مندرجات کا رخ کریں

"عباس بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 9: سطر 9:


حضرت عباس(ع)  نہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خردمندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی اپنی مثال آپ تھے وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں حجت خدا کی نصرت ومدد کرنا ہے، وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علی(ع) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ (ع) کی تمام اولاد آپ (ع) کے اطراف میں نگران و پریشان اور گریہ کناں کھڑی تھی عباس(ع) کا ہاتھ حسین(ع) کے ہاتھ میں دیا اور یہ وصیت کی" کربلا میں حسین(ع) سے جدا نہ ہونا"۔
حضرت عباس(ع)  نہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خردمندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی اپنی مثال آپ تھے وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں حجت خدا کی نصرت ومدد کرنا ہے، وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علی(ع) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ (ع) کی تمام اولاد آپ (ع) کے اطراف میں نگران و پریشان اور گریہ کناں کھڑی تھی عباس(ع) کا ہاتھ حسین(ع) کے ہاتھ میں دیا اور یہ وصیت کی" کربلا میں حسین(ع) سے جدا نہ ہونا"۔
== حضرت علی(ع) کو اپنی مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی ==
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو جب حضرت عباس کی ولادت کی بشارت دی گئی تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علی کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی اپنی مستجاب دعا کو شروع تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے۔
چونکہ حضرت علی اپنی دور رس معصوم نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کا بیٹا عباس گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباس نے اپنی پوری بابرکت زندگی میں ایک لحظہ کے لیے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علی نے اپنے نو مولود کا نام عباس (یعنی بپھرا ہوا شیر) رکھا۔
حضرت عباس(ع)  کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لیے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لیے آپ کو مانگا تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لیے نمونہ عمل کے طور پر باقی رہے گا۔
امام علی نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعد حضرت عباس کو فرزند رسول ، لخت جگر بتول حضرت امام حسین کی آغوش میں دیا۔ آقا حسین نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسین کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباس نے ولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھائی کے مبارک چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے:
ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی
اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی
شاید حضرت عباس مولا حسین کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسینؑ کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزو پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔
== آپ(ع) کی ازدواجی زندگی ==
== آپ(ع) کی ازدواجی زندگی ==
عباس علیہ السلام نے اٹھارہ سال کی عمر میں امام حسن علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دور میں عبد اللہ بن عباس کی بیٹی حضرت لبابہ کے ساتھ شادی کی۔ عبد اللہ بن عباس راوی حدیث، [[ قرآن|مفسر قرآن]]، اور امام علی(ع) کے بہترین شاگرد تھے۔ اس خاتون کی شخصیت بھی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھی تھی اور بہترین علم و ادب کے زیور سے آراستہ تھیں جناب عباس(ع) کے ہاں دو بیٹے پیداہوئے حضرت عبید اللہ اور حضرت فضل جو بعد میں بزرگ علماء اور فضلا میں سے شمار ہوئے حضرت عباس(ع) کے پوتوں میں سے کچھ افراد راویان حدیث اور اپنے زمانے کے برجستہ علماء میں شمار ہوتے ہیں یہ نور علوی جو عباس(ع) کی صلب میں تھا نسل در نسل تجلی کرتا رہا اور ہمیشہ کے لیے زندہ و جاویداں بن گیا۔
عباس علیہ السلام نے اٹھارہ سال کی عمر میں امام حسن علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دور میں عبد اللہ بن عباس کی بیٹی حضرت لبابہ کے ساتھ شادی کی۔ عبد اللہ بن عباس راوی حدیث، [[ قرآن|مفسر قرآن]]، اور امام علی(ع) کے بہترین شاگرد تھے۔ اس خاتون کی شخصیت بھی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھی تھی اور بہترین علم و ادب کے زیور سے آراستہ تھیں جناب عباس(ع) کے ہاں دو بیٹے پیداہوئے حضرت عبید اللہ اور حضرت فضل جو بعد میں بزرگ علماء اور فضلا میں سے شمار ہوئے حضرت عباس(ع) کے پوتوں میں سے کچھ افراد راویان حدیث اور اپنے زمانے کے برجستہ علماء میں شمار ہوتے ہیں یہ نور علوی جو عباس(ع) کی صلب میں تھا نسل در نسل تجلی کرتا رہا اور ہمیشہ کے لیے زندہ و جاویداں بن گیا۔

