"حوزہ علمیہ قم" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| سطر 1: | سطر 1: | ||
[[فائل:حوزه علمیه قم.jpg|تصغیر|بائیں|]] | [[فائل:حوزه علمیه قم.jpg|تصغیر|بائیں|]] | ||
'''حوزہ علمیہ قم''' عالم تشیع کا معتبر و اہم ترین مرکز علمی ہے جو [[ایران]] کے شہر قم میں واقع ہے۔ | '''حوزہ علمیہ قم''' عالم تشیع کا معتبر و اہم ترین مرکز علمی ہے جو [[ایران]] کے شہر قم میں واقع ہے۔ سنہ 1340 ہجری قمری 1921ء میں [[عبد الکریم حائری یزدی|شیخ عبدالکریم حائری]] کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے قبل میرزا محمد فیض قمی سنہ 1333 ہجری قمری میں قم واپس آئے اور 1336 سے 1340 تک مدرسہ دارالشفاء اور [[مدرسہ فیضیہ]] کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انہوں نے ان مدارس میں طلبہ کو بسایا۔ شیخ محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی، کی وساطت سے حاج شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛ چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ | ||
== تاریخی پس منظر == | == تاریخی پس منظر == | ||
سنہ 1340 ہجری قمری (1921 عیسوی) میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے 8 سال قبل، ایران میں شیخ اسداللہ ممقانی جیسے اکابرین نے شیعہ مرجعیت کی [[عراق]] سے ایران منتقلی اور قم یا مشہد میں ایک مستحکم اور مربوطہ حوزہ علمیہ کی تاسیس، کی تجویز پیش کی تھی۔ سلسلۂ قاجار کے اواخر میں ـ حائری کی قم آمد اور حوزہ علمیہ قم کی سطح بلند کرنے کے لیے ان کے اقدامات سے قبل ـ قم میں مقیم بعض علما نے ـ جو علمی لحاظ سے اعلی مراتب و مدارج پر فائز تھے ـ اس سلسلے میں کوششیں کی تھیں لیکن مطلوبہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔ | سنہ 1340 ہجری قمری (1921 عیسوی) میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے 8 سال قبل، ایران میں شیخ اسداللہ ممقانی جیسے اکابرین نے شیعہ مرجعیت کی [[عراق]] سے ایران منتقلی اور قم یا مشہد میں ایک مستحکم اور مربوطہ حوزہ علمیہ کی تاسیس، کی تجویز پیش کی تھی۔ سلسلۂ قاجار کے اواخر میں ـ حائری کی قم آمد اور حوزہ علمیہ قم کی سطح بلند کرنے کے لیے ان کے اقدامات سے قبل ـ قم میں مقیم بعض علما نے ـ جو علمی لحاظ سے اعلی مراتب و مدارج پر فائز تھے ـ اس سلسلے میں کوششیں کی تھیں لیکن مطلوبہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔ | ||
نسخہ بمطابق 14:43، 2 مئی 2025ء

حوزہ علمیہ قم عالم تشیع کا معتبر و اہم ترین مرکز علمی ہے جو ایران کے شہر قم میں واقع ہے۔ سنہ 1340 ہجری قمری 1921ء میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے قبل میرزا محمد فیض قمی سنہ 1333 ہجری قمری میں قم واپس آئے اور 1336 سے 1340 تک مدرسہ دارالشفاء اور مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انہوں نے ان مدارس میں طلبہ کو بسایا۔ شیخ محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی، کی وساطت سے حاج شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛ چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔
تاریخی پس منظر
سنہ 1340 ہجری قمری (1921 عیسوی) میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے 8 سال قبل، ایران میں شیخ اسداللہ ممقانی جیسے اکابرین نے شیعہ مرجعیت کی عراق سے ایران منتقلی اور قم یا مشہد میں ایک مستحکم اور مربوطہ حوزہ علمیہ کی تاسیس، کی تجویز پیش کی تھی۔ سلسلۂ قاجار کے اواخر میں ـ حائری کی قم آمد اور حوزہ علمیہ قم کی سطح بلند کرنے کے لیے ان کے اقدامات سے قبل ـ قم میں مقیم بعض علما نے ـ جو علمی لحاظ سے اعلی مراتب و مدارج پر فائز تھے ـ اس سلسلے میں کوششیں کی تھیں لیکن مطلوبہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔
میرزا احمد فیض قمی
قم میں حوزہ علمیہ کی تاسیس کے لیے کوشاں علما میں سے ایک اہم شخصیت میرزا محمد فیض قمی ہیں جو سنہ 1333 ہجری قمری میں سامرا سے قم واپس آئے اور سنہ 1336 ہجری قمری سے مدرسہ دارالشفاء اور مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انہوں نے طلبہ کو ان دو مدارس میں بسایا اور ان کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔
یہ اقدام اس قدر عظیم سمجھا گیا کہ عید غدیر سنہ 1336 ہجری قمری کے دن حرم حضرت معصومہ کے صحن عتیق میں چراغان اور پر شکوہ جشن کا اہتمام کیا گیا [1]۔ اس اہم اقدام کے باوجود اور اس زمانے میں شہر قم میں شیخ ابو القاسم قمی اور میرزا جواد آقا ملکی تبریزی سمیت اعلی پائے کے علما کی موجودگی کے باوجود، م میں عبد الکریم حائری کے دائمی سکونت تک حوزہ علمیہ قم منظم اور مربوط اور مفید و قوی حوزہ اس شہر میں بپا نہ ہو سکا [2]۔
محمد تقی بافقی
قم کے معاصر حوزہ علمیہ کی تشکیل میں شیخ محمد تقی بافقی کی کوششوں کو بھی نظروں سے دور نہیں رکھنا چاہیے۔ شریف رازی کے مطابق، بافقی نے سنہ 1337 ہجری قمری میں قم ہجرت کرکے شیخ ابو القاسم کبیر قمی، شیخ مہدی فیلسوف اور میرزا محمد ارباب جیسے بڑے علما کو ایک منظم و مربوط حوزہ علمیہ کی تاسیس کی رغبت دلائی لیکن ان کی رائے یہ تھی کہ قمی عوام کے جذبات و احساسات کے پیش نظر، حوزہ علمیہ کی تاسیس ایک ایسے با اثر عالم دین کی موجودگی سے مشروط ہے جس کا تعلق قم سے نہ ہو [3]۔
آخر کار محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی، کی وساطت سے حاج شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛ چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔
رضا شاہ پہلوی دور میں حوزہ علمیہ قم کی بقا کے لیے تین مراجع تقلید کی خاموش جدوجہد
آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کی رحلت کے بعد، جب ایران سیاسی و اقتصادی بحران، جنگِ عظیم دوم، قحط اور بیرونی اشغال جیسے خطرناک حالات سے دوچار تھا، اُس وقت تین عظیم مراجع کرام آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید محمدتقی خوانساری اور آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر – نے باہم مل کر نوپا حوزہ علمیہ قم کو تباہی سے بچایا اور اسے بعد میں آیت اللہ العظمی بروجردی کے سپرد کیا۔
حوزہ کے مستقبل پر خطرات کے بادل
سن 1936ء میں آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد ایران شدید سیاسی بحران کا شکار تھا۔ رضا شاہ کی حکومت روحانیت کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی، جبکہ عالمی جنگ کے سبب متفقین (روس، برطانیہ، اور ہندوستانی افواج) ایران میں داخل ہو چکے تھے۔ ملک بھر میں قحط، بدامنی اور بداعتمادی کی فضا چھا چکی تھی۔
تین مرجع تقلید، ایک مشکل مشن

ایسے وقت میں، تین مراجع تقلید نے ایک مشترکہ اقدام کے تحت حوزہ علمیہ قم کی سربراہی سنبھالی۔ آیت اللہ صدر کی تدبیر، آیت اللہ خوانساری کی استقامت، اور آیت اللہ حجت کی حکمت نے حوزہ کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر قائم رکھا، باوجود اس کے کہ حکومت وقت علماء کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوششوں میں سرگرم تھی۔ آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی کے مطابق: "اگر آیت اللہ صدر کی حکمت عملی نہ ہوتی تو رضا شاہ کے دور کی مشکلات میں روحانیت کا تحفظ ممکن نہ ہوتا۔"
جنگِ عظیم دوم اور ایران کی بے بسی
1939ء میں شروع ہونے والی جنگِ عظیم دوم کے دوران ایران نے ابتدا میں غیر جانبداری کا اعلان کیا، مگر متفقین نے جرمن ماہرین کی موجودگی کو جواز بنا کر ۳ ستمبر 1941کو ایران پر حملہ کر دیا۔ حکومت ایران نے وقتی طور پر مزاحمت نہیں کی اور رضا شاہ نے ۲۵ ستمبر کو اقتدار اپنے بیٹے محمدرضا کے حوالے کر کے کنارہ کشی اختیار کی۔
جنگ کے اثرات نہایت تباہ کن تھے
فوج اور پولیس منتشر ہو چکے تھے۔ امن و امان مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ خوراک کی شدید قلت تھی اور قحط نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ عوام کی جان و مال غیر محفوظ ہو چکی تھی[4]۔
استعمار کی سازشیں
متفقین نے نہ صرف ایران کے وسائل پر قبضہ کیا بلکہ دینی اداروں کو کمزور کرنے کے لیے مراجع کے درمیان اختلافات کو ہوا دی۔ ان کوششوں کے تحت آیت اللہ صدر اور خوانساری کو مالی معاملات سے الگ کر دیا گیا، لیکن مراجع کی اجتماعی کاوشوں سے حوزہ کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچ گیا۔
مشکلات کے باوجود بقا کی جنگ
