مندرجات کا رخ کریں

"شیطانی آیات(کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
«تصغیر|بائیں| '''شیطانی آیات''' سلمان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ہی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توہین کی ہے، بلکہ یہاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی اد...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[فائل: سلمان رشدی و کتاب آیات شیطانی.jpg|تصغیر|بائیں|]]
[[فائل: سلمان رشدی و کتاب آیات شیطانی.jpg|تصغیر|بائیں|]]
'''شیطانی آیات'''  سلمان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ہی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توہین کی ہے، بلکہ یہاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی ادیان احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، (جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام) کی شان میں بھی گستاخی، جسارت اور توہین کی ہے۔
'''شیطانی آیات'''(The Satanic Verses) ایک کتاب ہے جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم]] اور [[قرآن]] کی توہین کرتی ہے، جسے سلمان رشدی( ۱۹۴۷ء) نے لکھا ہے ، مصنف ایک برطانوی نژاد ہندوستانی مسلمان ہے ۔ ناول کا عنوان "غرانیق کے افسانے" کی طرف ایک اشارہ ہے، جسے مسلمان ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ غرانیق کے افسانے کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کی آیات 19 اور 20 کی تلاوت کرتے ہوئے وہ باتیں کہی تھیں جو شیطانی فتنے سمجھی جاتی تھیں ۔ 24 اکتوبر 1988ء کو شیطانی آیات کی اشاعت نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے احتجاج کو جنم دیا ۔ بہت سے ناقدین اور قارئین کے مطابق، شیطانی آیات میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو "مہوند" کے توہین آمیز لقب سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ قرآن پاک کو کہانیوں، افسانوں اور شیطانی تصورات کا مرکب سمجھتی ہے۔ اس ناول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب کا بھی جارحانہ الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر اخلاقی انحراف کا الزام لگایا گیا ہے۔
 
== احتجاج کا آغاز ==
28 اکتوبر 1988ء کو شیطانی آیات کی اشاعت نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔ ہندوستان، [[پاکستان]] ، اٹلی ، کینیڈا اور [[مصر]] سمیت ممالک میں مسلمانوں نے سلمان رشدی اور ان کی کتاب کے خلاف ریلیاں نکالیں اور کتاب تقسیم کرنے والے کچھ بک اسٹورز کو آگ لگا دی۔ ویٹیکن کے سرکاری اخبار نے بھی سلمان رشدی اور ان کے ناول کی مذمت کی۔ اشکنازی یہودیوں کے ربی افرائیم شبیر نے [[اسرائیل]] میں شیطانی آیات کی اشاعت پر پابندی کا مطالبہ کیا ۔
 
25 فروری 1988 کو [[ایران]] میں [[انقلاب اسلامی ایران|انقلاب اسلامی]]  کے رہبر [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] نے  آیات شیطانی کے مصنف سلمان رشدی ملعون کےمرتد ہونے کے بارے میں تاریخي فتوی صادر کرکے [[اسلام]] کے خلاف دشمنوں کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنادیا۔
 
حضرت امام خمینی (رہ) نے سن 1367 شمسی پیغمبر اسلام (ص) اور قرآن مجید کے خلاف سلمان رشدی کی کتاب آیات شیطانی کے خلاف بروقت فتوی صادر کرکے سلمان رشدی کو مرتد قراردیا اور اس کے قتل کو جائز قراردیا تھا ۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے اس طرح اسلام اورقرآن مجید کے خلاف استعماری طاقتوں کی گھناؤنی سازش کا بر وقت مقابلہ کرتے ہوئے ناکام بنادیا۔
 
آیات شیطانی کے خلاف تمام اسلامی ممالک میں مسلمانوں نےاحتجاجات کئے اور سلمان رشدی کے بہیمانہ اقدام کی بھر پور الفاظ میں مذمت کی۔ سلمان رشدی ہندوستانی نژاد برطانوی شہری ہیں جو حضرت امام خمینی (رہ) کے فتوے کے بعد آج تک روپوش ہیں اور برطانوی سکیورٹی ایجنسیاں اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔
 
حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے تاریخی فتوی میں تحریر کیا کہ " آیات شیطانی کتاب کے مصنف اور کتاب کے مندرجات سے آگاہ ناشر کو پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کی توہین کے جرم میں قتل کرنا جائز ہے اور مسلمان ایسے شرپسند عنصر کو جہاں کہیں پائیں قتل کردیں تاکہ اس کے بعد کسی میں اسلام اور قرآن مجید کی توہین کرنے کی ہمت نہ رہے اور اس راہ میں جو بھی مارا جائےگا وہ شہید راہ خدا ہوگا۔"
 
== سلمان رشدی ==
سلمان رشدی 1947ء میں بمبئی، ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم انگریزی زبان کے عیسائی مشنری اسکول سے حاصل کی اور، اپنے خاندان کی انگلستان ہجرت کے بعد، کیمبرج کالج میں تعلیم حاصل کی۔ 1968 میں، رشدی [[پاکستان]] گئے اور ٹیلی ویژن میں کام کیا، لیکن ایک سال بعد انگلینڈ واپس آئے اور برطانوی شہریت قبول کر لی ۔ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، سلمان رشدی نے شیطانی آیات سے پہلے تین اور ناول لکھے: Midnight Children, Shame, and The Last Affliction۔ یہ چاروں کام برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی ثقافت اور تاریخ سے متعلق سمجھے جاتے ہیں ۔
 
مہدی صحابی نے سلمان رشدی کے ناول شیم کا فارسی میں ترجمہ کیا، جس نے 1985 میں بہترین غیر ملکی ناول کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کا سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ جیتا تھا ۔ امام خمینی کے فتویٰ کے بعد ان کی موت کے حکم کے بعد، سلمان رشدی کئی سالوں تک مختلف پناہ گاہوں میں اور اپنے خاندان سے دور رہے۔
== کتاب کی اشاعت ==
سلمان رشدی کی تحریر کردہ شیطانی آیات پہلی بار 26 ستمبر 1988 کو انگلینڈ میں پینگوئن پبلشنگ نے انگریزی میں 547 صفحات پر شائع کی تھیں اور اسے دنیا کے مختلف حصوں اور عربی ، ہسپانوی، جرمن، چینی، روسی اور فارسی سمیت مختلف زبانوں میں 140 سے زائد مرتبہ شائع کیا گیا ہے۔ The Satanic Verses اسی سال کوسٹا لٹریری پرائز جیتا۔ یہ ناول بھی 1988 میں باوقار بکر پرائز کے لیے پانچ نامزد افراد میں سے ایک تھا، لیکن حتمی انعام نہیں جیت سکا۔ اسپیگل میگزین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سلمان رشدی نے اپنی کتاب شائع کرنے سے پہلے اپنے کتاب کے پبلشر سے تقریباً 1.5 ملین نمبر ایڈوانس ادائیگی کے طور پر حاصل کیے تھے، جو اس وقت ایک بے مثال رقم تھی۔
 
== کتاب کا مواد ==
 
کتاب کا نام، شیطانی آیات، غرانیق کے افسانے کا حوالہ ہے۔ مذکورہ بالا روایت کے مطابق، سورہ نجم کی آیات 19 اور 20 کی تلاوت کرتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل خانہ نے بتوں کی شفاعت کے بارے میں آیات کی تلاوت فرمائی، اور اسی رات جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نازل ہوئے اور آپ کو خبردار کیا کہ یہ آیات شیطانی فتنہ ہیں۔ بہت
سے شیعہ اور سنی علماء نے غرنیق کے افسانے کو افسانہ سمجھا ہے۔ شیطانی آیات کے 9 ابواب ہیں۔
 
1- جبرائیل فرشتہ، 2- مہاونڈ؛ 3- الون ڈیون؛ 4- عائشہ ؛ 5- ظاہر اور غیب کا شہر؛ 6- زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹنا۔ 7- عزرائیل فرشتہ؛ 8- بحیرہ عرب کا پھٹ جانا۔ 9- معجزاتی چراغ۔
 
