"اخوان المسلمین" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{خانہ معلومات پارٹی
{{خانہ معلومات پارٹی
| عنوان = اخوان المسلمین
| عنوان = اخوان المسلمین
| تصویر =
| تصویر = اخوان المسلمین.jpg
| نام = اخوان المسلمین
| نام = اخوان المسلمین
| قیام کی تاریخ = 1987
| قیام کی تاریخ = 1987
| بانی = [[حسن البنا]]
| بانی = [[حسن البنا]]
| رہنما = مصطفی طلبہ
| رہنما = [[مصطفی طلبہ]]
| مقاصد = {{افقی باکس کی فہرست |اسلامی حکومت کی تشکیرل}}
| مقاصد = اسلامی حکومت کی تشکیرل
}}
}}
'''اخوان المسلمین''' جدید دور کی سب سے اہم اسلامی تحریک، عرب دنیا، اسلامی دنیا کے ممالک اور مغرب میں اسلامی برادریوں میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی یہ تحریک مصر میں سیاسی حکومتوں کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد 1928 میں اسماعیلیہ شہر میں شیخ حسن البنا نے رکھی تھی، خلافت عثمانیہ کے زوال کے چار سال بعد یہ تیزی سے قاہرہ اور پھر بقیہ مصر میں منتقل ہو گئی، جس میں عرب کے بڑے حصے بھی شامل ہیں۔
'''اخوان المسلمین''' جدید دور کی سب سے اہم اسلامی تحریک، عرب دنیا، اسلامی دنیا کے ممالک اور مغرب میں اسلامی برادریوں میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی یہ تحریک مصر میں سیاسی حکومتوں کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد 1928 میں اسماعیلیہ شہر میں شیخ حسن البنا نے رکھی تھی، خلافت عثمانیہ کے زوال کے چار سال بعد یہ تیزی سے قاہرہ اور پھر بقیہ مصر میں منتقل ہو گئی، جس میں عرب کے بڑے حصے بھی شامل ہیں۔
== تاسیس ==
== تاسیس ==

نسخہ بمطابق 08:18، 20 اپريل 2024ء

اخوان المسلمین
اخوان المسلمین.jpg
پارٹی کا ناماخوان المسلمین
بانی پارٹیحسن البنا
پارٹی رہنمامصطفی طلبہ
مقاصد و مبانیاسلامی حکومت کی تشکیرل

اخوان المسلمین جدید دور کی سب سے اہم اسلامی تحریک، عرب دنیا، اسلامی دنیا کے ممالک اور مغرب میں اسلامی برادریوں میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی یہ تحریک مصر میں سیاسی حکومتوں کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اخوان المسلمون کی بنیاد 1928 میں اسماعیلیہ شہر میں شیخ حسن البنا نے رکھی تھی، خلافت عثمانیہ کے زوال کے چار سال بعد یہ تیزی سے قاہرہ اور پھر بقیہ مصر میں منتقل ہو گئی، جس میں عرب کے بڑے حصے بھی شامل ہیں۔

تاسیس

یہ سیاسی جماعت 1929ء میں مصر میں قائم ہوئی تھی۔ اس تنظیم کے بانی حسن البنا تھے۔ انہوں نے اس تنظیم اور تحریک کا آغاز 1923ء میں کیا تھا مگر 1929ء میں اسے باقاعدہ شکل دی گئی تھی ۔ اس کا بنیاد اور منشاء اسلام کے بنیادی عقائد کا احیا اور ان کا نفاذ تھا۔ لیکن بعد میں یہ جماعت سیاسی شکل اختیار کر گئی۔ یہ تحریک مصر میں کافی مقبول ہوئی اور اس کی شاخیں دوسرے عرب ممالک میں بھی قائم ہوگئ تھیں۔ اس تحریک کے ارکین دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھا [1]۔