تینوں مراجع نے نہایت کٹھن حالات میں حوزہ علمیہ قم کو محفوظ رکھا، لیکن معاشی تنگی، حکومتی دباؤ اور سماجی خلفشار کے باعث وہ اس ادارے کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکے۔ نتیجتاً، بعض علمائے کرام نے یہ رائے قائم کی کہ آیت اللہ العظمیٰ سید حسین طباطبائی بروجردی کو قم بلایا جائے تاکہ حوزہ کو ایک مرکزی اور مستحکم قیادت میسر آ سکے۔ آیت اللہ بروجردی کی آمد کے ساتھ ہی حوزہ علمیہ قم نے ایک نئے دور میں قدم رکھا، جس کی بنیاد ان تین مراجع کی خاموش مگر دلیرانہ جدوجہد نے رکھی تھی۔ حوزہ علمیہ قم کی تاریخ کا یہ دور، تین بزرگ مراجع کی بے مثال جدوجہد، جنگی حالات اور سیاسی دباؤ کے باوجود دینی اداروں کی بقا کی ایک روشن مثال ہے۔
حوزہ علمیہ قم ایران کی تقویت کے اسباب
آیت اللہ حائری کے قم میں ساکن ہونے پر ان کے وہ مشہور اور عالی رتبہ شاگرد جو اراک میں تھے، منجملہ:
- سید محمد تقی خوانساری،
- سید احمد خوانساری،
- سید روح اللہ خمینی،
- سید محمد رضا موسوی گلپایگانی ا
- شیخ محمد علی اراکی ان کے ہمراہ قم آگئے۔
حوزہ علمیہ قم کی تشکیل اور حائری کی حسنِ شہرت اور ان کی اعلی انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر قم کی طرف متوجہ اور منتقل ہوئے جن میں سید ابوالحسن رفیعی قزوینی بھی شامل تھے جو سنہ 1341 سے 1349 ہجری قمری تک قم میں رہے اور یہاں درس و تدریس کا اہتمام کیا [5]۔
علماء اصفہان میں سے شیخ محمد رضا مسجد شاہی جو سنہ 1344 سے 1346 ہجری قمری تک قم میں مقیم ہوئے نیز میرزا محمدعلی شاہ آبادی جو سنہ 1347 ہجری قمری میں قم آئے اور سنہ 1354 ہجری قمری تک یہیں مقیم رہے۔ حائری کے زمانے میں، قم میں کثیر مہاجر اور مجاور (مقامی) اساتذہ اور مدرسین کی موجودگی سے اس دور میں قم کی علمی نشاط کا اندازہ ہوتا ہے۔
سیاسی اور معاشرتی عوامل
دیگر سیاسی اور معاشرتی عوامل و اسباب نے بھی تاسیس کے آغاز پر حوزہ علمیہ قم کی رونق بڑھا دی۔ اس سلسلے میں سلسلۂ قاجار کے بادشاہ احمد شاہ قاجار کے دورہ قم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک بار 21 ربیع الاول 1342 ہجری قمری (آٹھ عقرب 1302 ہجری شمسی) کو حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کے سلسلے میں مبارک باد عرض کرنے قم آئے۔[12] اور دوسری بار علمائے نجف کی قم آمد پر [6]۔
نجف سے مشہور اور نامی گرامی علما سید ابو الحسن اصفہانی اور محمد حسن نائینی کی قم آمد اور عبدالکریم حائری کی طرف سے ان کا پر شکوہ استقبال اور اپنا مقام تدریس ان کے سپرکرنا، بھی اس مرحلے میں حوزہ علمیہ قم کی مزید تقویت کا سبب ہوا۔ حوزہ علمیہ قم کی تقویت کا ایک سبب یہ تھا کہ علمائے اصفہان ـ رضاخانی دور میں نوجوانوں کی جبری بھرتی پر احتجاج واعتراض کرنے کی غرض سے حاج آقا نور اللہ اصفہانی (متوفی 1346 ہجری) کی قیادت میں، ہجرت کرکے قم آئے۔ ان کے آنے سے حوزہ قم سیاسی امور میں بھی متحرک ہوا [7]۔
آیت اللہ عبد الکریم حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے ـ جبکہ حوزہ علمیہ علمی برآوری کے عروج سے گذر رہا تھا ـ اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی یہاں تک کہ حوزہ قم کے طلبہ کی تعداد پہلوی اول کی سخت گیریوں اور شدت آمیز رویوں سے قبل سنہ 1934 عیسوی میں 700 تک[18] اور دوسرے قول کے مطابق 900 تک پہنچی تھی [8]۔
قم میں قیام کے دوران عبدالکریم حائری کا درس خارج اہم ترین تھا یہاں تک کہ حوزہ علمیہ کے دوسرے اساتذہ بھی اس میں شرکت کرتے تھے۔ وہ ابتدا میں مدرسہ فیضیہ میں تدریس کرتے تھے اور کچھ عرصہ بعد انھوں نے مقام تدریس کو بدل کر تکیۂ عشق علی میں منتقل کیا۔ انہوں نے تعلیمی منصوبہ بندی اور طلبہ کی معاشی بہبود کے لیے بھی متعدد سنجیدہ اقدامات کیے۔ انھوں نے حوزہ کی تعلیمی روشوں کو تبدیل کرنے کے لیے بھی کوشش کی، علم فقہ میں تخصصی بنانے اور طلبہ کی معلومات کو وسیع تر کرنے کی کوشش کی [9]۔
عبدالکریم حائری نے ان امور میں طلبہ اور مدارس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور درس و بحث کے لیے ان کی ترغیب کے لیے، انعامات مقرر کیے۔ انھوں نے حوزہ کی تعلیمی گنجائش کو وسعت دینے کے لیے مدرسہ فیضیہ اور مدرسہ دارالشفاء جیسے اہم اور مرکزی مدارس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