== آثار انتقادی ==
عطاء اللہ مہاجرانی کی لکھی گئی کتاب تنقید اور شیطانی آیات کی کتاب تنقید اور تردید میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب رہی ہے۔ یہ کتاب 1989 میں انفارمیشن انسٹی ٹیوٹ پریس کے ذریعہ شائع ہوئی تھی اور 2007 تک 25 بار دوبارہ شائع ہوئی تھی اور 1992 میں انگریزی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ موہجرانی کے مطابق سلمان رشدی نے چار مشہور مستشرقین کی طرح تھیوڈور نولڈیکے ، ولیم موئیر، مونٹگمری واٹ اور گولڈزہیر کی طرح سوال کیا تھا کہ وہ ہولگٹ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہیں۔
 
گھرانق۔ 1989 کے موسم بہار میں ایران میں فلسفے کے پروفیسر نصر اللہ پورجاوادی نے شیطانی آیات کے ناول کو بورنگ اور نفرت انگیز قرار دیا اور اس میں فرشتوں کا مذاق اڑانے اور الہی انبیاء ، خاص طور پر پیغمبر اسلام ، ان کے اصحاب اور ازواج کی توہین پر مشتمل سمجھا ۔ شیطانی آیات کے ایک حصے کا حوالہ دیتے ہوئے، پورجاوادی کا خیال ہے کہ سلمان رشدی نے اس کتاب میں ایران کے اسلامی انقلاب کو نیچا دکھانے کے لیے اشارے اور اشارے استعمال کیے ہیں ۔
 
محمد صادقی تہرانی نے 26 رمضان 1409 ہجری کو لکھے گئے 40 صفحات پر مشتمل کتابچے میں سلمان رشدی کو دور حاضر کا شیطان قرار دیا۔ صدیقی تہرانی کا خیال ہے کہ سلمان رشدی نے نہ صرف پیغمبر اسلام بلکہ جبرئیل، پیغمبر کے ساتھیوں اور پیغمبر کی ازواج مطہرات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ 1989 کے موسم خزاں میں، مصطفی حسینی طباطبائی نے "سلمان رشدی کی بے عزتی" کے عنوان سے 40 صفحات پر مشتمل کتابچہ شائع کیا اور سلمان رشدی کے کام کو ایک قسم کی سیاسی سازش قرار دیا جو علم و تحقیق کی دنیا سے بہت دور ہے۔ حسینی طباطبائی نے شیطانی آیات کو صلیبی جنگوں کے بعد اسلام کے خلاف ایک دیرینہ دشمنی کا تسلسل سمجھا، جس کے بعد عیسائیوں نے اسلام اور مسلم ثقافت کو بدنام کرنے کے لیے پیغمبر اسلام کے
 
سلمان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ہی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توہین کی ہے، بلکہ یہاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی ادیان احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، (جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام) کی شان میں بھی گستاخی، جسارت اور توہین کی ہے۔
 
یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا اور دنیا بھر میں نشر کیا گیا،اور جس وقت [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی رحمة اللہ علیہ]] نے سلمان رشدی کے مرتد ہونے اور اس کے قتل کا تاریخ ساز فتوی صادر کیا، تو استعماری حکومتوں اور [[اسلام]] دشمن طاقتوں کی طرف سے ایسی حمایت ہوئی کہ آج تک دیکھنے میں نہیں آئی! چنانچہ اس رویہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کام میں صرف سلمان رشد ی ہی نہیں تھا اور نہ ہی اسلام کی مخالفت میں لکھی جانے والی کتاب کا مسئلہ تھا، در اصل مغربی ممالک اور صہیونیزم کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی، اگرچہ ظاہر میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی ہے لیکن اس کے پسِ پردہ اسلام دشمن طاقتیں تھیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا اور دنیا بھر میں نشر کیا گیا،اور جس وقت [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی رحمة اللہ علیہ]] نے سلمان رشدی کے مرتد ہونے اور اس کے قتل کا تاریخ ساز فتوی صادر کیا، تو استعماری حکومتوں اور [[اسلام]] دشمن طاقتوں کی طرف سے ایسی حمایت ہوئی کہ آج تک دیکھنے میں نہیں آئی! چنانچہ اس رویہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کام میں صرف سلمان رشد ی ہی نہیں تھا اور نہ ہی اسلام کی مخالفت میں لکھی جانے والی کتاب کا مسئلہ تھا، در اصل مغربی ممالک اور صہیونیزم کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی، اگرچہ ظاہر میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی ہے لیکن اس کے پسِ پردہ اسلام دشمن طاقتیں تھیں۔
== امام خمینی علیہ الرحمہ ==
== امام خمینی علیہ الرحمہ ==

