"حزب اللہ لبنان" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←اسلحے) |
||
سطر 21: | سطر 21: | ||
== اسلحے == | == اسلحے == | ||
مغربی ذرائع کے مطابق حڑب اللہ کے پاس روسی ساختہ ایرانی ماڈل کیتوشا راکٹ ہیں جن کی رینج چند کلو میٹر سے لے کر 70 کلو میٹر تک ہے۔ یہ راکٹ دنیا کے 50 سے زائد ملکوں کے زیر استعمال ہیں۔ حزب اللہ کے پاس ایرانی ماڈل فجر 3 کے 12 ہزار کے قریب راکٹ موجود ہیں۔ 5 ہفتوں سے جاری حزب اللہ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ 100 راکٹ فی یوم کے حساب سے فائر کرتی رہی جس کی وجہ سے اسرائیلی صنعتی شہر حیفہ ویران ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے پاس زلزلہ نامی ایرانی ہیں۔ جن کی رینج 2 سو کلو میٹر سے زائد ہے اور وہ 400 کلو گرام گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ | مغربی ذرائع کے مطابق حڑب اللہ کے پاس روسی ساختہ ایرانی ماڈل کیتوشا راکٹ ہیں جن کی رینج چند کلو میٹر سے لے کر 70 کلو میٹر تک ہے۔ یہ راکٹ دنیا کے 50 سے زائد ملکوں کے زیر استعمال ہیں۔ حزب اللہ کے پاس ایرانی ماڈل فجر 3 کے 12 ہزار کے قریب راکٹ موجود ہیں۔ 5 ہفتوں سے جاری حزب اللہ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ 100 راکٹ فی یوم کے حساب سے فائر کرتی رہی جس کی وجہ سے اسرائیلی صنعتی شہر حیفہ ویران ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے پاس زلزلہ نامی ایرانی ہیں۔ جن کی رینج 2 سو کلو میٹر سے زائد ہے اور وہ 400 کلو گرام گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ | ||
== 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ == | |||
2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جنگ رہی اور اسرائیل‘ جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ نے جو کچھ اُس کے پاس تھا اس جنگ میں جھونک دیا۔ بیروت اور دیگر شہروں پہ بے پناہ ہوائی بمباری ہوئی۔ 1200 کے لگ بھگ لبنانی سویلین اُس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ لیکن میدان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو مزہ چکھا دیا۔ جنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت بھاری نقصان تھا۔ جیسا ہمارا ٹینک الخالد ہے‘ ویسا اسرائیل کا بھاری ٹینک 'مرکاوا‘ ہے۔ ایسے کئی معرکے ہوئے جس میں 'مرکاوا‘ آتے تھے اور حزب اللہ کے مجاہدین نزدیک جا کر ٹینک شکن میزائلوں سے انہیں نشانہ بناتے تھے۔ ایک قصہ اسرائیلی اخبار Haaretz میں جنگ کے کچھ دن بعد رپورٹ ہوا۔ ایک اسرائیلی جرنیل نوجوان فوجی افسروں سے مخاطب تھا۔ اُس نے حزب اللہ کو برا بھلا کہا۔ نوجوان فوجی افسروں نے کہا: ہم حزب اللہ سے لڑے ہیں اور وہ بہادر سپاہی ہیں۔ یہ تب کی بات تھی۔ اب سرزمینِ شام میں کامیاب فوجی حکمتِ عملی کے بعد حزب اللہ کی حیثیت کو مزید تقویت ملی ہے <ref>ایاز میر، [https://www.taghribnews.com/ur/news/295043/%DB%81%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A8%D9%82-%D8%AD%D8%B2%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D8%B3%DB%92-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A7-%DA%86%D8%A7%DB%81%DB%8C%DB%92 www.taghribnews.com]</ref>۔ | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
[[زمرہ:لبنان]] | [[زمرہ:لبنان]] |
نسخہ بمطابق 19:08، 11 نومبر 2023ء
حزب اللہ لبنان میں شیعوں کی ایک طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم ہے۔ ایران کی حمایت سے 1980ء میں تشکیل پانے والی اس تنظیم نے لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے جدوجہد کی۔ اس تنظیم کو مئی 2002ء میں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس عمل کے پس منظر میں جماعت کی عسکری شاخ اسلامی مزاحمت یا اسلامک ریزسسٹینس کا ہاتھ تھا۔ لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد علما کے ایک چھوٹے سے گروہ سے ابھرنے والی اس تنظیم کے مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت جنگ، لبنان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء، لبنان کی کثیر المذہبی ریاست کی جگہ ایرانی طرز کی اسلامی ریاست کی تشکیل ہے۔ لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ تنظیم لبنان کے شیعوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلاء سے اس تحریک نے عام لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ اس وقت لبنان کی پارلیمان میں اس تنظیم کے امیدواروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ حزب اللہ سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ اس تنظیم کا اپنا ٹی وی سٹیشن المنار کے نام سے قائم ہے۔ اس تنظیم کا موجودہ سربراہ سید حسن نصر اللہ ہے۔
حزب اللہ کی تشکیل
طالبان کی طرح حزب اللہ کے جنم کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ ایک مکتبہ فکر کے مطابق 20ویں صدی کے چھٹے عشرے میں ذرائع مواصلات میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے لبنان سے مسلمان بھی عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہونے لگے۔ کچھ لبنانی مسلمان فلسطین کی آزادی کی مختلف تحریکوں سے وابستہ ہوگئے جبکہ بعض ممتاز شیعہ عالم امام موسی صدر کی مسلمانوں کی فلاح کے لیے تشکیل دی گئی تنظیم حرکت المحرومین میں شامل ہوگئے۔ امام موسی صدر 15 مئی 1928ء کے ایران کے شہر قم میں پیدا ہوئے۔ 1956ء میں انہوں نے اسلامی فقہ و قانون میں ڈگری حاصل کی اور مختلف مذہبی اداروں میں مذہب کی تعلیم دیتے رہے۔ 1960ء میں وہ لبنان کے شہر طائر میں آباد ہوگئے۔ وہ مذہبی تعلیم دینے کے علاوہ لبنان میں شیعہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ 1974ء میں حرکت المحرمین کے جھنڈے تلے انہوں ںے دیہی علاقوں میں پسماندگی کے خاتمے میں لبنانی حکومت کی عدم دلچسپی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران انہوں نے الامل نامی تحریک کا آغاز کیا جو حرکت المحرومین کی ذیلی تنظیم تھی۔ 1978ء میں دورہ لیبیا کے دوران وہ پر اسرار طور پر لاپتہ ہوگئے جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی علم نہ ہوسکا۔
حرکت الامل، حرکت المحرومین کا فوجی ونگ تھا جو جلد ہی ایک سیاسی پارٹی کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ 1982ء میں اسرائیل نے لبنان میں اپنے حامی تلاش کرنے کے لیے طائر میں ایک سنٹر قائم کیا جس کا سربراہ امریکی نژاد اور اسرائیلی پروفیسر اور علوم شرقیہ کے ماہر 70 سالہ بیلے کو مقرر کیا گیا۔ بیلے نے 1982ء کے آخر میں اپنے منصوبے کا آغاز کیا۔ بیلے لبنان کے مختلف افراد سے ملاقات کرتا اور ان کو اسرائیل کے جنوبی لبنان میں کردار کے حولے سے قائل کرتا۔ شاطر یہودیوں نے جلد ہی حرکت الامل میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ تحریک کے کچھ لوگ خفیہ طور پر اسرائیل کی مدد کو تیار ہوگئے۔ لیکن الامل جلد ہی انتشار کا شکار ہو کر کئی گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ الامل سے علیحدہ ہونے والے ایک گروپ نے حزب اللہ کے نام سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔
لیطانی آپریشن
1970ء کے عشرے میں اردن کے فلسطینیوں کے خلاف رسوائے زمانہ کریک ڈاؤن کے دوران جان بچا کر فلسطینی جنوبی لبنان میں آباد ہوگئے۔ اسرائیل نے فسلطینیوں کو جنوبی لبنان سے نکالنے لے لیے آپریشن لیطانی شروع کیا۔ اسرائیلی فوجین بغیر کسی بڑی مزاحمت کے 20 میل تک لبنان کے اندر دریاۓ لیطانی کے جنوبی کنارے پر آکر رک گئیں۔ لبنان کی سرحدی پٹی میں آباد فلسطینی مقامی راستوں سے زيادہ آشنائی نہیں رکھتے تھے۔ اسرائیل نے عالمی دباؤ کے زیر اثر جنوبی لبنان خالی کردیا لیکن دریائے لیطانی کے جنوبی کنارے تک علاقے پر اندھا دھند بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسرائیل وزیر دفاع (بعد ازاں صدر) اذرویزلسن نے ہر چلتی ہوئی چیز پر چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو، بمباری جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ علاقہ انسانی آبادی سے بالکل خالی ہوجائے۔ اسرائیلی طیارے ہر حرکت کرتے انسان کو فلسطینی کوریلا سمجھ کر نشانہ بنارہے تھے۔ مارکیٹ میں فروخت کے لیے تمباکو اور دوسری زرعی اجناس لے کر جانے والے کسان، پہاڑوں سے پکنک مناتے خاندان، گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچے، گھریلو کام میں مصروف عورتیں اور بمباری سے جان بچا کر علاقے سے دور ہونے کی کوشش کرنے والے عام شہری سب اس بمباری کا شکار ہوگئے۔ اسرائیلی بمباری سے بچ کر بیروت پہنچنے والے خوش نصیبوں کی بڑی تعداد ان بد نصیب بچوں پر مشتمل تھی جن کے والدین لقمہ اجل بن چکے تھے۔ ان بے گھر خاندانوں کو مقامی تنظیمون نے بیروت ائیرپورٹ اور دریائے لیطانی کے درمیان بنجر پٹی میں آباد کیا یہاں ایا نیا شہر آباد ہوا جس کا نام ضائیہ رکھا گیا۔ تعاقب کرتے ہوئے اسرائیلی طیاروں کے خوف سے بچ جانے والے یہ بچے جب بڑے ہوئے تو ان کی نظر میں اسرائیل سے انتقام کرنے علاوہ اور کوئی جذبہ نہیں تھا۔
فاذ اللہ اور حزب اللہ
حرکت المحرومین کے زوال کے بعد یہ بے گھر یتیم بچے جو اب جوان ہوچکے تھے ممتاز شاعر اور عالم دین محمد حسین فاذ اللہ کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ 67 سالہ محمد حسین فاذ اللہ بڑی کرشماتی شخصیت کے حامل عالم دین تھے۔ ضائیہ کی مقامی آبادی میں اتنے مقبول ہیں کہ 20 ہزار افراد کی امامت میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ فاذ اللہ حزب اللہ کے ساتھ اپنے کسی بھی تعلق کا انکار کرتے ہیں لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ حزب اللہ کی روح رواں ہیں اور وہ جان بوجھ کر خود کو مخفی رکھتے ہیں۔ کئی عشروں پر محیط جنوبی لبنان کے ان مسلمانوں کو مسلسل دربدری اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائیلی درندگی کا شکار ہونے کے ناقابل فراموش مناظر، بے روزگاری اور غربت نے بہت زیادہ راسخ العقیدہ بنا دیا۔
حزب اللہ اور انقلاب اسلامی ایران
افغانستان میں مجاہدین کی فتح اور آنے والے ایرانی انقلاب نے انہیں اپنے سب بہت زیادہ طاقتور دشمن سے لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ یہ تمام عوامل حزب اللہ کے قیام کی وجہ بنے۔ حزب اللہ کی پارٹی کی عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہے۔ ان میں سیاسی جد و جہد، سماجی و فلاحی خدمات، جہاد اور گوریلا جنگ ہے۔ حزب اللہ نے کبھی اپنے مقاصد خفیہ نہیں رکھے۔ حزب اللہ کی منزل مقصود یروشلم کی آزادی اور لبنان میں اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ حزب اللہ کے ترجمان نے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک فلسطین کو آزاد نہیں کروا لیتے اور فلسطین میں آباد کار یہودیوں کو ان ممالک کو واپس جانے پر مجبور نہیں کرلیتے جہاں سے وہ آئے تھے۔ حزب اللہ کے مجاہدین کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ 20 ہزار کے قریب مسلح رضا کار ہیں۔ حزب اللہ جدیدیت کی قائل ہے اور وہ پراپیگنڈہ جنگ کے رموز سے آشنا ہے۔
قائدین
اسرائیل امریکہ مشرکہ آپریشن کا مقصد لبنان کی اسرائیل کے مخالف مزاحمت کو کچل کر فلسطینیوں کے آزادی کے عزائمم کو کچلنا ہے۔ لیکن میں عالم اسلام کے شہریوں پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہو گئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ نصر اللہ اپنے پیش روؤں کے برعکس لیڈر ثابت ہوئے جو عملی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے سماجی میدان میں بے پناہ خدمات انجام دے کر عام لبنانی شہری کا دل جیت لیا۔ انہوں نے سکول، ہسپتال اور شیعہ آبادی کے علاقوں میں مکانات تعمیر کروائے۔
ذرائع ابلاغ
حزب اللہ کا سب سے خطرناک ہتھیار اس کے زیر اہتمام چلنے والا المنار ٹیلی ويژن اور النور ریڈیو سٹیشن ہے۔ المنار ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نے سی- این- این اور الجزیرہ ٹیلی ويژن کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سی این این صہیونی نیٹ ورک، الجزیرہ غیر جانبدار جبکہ المنار فلسطینیوں کا حامی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہے [1]۔ حزب اللہ نے ایک ریڈیو سٹیشن بھی قائم کر رکھا ہے جو لبنانی شہریوں کو معلومات فراہم کرتا رہتا ہے۔ المنار ٹیلی ویژن کے ناظرین کی تعدار ایک کروڑ سے زائد ہے۔
اسلحے
مغربی ذرائع کے مطابق حڑب اللہ کے پاس روسی ساختہ ایرانی ماڈل کیتوشا راکٹ ہیں جن کی رینج چند کلو میٹر سے لے کر 70 کلو میٹر تک ہے۔ یہ راکٹ دنیا کے 50 سے زائد ملکوں کے زیر استعمال ہیں۔ حزب اللہ کے پاس ایرانی ماڈل فجر 3 کے 12 ہزار کے قریب راکٹ موجود ہیں۔ 5 ہفتوں سے جاری حزب اللہ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ 100 راکٹ فی یوم کے حساب سے فائر کرتی رہی جس کی وجہ سے اسرائیلی صنعتی شہر حیفہ ویران ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے پاس زلزلہ نامی ایرانی ہیں۔ جن کی رینج 2 سو کلو میٹر سے زائد ہے اور وہ 400 کلو گرام گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ
2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جنگ رہی اور اسرائیل‘ جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ نے جو کچھ اُس کے پاس تھا اس جنگ میں جھونک دیا۔ بیروت اور دیگر شہروں پہ بے پناہ ہوائی بمباری ہوئی۔ 1200 کے لگ بھگ لبنانی سویلین اُس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ لیکن میدان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو مزہ چکھا دیا۔ جنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت بھاری نقصان تھا۔ جیسا ہمارا ٹینک الخالد ہے‘ ویسا اسرائیل کا بھاری ٹینک 'مرکاوا‘ ہے۔ ایسے کئی معرکے ہوئے جس میں 'مرکاوا‘ آتے تھے اور حزب اللہ کے مجاہدین نزدیک جا کر ٹینک شکن میزائلوں سے انہیں نشانہ بناتے تھے۔ ایک قصہ اسرائیلی اخبار Haaretz میں جنگ کے کچھ دن بعد رپورٹ ہوا۔ ایک اسرائیلی جرنیل نوجوان فوجی افسروں سے مخاطب تھا۔ اُس نے حزب اللہ کو برا بھلا کہا۔ نوجوان فوجی افسروں نے کہا: ہم حزب اللہ سے لڑے ہیں اور وہ بہادر سپاہی ہیں۔ یہ تب کی بات تھی۔ اب سرزمینِ شام میں کامیاب فوجی حکمتِ عملی کے بعد حزب اللہ کی حیثیت کو مزید تقویت ملی ہے [2]۔
حوالہ جات
- ↑ محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص53
- ↑ ایاز میر، www.taghribnews.com