کشف حجاب
اس کے باوجود انھوں نے کشف حجاب (بے پردگی کی ترویج) و اتحاد لباس (ہم شکل لباس کی ترویج) کی رضا خانی کوششوں کے مقابلے میں ـ حکومت اور سیاست کے سلسلے میں محتاطانہ طرز عمل اپنائے رکھنے کے باوجود ـ زیادہ سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ مداخلت کی۔ انہوں نے مورخہ 3 جولائی 1935 عیسوی کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے واضح کیا کہ بے پردگی کی ترویج شرع مقدس اور مذہب جعفری کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے کشف حجاب اور عزاداری پر پابندی جیسے مسائل اس قدر حائری کے لیے بھاری اور ناقابل برداشت تھے کہ کہا گیا ہے کہ وہ ان واقعات کے بعد بیمار ہوئے اور پہلے کی طرح نشاط و طراوت نہیں رکھتے تھے۔
حوزہ قم، بعد از آیت اللہ حائری
حائری کی وفات سے لے کر آیت اللہ بروجردی کی ہجرت قم تک، حوزہ کے تین بڑے اساتذہ سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، سید محمد تقی خوانساری اور سید صدر الدین صدر نے حوزہ کے انتظامات کا عہدہ سنبھالا۔
قابل ذکر ہے کہ عبد الکریم حائری کی وفات کے بعد، ـ پہلوی نظام حکومت کی طرف سے حوزہ کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے پیدا کردہ نہایت دشوار صورت حال ، بالخصوص حوزہ علمیہ مشہد میں رونما ہونے والے واقعات کے پیش نظر ـ خطرہ تھا کہ حوزہ علمیہ قم کو بھی بند کر دیا جائے؛ چنانچہ ان تین اکابرین نے فیصلہ کیا کہ باہمی تعاون سے حوزہ علمیہ قم کو اس خطرے سے محفوظ رکھیں۔
مراجع ثلاث کی خصوصیات
فائل:سید محمد حجت از مراجع ثلاث.jpeg سید محمد حجت کوہ کمرہ ای
یہ تین افراد عبدالکریم حائری کے پہلے درجے کے معتمدین تھے جنہیں انھوں نے اپنی حیات کے دوران حوزوی اور علمی امور سونپ دیے تھے اور ان کے درمیان ـ ظاہر ہوتا تھا کہ ـ حائری سید محمد حجت کوہ کمرہ ای پر خاص نظر رکھتے تھے۔
سید محمد حجت کوہ کمرہ ای
سید محمد حجت کوہ کمرہ ای وہ جانے پہچانے عالم دین تھے جنھوں نے نجف میں سید محمد کاظم یزدی، میرزا محمد حسین نائینی اور آقا ضیاء عراقی سے کسبِ فیض کیا تھا اور قم آمد کی ابتدا ہی سے نہایت پر فائدہ موضوعات کی تدریس میں مصروف تھے اور ان کا درس ذہین اور زیرک طلبہ کے کا متقاضی تھا۔ انھوں نے تدریس کے ساتھ ساتھ حوزہ کے طلبہ کے معاشی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ، حائری کی روش اپناتے ہوئے سیاسی کشیدگیوں سے پرہیز کا راستہ اپنائے رکھا اور اس کے باوجود کہ ان کے زمانے میں حوزہ پر سرکاری دباؤ حائری کے زمانے سے کہیں زيادہ شدید تھا اور حوزہ علمیہ قم کو محفوظ رکھا۔ حجت نے بھی حائری کی طرح تعلیمی مراکز کی توسیع اور تعلیمی گنجائش میں اضافے کے ذریعے حوزہ علمیہ کی تقویت کے سلسلے میں اہم قدم اٹھائے اور اس حوالے سے ان کی ایک اہم یادگار مدرسہ حجتیہ ہے[38] [جو آج سینکڑوں طلبہ کی علمی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے]؛ اس مہم کو سر کرنے میں سید محمد تقی خوانساری جناب حجت کی مدد کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی۔
سید صدر الدین صدر
سید محمد تقی خوانساری
سید محمد تقی خوانساری نے شہر اراک میں جناب حائری سے کسب فیض کیا تھا؛ نیز نجف میں بھی سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، میرزا نائینی اور آقا ضیاء عراقی جیسے اکابرین کے حضور زانوئے تلمذ تہ کر چکے تھے اور قم آمد کے آغاز سے لے کر حائری کی وفات تک سطوح اور خارج کی تدریس میں مصروف رہے۔[39]
سید صدر الدین صدر
سید صدر الدین صدر نے بھی اس مرحلے میں، حوزہ علمیہ قم کے تحفظ اور ترقی میں حجت کی بڑی مدد کی اور اس کے باوجود کہ خود بھی مرجع تقلید تھے، کبھی کسی قسم کے تعاون سے دریغ نہیں کیا؛ یہاں تک کہ طلبہ کے امتحانات کا خود اہتمام کرتے تھے اور ان کو علم و دانش کی رغبت دلانے کے لیے ہفتہ وار امتحانات منعقد کرتے تھے اور انھیں انعامات سے نوازتے تھے۔ وہ بھی عتبات عالیہ کے فارغ التحصیل تھے اور ان کے اساتذہ میں آخوند خراسانی اور آقا ضیاء عراقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔[40]