نسخہ بمطابق 23:30، 11 جولائی 2025ء

شیطانی آیات(The Satanic Verses) ایک کتاب ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی توہین کرتی ہے، جسے سلمان رشدی( ۱۹۴۷ء) نے لکھا ہے ، مصنف ایک برطانوی نژاد ہندوستانی مسلمان ہے ۔ ناول کا عنوان "غرانیق کے افسانے" کی طرف ایک اشارہ ہے، جسے مسلمان ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ غرانیق کے افسانے کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کی آیات 19 اور 20 کی تلاوت کرتے ہوئے وہ باتیں کہی تھیں جو شیطانی فتنے سمجھی جاتی تھیں ۔ 24 اکتوبر 1988ء کو شیطانی آیات کی اشاعت نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے احتجاج کو جنم دیا ۔ بہت سے ناقدین اور قارئین کے مطابق، شیطانی آیات میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو "مہوند" کے توہین آمیز لقب سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ قرآن پاک کو کہانیوں، افسانوں اور شیطانی تصورات کا مرکب سمجھتی ہے۔ اس ناول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب کا بھی جارحانہ الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر اخلاقی انحراف کا الزام لگایا گیا ہے۔

احتجاج کا آغاز

28 اکتوبر 1988ء کو شیطانی آیات کی اشاعت نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔ ہندوستان، پاکستان ، اٹلی ، کینیڈا اور مصر سمیت ممالک میں مسلمانوں نے سلمان رشدی اور ان کی کتاب کے خلاف ریلیاں نکالیں اور کتاب تقسیم کرنے والے کچھ بک اسٹورز کو آگ لگا دی۔ ویٹیکن کے سرکاری اخبار نے بھی سلمان رشدی اور ان کے ناول کی مذمت کی۔ اشکنازی یہودیوں کے ربی افرائیم شبیر نے اسرائیل میں شیطانی آیات کی اشاعت پر پابندی کا مطالبہ کیا ۔

25 فروری 1988 کو ایران میں انقلاب اسلامی کے رہبر امام خمینی نے آیات شیطانی کے مصنف سلمان رشدی ملعون کےمرتد ہونے کے بارے میں تاریخي فتوی صادر کرکے اسلام کے خلاف دشمنوں کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنادیا۔

حضرت امام خمینی (رہ) نے سن 1367 شمسی پیغمبر اسلام (ص) اور قرآن مجید کے خلاف سلمان رشدی کی کتاب آیات شیطانی کے خلاف بروقت فتوی صادر کرکے سلمان رشدی کو مرتد قراردیا اور اس کے قتل کو جائز قراردیا تھا ۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے اس طرح اسلام اورقرآن مجید کے خلاف استعماری طاقتوں کی گھناؤنی سازش کا بر وقت مقابلہ کرتے ہوئے ناکام بنادیا۔

آیات شیطانی کے خلاف تمام اسلامی ممالک میں مسلمانوں نےاحتجاجات کئے اور سلمان رشدی کے بہیمانہ اقدام کی بھر پور الفاظ میں مذمت کی۔ سلمان رشدی ہندوستانی نژاد برطانوی شہری ہیں جو حضرت امام خمینی (رہ) کے فتوے کے بعد آج تک روپوش ہیں اور برطانوی سکیورٹی ایجنسیاں اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔

حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے تاریخی فتوی میں تحریر کیا کہ " آیات شیطانی کتاب کے مصنف اور کتاب کے مندرجات سے آگاہ ناشر کو پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کی توہین کے جرم میں قتل کرنا جائز ہے اور مسلمان ایسے شرپسند عنصر کو جہاں کہیں پائیں قتل کردیں تاکہ اس کے بعد کسی میں اسلام اور قرآن مجید کی توہین کرنے کی ہمت نہ رہے اور اس راہ میں جو بھی مارا جائےگا وہ شہید راہ خدا ہوگا۔"