نسخہ بمطابق 23:11، 1 فروری 2025ء

عباس بن علی ابن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) 4 شعبان سن 26 ھ کو عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔آپ کی کنیت " ابوالفضل" ہے. آپ کی والدہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت حزام "ام البنین" کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت عباس(ع) کو علمدار بھی پکارا جاتا ہے۔ آپ(ع) اسلام میں اپنے بھائی حسین بن علی کے لیے وفادار رہنے، آل فاطمہ کا احترام کرنے اور جنگ کربلاء میں اپنے کردار کی وجہ سے ممتاز شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی یوم عاشوراء کربلا شہادت ہوئی۔ ابو الفضل العباس عرب میں بہادری و شجاعت کے لیے بھی مشہور تھے۔ ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں کہ عباس وہ شیر تھے جس سے دوسرے شیر ڈرتے تھے۔

ولادت

3 [[شعبان |شعبان المعظم] 26 ہجری قمری مدینہ منورہ میں آپ (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت ہوئی، حضرت عباس کی ولادت سے کائنات خوشیوں سے مملو ہو گئی۔ امام علی علیہ السلام نے آپ(ع) کے کانوں میں اذان و اقامت کہی۔ ولادت باسعادت کے ساتویں دن ایک دنبہ ذبح کروا کر عقیقہ کیا اور فقراء میں تقسیم کیا۔ امیر المؤمنین (علیہ السلام) حضرت عباس(ع) سے انتہائی محبت کرتے تھے، اپنی گود میں بٹھاتے تھے اور آستینوں کو الٹ کر بازوپر بوسہ دیتے تھے اور آنسو بہاتے تھے۔

ان کی ماں ام البنین(ع) اس ماجرا کو دیکھ رہی تھیں، انہوں نے گریہ کرنے کی وجہ دریافت کی تو امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا" یہ ہاتھ حسین (علیہ السلام) کی مدد اور نصرت میں کاٹے جائیں گے میں اس دن کو یاد کر کے رو رہا ہوں"۔

تربیت

وہی گھرانہ جس میں جوانان جنت کے سرداروں نے تربیت پائی اسی میں حضرت عباس (علیہ السلام) کی بھی تربیت ہوئی اور شروع سے ہی عترت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے درس انسانیت، شہامت، اخلاق، صداقت اور فداکاری سیکھا۔ آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس چیز کا باعث بنی کہ جسمانی رشد کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی کمالات بھی حاصل کیے۔

حضرت عباس(ع) نہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خردمندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی اپنی مثال آپ تھے وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں حجت خدا کی نصرت ومدد کرنا ہے، وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علی(ع) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ (ع) کی تمام اولاد آپ (ع) کے اطراف میں نگران و پریشان اور گریہ کناں کھڑی تھی عباس(ع) کا ہاتھ حسین(ع) کے ہاتھ میں دیا اور یہ وصیت کی" کربلا میں حسین(ع) سے جدا نہ ہونا"۔

حضرت علی(ع) کو اپنی مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو جب حضرت عباس کی ولادت کی بشارت دی گئی تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علی کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی اپنی مستجاب دعا کو شروع تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے۔

چونکہ حضرت علی اپنی دور رس معصوم نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کا بیٹا عباس گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباس نے اپنی پوری بابرکت زندگی میں ایک لحظہ کے لیے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علی نے اپنے نو مولود کا نام عباس (یعنی بپھرا ہوا شیر) رکھا۔

حضرت عباس(ع) کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لیے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لیے آپ کو مانگا تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لیے نمونہ عمل کے طور پر باقی رہے گا۔

امام علی نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعد حضرت عباس کو فرزند رسول ، لخت جگر بتول حضرت امام حسین کی آغوش میں دیا۔ آقا حسین نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسین کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباس نے ولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھائی کے مبارک چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے:

ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی

اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی

شاید حضرت عباس مولا حسین کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسینؑ کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزو پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔

آپ(ع) کی ازدواجی زندگی

عباس علیہ السلام نے اٹھارہ سال کی عمر میں امام حسن علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دور میں عبد اللہ بن عباس کی بیٹی حضرت لبابہ کے ساتھ شادی کی۔ عبد اللہ بن عباس راوی حدیث، مفسر قرآن، اور امام علی(ع) کے بہترین شاگرد تھے۔ اس خاتون کی شخصیت بھی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھی تھی اور بہترین علم و ادب کے زیور سے آراستہ تھیں جناب عباس(ع) کے ہاں دو بیٹے پیداہوئے حضرت عبید اللہ اور حضرت فضل جو بعد میں بزرگ علماء اور فضلا میں سے شمار ہوئے حضرت عباس(ع) کے پوتوں میں سے کچھ افراد راویان حدیث اور اپنے زمانے کے برجستہ علماء میں شمار ہوتے ہیں یہ نور علوی جو عباس(ع) کی صلب میں تھا نسل در نسل تجلی کرتا رہا اور ہمیشہ کے لیے زندہ و جاویداں بن گیا۔

