"بعثت" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 9: | سطر 9: | ||
== پہلی وحی == | == پہلی وحی == | ||
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب [[غار حرا]] میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔ | جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب [[غار حرا]] میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔ | ||
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔ | |||
روایت کی گئی ہے کہ [[امام حسن عسکری علیہ السلام]] جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کر رہے تھے، فرمایا: انہوں نے سب سے زیادہ فرمانبردار دل پائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے دروازے کھول دیے اور فرشتوں کو اجازت دی اور وہ نیچے آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو اس پر عرش سے رحمت نازل ہوئی اور وہ روح الامین کی طرف دیکھ رہا تھا، جبرائیل - فرشتوں کا مور - جبرائیل اس کے پاس اترے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور کہا: اے محمد! پڑھو، محمد نے کہا: کیا پڑھوں؟ اس نے کہا: اے محمد! | |||
== حواله جات == | == حواله جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} |
نسخہ بمطابق 08:08، 13 فروری 2023ء
بعثت اس کا مطلب ہے کسی شخص کو خدا کی طرف سے نبی منتخب کرنا اور اس کی نبوت کے دور کا آغاز۔ اگرچہ بعثت کو تمام انبیاء کے انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا استعمال حضرت محمد کو بطور نبی منتخب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسلامی ثقافت میں اس دن کو کہا جاتا ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ بعث کے لفظی معنی ہیں بیدار کرنا۔ اس کا مطلب بھی بھیجنا ہے۔ اور بھیجنا بھی آ گیا ہے۔ بعثت کو قرآن پاک میں لوگوں کی رہنمائی اور مردوں کو جمع کرنے کے لیے انبیاء کو اٹھانے اور بھیجنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت وہ دن ہے جب پیغمبر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اٹھایا تھا۔ شیعوں کی رائے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 27 رجب کو 40 ویں سال الفیل (610 عیسوی کے مطابق) میں ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ اسلام کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے [1]۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت
اہل السنۃ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی 17 یا 18 یا 19 تاریخ بروز پیر کو ایک نبی کی طرف مبعوث کیا گیا۔
لیکن شیعوں کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیامت 40ویں سال الفیل (610ء کے مطابق) میں رجب کے مہینے کی 27 تاریخ کو ہوئی جب آپ کی عمر 40 سال تھی۔ شیعہ منابع میں اس امر کی تائید کرنے والی بہت سی روایات ہیں، ان میں سے مرحوم کلینی نے اپنی سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: رجب کی ستائیسویں تاریخ کو مت بھولو، کیونکہ یہ وہ دن ہے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت پر مامور کیا گیا تھا [2]۔
شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث بھی دوسرے ائمہ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل ہوئی ہیں۔
پہلی وحی
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
جب وہ مکہ مکرمہ کے قریب غار حرا میں عبادت اور نماز پڑھ رہے تھے تو جبرائیل امین آپ پر نازل ہوئے اور کتابِ ہدایت اور سعادت کے ابتدائیہ اور ابتداء کے طور پر آپ کو قرآن مجید کی آیات سنائیں اور آپ کو نبوت کے منصب سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیات نازل ہوئیں وہ قرآن پاک کی سورہ نمبر 96 کی آیات تھیں یعنی سورہ علق۔
روایت کی گئی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کر رہے تھے، فرمایا: انہوں نے سب سے زیادہ فرمانبردار دل پائے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے دروازے کھول دیے اور فرشتوں کو اجازت دی اور وہ نیچے آگئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تو اس پر عرش سے رحمت نازل ہوئی اور وہ روح الامین کی طرف دیکھ رہا تھا، جبرائیل - فرشتوں کا مور - جبرائیل اس کے پاس اترے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور کہا: اے محمد! پڑھو، محمد نے کہا: کیا پڑھوں؟ اس نے کہا: اے محمد!