سلمان رشدی

سلمان رشدی 1947ء میں بمبئی، ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم انگریزی زبان کے عیسائی مشنری اسکول سے حاصل کی اور، اپنے خاندان کی انگلستان ہجرت کے بعد، کیمبرج کالج میں تعلیم حاصل کی۔ 1968 میں، رشدی پاکستان گئے اور ٹیلی ویژن میں کام کیا، لیکن ایک سال بعد انگلینڈ واپس آئے اور برطانوی شہریت قبول کر لی ۔ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، سلمان رشدی نے شیطانی آیات سے پہلے تین اور ناول لکھے: Midnight Children, Shame, and The Last Affliction۔ یہ چاروں کام برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی ثقافت اور تاریخ سے متعلق سمجھے جاتے ہیں ۔

مہدی صحابی نے سلمان رشدی کے ناول شیم کا فارسی میں ترجمہ کیا، جس نے 1985 میں بہترین غیر ملکی ناول کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کا سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ جیتا تھا ۔ امام خمینی کے فتویٰ کے بعد ان کی موت کے حکم کے بعد، سلمان رشدی کئی سالوں تک مختلف پناہ گاہوں میں اور اپنے خاندان سے دور رہے۔

کتاب کی اشاعت

سلمان رشدی کی تحریر کردہ شیطانی آیات پہلی بار 26 ستمبر 1988 کو انگلینڈ میں پینگوئن پبلشنگ نے انگریزی میں 547 صفحات پر شائع کی تھیں اور اسے دنیا کے مختلف حصوں اور عربی ، ہسپانوی، جرمن، چینی، روسی اور فارسی سمیت مختلف زبانوں میں 140 سے زائد مرتبہ شائع کیا گیا ہے۔ The Satanic Verses اسی سال کوسٹا لٹریری پرائز جیتا۔ یہ ناول بھی 1988 میں باوقار بکر پرائز کے لیے پانچ نامزد افراد میں سے ایک تھا، لیکن حتمی انعام نہیں جیت سکا۔ اسپیگل میگزین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سلمان رشدی نے اپنی کتاب شائع کرنے سے پہلے اپنے کتاب کے پبلشر سے تقریباً 1.5 ملین نمبر ایڈوانس ادائیگی کے طور پر حاصل کیے تھے، جو اس وقت ایک بے مثال رقم تھی۔

کتاب کا مواد

کتاب کا نام، شیطانی آیات، غرانیق کے افسانے کا حوالہ ہے۔ مذکورہ بالا روایت کے مطابق، سورہ نجم کی آیات 19 اور 20 کی تلاوت کرتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل خانہ نے بتوں کی شفاعت کے بارے میں آیات کی تلاوت فرمائی، اور اسی رات جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نازل ہوئے اور آپ کو خبردار کیا کہ یہ آیات شیطانی فتنہ ہیں۔ بہت سے شیعہ اور سنی علماء نے غرنیق کے افسانے کو افسانہ سمجھا ہے۔ شیطانی آیات کے 9 ابواب ہیں۔

1- جبرائیل فرشتہ، 2- مہاونڈ؛ 3- الون ڈیون؛ 4- عائشہ ؛ 5- ظاہر اور غیب کا شہر؛ 6- زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹنا۔ 7- عزرائیل فرشتہ؛ 8- بحیرہ عرب کا پھٹ جانا۔ 9- معجزاتی چراغ۔

آثار انتقادی

عطاء اللہ مہاجرانی کی لکھی گئی کتاب تنقید اور شیطانی آیات کی کتاب تنقید اور تردید میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب رہی ہے۔ یہ کتاب 1989 میں انفارمیشن انسٹی ٹیوٹ پریس کے ذریعہ شائع ہوئی تھی اور 2007 تک 25 بار دوبارہ شائع ہوئی تھی اور 1992 میں انگریزی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ موہجرانی کے مطابق سلمان رشدی نے چار مشہور مستشرقین کی طرح تھیوڈور نولڈیکے ، ولیم موئیر، مونٹگمری واٹ اور گولڈزہیر کی طرح سوال کیا تھا کہ وہ ہولگٹ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہیں۔