اغراض اور مقاصد

  • اس تحریک کا مقصد حقیقی اسلام کی تعلیمات پر یقین رکھنے والوں کی ایک نئی نسل کی تشکیل تک محدود ہے، جو امت مسلمہ کو اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں مکمل اسلامی کردار سے آراستہ کرنے کے لیے کام کرے۔
  • یہ جماعت اپنی اتھارٹی کو اسلام سمجھتی ہے جس کی نمائندگی قرآن پاک، سنت مقدسہ اور شرع مقدس میں موجود ہے۔
  • اخوان المسلمین ایک جامع ادارے پر یقین رکھتی ہے جس میں ہر کوئی ملک کی حفاظت اور خوشحالی کے لیے تعاون کرتا ہے، اور اپنے افراد اور لوگوں کی حفاظت کے لیے ان کی مذہب سے قطع نظر
  • اخوان المسلمین اپنے مقصد کے لیے خالصتاً اپنے عقیدے کے تحت کام کرتی ہے، خدا کی خوشنودی کے لیے ان کا کسی خاص گروہ یا کسی خاص فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ان کا ہر زمانے اور جگہ پر اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہے اور وہ سب کا احترام کرتے ہیں۔
  • اخوان المسلمین لوگوں، مذاہب یا اداروں سے دشمنی نہیں رکھتی، اور وہ تمام انسانیت کے مفاد کے لیے ہر ایک کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے کام کرتی ہے، وہ مغربی ممالک یا ان کے لوگوں سے بھی دشمنی نہیں رکھتی، اور وہ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے وطن اور عوام پر محکومی یا مسلط کرنے کو مسترد کرتے ہیں اور اس کے لیے سیاسی، سفارتی، میڈیا، ثقافتی، عوامی، سماجی، امدادی اور تعلیمی میدانوں میں کام کریں گے۔
  • اخوان المسلمین اپنے لوگوں کا ایک لازمی حصہ ہے، ایک ایسی شناخت اور وابستگی ہے جو اپنے لوگوں کے اتحاد اور اپنے مذہبی، سیاسی اور فکری اجزاء کے اتحاد پر یقین رکھتی ہے اور یہ جماعت اپنے لوگوں کے حقوق اور ان کے قومی استحکام کا بھی خیال رکھتا ہے۔
  • اخوان المسلمین معاشرے کے تمام افراد کو تعلیم دینے اور ان کی اصلاح کے لیے کام کرتی ہے، خواہ وہ بچہ ہو، لڑکی ہو، مرد ہو یا عورت، مقدس قانون کے وضع کردہ فریم ورک اور اسلام کے بیان کردہ تعلقات کے اندر۔
  • اخوان المسلمون ملک کے مفادات اور اس کی قومی سلامتی کو آگے بڑھانے اور بدعنوانی سے لڑنے کے لیے سب کے لیے کھلے پن پر یقین رکھتی ہے اور ان سب کے ساتھ شراکت دار ہے۔ یہ آزادی اور سماجی انصاف پر بھی یقین رکھتا ہے۔
  • اخوان المسلمون اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور قانون کی حدود میں اسلام کے دفاع کے لیے کام کرتی ہے، معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور بڑھتی ہوئی سماجی برائیوں کے علاج، اخلاقی فضائل کو مضبوط کرنے، قوم کے وقار کے احساس کو بحال کرنے، اور روحوں کو کمزوری، مایوسی اور برائیوں سے آزاد کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔ .
  • اخوان المسلمون کے نقطہ نظر میں حال اور مستقبل شامل ہے، اور یہ اسے تعمیر کرکے حاصل کرنے کے لیے کام کرتا ہے، تباہی نہیں، اور اس میں اصلاحات کے اقدامات شامل ہیں۔
  • یہ گروپ اسلامی وطن کو اس کے تمام حصوں میں ہر غاصب سلطان سے آزاد کرانے، ہر جگہ اسلامی اقلیتوں کی مدد کرنے، اور تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتا ہے جب تک کہ وہ ایک قوم نہ بن جائیں۔
  • اخوان اسلامی قانون کی روشنی میں عالمی تعاون کی مخلصانہ وکالت کرنے کے لیے کام کرتا ہے، جو آزادیوں کو محفوظ رکھتا ہے اور حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اور عقیدے اور مادے کی ہم آہنگی کی نئی بنیاد پر انسانی تہذیب کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے، جیسا کہ اسلام کے جامع نظاموں کی ضمانت دی گئی ہے۔
  • اخوان المسلمین خواتین کو ان کے مکمل حقوق کی ضمانت دیتا ہے جیسا کہ اسلامی قانون نے منظور کیا ہے[2]۔

نعرہ

  • "الله غايتنا"(خدا ہمارا نصب العین ہے)
  • "والرسول قدوتنا" (رسول ہمارا رول ماڈل ہے)
  • "والقرآن دستورنا" (قرآن ہمارا آئین ہے)
  • "والجهاد سبيلنا" (جہاد ہمارا راستہ ہے)
  • "والموت في سبيل الله أسمى أمانينا" (اور خدا کی خاطر شہادت ہماری اعلیٰ ترین تمنا ہے)

اخوان المسلمین تاریخ کے آئینہ میں

یہ تحریک 1952ء میں مصر کے فوجی انقلاب کی حامی تھی مگر اس تنظیم کی طرف سے جنرل نجیب اور جنرل ناصر کی خارجہ پالیسی کی بھی مخالفت ہوتی رہی تھی۔ 1954ء میں مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر نے الزام لگایا کہ اس کے اراکین نے جنرل ناصر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی ہیں جس کے بعد یہ تنظیم خلاف قانون قرار دے دی گئی اور اس کی املاک ضبط کر لی گئیں جو ایک الزام تھا ثابت نہ ہو سکا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس جماعت کے رہنما شیخ حسن الہدیبی نے اپنا صدر مقام قاہرہ سے دمشق تبدیل کر لیا گیا۔

اخوان المسلمین نے عرب قوم پرستی کے خلاف شدید آواز اٹھائی اور اسلامی بھائی چارے کا نعرہ لگایا تھا۔ جس کی پاداش میں تنظیم کے بہت سے اراکین کو جیلوں میں بند کر دیا گیا اور سید قطب شہید جیسے لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور شہید کیا گیا۔ پابندی کے بعد بھی یہ جماعت باقی رہی اور پورے عرب علاقوں میں پھیل گئی تھی۔ اخوان المسلمین کا پاکستان کی جماعت اسلامی سے قریبی تعلقات ہیں۔ دنیا بھر کی مشہور اسلامی رہنماؤں کا تعلق اخوان سے تھا جن میں القاعدہ کے لیڈر ایمن الزواہری، حماس کی راہنما شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی شامل ہیں۔

انیسویں صدی کے آغاز سے ہی امت مسلمہ انتہائی زیادہ مایوسی اور خلفشار کا شکار ہو گئی۔ دوسری دہائی میں ترکی کے لیڈر مصطفیٰ کمال نے عثمانی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ 1924ءمیں جب خلافت کی اس آخری بچی کھچی تصویر کو مسخ کر دیا گیا تو1928ءمیں حسن البناء شہید نے الاخوان المسلون کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اس تنظیم کے قیام کا مقصد نفاذ اسلام قرار دیا۔ شہید حسن البناء نے اپنی پارٹی کا منشور پیش کرتے ہوئے فرمایا: " اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا الاخوان المسلون اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے قوت اور طاقت کا استعمال کرنا چاہتی ہے اور وہ مصر کے موجودہ سیاسی اور اجتماعی نظام کو بدلنے کے لئے طاقت کے ذریعے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم طاقت کے ذریعے انقلاب پر یقین نہیں رکھتے، بلکہ ہم طاقت کے ذریعے انقلاب کے بجائے حق اور سلامتی کی بات کرتے ہیں"۔

امت مسلمہ عموماً اور دنیاء عرب کو خصوصاً اس وقت مایوسی کے عالم میں، یہ تنظیم آخری سہارا محسوس ہوئی تھی، لہذا مختصر وقت میں یہ تنظیم مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ عالم عرب کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے، 1948ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا تو اس وقت حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اخوان المسلمین نے تحریک جہاد کا اعلان کر دیا۔ قبلہ اول فلسطین کے تحفظ کے لئے اس تنظیم کے نوجوانوں نے تحریک جہاد میں بھرپور حصہ لیا۔ استعماری طاقتوں کے ایماء پر اس وقت کے مصری حکمران شاہ فاروق نے اخوان المسلمون کے نوجوانوں کو جہاد میں حصے لینے کے جرم کی پاداش میں جھوٹے مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا۔ اخوان المسلمین کے محبوب لیڈر حسن البناءکو 1949ءمیں اسی جرم کی وجہ سے شہید کروادیا گیا۔

مارشل لاء کے نافذ کے بعد اس تنظیم کی صورتحال

1951ء میں جنرل نجیب نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا اور مارشل لاءنافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت جنرل نجیب اخوان المسلمین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اس نے گرفتار اور قید میں ڈالے گئے اخوان نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ جنرل نجیب کا اقتدار صرف تین سال قائم رہ سکا۔ 1954ءمیں جمال عبدالناصر نے انقلاب برپا کر کے اقتدار سنبھال لیا۔

جمال عبد الناصر کا دور

دور ابتلاء

جمال عبدالناصر نے اقتدار سنبھالتے ہی اخوان المسلمین کے نئے لیڈر حسن الہضیبی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اپنے قتل کی سازش کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا اور انہیں قید میں ڈلوا دیا گیا۔ جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمین پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ جن کی مصرکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس فوجی حکمران نے نوجوانوں کو بازوﺅں اور ٹانگوں سے مخالف سمت میں گاڑیوں سے باندھ کر سرعام ٹکڑے ٹکڑے کیا تاکہ اس تحریک کی باقیادت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔ ایک فوجی آمر نے عورتوں اور مردوں کو سرعام ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونے پر مجبور کیا۔ اس ظالم حکمران نے عالم اسلام کے عظیم مفکر اور مفسر قرآن سید قطب جیسے گوہر نایاب کو محض اخوان المسلمین سے ہمدردی کی جرم میں ایک جھوٹے مقدمے میں اپنی ہی بنائی ہوئی عدالتوں سے سزا دلوا کر1966ء میں تختہ دار پر لٹکا گیا۔ اس دور میں بڑے بڑے ممتاز دانشور اور علمائے دین کو شہید کیا گیا۔ ان سب کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اس تحریک کے نفاذ اسلام کے اقدامات کو اچھا سمجھتے تھے اور ان کے معاون تھے۔

انور سادات کے دور میں

جمال عبدالناصر کے بعد 1974ء میں انور سادات نے اقتدار سنبھالا، مگر اس تنظیم پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم میں کوئی کمی نہ آئی۔ 1979ء میں انور سادات کو قتل کر دیا گیا اور حسنی مبارک نے زمام اقتدار سنبھال کی۔ حسنی مبارک کے دور میں بھی اخوان المسلمین اسی طرح زیر عتاب رہی، حتیٰ کہ نو منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی بھی حسنی مبارک کے دور میں سات ماہ تک قید بھگت چکے ہیں۔ گویا 1949ء سے لے کر 2010ء تک نصف صدی سے زائد عرصے تک اخوان المسلمین ڈکٹیٹروں کے ظلم وستم کی چکی میں پستے رہے۔ آنے والے ہر حکمران نے اپنا پورا زور لگادیا کہ اسلام کے ان نام لیواﺅں کو نابود کر دیا جائے۔ مگر ان کی مکاریوں اور چالیں اللہ تعالیٰ کی تدبیروں کے سامنے دم توڑ گئیں۔ انقلاب کا لاوا آہستہ پکتے پکتے مصر کے التحریر چوک میں ابل پڑا، جس کے نتیجے میں 30 سال تک اقتدار کے سیاہ و سفید پر قابض رہنے والے حسنی مبارک کے اقتدار کی بساط لپیٹ دی گئی۔

انقلاب کا پس منظر حقائق اور سچائی

سچائی اور حقائق کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اخوان المسلمین کے شہیدوں کے لہو میں حق اور سچائی تھی، جس کی خوشبو دور دور تک محسوس کی جا رہی تھی۔ اخوان المسلمین کے قیدیوں نے مسلسل جیلوں میں رب سے جو مسلسل دعائیں مانگی تھیں آخر کار وہ ثمر آور ہوئیں، تو دوسری طرف کچھ زمینی حقائق ایسے بھی تھے جو انقلاب کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹروں کے رشتے داروں اور تعلق داروں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور ذاتی خزانوں کے پیٹ بھرتے رہے۔ صرف ایک حسنی مبارک کے سات سو ارب ڈالر سے زیادہ مغربی بنکوں میں جمع تھے۔ ٹنوں کے حساب سے سونا ان کی تجوریوں میں بھرا ہوا تھا۔

مصر زمیںیں، دریائے نیل اور نہر سویز کے باعث سونا اگلتی ہیں دیگر مصری تفریحی گاہیں، عجائبات، بطور خاص اہرام مصر کے باعث سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ مصر کو حاصل ہوتا ہے، مگر افسوس کہ یہ ساری دولت ڈکٹیٹروں اور ان کے اپنوں کی تجوریوں کی زینت ہی بنتی رہی ہے۔ اس ملک کے بیچارے عوام دو وقت کی روٹی اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گئے، بے روز گاری اپنی انتہاﺅں کو پہنچ گئی، جس کے نتیجے میں عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کی فصل پروان چڑھتی رہی۔ حکمرانوں کے ستائے ہوئے عوام کو اس تحریک کی حمایت میں ہی روشنی کی کرن نظر آرہی تھی، لہذا جب انتخابات کا وقت آیا تو ڈاکٹر محمد مرسی سوا کروڑ سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

صدارت کے بعد محمد مرسی کے ابتدائی اقدامات پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد مرسی کا تعلق مصر کے ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ آپ نے 1975ءمیں قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔ بعد ازاں امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،یوں محمد مرسی ڈاکٹر محمد مرسی بن گئے۔ اس کے بعد کیلیفورنیا یونیورسٹی اور پھر قاہرہ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے۔ حالیہ مصری انتخابات میں نمایاں کامیابی کے بعد ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنا جو پہلا خطبہ صدارت پیش کیا، وہ وہی خطبہ تھا جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تھا: ”لوگو مجھے تمہارا ذمہ دار مقرر کیا گیا ہے، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ لوگو! میں اللہ کی اطاعت کروں تو میری بات مانو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرو“۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر فرمایا: ”میرے عزیز ہم وطنو !میں تمہارے معاملے میں اور اپنے وطن کے معاملے میں اللہ رب العزت سے کبھی خیانت نہیں کروں گا“ [3]۔

قائدین

اس تنظیم کے قیام کے بعد سے، آٹھ سرپرست اس تحریک کی قیادت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں:

  • حسن البنا، 1928 سے 1949 تک اس گروپ کے بانی
  • حسن هضيبی 1951 سے 1973 تک
  • عمر تلمسانی 1974 سے 1986 تک
  • محمد حامد ابو النصر 1986 سے 1996 تک
  • مصطفی مشہور۔ 2002 تک
  • مأمون هضيبي2002 سے 2004 تک
  • 2004 سے 2010 تک محمد مہدی عاکف
  • محمد بدیع 2001 سے 2010 تک
  • جب اس کے نائب محمود عزت نے 2020 میں اس کی گرفتاری تک تحریک کے معاملات کا انتظام سنبھالا۔
  • اس کے بعد ابراہیم منیر (مصر سے باہر سے آنے والا پہلا عہدیدار) 2021 تک۔۔
  • پھر ایک عارضی کمیٹی قائم کی گئی جس کی نمائندگی مصطفیٰ طلبہ کر رہے تھے۔

شعبہ جات

اس تنظیم کے 85سے زیادہ شعبے، دنیا تمام بر اعظموں میں پائے جاتے ہیں۔اخوان المسلمین کا صدر دفتر مصر میں ہے اور مذکورہ بالا ممالک میں اس سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر منسلک کئی شاخیں ہیں، یہ مصر میں ایک رہنمائی دفتر پر مشتمل ہے، جو اس تحریک میں سب سے زیادہ انتظامی ادارہ ہے، اس کے بعد ایک شوریٰ کونسل کام کرتی ہے۔ دفتر پر ایک نگران ادارے کے طور پر، اور انتظامی دفاتر کو ہر ملک میں گورنریٹس کی سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ ایک عالمی رہنمائی کا دفتر جسے گروپ کی سپریم ایگزیکٹو باڈی کہا جاتا ہے، یا جسے میڈیا میں بین الاقوامی تنظیم کہا جاتا ہے [4]۔

حوالہ جات

  1. الإخوان المسلمون حركة سياسية تستلهم الإسلام لإصلاح المجتمع(اخوان المسلمین کی تحریک، ایک سیاسی تنظیم ہے جو اسلام کو سماجی اصلاح کے لیے بروکار لانا چاہتی)-aljazeera.net (عربی زبان)-شا‏ئع شدہ از:13اپریل 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:19اپریل 2024ء۔
  2. الموقع الرسمي للإخوان المسلمون(اخوان المسلمین کی ویب سائٹ)-ikhwan.site(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:19اپریل 2024ء۔
  3. الاخوان المسلمون ابتلاءسے اقتدار تک، محمد سلیم جباری-dailypakistan.com-شا‏‏ئع شدہ از:23اگست 2012ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:18اپریل 2024ء۔
  4. الإخوان المسلمون: حضور في 52 دولة(52ممالک میں اخوان المسلمین کی موجودگی)-aljazeeramubasher.net(عربی زبان)- شائع شدہ از12مارچ 2016ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:19اپریل 2024ء۔