اس مرحلے میں میرزا محمد فیض قمی بھی ان تین مراجع تقلید کی مدد کرتے تھے۔ اس دور میں امام خمینی کی سرگرمیاں بھی ـ حوزہ کے نمایاں استاد کے عنوان سے، اثر آفرین تھا، بالخصوص ان کا درس اخلاق طلبہ پر گہرے اثرات مرتب کرتا تھا۔[41]۔[42] اس کے باوجود کہ مذکورہ بالا تین مراجع نے حوزہ علمیہ قم کے تحفظ و انتظام کے سلسلے میں بڑی کوششیں کی تھیں، لیکن ایک طرف سے حکومت وقت کے شدید دباؤ اور دوسری طرف سے حوزہ کی زعامت کے عدم ارتکاز کی وجہ سے حوزہ علمیہ قم کو انتشار کی سی کیفیت کا سامنا تھا،[43]۔[44] حتی کہ طلبہ کی تعداد 1000 سے کم ہوکر 400 تک پہنچ چکی تھی۔[45]۔[46] آیت اللہ بروجردی کی مرجعیت عامہ
1940 عیسوی کے عشرے کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم کے بعض عالی رتبہ اساتذہ نے ـ جو حوزہ کے مربوط اور ہمآہنگ اور مرتکز انتظام نہ ہونے کی وجہ سے فکرمند تھے اور دوسری طرف سے آیت اللہ حاج آقا حسین بروجردی کے علمی مراتب اور سماجی اور دینی اثر و رسوخ سے آگہی رکھتے تھے ـ ان سے درخواست کی کہ بروجرد سے قم آجائیں۔ اس سلسلے میں امام خمینی اور خرم آباد کے نامی گرامی عالم دین حاج آقا روح اللہ کمالوند نے زیادہ کوششیں مبذول کیں۔ آیت اللہ بروجردی نے اس درخواست کو منظور کیا اور محرم الحرام 1364 ہجری قمری / دسمبر 1944 عیسوی کو قم میں سکونت پزیر ہوئے۔[47]۔[48] قیام قم کے دوران بروجردی کی منزلت و مرجعیت کے استحکام میں بھی امام خمینی کا کردار ناقابل انکار تھا۔[49]۔[50] آیت اللہ بروجردی کی قم آمد پر حوزہ علمیہ قم کی رونق بڑھی گئی اور اس کی علمی نشاط و بالیدگی دوچند ہوئی اور اس کی علمی اساس کو تقویت ملی۔ حوزہ قم کی حفاظت اور تقویت
اپنی زعامت کے دور میں بروجردی کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حوزہ علمیہ قم کے تحفظ و ترقی کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ انھوں نے قم آکر ثمر آور تدریس کا آغاز کیا۔ ان کے درس میں حاضرین کی تعداد کا 500 سے 600 تک، تخمینہ لگایا گیا ہے۔[51] آیت اللہ بروجردی کی قویّ اور مرتکز و مربوط زعامت و انتظام کی وجہ سے ان کے قیام قم کے آغاز پر (سنہ 1947 عیسوی میں) طلبہ کی تعداد 2000 تھی۔[52] جو 1960 کے عشرے میں 8700،[53] تک پہنچی۔ سنہ 1947 عیسوی میں آیت اللہ برجردی سمیت پانچ اعلی اساتذہ "سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، میرزا محمد فیض قمی، سید محمد تقی خوانساری اور صدر" درس خارج پڑھاتے تھے۔[54] جبکہ ان کی حیات کو اواخر میں درس خارج کے ان اساتذہ میں خاطرخواہ اضافہ ہوا تھا جن کے شاگردوں کی تعداد 50 سے 250 تک تھی؛ بالخصوص عبد الکریم حائری کے مشہور و نمایاں شاگردوں منجملہ شیخ محمدعلی اراکی، سید محمد رضا گلپایگانی، سید محمد داماد، امام خمینی، سید کاظم شریعتمداری اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے درس خارج کا اپنا اپنا حلقہ تھا۔
بروجردی نے جو مرجع علی الاطلاق اور حوزہ علمیہ قم کے سربراہ تھے نے ـ ایران کی اعلی ترین علمی - دینی شخصیت کے عنوان سے ـ دین اور حوزہ علمیہ کے معاملات آگے بڑھانے کے لیے بعض افراد کو حکومت کے ساتھ رابط کے عنوان سے مقرر کیا تھا اور اپنے پیغامات، تنبیہات اور اعتراضات کو ان کے ذریعے، شاہ یا دوسرے سرکاری حکام تک پہنچا دیتے تھے۔
سیاسی اور سماجی اقدامات
بروجردی کے دیگر سیاسی اور سماجی اقدامات میں درج ذیل اقدامات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے: انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ سرکاری اسکولوں کے نصاب میں دینی تعلیمات (دینیات) کو بحیثیت ایک درسی مضمون شام کیا جائے اور حکومت نے ان کی یہ تجویز منظور کرلی انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ ریل گاڑیوں کو نماز کے وقت اسٹیشن میں روکا جائے تاکہ مسافرین نماز ادا کریں، سرکاری مراکز اور اداروں میں بہائیت کی ریشہ دوانیوں اور اثر و رسوخ کا مقابلہ، فلسطینی عوام کی حمایت اور اس سلسلے میں سنہ 1948 عیسوی اعلامیہ جاری کرنا (غاصب صہیونی ریاست کی تاسیس کا اعلان اسی سال ہوا تھا)
بین الاقوامی اقدامات
