمسۂ طیبہ ـ جو اس دن اللہ کی عنایت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اصحاب کساء کہلائے۔ | |||
طبری اپنی کتاب دلائل الإمامۃ میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت پیغمبر(ص)؛ علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انہیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی: | |||
اَللهُمَّ هٰؤُلاِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً۔ بار خدایا! یہ میرے اہل بیت (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے <ref>طبری، دلائل الإمامۃ، ص21</ref>۔ | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
[[زمرہ:اسلامی تصورات]] | [[زمرہ:اسلامی تصورات]] |
نسخہ بمطابق 04:06، 18 جولائی 2023ء
اہلِ بیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "گھر والے " کے ہیں۔
انہیں پنج تن پاک بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کفار سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے تو یہی حضرات آپ کے ساتھ تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا (اے اللہ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔
لفظ اہل نسبی رشتے داری کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایمانی تعلق کے لیے بھی۔ نسبی رشتے داری مراد ہو تو دیگر رشتے داروں کے ساتھ ساتھ اس سے مراد بیوی بھی ہوتی ہے۔ بلکہ بیوی سب سے پہلے اہل میں آتی ہے۔
شیعہ نقطہ نظر سے
شیعہ نقطہ نظر سے اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزھراء آپ کے چچا زاد اور داماد حضرت علی اور ان کے صاحبزادے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین شامل ہیں۔ یہ تمام افراد اصحاب کساء کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
ربانی گلپائیگانی کے نقطہ نظر سے معنی، شیعہ کتب میں جب اہل بیت کو بغیر حوالہ کے استعمال کیا گیا ہے تو اس سے مراد پیغمبر اکرم (ص) کے رشتہ داروں کا ایک خاص گروہ ہے جو عصمت کی خصوصیت رکھتا ہے اور ان کی مثال چودہ ہے۔ آیات اور احادیث پر مبنی معصوم۔ بعض احادیث میں تمام شیعہ ائمہ کو اہل بیت کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسری باتوں کے علاوہ، ایک روایت میں، رسول اللہ (ص) سے پوچھا گیا: "آپ کے اہل بیت کہاں ہیں؟" پیغمبر نے جواب دیا: "علی، میرے دو بیٹے حسن اور حسین اور نو امام حسین علیہ السلام کی نسل سے ہیں [1]
محمد محمدی ری شہری کا خیال ہے کہ آیت تزکیہ کے سیاق و سباق اور مواد اور اہل بیت کا تعارف کرانے میں پیغمبر اکرم (ص) کے اعمال اور دیگر شواہد کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بیت ہی ہیں۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا ایک خاص گروہ مراد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کی رہنمائی اور قیادت ان کے سپرد ہوئی ہے۔ اسلامی [2]
ائمه معصومین کی احادیث
اہل بیت کے عام معنی میں تمام سچے مؤمنین شامل ہیں جیسا کہ امام صادقؑ نے فرمایا ہے: من اتقى منكم وأصلح فهو منا أهل البيت( جو بھی صالح اور پرہیزگار ہو وہ ہم اہل بیت میں سے ہے)۔ امامؑ نے اپنے اس قول کے اثبات کے لئے قرآن کریم کی دو آیتوں سے استناد و استشہاد کیا ہے [3]
وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ( تم میں سے جو ان سے دوستی [اور محبت] کرے وہ ان ہی میں سے ہے)[4]
فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي( پس جو بھی میری پیروی کرے بے شک وہ مجھ سے ہے)[5]
اہل سنت کے نقطہ نظر سے
اہل سنت کے نکتہ نظر سے اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزھراء ، آپ کے چچا زاد اور داماد حضرت علی اور ان کے صاحبزادے حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین شامل ہیں۔
بعض سنی علما خلافت عباسیہ کے بانی حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد کو بھی اہل بیت میں شمار کرتے ہیں۔
ابن عباس نے کہا کہ آپ نے فرمایا: "اے اولاد عبد المطلب، میں نے تمہارے لیے پروردگار سے تین چیزوں کا سوال کیا ہے، تمہیں ثبات قدم عنایت کرے، تمہارے گمراہوں کو ہدایت دے اور تمہارے جاہلوں کو علم عطا فرمائے اور یہ بھی دعا کی ہے کہ وہ تمہیں سخی، کریم اور رحم دل قرار دیدے کہ اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان کھڑا رہے نماز، روزہ، ادا کرتا رہے اور ہم اہل بیت کی عداوت کے ساتھ روز قیامت حاضر ہو تو یقیناً داخل جہنم ہوگا۔ [6]
یزید بن حیان تمیمی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم کے ساتھ زید بن ارقم کی خدمت میں حاضر ہوا۔حضرت زید بن ارقم رضی اللہ نے کہا کہ آپ نے فرمایا: "اے لوگو بلاشبہ میں ایک بشر اور انسان ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا بھیجا ہوا آجائے تو میں اس کی دعوت قبول کرلوں (موت کی طرف اشارہ ہے) اور یقینا میں تم میں دو اشیاء چھوڑ کر جا رہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ عزوجل کی کتاب جس میں نور و ہدایت ہے، اللہ تعالی کی کتاب کو تھام لو اور اس پر مضبوطی اختیار کرو، میرے اہل بیت، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں۔
حصین نے پوچھا کہ اے زید! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے کون سے لوگ مراد ہیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہیں ہیں؟؟؟ انہوں نے فرمایا نبیۖ کی ازواج مطہرات بھی نبیۖ کے اہل بیت میں سے ہیں لیکن یہاں مراد وہ لوگ ہیں جن پر نبیؐ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ حصین نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے فرمایا آل عقیل، آل علی، آل عباس، آل جعفر۔ حصین نے پوچھا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں صدقہ حرام ہے [7]
قرآن میں لفظ اہل بیت
لفظ اہل بیت قرآن میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
- سورہ ہود کی آیت 73 جس کا تعلق ابراہیمؑ اور ان کی زوجہ سے ہے: "قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ۔
- سورہ قصص کی آیت 12، جس کا تعلق خاندان موسیؑ سے ہے: "وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ
- سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جو آیت تطہیر سے معروف ہے جس میں خداوند عالم پیغمبر اکرمؐ کے اہل خانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً
احادیثِ نبوی
بہت ساری احادیث ہیں نبی کی کہ اہلبیت میں علی،فاطمہ،حسن اور حسین شامل ہیں؛
حدیث کساء
یہ واقعہ سند کے لحاظ سے کسی صورت بھی خدشہ پزیر نہیں ہے۔ بڑے اور نامی گرامی محدثین نے اس واقعے کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے؛ یہ حدیث اصطلاحاً مستفیض ہے اور حتی وسیع تحقیق کرکے اس کے بارے میں تواتر کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ اسلامی معاشرے میں اس قدر معروف و مشہور ہے کہ اس کے رونما ہونے کے دن کو "یوم کساء" کا نام دیا گیا اور جو خمسۂ طیبہ ـ جو اس دن اللہ کی عنایت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اصحاب کساء کہلائے۔
طبری اپنی کتاب دلائل الإمامۃ میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت پیغمبر(ص)؛ علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انہیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی:
اَللهُمَّ هٰؤُلاِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً۔ بار خدایا! یہ میرے اہل بیت (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے [8]۔