"علی رازینی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| سطر 20: | سطر 20: | ||
'''علی رازینی''' علی رضانی، عالم دین اور سپریم کورٹ کی 39 ویں برانچ کے جج، داعش، محاربہ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والوں کو جیسے معاملات کی تفتیش کرنے والی شعبۂ کا سرابرہ تھے۔ ان کو 29 جنوری 1403 ہجری کی صبح سپریم کورٹ کی 53 ویں برانچ کے سربراہ محمد مقیسہ کے ساتھ منصوبہ بندی کی کارروائی کے تحت، ایک مسلح شخص نے سپریم کورٹ میں گھس کر شہید کر دیا۔ صوبہ تہران کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف جسٹس، ایڈمنسٹریٹو جسٹس کورٹ کا جنرل ڈائریکٹوریٹ، [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] کے حکم اور امام خامنہ ای کے تائید کے ساتھ خصوصی کلرجی کورٹ کا ڈائریکٹوریٹ اور تہران کے انقلاب کے پراسیکیوٹر، ایگزیکٹو ڈپٹی ایران کی سپریم کورٹ، ملک کی مسلح افواج کی عدالتی تنظیم کا سرابرہ ان کے ایگزیکٹیو ریکارڈز میں سے ہیں۔ | '''علی رازینی''' علی رضانی، عالم دین اور سپریم کورٹ کی 39 ویں برانچ کے جج، داعش، محاربہ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والوں کو جیسے معاملات کی تفتیش کرنے والی شعبۂ کا سرابرہ تھے۔ ان کو 29 جنوری 1403 ہجری کی صبح سپریم کورٹ کی 53 ویں برانچ کے سربراہ محمد مقیسہ کے ساتھ منصوبہ بندی کی کارروائی کے تحت، ایک مسلح شخص نے سپریم کورٹ میں گھس کر شہید کر دیا۔ صوبہ تہران کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف جسٹس، ایڈمنسٹریٹو جسٹس کورٹ کا جنرل ڈائریکٹوریٹ، [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] کے حکم اور امام خامنہ ای کے تائید کے ساتھ خصوصی کلرجی کورٹ کا ڈائریکٹوریٹ اور تہران کے انقلاب کے پراسیکیوٹر، ایگزیکٹو ڈپٹی ایران کی سپریم کورٹ، ملک کی مسلح افواج کی عدالتی تنظیم کا سرابرہ ان کے ایگزیکٹیو ریکارڈز میں سے ہیں۔ | ||
== قاتلانہ حملہ == | |||
شہید ہونے والے ججوں میں سے ایک، علی رازینی، 1999ء میں ایک سابقہ قاتلانہ حملے میں بچ گئے تھے، جب ان کی گاڑی کے ساتھ ایک بم لگایا گیا تھا۔ اس وقت سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ذاتی طور پر ہسپتال میں ان کی عیادت کی اور ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔ علی رازینی انقلابی عدالتی کمیٹی میں شامل تھے جس نے 1980 کی دہائی کے دوران [[ایران]] میں انقلاب مخالف دہشت گردوں (بنیادی طور پر MKO کے ارکان) کو پھانسی دینے کی نگرانی کی، اپنے قریبی دوست [[سید ابراہیم رئیسی]] کے ساتھ، جو بعد میں چیف آف جسٹس اور بالآخر صدر بنے۔ | |||
== ایرانی سپریم کورٹ پر حملہ؛ اسرائیل مخالف فیصلوں کیلیے مشہور 2 ججز شہید == | |||
ایک جج پر امریکا نے پابندی عائد کر رکھی تھی جب کہ دوسرے پر 1999 میں بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا | |||
ایک جج پر امریکا اور یورپی یونین نے پابندی بھی عائد کردکھی تھی | |||
ایران کی سپریم کورٹ کے اندر فائرنگ کے واقعے میں دو اہم ججز شہید اور ان کا ایک محافظ شدید زخمی ہوگیا۔ | |||
شہید ہونے والے ججوں میں | عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شہید ہونے والے سپریم کورٹ ججوں کی شناخت محمد مقیسہ اور علی رازینی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ | ||
جج محمد مغیشی پر غیر منصفانہ ٹرائل اور سخت سزائیں دینے کے الزام پر 2019 میں امریکا جب کہ آٹھ سال قبل یورپی یونین نے پابندیاں عائد کی تھیں۔ | |||
اسی طرح علی رازینی کو بھی مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور 1999 میں انھیں قاتلانہ حملے میں مارنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی تھی۔ | |||
اگرچہ قتل کے پیچھے محرکات ابھی تک واضح نہیں تاہم یہ ججز جاسوسی اور دہشت گردی سے متعلق حساس قومی سلامتی کے مقدمات کو نمٹانے میں شہرت رکھتے ہیں۔ | |||
عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیر نے کہا کہ دونوں ججز طویل عرصے سے جاسوسی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ | |||
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ججوں نے جن مقدمات پر کام کیا ان کا تعلق [[اسرائیل]] اور ایرانی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے افراد سے تھا۔ | |||