بین الاقوامی سطح پر سید محمد تقی طالقانی آل احمد کو سنہ 1952 عیسوی میں اور ان کی وفات کے بعد سید احمد لواسانی اور ان کے بعد شیخ عبدالحسین فقیہی رشتی کو شیعیان مدینہ کی سرپرستی کے لیے روانہ کیا، سید زین العابدین کاشانی کو کویت، سید محمد حسن ناشرالاسلام شوشتری کو زنگبار، شریعت زادہ اصفہانی کو پاکستان، مہدی حائری یزدی کو امریکا اور صدر بلاغی کو یورپ میں اپنے سیّار (Ambulatory) نمائندے کی حیثیت سے مقرر کیا
آیت اللہ بروجردی کے دیگر بین الاقوامی اقدامات میں سے یہ تھا کہ انھوں نے مصر میں دارالتقریب کی تاسیس کے لیے شیخ محمد تقی قمی کی حمایت و تائید حاصل کی۔ محمد تقی قمی کی کوششوں کے نتیجے میں ہی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ محمود شلتوت نے سنہ 1958 عیسوی میں مذہب جعفری کو اہل سنت کے چار مذاہب کے ساتھ تسلیم کیا۔[68]۔[69]
دیگر اقدامات
آیت اللہ بروجردی نے حوزہ علمیہ قم کے تحفظ اور ارتقا کے لیے حکومت سے مکمل بے نیازی اور عدم احتیاج اور وابستگی کا اظہار و اعلان کیا اور طلبہ کو پرسکون رہنے اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد وغیرہ کو اہمیت نہ دینے کی تلقین کرتے ہوئے اس سلسلے میں اہم اقدامات انجام دیے منجملہ: انھوں نے علمی لحاظ سے فقہی مباحث کی تحقیق و تدریس میں اپنی نئی روشیں متعارف کرائیں جو قبل ازاں قم میں بروئے کار نہیں لائی گئی تھیں اور انھی روشوں سے باصلاحیت شاگردوں کی ایک نسل کو پروان چڑھایا جو ان کے بعد حوزہ کے اساتذہ اور مراجع تقلید قرار پائے۔
انھوں نے حدیث، فقہ اور رجال میں بنیادی شیعہ کتب کے احیاء اور طباعت و اشاعت کے لیے انتھک کوششیں کیں، طلبہ کو حصول علم جاری رکھنے کی ترغیب دلائی اور مختلف روشوں سے باصلاحیت طلبہ کی حوصلہ افزائی کی انھیں فقہ اور رجال کے مسائل و مباحث کے مبانی و مبادی اور ہر ایک کے ماخذ کے بیان کرنے کی صحیح روشوں سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں آگاہ کر دیا کہ کون سا مسئلہ کس وقت اور کیوں اسلامی حلقوں میں داخل ہوا ہے۔[70] انھوں نے تعلیمی گنجائش بڑھانے کے لیے سابقہ مرکزی اور اہم مدارس، نئے مدارس کی تعمیر اور بطور خاص مسجد اعظم اور متعلقہ کتب خانے کی تعمیر کے ذریعے قابل توجہ اقدامات انجام دیے۔
بہر صورت، آیت اللہ بروجردی کی مؤثر اور انقلاب آفرین ہجرت نے حوزۂ علمیۂ قم کو اور ترقی کی اس چوٹی پر پہنچایا کہ یہ حوزہ اس دور کے معتبر ترین اور قدیم حوزہ علمیہ یعنی حوزۂ نجف کے برابر آگیا اور نہ صرف ایران کے مختلف شہروں کے لوگوں نے قم کا رخ کیا بلکہ دنیا کے شیعہ آبادی والے ملکوں سے بھی طلبہ نے حوزہ قم کو حصول علم کے لیے منتخب کرنا شروع کیا۔
حوزہ کے تعلیمی نظام کی تشکیل نو ان اہم موضوعات میں سے ایک ہے جو عرصۂ دراز ـ بالخصوص ایران میں نئے تعلیمی نظام کی تاسیس کے زمانے ـ سے حوزات علمیہ کے ذمہ داران کے ہاں جاذب توجہ تھی۔ مثال کے طور پر آیت اللہ بروجردی نے ایک انجمن بعنوان "ہیئت حاکمہ" تشکیل دی تھی جس میں امام خمینی، شیخ مرتضی حائری، سید احمد زنجانی اور سید باقر سلطانی طباطبائی جیسے اکابرین حوزہ شامل تھے اور بعض دوسرے علما اس کے رکن تھے اور پنجشنبہ (=جمعرات) 13 ذوالحجہ سنہ 1368 ہجری قمری / 6 اکتوبر 1949 عیسوی کو نشست کا انعقاد کیا اور بعض تجاویز دیں جنہیں زعیم حوزہ علمیہ نے منظور نہیں کیا اور یہ تجاویز متوقف ہوئیں۔
ان تجاویز میں سے جو کچھ منظور ہوا اور اس پر عملدرآمد بھی ہوا اس کا تعلق طلبہ کے لیے امتحانات سے تھے لیکن نجف کے مراجع نے امتحانات کی مخالفت کی چنانچہ آیت اللہ بروجردی نے امتحانات کو بھی منسوخ کیا۔ آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم اپنی حیات کے نئے مرحلے میں داخل ہوا۔ سنہ 1961 تا 1979 عیسوی کا زمانہ حوزہ علمیہ قم کی فعالیت و حیات کا سیاسی ترین دور سمجھا جاتا ہے۔
آیت اللہ بروجردی کی وفات پر حوزہ علمیہ قم کا انتظام نیز مرجعیت کا ادارہ ایک بار پھر مسائل سے دوچار ہوا اور اس کا انتظام چار عالی رتبہ اساتذہ یعنی امام خمینی، محمد رضا گلپایگانی، سید کاظم شریعتمداری اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی نے سنبھالا۔ امام خمینی ترکی جلاوطن ہوئے جہاں سے انھیں نجف منتقل کیا گیا اور یوں حوزہ علمیہ قم کی قیادت باقی تین افراد کے سپرد ہوئی۔