شجاعت حضرت عباس(ع)

حضرت عباس(ع) نے اپنی گرانقدر زندگی کے چودہ سال امیر المؤمنین(ع) کے ساتھ گزارے اس کے علاوہ آپ(ع) کے ننہال( قبیلہ بنی کلاب) جو شجاعت، بہادری اور شمشیر زنی میں معروف تھے آپ کی شجاعت ان دو خاندانوں کی تاثیر تھی گویا عباس(ع) شجاعت کے دو سمندروں کا آپس میں ملنے کا نام ہے تاریخ نے اس ہاشمی نوجوان کے جنگ صفین کے بعض کرشموں کو قلمبند کیا ہےملتا ہے کہ:

صفین کی جنگ کے دوران ایک نقاب پوش نوجوان امیر المؤمنین کے لشکر سے نکلا جس کی ہیبت سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور دور سے خاموش تماشائی بن گئے معاویہ کو اس بات پر غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی" ابن شعثاء" کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتا تھا اس نے کہا" اے امیر مجھے لوگ دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ مجھے ایک نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں معاویہ نے کہا پس کیا کروں ابن شعثا نے کہا میرے سات بیٹے ہیں میں ان میں سے کسی ایک کو بھیجتا ہوں تا کہ اس کا کام تمام کر دے معاویہ نے کہا بھیج دو اس نے ایک کو بھیجا اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔

دوسرے کو بھیجا اس کا بھی وہی حال ہوا اسی طر ح تیسرے چوتھے اور ساتویں تک سارے کے سارے واصل جہنم ہوگئے معاویہ کی فوج میں زلزلہ آ گیا آخر کار خود " ابن شعثا" میدان میں یہ رجز پڑھتا ہوا آیا اے جوان تو نے میرے سات بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تیری عزا میں بٹھاؤں گا اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں چمکنے لگیں آخر اس نوجوان نے ایک کاری ضرب سے " ابن شعثاء" کو زمین بوس کر دیا سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المؤمنین نے وا پس بلا لیا نقاب ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا یہ نو جوان کون تھا یہ قمر بنی ہاشم یہ بار ہ سالہ نوجوان شیر خدا کا شیر تھا۔

وفاداری

حضرت عباس(ع) نے جب سے آنکھ کھولی تھی آپ(ع) مدینہ میں قبیلہ بنی ہاشم ہی میں رہتے تھے اور امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو اپنے ارد گرد دیکھا اور ان کی مہر ومحبت کے سائے میں پروان چڑھے اور امامت کے چشمہ علم ومعرفت سے سیراب ہوتے رہے، آپ(ع) ہمیشہ امام حسین(ع) کے شانہ بشانہ رہتے تھے جوانی کو امام (علیہ السلام) کی خدمات میں گزار دیا بنی ہاشم کے درمیان آپ (علیہ السلام) کا خاص رعب و دبدبہ تھا حضرت عباس(ع) بنی ہاشم کے تین جوانو ں کو حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔

جو ہمیشہ امام حسین(ع) کے ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرتے اور اس رات بھی جب معاویہ کے مرنے کے بعد ولید یزید کی بیعت کے لیے امام حسین (ع) کو دارالخلافہ بلایا تینوں جوان جناب عباس (ع) کی نظارت میں دارالخلافہ گئے اور امام(ع) کے حکم کے مطابق باہرکھڑے رہتے تھے اور امام (علیہ السلام) کے حکم کا انتظار کرتے تھے۔ یزید کی بیعت کا انکار کرنے پر امام (علیہ السلام) کو یزید کے مقابلے میں قیام کرنا پڑا اس سفر میں بھی جناب عباس امام(ع) کے شانہ بشانہ تھے اور پروانے کی طرح امام(ع) کے گرد چکر لگا رہے تھے کہ کہیں میرے مولا کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔

کربلا میں

کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) نے حضرت عباس(ع) کو اپنی فوج کا سپہ سالار مقرر کیا، خیام حسینی (علیہ السلام) کی حفاظت و نگہبانی آپ کے ذمہ تھی۔ عصر تاسوعا جب لشکر عمر ابن سعد نے خیام حسینی(ع) کو گھیر ے میں لینے کی کوشش کی تو امام حسین (علیہ السلام) نے جناب عباس (علیہ السلام) کو دشمن کی طرف بھیجا تا کہ معلوم کر سکیں کہ دشمن کا کیا ارادہ ہے ؟ جب چند ساتھیوں کے ساتھ حضرت عباس (علیہ السلام) قوم اشقیاء کے پاس جاتے ہیں اور وہ جنگ کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں۔

حضرت عباس(ع) وہاں پر جوابی کاروائی کرنے کے بجائے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میں اپنے مولا (علیہ السلام) کو آگاہ کرتا ہوں اور حکم لیتا ہوں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جناب عباس (علیہ السلام) مطیع محض حجت خدا تھے اور ان کے اشارے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے اور جب آ کر امام حسین (علیہ السلام) کو دشمن کے ارادے سے آگاہ کرتے ہیں تو امام (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ بنفسی یا اخی اے میرے بھائی تجھ پر میری جان قربان ہو جائے تو جانتا ہے کہ مجھے عبادت خدا سے عشق ہے جاؤ دشمن سے کہو کہ ہمیں آج کی رات مہلت دے دے۔

یہاں پر دو تین باتیں قابل غور ہیں علماء فرماتے ہیں کہ "کلام الامام امام الکلام" ہوتا ہے اور فدیہ کا اصول یہ ہے کہ مفضول کو افضل پر قربان کیا جاتا ہے اور یہاں پر حجت خدا یہ فرما رہی ہے کہ میں تجھ پہ قربان ہو جاؤں یہ جناب عباس (علیہ السلام) کے مقام و منزلت کی رفعت کی علامت ہے دوسری بات یہ کہ کسی شجاع انسان کے لیے انتہائی سخت ہوتا ہے کہ وہ کسی کمینے دشمن کے پاس جا کر ایک رات زندہ رہنے کی مہلت مانگے یہ جناب عباس (علیہ السلام) کی اطاعت امام اور بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے حکم امام (علیہ السلام) کو بجا لاتے ہیں۔

بنی ہاشم اور اصحاب کے شہید ہو جانے کے بعد حضرت عباس (علیہ السلام) نے امام (علیہ السلام) سے جنگ کی اجازت طلب کی تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا عباس (علیہ السلام) تم میری فوج کے سپہ سالار ہو الغرض امام (علیہ السلام) نے کہا عباس (علیہ السلام) اگر جاتے ہی ہو تو جانے سے پہلے ایک دفعہ بچوں کے لیے پانی لاؤ جناب عباس (علیہ السلام) ہمیشہ کی طرح اطاعت کرتے ہوئے مشکیزہ اٹھایا اور ہلکے سے اسلحہ کے ساتھ دریائے فرات کی طرف چل پڑے جب علی (علیہ السلام) کے اس شیر بیٹے نے میدان کی طرف رخ کیا توفوج اشقیاء بھیڑوں کیطرح بھا گ رہی تھی۔

دریا میں داخل ہو گئے اور مشکیزے کو پانی سے بھرنے کے بعد پانی کو چلو میں لیا اور پھینک دیا یہ عباس (علیہ السلام) کی وفا کی معراج ہے کہ انہوں نے امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے اہل بیت (علیہ السلام) کی پیاس کی یاد میں خود بھی پانی نہ پیا ۔ واپسی کا ارادہ تھا عمر ابن سعد نے اعلان کیا کہ ساری فوج کو جمع کیا جائے اور عباس (علیہ السلام) پر حملہ کیا جائے کہیں پانی خیام حسینی (علیہ السلام) تک نہ پہنچ جائے۔

چاروں طرف سے لشکر یزید نے عباس ابن علی (علیہ السلام) پر حملہ کیا آپ (علیہ السلام) کی یہی کوشش تھی کہ پانی کا مشکیزہ محفوظ رہے اور پانی خیام حسینی (علیہ السلام) تک پہنچ جائے پانی کے مقابلے میں اپنے جسم کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے دشمن نے آپ (علیہ السلام) کے دونوں بازو قلم کر دیے اور یوں یہ مطیع امام (علیہ السلام) اور سقائے اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہو گیا۔

یہ وہ عظیم ہستی ہے کہ جس کے بارے میں حجت خدا امام وقت، امام سجاد (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ " خدا وند متعال کے ہاں چچا عباس (علیہ السلام) کا ایسا عظیم مقام ہے جس پر تمام شہداء روز قیامت رشک کریں گے " اسی طرح صادق آل محمد (علیہ السلام) جناب عباس (علیہ السلام) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ" کان عمنا العباس نافذ البصیرۃ، صلب الایمان جاہد مع ابی عبد اللہ (علیہ السلام) و ابلی بلاء حسنا و مضی شہیدا "(ہمارے چچا عباس (علیہ السلام) عمیق بصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے، امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیا، بہترین امتحان دے کر مقام شہادت پر فائز ہو گئے"۔