گھرانق۔ 1989 کے موسم بہار میں ایران میں فلسفے کے پروفیسر نصر اللہ پورجاوادی نے شیطانی آیات کے ناول کو بورنگ اور نفرت انگیز قرار دیا اور اس میں فرشتوں کا مذاق اڑانے اور الہی انبیاء ، خاص طور پر پیغمبر اسلام ، ان کے اصحاب اور ازواج کی توہین پر مشتمل سمجھا ۔ شیطانی آیات کے ایک حصے کا حوالہ دیتے ہوئے، پورجاوادی کا خیال ہے کہ سلمان رشدی نے اس کتاب میں ایران کے اسلامی انقلاب کو نیچا دکھانے کے لیے اشارے اور اشارے استعمال کیے ہیں ۔

محمد صادقی تہرانی نے 26 رمضان 1409 ہجری کو لکھے گئے 40 صفحات پر مشتمل کتابچے میں سلمان رشدی کو دور حاضر کا شیطان قرار دیا۔ صدیقی تہرانی کا خیال ہے کہ سلمان رشدی نے نہ صرف پیغمبر اسلام بلکہ جبرئیل، پیغمبر کے ساتھیوں اور پیغمبر کی ازواج مطہرات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ 1989 کے موسم خزاں میں، مصطفی حسینی طباطبائی نے "سلمان رشدی کی بے عزتی" کے عنوان سے 40 صفحات پر مشتمل کتابچہ شائع کیا اور سلمان رشدی کے کام کو ایک قسم کی سیاسی سازش قرار دیا جو علم و تحقیق کی دنیا سے بہت دور ہے۔ حسینی طباطبائی نے شیطانی آیات کو صلیبی جنگوں کے بعد اسلام کے خلاف ایک دیرینہ دشمنی کا تسلسل سمجھا، جس کے بعد عیسائیوں نے اسلام اور مسلم ثقافت کو بدنام کرنے کے لیے پیغمبر اسلام کے

سلمان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ہی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توہین کی ہے، بلکہ یہاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی ادیان احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، (جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام) کی شان میں بھی گستاخی، جسارت اور توہین کی ہے۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا اور دنیا بھر میں نشر کیا گیا،اور جس وقت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے سلمان رشدی کے مرتد ہونے اور اس کے قتل کا تاریخ ساز فتوی صادر کیا، تو استعماری حکومتوں اور اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایسی حمایت ہوئی کہ آج تک دیکھنے میں نہیں آئی! چنانچہ اس رویہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کام میں صرف سلمان رشد ی ہی نہیں تھا اور نہ ہی اسلام کی مخالفت میں لکھی جانے والی کتاب کا مسئلہ تھا، در اصل مغربی ممالک اور صہیونیزم کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی، اگرچہ ظاہر میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی ہے لیکن اس کے پسِ پردہ اسلام دشمن طاقتیں تھیں۔

امام خمینی علیہ الرحمہ

لیکن حضرت امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے اپنے فتویٰ میں استقامت کی اور پھر ان کے جانشین (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی) نے اسی فتویٰ کو برقرار رکھا، نیز اس تاریخی فتویٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے قبول کیا، جس سے دشمن کی سازش ناکام ہوگئی، اور سلمان رشدی آج تک (کتاب کی اس حصہ کی تالیف تک) روپوش ہے، اور اسلام دشمن طاقتیں اس کی مکمل طور پر حفاظت کررہی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ آخری عمر تک اسی طرح چھپ کر زندگی بسر کرے گا، اور شاید خود انھیں لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوگا تاکہ اس رسوائی سے نجات پاسکے۔

اس بنا پر جو چیز بھی اس طرح کی روایات کی علت ”محدثہ“ یعنی وجود میں لانے والی علت ہے وہی چیزعلت ”مبقیہ“ یعنی باقی رکھنے والی علت بھی ہے، یعنی جو سازش اسلام دشمنوں کی طرف سے شروع ہوئی ہزاروں سال بعد بھی انھیں اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایک وسیع پیمانہ پر وہی سازش آج بھی ہورہی ہے۔ لہٰذا اس چیز کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی کہ تفسیر ”روح المعانی“ یا دوسری تفاسیر کی طرح ان روایات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے، کیونکہ ان روایات کی بنیاد ہی خراب ہے، اور بڑے بڑے علما کرام نے ان کے جعلی ہونے کی تاکید کی ہے، لہٰذا ہم ان روایات کی توجیہ کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں،صرف یہاں مزید وضاحت کے لئے چند درج ذیل نکات بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

۱۔ یہ بات کسی دوست اور دشمن پر مخفی نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے آغازِ دعوت سے آخرِ عمر تک بت اور بت پرستی کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیا، اور یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس میں کسی طرح کی مصالحت، سازش اور نرمی نہیں کی گئی، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر بتوں کی شان میں اس طرح کے الفاظ پیغمبر اکرم (ص) کی زبان پر کس طرح آسکتے ہیں؟ اسلامی تعلیمات کہتی ہیں کہ صرف شرک اور بت پرستی ہی ایک ایسا گناہ ہے جو قابل بخشش نہیں ہے، لہٰذا بت پرستی کے مراکز کو ہر قیمت پر نابود کرنا واجب قرار دیا ہے، اور پورا قرآن اس بات پر گواہ ہے، یہ خود حدیث”غرانیق“ کے جعلی ہونے پر دلیل ہے جن میں بتوں کی مدح و ثنا کی گئی ہے۔

۲۔ اس کے علاوہ ”غرانیق“ افسانہ لکھنے والوں نے اس بات پر توجہ نہیں دی ہے کہ خود سورہ نجم کی آیات پر ایک نظر ڈالنے سے اس خرافی حدیث کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ بتوں کی مدح و ثنا والے جملے: ”تِلکَ الغَرَانیقُ العُلیٰ وَاٴنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرتَجیٰ“ اور آیات ماقبل و مابعد میں کوئی ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ اسی سورہ کے شروع میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہرگز اپنی خواہش کے مطابق کلام ہی نہیں کرتے، اور جو کچھ عقائد اور اسلامی قوانین کے بارے میں کہتے ہیں وہ وحی الٰہی ہوتی ہے: "وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی # إِنْ ہُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَی"۔ [1]۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا ہے اس کا کلام وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے“۔

اور اس بات کا صاف طور پر اعلان ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہرگز راہ حق سے منحرف نہیں ہوتا، اور اپنے مقصد کو کم نہیں کرتا:" مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی"۔ [2] تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا“۔ اس سے زیادہ گمراہی اور انحراف اور کیا ہوگا کہ پیغمبر آیات الٰہی کے درمیان شرک کی باتیں اور بتوں کی تعریفیں کریں؟ اور اپنی خواہش کے مطابق گفتگو اس سے بدتر اور کیا ہوسکتی ہے کہ کلام خدا میں شیطانی الفاظ کا اضافہ کرے اور آیات کے درمیان کہے:”تلک الغرانیق العلی“؟

مزے کی بات یہ ہے کہ محل بحث آیات کے بعد صاف طور پر بت اور بت پرستوں کی مذمت کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: " إِنْ ہِیَ إِلاَّ اٴَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوہَا اٴَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اٴَنزَلَ اللهُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاٴَنْفُسُ"۔ [3]۔ یہ سب وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے طے کر لئے ہیں خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے درحقیقت یہ لوگ صرف اپنے گناہوں کا اتباع کررہے ہیں اور جو کچھ ان کا دل چاہتا ہے“۔

کون عقلمند اس بات کا یقین کرسکتا ہے کہ ایک صاحب حکمت اور باہوش نبی مقام نبوت میں پہلے جملوں میں بتوں کی مدح و ثنا کرے اوربعد والے دو جملوں میں بتوں کی مذمت اور ملامت کرے؟لہٰذا! ان دوجملوں کے تناقض اور تضاد کی کس طرح توجیہ اور تاویل کی جاسکتی ہے؟ پس ان تمام باتوں کے پیش نظر اعتراف کرنا پڑے گا کہ قرآن مجید کی آیات میں اس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ دشمنوں اور بدخواہ غرض رکھنے والوں کی طرف سے کی گئی ملاوٹ کو بالکل باہر نکال دیتی ہے، اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ ایک غیر مرتبط اور جداجملہ ہے، یہ ہے سورہ نجم کی آیات کے درمیان حدیث ”غرانیق“ قرار دینے کی سرگزشت[4]۔

  1. سورہ نجم، آیہ 3 و 4
  2. سورہ نجم، آیہ 2
  3. سورہ نجم، آیہ 23
  4. 110 سوال اور جواب- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 جولائی 2025ء