دونوں ججز کو قتل کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والے حملہ آور کی شناخت کا عمل جاری ہے<ref>[https://www.express.pk/story/2743594/iran-supreme-court-judges-killed-attack-2743594 ایرانی سپریم کورٹ پر حملہ؛ اسرائیل مخالف فیصلوں کیلیے مشہور 2 ججز ہلاک]- شائع شدہ از: 18 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 جنوری 2025ء۔</ref>۔ | |||
نسخہ بمطابق 23:12، 20 جنوری 2025ء
| علی رازینی | |
|---|---|
| دوسرے نام | حجتالاسلام والمسلمین علی رازینی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش کی جگہ | شہر رَزَن صوبہ همدان |
| وفات | 2025 ء، 1403 ش، 1446 ق |
| یوم وفات | 18 جنوری |
| اساتذہ | علی قدوسی |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
| اثرات |
|
علی رازینی علی رضانی، عالم دین اور سپریم کورٹ کی 39 ویں برانچ کے جج، داعش، محاربہ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والوں کو جیسے معاملات کی تفتیش کرنے والی شعبۂ کا سرابرہ تھے۔ ان کو 29 جنوری 1403 ہجری کی صبح سپریم کورٹ کی 53 ویں برانچ کے سربراہ محمد مقیسہ کے ساتھ منصوبہ بندی کی کارروائی کے تحت، ایک مسلح شخص نے سپریم کورٹ میں گھس کر شہید کر دیا۔ صوبہ تہران کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف جسٹس، ایڈمنسٹریٹو جسٹس کورٹ کا جنرل ڈائریکٹوریٹ، امام خمینی کے حکم اور امام خامنہ ای کے تائید کے ساتھ خصوصی کلرجی کورٹ کا ڈائریکٹوریٹ اور تہران کے انقلاب کے پراسیکیوٹر، ایگزیکٹو ڈپٹی ایران کی سپریم کورٹ، ملک کی مسلح افواج کی عدالتی تنظیم کا سرابرہ ان کے ایگزیکٹیو ریکارڈز میں سے ہیں۔
قاتلانہ حملہ
شہید ہونے والے ججوں میں سے ایک، علی رازینی، 1999ء میں ایک سابقہ قاتلانہ حملے میں بچ گئے تھے، جب ان کی گاڑی کے ساتھ ایک بم لگایا گیا تھا۔ اس وقت سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ذاتی طور پر ہسپتال میں ان کی عیادت کی اور ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔ علی رازینی انقلابی عدالتی کمیٹی میں شامل تھے جس نے 1980 کی دہائی کے دوران ایران میں انقلاب مخالف دہشت گردوں (بنیادی طور پر MKO کے ارکان) کو پھانسی دینے کی نگرانی کی، اپنے قریبی دوست سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ، جو بعد میں چیف آف جسٹس اور بالآخر صدر بنے۔
ایرانی سپریم کورٹ پر حملہ؛ اسرائیل مخالف فیصلوں کیلیے مشہور 2 ججز شہید
ایک جج پر امریکا نے پابندی عائد کر رکھی تھی جب کہ دوسرے پر 1999 میں بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا ایک جج پر امریکا اور یورپی یونین نے پابندی بھی عائد کردکھی تھی ایران کی سپریم کورٹ کے اندر فائرنگ کے واقعے میں دو اہم ججز شہید اور ان کا ایک محافظ شدید زخمی ہوگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شہید ہونے والے سپریم کورٹ ججوں کی شناخت محمد مقیسہ اور علی رازینی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ جج محمد مغیشی پر غیر منصفانہ ٹرائل اور سخت سزائیں دینے کے الزام پر 2019 میں امریکا جب کہ آٹھ سال قبل یورپی یونین نے پابندیاں عائد کی تھیں۔ اسی طرح علی رازینی کو بھی مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور 1999 میں انھیں قاتلانہ حملے میں مارنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی تھی۔
اگرچہ قتل کے پیچھے محرکات ابھی تک واضح نہیں تاہم یہ ججز جاسوسی اور دہشت گردی سے متعلق حساس قومی سلامتی کے مقدمات کو نمٹانے میں شہرت رکھتے ہیں۔ عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیر نے کہا کہ دونوں ججز طویل عرصے سے جاسوسی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ججوں نے جن مقدمات پر کام کیا ان کا تعلق اسرائیل اور ایرانی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے افراد سے تھا۔ دونوں ججز کو قتل کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والے حملہ آور کی شناخت کا عمل جاری ہے[1]۔
- ↑ ایرانی سپریم کورٹ پر حملہ؛ اسرائیل مخالف فیصلوں کیلیے مشہور 2 ججز ہلاک- شائع شدہ از: 18 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 جنوری 2025ء۔