اس دور میں مرجعیت کا موضوع ایک بار پھر زیر بحث آیا اور اخبارات نے حوزہ کے درس خارج کے اساتذہ اور ان کے شاگردوں کے بارے میں تحریری روداد نگاری کا سلسلہ شروع ہوا اور آیت اللہ بروجردی کی وفات کے دو روز بعد کیہان مورخہ یکم فروری 1966 کے شمارے میں امام خمینی کے درس خارج کو پر رونق ترین اور پر شکوہ ترین درس قرار دیا جس میں 400 افراد شرکت کرتے تھے۔ اس دور میں چوٹی کے علما سیاسی لحاظ سے تین زمروں میں تقسیم ہوتے تھے:
پہلا گروہ ان علما کا تھا جو سیاست میں مداخلت سے پرہیز کرتے تھے؛ سید احمد خوانساری اس طرز فکر کا نمایاں نمونہ تھے؛ دوسرے گروہ میں شامل علما اعتدال پسندانہ سوچ رکھتے تھے؛ وہ پہلوی حکومت کے مخالف ہونے کے باوجود اس کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد سے پرہیز کرتے تھے اور محمد رضا گلپایگانی، کاظم شریعتمداری اور شہاب الدین مرعشی نجفی اس روش کے حامی تھے؛ تیسرا گروہ امام خمینی اور آیت اللہ بروجردی کے شاگردوں میں سے ان کے حامی نیز سید محمد محقق داماد اور محقق داماد کے شاگرد سنجیدگی کے ساتھ میدان سیاست میں اتر آئے۔
حوزہ قم اور حکومت کا تنازعہ
آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم اور حکومت کے درمیان اختلاف اور تنازعے کا نقطۂ آغاز یہ تھا کہ پہلوی دوئم نے علمائے قم کو پیغام تعزیت بھیجنے کی بجائے نجف میں آیت اللہ سید محسن حکیم کو تعزیتی پیغام دیا اور اس کے اس اقدام سے ایران کے علما نے اس امر کے مترادف قرار دیا کہ وہ شیعہ مرجعیت کو ایران سے سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔
پہلوی حکومت کے اگلے اقدامات نے حوزہ علمیہ قم کی سیاسی منزلت کو نمایاں تر کر دیا اور امام خمینی اور ان کے ساتھیوں، حامیوں اور دوسرے علماہ کے برملا موقف کے اظہار کی وجہ سے امام خمینی کی مرجعیت کو مستحکم تر کر دیا۔ امام خمینی عالی رتبہ استاد تھے جن کا درس خارج معتبر تھا اور فلسفہ، اصول اور فقہ میں بڑی تعداد میں شاگردوں کی پرورش کرچکے تھے۔ ان کے سیاسی اقدامات نے حوزہ قم پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔
ریاستوں اور صوبوں کی انجمنوں کا مسودہ قانون
8 اکتوبر سنہ 1962 عیسوی کو ریاستوں اور صوبوں کی انجمنوں کا مسودہ قانون "اسد اللہ عَلَم" کی کابینہ میں منظور کیا گیا جس میں منتخب کرنے والوں (=رائے دینے والوں) اور منتخب ہونے والوں (=رائے لینے والوں) کے لیے اسلام کی شرط حذف کی گئی تھی اور حلف برداری کی تقریبات میں قرآن پر حلف اٹھانے کی شرط ہٹا کر "ہر آسمانی کتاب" پر حلف اٹھانے کو ممکن گردانا گیا تھا۔
اس مسودۂ قانون نے عوام کے دینی جذبات کو مشتعل کیا اور علما اور مراجع نے شدید مخالفت کی اور اعتراضات کیے۔ دو مہینے مسلسل جدوجہد کے بعد حکومت نے باضابطہ طور پر آیت اللہ گلپایگانی کو ٹیلی گرام بھیج کر یقین دہانی کرائی کہ یہ قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اسی سال چھ مسودات قانون کے لیے استصواب رائے عامہ (=Referendum) کی مخالفت کے سلسلے میں بھی حوزہ قم نے شدید رد عمل دکھایا۔ قم کے مراجع تقلیدنے ایک مشترکہ فیصلے کے تحت قرار دیا کہ استصواب رائے کا مقاطعہ (Boycott) کرنے کے لیے ایک اعلامیہ جاری کیا جائے۔
آیت اللہ گلپایگانی نے اس دوران حکومت کے پس پردہ منصوبے فاش کر دیے۔[80] اور امام خمینی نے استصواب ایران کو ایران کے قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔[81] 24 جنوری سنہ 1963 عیسوی کو شاہ نے قم آنے کا ارادہ کیا تو قم کے کمشنر نے علما کے ساتھ نشست رکھی اور ان سے شاہ کی ملاقات کو جانے کی درخواست کی؛ امام خمینی نے انکار کیا اور دوسرے علما نے ان کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا اور فیصلہ ہوا کہ علما اور طلبہ اس دن اپنے گھروں میں رہیں۔[82] نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ اس دن کسی سنجیدہ اور وسیع استقبال کے بغیر قم آیا اور علما کے خلاف تقریر کی۔[83] شاہ کے خطاب کے رد عمل میں امام خمینی نے ایک اعلامیہ حکومت کے خلاف سخت لب و لہجے میں ایک اعلامیہ جاری کیا۔[84] کچھ عرصہ بعد عید نوروز کے ایام میں ـ امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کی ایام عید کے ساتھ مطابقت کی رو سے ـ علما نے اعلان کیا کہ "مسلمانوں کی اس سال کوئی عید نہیں ہے"۔[85]۔[86]
حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ میڈیا سرگرمیوں کا جائزہ
حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کے سو سال مکمل ہونے کی مناسبت سے ایک عظیم علمی و تحقیقی سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس میں حوزہ و یونیورسٹی کے دانشور افراد شریک ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا کمیٹی کی سرگرمیوں پر مشتمل ایک رپورٹ حجۃ الاسلام و المسلمین برتہ کی زبانی پیش کی گئی ہے۔ حجۃ الاسلام و المسلمین برته نے بتایا کہ کانفرنس کی میڈیا کمیٹی نے سب سے پہلے ایک علمی کونسل تشکیل دی، جس میں ممتاز علمی شخصیات کو شامل کیا گیا۔ اس کونسل نے تین بنیادی محور پر تحقیقاتی فریم ورک تیار کیا:
1. ساختاری جائزہ: مدرسے کے میڈیا سے تعلق کا ادارجاتی مطالعہ۔
2. تحریکی تجزیہ: گزشتہ صدی میں حوزہ کے میڈیا میں کردار کی تاریخ۔
3. تحقیقی رجحان: جدید ذرائع ابلاغ کے تناظر میں حوزہ کی تحقیقی کاوشیں۔
تحقیق کا دوسرا مرحلہ "واقعه نگاری" یا "کرونولوجیکل اسٹڈی" پر مشتمل تھا، جس میں گزشتہ ایک صدی کے دوران حوزہ علمیہ قم کی میڈیا سرگرمیوں کا زمانی تجزیہ کیا گیا۔ اس میں ابتدائی مکتوب میڈیا جیسے رسائل و جرائد سے لے کر آج کے دور کے جدید میڈیا جیسے ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا، حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت (AI) تک کے ذرائع کا جائزہ شامل ہے۔ تیسرا مرحلہ، نوآوریوں پر مبنی تحقیقی رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کئی اہم اور دلچسپ موضوعات پر مقالات پیش کیے گئے، جن میں نمایاں عنوانات درج ذیل ہیں:
"رسانہداری حوزویان" (حوزہ علمیہ کا میڈیا کردار): جس پر ڈاکٹر اکبری نے تحقیق پیش کی۔
"میڈیا میں حوزہ و روحانیت کی تصویر": اس پر جناب واعظی نے اپنی تحقیق پیش کی۔
"منبر کا میڈیا تجزیہ": منبر کو قدیم ترین دینی میڈیا کے طور پر جناب حسینی نے پیش کیا۔
اسی طرح، حوزہ کے قومی میڈیا (ریاستی ٹی وی و ریڈیو) میں کردار پر ڈاکٹر جلالی و طوبایی نے مقالہ بعنوان " گزشتہ سو سال میں قومی میڈیا پر روحانیت کی موجودگی کے اقسام کا تجزیہ" پیش کیا۔ میڈیا میں حوزہ کی گفتگو اور تعاملات پر جناب محققی نے تحلیل پیش کی، جبکہ "نبرد روایت ها" یعنی میڈیا بیانیوں کی جنگ اور حوزہ کی عملی شرکت پر جناب پیشاہنگ نے رپورٹ مرتب کی۔
امام خمینیؒ کو اس ساری تحقیق میں ایک مرکزی اور انقلابی میڈیا شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کے ذریعے "انقلاب کاست" (کاسٹیٹ انقلاب) کو میڈیا انقلابی اقدام کے طور پر جلالی صاحب نے تفصیل سے بیان کیا۔
مزید برآں، حوزہ علمیہ کا دیگر میڈیا اداروں کے ساتھ ادارہ جاتی تعلق اور تعاون بھی تحقیق کا حصہ رہا، جس پر جناب ابراهیمی نے مقالہ پیش کیا۔ میڈیا سرگرمیوں کا سال بہ سال جائزہ، جناب حسینی ہرندی نے پیش کیا، اور آخر میں نوآوریوں پر مبنی مکمل تحقیقی خلاصہ جناب جلالی نے مرتب کیا۔ آخر میں حجت الاسلام و المسلمین برته نے تمام شرکاء کے لیے دعا کی اور علمی توفیقات کی آرزو ظاہر کی[10]۔
حوالہ جات
- ↑ رسول جعفریان، جریانها و سازمانهای مذہبی ـ سیاسی ایران، ص35
- ↑ شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص138۔
- ↑ شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص1415، 2122
- ↑ پہلوی دور میں حوزہ علمیہ قم کی بقا کے لیے تین مراجع تقلید کی خاموش جدوجہد- شائع شدہ از: 30 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء
- ↑ رفیعی قزوینی، مجموعہ رسائل و مقالات فلسفی حکیم متألّہ علامہ سید ابو الحسن رفیعی قزوینی، مقدمہ رضا نژاد، صبیست ویک۔
- ↑ مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، ج2، ص432۔
- ↑ نجفی، اندیشہ سیاسی و تاریخ نہضت حاج آقا نوراللّه اصفہانی، ص237ـ 300۔
- ↑ سید محسن امین امین،ج8، ص42۔
- ↑ سید کباری، آیةاللّه مؤسّس مرحوم آقای حاج شیخ عبد الکریم حائری، ص384۔
- ↑ حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ میڈیا سرگرمیوں کا جائزہ-شائع شدہ از: 30 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء